جمعہ، 24 فروری، 2023

دختر خاتون جنّت - ولادت با سعادت کل مو منین جن و انس کو مبارک ہو

 



دختر خاتون جنّت - ولادت با سعادت کل مو منین جن و انس کو مبارک ہو

سیّدالاصفیا ء خاتم الانبیاء تاجدار دوعالم حضرت رسول خدا محمّد مصطفٰے صلّی ا للہ علیہ واٰلہ وسلّم کی پیاری بیٹی جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی آغوش مبارک میں گلستان نبوّت کی ایک تروتازہ کلی نے آنکھ کھولی تو آ پ سے دو برس بڑے بھائ اپنے والد گرامی حضرت امیرالمومنین کی انگلی تھام کر اپنی مادر گرامی کے حجرے میں آئے ،اور ننھی بہن کے ننّھے ملکوتی چہرے کو مسکرا کر دیکھا اور پھر اپنے پدر گرامی مولائے متّقیان کو دیکھ کر مسکرائے اور سلطان اولیاء مولائے کائنات نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے چھپاتے ہوئے فرمایا کہ ,حضرت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تشریف لے آئیں توبچّی کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گے جس طرح اپنے نواسوں کے نام حسن وحسین تجویز کئے تھےنبئ اکرم ہادئ معظّم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بی بی زینب کی ولاد ت کے وقت شہر مدینہ سے باہر حالت سفر تھے۔
چنانچہ تین دن کے بعدسفرسے واپس تشریف لائے تو حسب عادت سب سے پہلے بی بی سیّدہ کےسلام اللہ علیہا حجرے پر تشریف لائے جہاں جناب فاطمہ زہرا کی آغو ش مبارک میں ننّھی نواسی جلوہ افروز تھی آپ نے وفورمحبّت و مسرّ ت سے بچّی کو آغوش نبوّت میں لیا اور جناب حسن وحسین علیہم السّلام کی مانند بچّی کےدہن مبارک کو اپنےپاکیزہ ومعطّر دہن مبارک سے آب وحی سےسرفراز کیا جناب رسالت مآ ب سرور کائنات حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بچّی کو آغوش نبوّت میں لئے ہوئے نگاہ اشتیاق سےننّھی نواسئ معصومہ کا چہرہ دیکھتے رہے جہاں بی بی خد یجتہ الکبریٰ کی عظمت و تقویٰ اور جناب سیّدہ سلام اللہ علیہاٰ کے چہرے کے نورانی عکس جھلملا رہے تھےوہیں آپ صلعم کے وصی اور اللہ کے ولی مولا علی مرتضیٰ کا دبد بہ اور حشمت ہویدا تھی ننّھی نواسی کا ملکوتی چہرہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہواٰ لہ وسلّم کا چہرہء مبارک خوشی سے کھلا ہوا تھا
اور اسی وقت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محترم بابا جان سے مخاطب ہوئیں بابا جان ہم س انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لے آئیں تو بچّی کا نام تجویز کریں تاجدار دوعالم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ بیٹی میں اس معاملے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں جبرئیل امیں کے آنے پر ہی بچّی کا نام تجویز ہوسکے گا ،،اور پھر اسی وقت آپ کے رخ انور پر آثار وحی نمودار ہوئے اور آ پ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہرا کے سر پر ہاتھ رکھّا اور مولائے کائنات کو اپنے قریب بلاکر فرمایا گلستان رسالت کی اس کلی کا نام جبرئیل امیں بارگاہ ربّ العالمین سے‘‘ زینب ‘‘ لے کر آئےہیں یہی نام وہاں لو ح محفوظ پر بھی کندہ ہےبیت الشّرف میں اس نام کو سب نے پسند فرمایا

،پھر رسالتماآب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے تمام جہانوں کے سب سے بہترین مالک میں تیری حمد وثناء بیان کرتے ہوئے تجھ سے دعاء مانگتا ہوں کہ تو نے جس طرح ہمارے بچّوں کو دین مبین کی حفاظت کا زریعہ قرادیا ہے اسی طرح اس بچّی کو بھی عزّت اور سعادتو ں سے بہرہ مند فرما ،میں تیرے کرم کا شکر گزار ہوں۔
اس دعائے شکرانہ میں جناب حضرت فاطمہ زہرا اور جناب حضرت علی مرتضٰی بھی شامل ہو ئےاور پھر گلستان رسالت کی یہ ترتازہ کلی ہوائے مہرو محبّت میں پروان چڑھنے لگی _وہ جس گھر میں آئ تھی یہ دنیا کا کوئ عام گھرانہ نہیں تھا یہ گھر بیت الشّرف کہلاتا تھا ،اس محترم گھر کے مکین اہل بیت کے لقب سے سرفراز کئےگئے تھے ،اس پاکیزہ و محترم گھرکے منّو ر و ہوائے بہشت سےمعطّر آنگن میں پیغا مبر بزرگ فرشتے حضرت جبرئیل امیں وحی پروردگارعالم عرش بریں سے لےکراترتے تھے اس میں اقامت پذیر نورانی ہستیوں پر ملائکہ اور خود اللہ درود و سلام بھیجتے تھے اور پھر بوستان محمّد کی یہ ترو تازہ کلی جس کا نام زینب( یعنی اپنے والد کی مدد گار) پرورد گار عالم نے منتخب کر کے لوح محفوظ پر کندہ کر دیا تھا ،فضائے مہرومحبّت میں پروان چڑھنے لگی چادر کساء کے زیر سایہ اس گھر کے مکینوں سے زینب سلام اللہ علیہا نے نبوّت و امامت کے علوم کے خزینے اپنے دامن علم میں سمیٹے توآپ سلام اللہ علیہا کی زبان پر بھی اپنے باباجان علی مرتضیٰ
علیہ اسّلام اور والدہ گرامی جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کی مانند اللہ کی حمد و ثناء ومناجا ت کے پھول کھلنے لگے -

،بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بابا جان کو اور مادرگرامی کو اور اپنے نانا جان حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو،فقرا و مساکین کو حاجتمندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ وہ متبرّک ہستیاں تھیں جو اپنی بھوک کو سائل کی بھوک کے پس پشت رکھ دیتے تھے،کسی بھی سوال کرنے والے کے سوال کو سوالی کااعزاز بنا دیتے تھے مشورہ مانگنے والے کو صائب مشورہ دیتے تھے۔
ہادیوں کے اس گھرانے کو کوئ دنیاوی معلّم تعلیم دینے نہیں آتا تھا ،یہاں تو بارگاہ ربّ العا لمین سے حضرت جبرئیل امیں علوم کےخزانے بزریعہ وحئ الٰہی لا کر بنفس نفیس دیتے تھے چنا نچہ انہی سماوی و لدنّی علوم سےبی بی زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو مولائے کائنات اور بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا نے سنوارااور سجایا ،آپ جیسے ،جیسے بڑی ہونے لگیں آپ کی زات میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی زات کے جوہر اس طرح نکھرنے لگے کہ آپ کو د یکھنے والی مدینے کی عورتو ں نے آپ کا لقب ہی ثانئ زہراسلام اللہ علیہا رکھ دیا۔
جب رسول خدا ص حضرت زینب س کی ولادت کے موقع پر علی ع و فاطمہ س کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ حضرت زینب س کے القاب: تاریخی کتابوں میں آپ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں :١ـ عالمہ غیر معلمہ، ٢ـ نائب? الزھرائ ، ٣ـ عقیلہ بنی ہاشم، ٤ـ نائب? الحسین، ٥ـ صدیقہ صغری، ٦ـ محدثہ، ٧ـ زاہدہ، ٨ـ فاضلہ، ٩ـ شریکۃ الحسین، ٠١ـ راضیہ بالقدر والقضائ حضرت زینب س کا بچپن اور تربیت:انسان کی زندگی کا اہم ترین زمانہ اس کے بچپن کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی شخصیت کا قابل توجہ حصہ اس دور میں معرض وجود میں آتا ہے۔ اس سے بھی اہم وہ افراد ہوتے ہیں جو اس کی تربیت میں موثر واقع ہوتے ہیں ۔حضرت زینب س کی خوش قسمتی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی خاتون سیدہ نسائ العالمین حضرت فاطمہ س ہیں اورآپ امام علی ع جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم ص، جو تمام انسانوں کیلئے "اسوہ حسنہ" ہیں ، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں لہذا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اور امام علی علیہ السّلام اوراپنی مادر گرامی فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا جیسی مثال ہستیوں کی سرپرستی میں پرورش پائی۔
لیکن پھر زمانہ کی ستمگر ہواؤں نے جب اس متبرّک آنگن کا رخ کیا تو بعد از وصال حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم صرف چھ مہینے ہی گزرے تھے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت ہو گئ ،چھوٹی سی عمر میں مشفق مادر گرامی کا سایہ دنیا سے اس طرح سے اٹھ جانا یہ کو ئ معمولی واقعہ نہیں تھا بی بی زینب سلام اللہ علیہا بنفس نفیس اپنے محترم والد گرامی کے ساتھ اور اپنے گھرانے کے ساتھ زمانے کی ستم گری دیکھ رہی تھیں اور آپ سلام اللہ علیہا کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ آپ کو دین محمّدی کی بقائے دوام میں کون سا کردار ادا کرنا ہئے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اب ان کو حقیقت میں ثانئ زہرا ء کی جان نشینی کا حق بھی ادا کرنا تھا،چنانچہ بی بی زینب سلم اللہ علیہا نے ایک جانب اپنے چھوٹے بہن بھا ئیوں کی دلداری کا فرض انتہائ زمّہ داری کے ساتھ نباہنے کا فیصلہ کیا تو دوسری جانب مدینے کی خواتین کی وہ علمی اور روحانی پاکیزہ روحانی محفلیں جو بی بی سیّدہ اپنی حیات مبارک میں سجاتی تھیں ان تدریسی مجلسوں کی نشست و برخاست پر بھی اثر نہیں پڑنے دیا اور مدینے کی خواتین کے ہمرا ہ حسب معمول بی بی زینب نے درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھّا،

آپ مدینے کی خواتین میں بہت جلد ایک ایسی معلّمہ ثابت ہوئیں کہ جن کو علم حاصل کرنے کے لئے آنے والی خواتین نے محدّثہ عالمہ ،،فاضلہ،عاقلہ،عقیلہ کے القابات عطا کئے اور شہر مدینہ میں یہی القابات آپکی علمی اور شخصی حیثیت کی پہچان بن گئے ،یعنی آپ دین محمّد کی حفاظت اور اس کے پھیلاؤ میں ایک خاموش مجاہدہ کی حیثیت سے شامل ہو گئیں۔آپ سلام اللہ علیہا کی یہ تدریسی محفلیں بعد نماز ظہر سے نماز مغربین تک جاری رہتی تھیں جن میں آپ فصیح و بلیغ زبان میں قرانی احکامات اور ان کی تشریح تفسیر اور ارشادات نبوی کی روشنی میں انسانی زندگی کے مقاصد مطالب بیان کرتیں تھیں تب وقت کا پہیہ رک جایا کرتا تھا اور سننے والو ں کے دل موم ہو جاتے تھے اورآنکھیں بے ساختہ آنسوؤں سے لبریز ہو جایا کرتی تھیں۔ اور پھر بالآخر وہ وقت بھی آپ کے لئے آ پہنچا جو اللہ تعالٰی نے ہر بیٹی کے لئے مقرّر کیا ہئے ،پیام تو کئ آئے ہوئے تھے ،،لیکن مولائے کائنات پر ویسا ہی سکوت طاری تھا جیسا کہ بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی نسبت طے کرتے ہوئے نبئ اکرم حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واآ لہ وسلّم پر طاری ہواتھا اور جب سکوت مولا علی علیہ ا لسّلا م ٹوٹا تو خوشخبری سننے والوں نے یہ مژدہء جانفزاء سنا کہ بی بی زینب بنو ہاشم کے ایک عالی جاہ فرد عبد اللہ بن جعفرطیّار سے منسوب ہو رہی ہیں۔ جناب حضرت جعفر طیّار جنگ موتہ میں داد شجاعت دیتے ہوئے جب شہید ہوگئے تب جناب عبداللہ براہ راست مولائے کائنات حضرت علی علیہ ا لسّلام کی نگہداری میں آگئے اس طر ح ہادئ دو جہاں کی بھی شفقت و محبّت سے و نگہبانی بھی ان کو میسّر آئ اور دو عظیم ہستیوں کے مکتب فیضان میں آ جانے سے لوگ آپ کو کاشانہء نبوّت میں خانوادہء اہلبیت نبوّت کا ہی ایک فرد سمجھتے تھے اور اس طرح آپ بڑے ہوتے ہوئے خاندان رسالت مآ ب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا ہی ایک فرد سمجھے جانے لگے تھے،جناب عبداللہ کو نبئ اکرم صلّی اللہ علیہواٰلہ وسلّم کی خاص دعائیں نصیب میں آئیں تھیں جس کے سبب آپ بہت دولت و ثروت کے مالک اور پر آسائش زندگی کے حامل تھے جناب عبداللہ کا شمار عرب کے دو


تحریروتلخیص
سیدہ زائرہ عابدی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر