بدھ، 22 فروری، 2023

حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت کیسے عطا ہوئ

 

   جب مین نے قران کریم میں انبیاء کی وراثت کے بارے میں سرچ کیا تو مجھے حضرت داؤد علیہ اسّلام کا قصّہ مع تفسیر پڑھنے کو ملا ،

قران کریم مین صاف صاف لکھا ہئے کہ حضرت داؤد علیہ اسّلام بے پناہ دولت کے مالک تھے اور انہون نے اپنی تمام جائداد منقولہ و غیر منقو لہ اور مال مویشی سب کا وارث حضرت سلیمان علیہ کو ہی بنایا تھا  -حضرت داؤد علیہاسّلام کے انّیس بیٹے تھے ،اور ان میں سے ہرایک تخت کدعویدار تھا آخر جب آ پ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ایک نامہ سر بمہرحضرت داؤد علیہالسّلام کے پاس آسمان سے نازل ہوا جس میں چند سوالات تھےاور یہ حکم ہوا کہ جو بیٹا ان سوالوں کے جواب دے گا وہی تمھارا جان نشین ہو گا غرض تمام امراء شہر اور اراکین سلطنت جمع ہوئے اور سب بیٹون سےوہی سوالات کئےگئےلیکن حضرت سلیمان علیہاسّلام کے سوا کوئ بھی ان سوالون کےجواب نہیں دے سکا ،آخر سب ہی لوگ آپکی فضیلت کے معترف ہوئے اور اپ ہی کوحضرت داؤد علیہاسّلام کا جاننشین اور بادشاہ تسلیم کیا اور دوسرے روزحضرت داؤد علیہاسّلام نے وفات پائ ،تاریخ میں حضرت سلیمان علیہ اسّلام کےلشکر کی تعداد کے متعلّق لکھا ہئے کہ آ پ کا لشکر سو کوس میں رہتا تھا پچّیس کوس میں انسان ،پچّیس کوس میں جنّات پچّیس کوس مین پرند ،پچیّس کوسمیں چو پائے موجود رہتے تھے کےحضرت سلیمان علیہاسّلا م کے تخت کو بساط سلیمان علیہاسّلام بھی کہتے ہیں اس تخت پر آپ کے ہمراہ اپ کے وزراء اراکین سلطنت علماء اورزعماءہوتے تھے اور ایک بڑا  لشکر بھی سفرکیا کرتا تھا آپ اس تخت پر صبح کو ملک شام کے شہر مرو سے چلتے دوہر کوشیراز ملک ایران میں کچھ دیر آرام کرتے اور رات کابل میں گزارتے ،اور اگرکبھی صبح عراق سے سفر کا آغاز کرتے اور مرو پہنچتے اور پھر ظہر کی نما زبلخ مین ادا کرتے تھے پھر ترکستان آتے اور وہاں سے چین کرمان و فارس ہوتےہوئے صبح کو مرو میں پہنچتے تھے

حضرت سلیمان علیہاسّلام کی وفات ،

آپ مسجد بیت المقدس کی تعمیر میں مشغول تھے مسجد کی تعمیر ابھی مکمّل نہیں ہوئ تھی کہ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السّلام نے اپنے ارکین سلطنت فرما یا کہ باوجدیکہ اللہ نے مجھ کو اتنی بڑی سلطنت عط۔حیرت سلیمان علیہ ااکی لیکن میں ایکدن بھی آرام سے نہیں بیٹھا ،آج میں کچھ تنہا ئ چاہتا ہوں اس لئے فلاں محل میں جا رہا ہوں دیکھنا کوئ آج میرے آرام و تنہائ میں مخل نا ہو چنانچہ آپایک محل کے بالا خانے پر تشریف لے گئے اورمحراب کے سائے میں چھڑی کا سہارا لے کر اطراف وجوانب کے منظر کو دیکھنے میں محو ہوگئے کہ اتنے میں ایک خوبصورت جوان رعنا کواپنے آپ سے چند قدم پر پایا تو آپ کو تعجّب ہوا کہ اس جوان کو آپ کے منع کرنے کے با وجود کس نے آ پ کے پاس آنے کی اجازت دی.تم کس کی اجازت سے یہاں آئے ہو حضرت سلیمان علیہ السّلام نے جوان سے سوال کیااس جوان رعنا نے کہا مجھے آپ کے پاس یا کسی بھی اس فرد کے پاس آنے کی اجازت درکار نہیں ہوتی ہے۔مجھے جہاں کا حکم ملتا ہے میں وہاں چلاجاتا ہوں میں ملک الموت ہوں -آپ کی روح قبض کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا زہے نصیب اور اسی طرح کھڑے کھڑے آپ کی روح عالم بالا کو پرواز کر گئ۔اور جب تک عمارت مکمل ہوتی رہی آپ یونہی عصا۔ کے سہارے  کھڑے ہی رہے۔حضرت سلمان علیہ السلام کو ایسی بے مثال حکومت اور سلطنت حاصل تھی کے صرف ساری دنیا پر ہی نہیں بلکہ جنات اور طیور اور ہوا پر بھی ان کی حکومت تھی مگر ان سب سامانوں کے باوجود موت سے ان کو بھی نجات نہ تھی اور یہ موت تو مقررہ وقت پر آنی تھی۔بیت المقدس کی تعمیر جو حضرت داود علیہ السلام نے شروع کی ملک شام میں جس جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ گاڑا گیا تھا ٹھیک اسی جگہ حضرت داود علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی مگر عمارت پوری ہونے سے قبل ہی حضرت داود علیہ السلام کی وفات کا وقت آن پہنچا۔ اور آپ نے اپنے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس عمارت کی تکمیل کی وصیت فرمائی۔چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی جماعت کو اس کام پر لگایا اور عمارت کی تعمیر ہوتی رہی۔ جنات کی طبعیت میں سرکشی غالب تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے خوف سے جنات کام کرتے تھے ان کی وفات کا جنات کو علم ہوجا تا تو فورا کام چھوڑ بیٹھتے اور تعمیر رہ جاتی یہاں تک کہ آپ کی وفات کا وقت بھی قریب آگیا اور عمارت مکمل نہ ہو سکی تو آپ نے یہ دعا مانگی کہ الٰہی میری موت جنوں کی جماعت پر ظاہر نہ ہونے پائے تاکہ وہ برابر عمارت کی تکمیل میں مصروف رہیں اور ان سبھوں کو علم غیب کا جو دعویٰ ہے وہ بھی باطل ٹھہر جائے۔ جنوں کے گروہ کے لیے کچھ باعث حیرت اس لیے نہیں ہوا کہ وہ با رہا دیکھ چکے تھے کہ آپ ایک ایک ماہ بلکہ کبھی کبھی دو دو ماہ برابر عبادت میں کھڑے رہا کرتے تھے۔یہاں تک کہ بحکم الٰہی دیمک نے آپ کے عصا کو کھا لیا اور عصا گر جانے کے سے آپ کا جسم مبارک زمین پر آگیا اور اس وقت جنوں کی جماعت اور تمام انسانوں کو پتہ چلا کہ آپ کی وفات ہو گئی ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے کہ

”پھر جب ہم نے ان (حضرت سلیمان ) پر موت کا حکم بھیجا تو جنوں کو ان کی موت دیمک ہی نے بتا ئی جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی پھر جب حضرت سلیمان زمیں پر آگئے تو جنات کی حقیقت کھل گئی اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو وہ اس ذلت کے عذاب میں اتنی دیر تک نہ پڑے رہتےاور جب عمارت مکمل ہو گئ تب تک آ پ کا عصا دیمک اندر سے کھا کر کھوکھلا کر چکی تھی اس لیے آ پ کا عصا ٹوٹ کر گرا اور سا ہ تھ ہی آپ کا جسد خاکی بھی گرا تب جنات سمجھے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کی وفات ہوچکی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر