بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم- نحمدہ و نصلّی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین -علی اکبر علیہ السلام شکل و صورت میں اور رفتار و کردار میں سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مشابہ تھے آپ کے اخلاق اور چال چلن کو دیکھ کر لوگوں کو پیغمبر یاد آ جاتے تھے۔ اور جب بھی اہلبیت علیھم السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبر کا دیدار کرتے تھے۔آپ عالم ، پرہیزکار، رشید اور شجاع جوان تھے اور انسانی کمالات اور اخلاقی صفات کے عظیم درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے:سلام ہو آپ پر اے صادق و پرہیزگار، اے پاک و پاکیزہ انسان، اے اللہ کے مقرب دوست، کتنا عظیم ہے آپ کا مقام، اور کتنی عظمت سے آپ اس کی بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا نے راہ حق میں آپ کی مجاہدت کی قدر دانی کی اور اجر و پاداش میں اضافہ کیا اور آپ کو بلند مقام عنایت فرمایا۔ اور بہشت کے اونچے درجات پر فائز فرمایا۔جیسا کہ اس خدا نے پہلے سے آپ پر احسان کیا اور آپ کو اہلبیت میں سے قرار دیا کہ رجس اور پلیدی کو ان سے دور کرے اور انہیں ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھے۔علی اکبر علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم با قدم رہے۔
مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کے لیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع( انا للہ و انا الیہ راجعون جاری تھا)۔جناب علی اکبر علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا۔ کہا:جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔ جناب علی اکبر کا میدان میں جانا امام حسین علیہ السلام اور اہل حرم کے لیے بہت سخت تھا لیکن آپ کے جذبہ ایثار اور راہ اسلام میں فداکاری کا مظاہرہ میدان میں جائے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ جب جناب علی اکبر میدان کارزار کی طرف جا رہے تھے تو امام علیہ السلام مایوسی کی نگاہ سے آپ کو دیکھ رہے تھے اور آپ کے رخسار مبارک پر آنسوں کا سیلاب جاری تھا۔ اور فرمایا: بارالہا ! تو گواہ رہنا کہ میں نے ان لوگوں کی طرف اس جوان کو بھیجا ہے جو صورت میں، سیرت میں، رفتار میں، گفتار میں تیرے رسول کا شبیہ ہے ہم جب بھی تیرے پیغمبر کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو اس کے چہرے کا دیدار کرتے تھے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اس قوم کو بددعا کی ۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے عمر سعد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابن سعد خدا تمہاری رشتہ داری کو ختم کر دے۔ اور تمہارے کام میں کامیابی نہ ہو اور ایسے کو تمہارے اوپر مسلط کرے جو بستر پر تمہارا سر کاٹ دے ۔ اس کے بعد خوبصورت آواز میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:ترجمہ آئت :-"بیشک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم، اور آل عمران کو تمام عالمین پر منتخب کیا ہے۔ ا جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنے بابا سے اجازت طلب کی کہ اہل حرم کو الوداع کریں اور میدان کی طرف روانہ ہو جائیں مولا نے اجازت دی اہل حرم سے الوداع ہوئے -خیام اہل بیت میں شور شین برپا ہوا کہ جناب علی اکبر جنہیں جناب زینب نے اٹھارہ سال جسے اپنی آغوش میں پالا اسے کیسے رخصت کیا ہو گا۔ امام حسین محافظ شریعت ہر ممکنہ قربانی پیش کرنے پر مصمم تھے اور ہر قیمت پر، ہر قربانی پر شجر اسلام کی جوانی کے خواہاں تھے۔ حفاظت دین کے وعدے اچھی طرح یاد تھے ، سوچا اگر بر وقت دین کی جوانی کی ضمانت پیش نہ کی جائے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل علیہم السلام کی محنتیں بے ثمرہ ہو کر رہ جائیں گی۔
محافظ شریعت نے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی آغوش مبارک میں پرورش پائی تھی، اس لیے دین کی بربادی ہرگز نہیں دیکھ سکتے تھے، اچھی طرح یاد تھا کہ نانا پاک نے جب آغوش میں ایک طرف اپنے اسی نواسے اور دوسرے طرف اپنے فرزند ابراہیم کو بٹھایا ہوا تھا۔ خداوند متعال نے امتحان لیا تھا کہ ان دو بچوں میں سے جو زیادہ عزیز ہے، دوسرے کو اس پر قربان کرنا ہو گا تو اس قدسی وجود نے اپنے فرزند کو نواسے پر قربان کر لینا منظور کیا تھا اور فرمایا تھا کہ:حسین منی وانا من الحسین، اب اس حدیث شریف کے ذیل کے اثبات کا موقع تھا۔ دین خدا سوالی تھا، سوال جوانی کا سوال تھا، ہجرت ختمی مرتبت کے ساٹھ سال گزر چکے تھے، ساٹھویں سال کا نصف حصہ گزرنے کے بعد ماہ رجب کے اواخر میں نواسہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی ہجرت کا آغاز ہو چکا تھا۔ دوم محرم الحرام 61 ہجری کربلا پہنچ چکے تھے۔ نئے سال کے پہلے مہینے کے نو دن گزر چکے تھے ایک رات کی مہلت لی تھی وہ بھی گزر چکی تھی۔ اعوان و انصار اپنی نصرت کے وعدے نبھا چکے تھے، دین کو کچھ قوت ملی تھی،اب جبکہ ہاشمی خون دین کے کام آیا چاہتا تھا،
حضرت علی اکبر کی شخصیت کو حضرت نے خیمہ کے نزدیک کھڑے ہو کر ان الفاظ میں بیان کیا ہے "اللھم اشھد علی ھٰولآء القوم قد برز الیھم غلام اشبہ الناس خلقاً و خلقاً و منطقاً برسولک و کنّا اذا اشتقنا الی نبیّک نظر نا الی وجھہ "خدایا! تو اس قوم جفاکار کے مظالم پر شاہد رہنا کہ ان کی طرف ایسا جوان جارہا ہے کہ جو تیرے رسول سے گفتار ،کردار ،اور رفتارمیں سب سے زیادہ مشابہ ہے اور جب بھی ہم کو رسول کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تھا تو ہم اس کی زیارت کر لیتے تھے جناب علی اکبرنےجب باپ کی غربت اور تنہائی کو دیکھا تو ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا خدمت امام میں آئے اور جنگ کرنے کی اجازت چاہی فوراً آپکی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے مولا نے علی اکبر کو سینہ سے لگایا اور پھول کی طرح سونگھ کر رونے لگے حسین نے خود اپنے ہاتھوں سے اکبر کو لباس جنگ پہنایا وہ چمڑے کاپٹکا جو امیر المؤمنین کے تبرکات میں سے تھاکمر پر باندھا اور عقاب جو کہ ایک خاص مرکب تھا سواری کے لئے آمادہ کیا صاحب الدمعۃ الساکبۃ تحریر فرماتے ہیں "لمّا توجہ الی الحرب اجتمعت النسآء حولہ کالحلقۃ "جب علی اکبر میدان کو جانے لگے تو تمام عورتوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہنے لگیں "ارحم غربتنا "اکبر ہماری غربت پر رحم کھاؤ ہم کو تنہا چھوڑ کر نہ جاؤ ! "و لا تستعجل الی القتال "میدان قتال کو جانے میں اتنی جلدی نہ کرو "فانہ لیس لنا طاقۃ فی فراقک " ہم سے تمہاری جدائی برداشت نہ ہو سکے گی پھر نفس مطمئنہ نے لفظ عشق کے مقدس پیکر کو جاودانی معانی کی ابدی زندگانی عطا فرما کر وہ جلوہ خلق فرمایا کہ دین محفوظ، انبیاء راضی، سید الانبیاء خوشنود اور خالق اکبر أحسن الخالقین کی رضایت بھری آواز میدان کربلا میں آئت قران کی گونج سنائ دی :
یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی