ہفتہ، 17 مئی، 2025

ہم شکل پیمبر(ص)حضرت علی اکبر

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم- نحمدہ  و نصلّی علٰی  رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین -علی اکبر علیہ السلام شکل و صورت میں اور رفتار و کردار میں سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مشابہ تھے آپ کے اخلاق اور چال چلن کو دیکھ کر لوگوں کو پیغمبر یاد آ جاتے تھے۔ اور جب بھی اہلبیت علیھم السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبر کا دیدار کرتے تھے۔آپ عالم ، پرہیزکار، رشید اور شجاع جوان تھے اور انسانی کمالات اور اخلاقی صفات کے عظیم درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے:سلام ہو آپ پر اے صادق و پرہیزگار، اے پاک و پاکیزہ انسان، اے اللہ کے مقرب دوست،  کتنا عظیم ہے آپ کا مقام، اور کتنی عظمت سے آپ اس کی بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا نے راہ حق میں آپ کی مجاہدت کی قدر دانی کی اور اجر و پاداش میں اضافہ کیا اور آپ کو بلند مقام عنایت فرمایا۔ اور بہشت کے اونچے درجات پر فائز فرمایا۔جیسا کہ اس  خدا نے پہلے سے آپ پر احسان کیا اور آپ کو اہلبیت میں سے قرار دیا کہ رجس اور پلیدی کو ان سے دور کرے اور انہیں ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھے۔علی اکبر علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم با قدم رہے۔


مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کے لیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع(  انا للہ و انا الیہ راجعون جاری تھا)۔جناب علی اکبر علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا۔ کہا:جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔ جناب علی اکبر کا میدان میں جانا امام حسین علیہ السلام اور اہل حرم کے لیے بہت سخت تھا لیکن آپ کے جذبہ ایثار اور راہ اسلام میں فداکاری کا مظاہرہ میدان میں جائے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ جب جناب علی اکبر میدان کارزار کی طرف جا رہے تھے تو امام علیہ السلام مایوسی کی نگاہ سے آپ کو دیکھ رہے تھے اور آپ کے رخسار مبارک پر آنسوں کا سیلاب جاری تھا۔ اور فرمایا: بارالہا ! تو گواہ رہنا کہ میں نے ان لوگوں کی طرف اس جوان کو بھیجا ہے جو صورت میں، سیرت میں، رفتار میں، گفتار میں تیرے رسول کا شبیہ ہے ہم جب بھی تیرے پیغمبر کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو اس کے چہرے کا دیدار کرتے تھے۔


ایک روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اس قوم کو بددعا کی ۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے عمر سعد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابن سعد خدا تمہاری رشتہ داری کو ختم کر دے۔ اور تمہارے کام میں کامیابی نہ ہو اور ایسے کو تمہارے اوپر مسلط کرے جو بستر پر تمہارا سر کاٹ دے ۔ اس کے بعد خوبصورت آواز میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:ترجمہ آئت :-"بیشک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم، اور آل عمران کو تمام عالمین پر منتخب کیا ہے۔ ا جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنے بابا سے اجازت طلب کی کہ اہل حرم کو الوداع کریں اور میدان کی طرف روانہ ہو جائیں   مولا نے اجازت دی اہل حرم سے الوداع ہوئے  -خیام اہل بیت میں شور شین برپا ہوا کہ جناب علی اکبر  جنہیں  جناب زینب نے اٹھارہ سال جسے اپنی آغوش میں پالا اسے کیسے رخصت کیا ہو گا۔ امام حسین محافظ شریعت ہر ممکنہ قربانی پیش کرنے پر مصمم تھے اور ہر قیمت پر، ہر قربانی پر شجر اسلام کی جوانی کے خواہاں تھے۔  حفاظت  دین کے وعدے اچھی طرح یاد تھے  ، سوچا اگر بر وقت دین کی جوانی کی ضمانت پیش نہ کی جائے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل علیہم السلام کی محنتیں بے ثمرہ ہو کر رہ جائیں گی۔


 محافظ شریعت نے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی آغوش مبارک میں پرورش پائی تھی، اس لیے دین کی بربادی ہرگز نہیں دیکھ سکتے تھے، اچھی طرح یاد تھا کہ نانا پاک نے جب آغوش میں ایک طرف اپنے اسی نواسے اور دوسرے طرف اپنے فرزند ابراہیم کو بٹھایا ہوا تھا۔ خداوند متعال نے امتحان لیا تھا کہ ان دو بچوں میں سے جو زیادہ عزیز ہے، دوسرے کو اس پر قربان کرنا ہو گا تو اس قدسی وجود نے اپنے فرزند کو نواسے پر قربان کر لینا منظور کیا تھا اور فرمایا تھا کہ:حسین منی وانا من الحسین، اب اس حدیث شریف کے ذیل کے اثبات کا موقع تھا۔ دین خدا سوالی تھا، سوال جوانی کا سوال تھا، ہجرت ختمی مرتبت کے ساٹھ سال گزر چکے تھے، ساٹھویں سال کا نصف حصہ گزرنے کے بعد ماہ رجب کے اواخر میں نواسہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی ہجرت کا آغاز ہو چکا تھا۔ دوم محرم الحرام 61 ہجری کربلا پہنچ چکے تھے۔ نئے سال کے پہلے مہینے کے نو دن گزر چکے تھے ایک رات کی مہلت لی تھی وہ بھی گزر چکی تھی۔ اعوان و انصار اپنی نصرت کے وعدے نبھا چکے تھے، دین کو کچھ قوت ملی تھی،اب جبکہ ہاشمی خون دین کے کام آیا چاہتا تھا،


حضرت علی اکبر کی شخصیت کو حضرت نے خیمہ کے نزدیک کھڑے ہو کر ان الفاظ میں بیان کیا ہے "اللھم  اشھد علی ھٰولآء القوم قد برز الیھم غلام اشبہ الناس خلقاً و خلقاً و منطقاً برسولک و کنّا  اذا اشتقنا الی نبیّک نظر نا الی وجھہ "خدایا! تو اس قوم جفاکار کے مظالم پر شاہد رہنا کہ ان کی طرف ایسا جوان جارہا ہے کہ جو تیرے رسول سے  گفتار ،کردار ،اور رفتارمیں  سب سے زیادہ مشابہ ہے اور جب بھی ہم کو رسول کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تھا  تو ہم اس کی زیارت کر لیتے تھے   جناب علی اکبرنےجب باپ کی غربت اور تنہائی کو دیکھا تو ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا خدمت امام میں آئے اور جنگ کرنے کی اجازت چاہی فوراً آپکی   آنکھوں سے  اشک جاری ہوگئے مولا نے علی اکبر کو سینہ سے لگایا اور پھول کی طرح سونگھ کر رونے لگے حسین نے خود اپنے ہاتھوں سے اکبر کو لباس جنگ پہنایا وہ چمڑے کاپٹکا  جو امیر المؤمنین کے تبرکات میں سے تھاکمر پر باندھا اور عقاب جو کہ  ایک خاص مرکب تھا سواری کے لئے آمادہ کیا صاحب الدمعۃ الساکبۃ تحریر فرماتے ہیں  "لمّا توجہ الی الحرب اجتمعت النسآء حولہ کالحلقۃ "جب علی اکبر میدان  کو جانے لگے تو تمام عورتوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہنے لگیں "ارحم غربتنا "اکبر ہماری غربت پر رحم کھاؤ ہم کو تنہا چھوڑ کر نہ جاؤ ! "و لا تستعجل  الی القتال "میدان قتال کو  جانے میں اتنی جلدی نہ کرو "فانہ لیس لنا طاقۃ فی فراقک " ہم سے تمہاری جدائی برداشت نہ ہو سکے گی   پھر نفس مطمئنہ نے لفظ عشق کے مقدس پیکر کو جاودانی معانی کی ابدی زندگانی عطا فرما کر وہ جلوہ خلق فرمایا کہ دین محفوظ، انبیاء راضی، سید الانبیاء خوشنود اور خالق اکبر أحسن الخالقین کی رضایت بھری آواز میدان کربلا میں  آئت قران کی گونج سنائ دی :

یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی


جمعرات، 15 مئی، 2025

ترکی کی سلیمانیہ جامع مسجد




ابتدائے اسلا م  سے ہی  تمام دنیا کے اسلامی ممالک میں مسجدیں بنانے پر مسلمانوں کی خصوصی توجہ رہی ہے  اور خاص طور پر اسلامی  بادشاہان وقت نے کثیر سر مائے  سے   عظیم الشان مسجدیں بنائیں  ایسی ہی ایک  عطیم الشان  مسجد ہمار ے برادر اسلامی ملک  تر کی کے شہر استنبول  میں    ہے۔ یہ مسجد سلطان سلیمان اول (سلیمان قانونی) کے احکام پر مشہور عثمانی ماہر تعمیرات معمار سنان پاشا نے تعمیر کی۔ ۔ایاصوفیہ کو فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد ثانی نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا)اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے سنان پاشا نے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا اور یہ عظیم شاہکار تخلیق کیا۔1660ء میں آتش زدگی کے نتیجے میں مسجد کو شدید نقصان پہنچا جس کے بعد سلطان محمد چہارم نے اس کی بحالی کا کام کرایا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران مسجد میں دوبارہ آگ بھڑک اٹھی جس کے بعد مسجد کی آخری تزئین و آرائش 1956ء میں کی گئی۔آج کل یہ استنبول کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ مسجد سلیمانیہ کی لمبائی 59 میٹر اور چوڑائی 58 میٹر ہے۔ اس کا گنبد 53 میٹر بلند اور 57.25 میٹر قطر کا حامل ہے۔


فن تعمیر-استنبول کی دیگر شاہی مساجد کی طرح، خود بھی مسجد کے داخلی راستے کے سامنے ایک مرکزی چشمہ ہے۔ صحن کی تعمیر سنگ مرمر، گرینائٹ اور پورفری کے کالموں کے ساتھ غیر معمولی شان و شوکت کا مظہر ہےصحن کے چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔دونوں لمبے لمبے میناروں میں تین گیلری ہیں اور ان کی اونچائی 63،8 میٹر (209 فٹ) تک پہنچ جاتی ہے۔ مسجد کے چار مینار ہیں کیونکہ مسجد میں چار مینار تعمیر کرنے کا حق صرف سلطان کا تھا۔ اگر کوئی شہزادی یا شہزادہ مسجد تعمیر کرتا تھا تو وہ دو اور دیگر افراد ایک مینار تعمیر کرسکتے تھے۔ میناروں میں کل 10 گیلریاں ہیں، جو روایت کے مطابق اشارہ کرتی ہیں کہ سلیمان اول دسویں عثمانی سلطان تھے۔مرکزی گنبد کی اونچائی 53 میٹر (174 فٹ) ہے اور اس کا قطر 26.5 میٹر (86.9 فٹ) ہے۔ جس وقت یہ تعمیر کیا گیا تھا، اس وقت گنبد عثمانی سلطنت کا سب سے اونچا گنبد تھاسلیمانیہ مسجد کا اندرونی حصہ سلیمانیہ مسجد کی محراب-مسجد کا اندرونی حصہ ایک مربع ہے، جس کی لمبائی 59 میٹر 194 فٹ) اور چوڑائی 58 میٹر (190 فٹ) ہے، جس سے ایک وسیع و عریض جگہ بنتی ہے۔گنبد کے ساتھ آدھے گنبد جڑے ہوئے ہیں۔ محراب کے اوپر قرآن پاک کی سورہ فاتح کی آیات کندہ ہیں۔


مسجد کی قبلہ دیوار کی طرف سلطان سلیمان اول اور ان کی اہلیہ حورم سلطان کے الگ الگ مقبرے موجود ہیں۔حورم سلطان کا مقبرہ ان کی وفات کے سال 1558 میں تعمیر ہوا۔  جبکہ سلطان سلیمان کے مقبرہ کی تعمیر ان کی وفات کے سال 1566 میں شروع ہوئی تھی اور یہ حورم سلطان کے مقبرے سے بڑا ہے اور اس مقبرے میں ان کی بیٹی مہریمہ سلطان اور بعد میں دو سلطانوں سلطان سلیمان دوم (1687–1791 میں حکومت کی) اور سلطان احمد دوم (1691–1796) کی قبریں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سلطان سلیمان اول کی والدہ دل آشوب صالحہ اور ہمشیرہ عائشہ کی قبریں بھی انہی مقبروں میں موجود ہیں۔ سلطان مصطفٰی ثانی کی صاحبزادی صفیہ بھی یہیں مدفون ہیں۔ مسجد کی دیواروں کے ساتھ ہی شمال کی جانب سنان پاشا کا مقبرہ ہے۔کمپلیکس-استنبول کی دیگر شاہی مساجد کی طرح، سلیمانی مسجد کو رفا ع عامہ کے طور پر بنایا گیا تھا تاکہ مذہبی اور ثقافتی دونوں ضروریات پوری کی جا سکیں۔اصل کمپلیکس میں خود ہی مسجد، ایک اسپتال، پرائمری اسکول، پبلک حمام، ایک کاروان سرائے، چار قرآن اسکول، حدیث کی تعلیم کے لیے ایک خصوصی اسکول اور ایک میڈیکل کالج شامل تھے۔


 ایک عوامی باورچی خانہ بھی تعمیر کیا گیا تھا جس نے غریبوں کو کھانا پیش کیا۔ ان میں سے بہت سے ڈھانچے اب بھی موجود ہیں اور سابقہ ​​عمارت اب ایک مشہور ریسٹورنٹ ہے۔ سابقہ ​​اسپتال اب ایک چھپائی کی فیکٹری ہے جس کی ملکیت ترک فوج کی ہے۔ مسجد کی دیواروں کے بالکل بالکل شمال میں، آرکیٹکٹ  سینان کا مقبرہ ہے۔ اسے 1922 میں مکمل طور پر بحال کیا گیا تھا۔ ترکی میں مساجد صرف نماز ادا کرنے کی جگہ نہیں بلکہ ان کی مرکزی حیثیت ہے. جیسا کہ ستنبول کی نیلی مسجد میں مدرسہ، اسپتال اور دیگر ضرورت کی چیزیں بھی  دیکھی جا سکتی ہیں  جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ترکی میں مسجد کو  صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ عوام الناس کی فلاح کا ادارہ بھی کہا جا سکتا ہے-سلطنتِ عثمانیہ کے مشہور ترین معمار سنان پاشا   کا سب سے بڑا شاہکار تھی سلیمانیہ مسجد جسے بنوایا بھی سب سے عظیم سلطان نے تھا، سلطان سلیمان عالیشان نے۔ 1557ء میں بننے والی اس مسجد کی اونچائی 174 فٹ ہے جبکہ میناروں کی تعداد چار ہے۔ دو بڑے مینار 249 فٹ بلند ہیں اور دو نسبتاً چھوٹے ہیں اور 209 فٹ کے ہیں۔


تقریباً ساڑھے چار سو سالوں تک استنبول شہر کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز اسی سلیمانیہ مسجد کو حاصل رہا-لیکن اگر  کو  ئ پرانا عثمانی طرزِ تعمیر دیکھنا  چاہے  تو اس  کو ترکی کے شہر بورصہ جانا پڑے گا جہاں کی جامع مسجد دیکھنے کے قابل ہے۔ یہ مسجد عثمانیوں کے چوتھے سلطان بایزید اوّل نے تعمیر کروائی تھی،جب بورصہ سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اس کی تعمیر 1399ء میں مکمل ہوئی تھی اور آج بھی اس خوبصورت شہر کے مرکز میں پوری شان اور شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔بایزید اوّل تاریخ میں بایزید یلدرم کے نام سے مشہور ہیں، انہوں نے 1396ء میں معرکہ نکوپولس میں یورپ کی مشترکہ فوج کو ہرایا تھا۔ یہ ایک صلیبی جنگ تھی جس کی اپیل عثمانیوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے پوپ بونیفیس نہم نے کی تھی۔ سلطان بایزید کی یہ کامیابی آج بھی تاریخ کی عظیم جنگی فتوحات میں شمار ہوتی ہے۔بہرحال، اس جامع مسجد کے چھوٹے بڑے کُل 20 گنبد اور 2 مینار ہیں۔ مسجد 3 ہزار مربع میٹرز سے زیادہ کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ مسجد میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے

بدھ، 14 مئی، 2025

فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی'

  



فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی' یہ میرا   تجزیہ نہیں بلکہ کراچی میں تعلیم کا اوسط نکالنے والی ٹیم کا کہنا ہے  -میرے شوہر بتاتے تھے کہ جب پاکستان بن  چکا اور  ان کے خاندان کو جانیں بچانے کے لئے پاکستان وارد ہوئے  'اس وقت  میرے شوہر کی عمر دس برس تھی اور وہ پانچویں جماعت کے انگلش اسکول میں پڑھ رہے تھے  لیکن  پاکستان آنے کے بعد ان  کا  داخلہ بھی نہیں کیا جاسکا  کیونکہ اب گھر بھر کی کفالت  کے لئے میرے شوہر کو کریانہ کی  دکان سنبھالنی پڑی  اس دوران میرے شوہر کی والدہ  ہجرت کی افتاد برداشت  نہیں کر سکیں اور ہجرت کے  دو برس بعد  ہی خدا کے گھر چلی گئیں لیکن اپنی آخری سانس سے پہلے انہوں نے میرے شوہر کو اپنے پاس بلایا  اور سونے کے  وہ دو گنگن    جنہیں وہ بچا کر ساتھ لائیں تھیں  ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے وصیت کی کہ ان کنگنوں کی لاج رکھنا اور  انہیں بیچ کر  اسکول میں داخلہ لے لینا -میرے شوہر نے ان کی وصیت کی لاج رکھی اور خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ پروفیشنل تعلیم دلوائ


    اگست  1947 میں قیام  پاکستان  کے وقت مختلف ہندوستانی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم مہاجرین نوزائیدہ ملک پاکستان ہجرت کرکے آئے۔  ہندوستان  میں پنجاب سے  ہجرت   کر کے آنے والے پاکستان کے پنجاب میں آباد ہوئے جبکہ تھر پار کر سے آ نے والے کراچی  میں  آباد ہوئے    ان دنوں شہر کراچی میں  ایک لاکھوں مہاجرین    نے بے سر و سامانی کے عالم   میں سر چھپانے کے لئے  جھگیوں   سے اپنے نشیمن بنا کر ان میں  پناہ لی   - لیکن  یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے  اپنی بے سروسانی کے باوجود  مہاجرین نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ  دی  اس خصوصی توجہ کا یہ ثمر کہ آج الحمد للہ مہاجروں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے -اور انکی تعلیم میں اس دور کے تمام اسا تذہء کرام کا -بھرپور کردار ہے جنہوں نے رنگ نسل کے امتیاز کے بغیر ہماری نسلوں کی تعلیمی آبیاری کی علی کوچنگ سنٹر سیفی کوچنگ سینٹر  عزیز آباد کے علاقے کے نامور کوچنگ سینٹر ہوا کرتے تھے  دہلی کالج کریم آباد  کمپری ہنسیو  اسکول  کے اساتذہ  کی      تعلیمی خدما ت کے بغیر  ہمارے طالب علم نامور ہو ہی نہیں سکتے تھے  ان اساتذہ نے ہمارے قوم کے بچوں  تراشہ  'سنوارا  اور ان کو مستقبل کا معمار بنا دیا اور بلا شبہ بچوں نے بھی ان کی محنت کا بھر پور صلہ دیا-انہوں نے بہترین رزلٹ کے لئے  اپنے کھیلنے کی شامیں کوچنگ سینٹرز کو دے  دیں 


   اب کچھ ضلع وسطی کی آبادیوں کے بارے میں   قیام پاکستان کے وقت  شہر سے  گزرنے والی  حب ندی کے کنارے  آبادی صرف تین ہٹی تک تھی  پھر جو مہاجروں کا سیلاب بے کراں وارد ہوا  تو  آبادی لالو کھیت نمبر دس تک آ پہنچی ۔ سنہء 1953 وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ    کے بینر تلے     بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے "منصورہ" کے نام سے مختلف قطعات پر مشتمل ایک عظیم رہائشی منصوبہ تشکیل دیا ۔جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ منصورہ کے بجائے فیڈرل بی ایریا کے نام سے زیادہ معروف ہوگیا اس رہائشی منصوبے کا باقاعدہ آغاز صدر پاکستان کے حکم نمبر ۵مجریہ دسمبر ۱۹۵۷کے تحت قائم کئے جانے والے ادارہ ترقیات کراچی کو سونپا گیا تھا اس وقت یہ ادارہ  کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ ، کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ ۔پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ ، اور وزارت بحالیات کا جانشین تھا فیڈرل بی ایریا کا رقبہ  ہزاروں ایکڑ پر ہے اور کئ ہزار قطعات پر مشتمل ہے 


یہ قطعات 120 گز سے لیکر ایک ہزار گز تک ہیں ان میں سے 353قطعات صنعتی علاقے کے لئے اور  707قطعات تجارتی مراکز کیلئے اور ۱۰۱قطعات شہری سہولتوں کے لئے مختص کئے گئے تھے    ۔1985   میں علاقے کے نوجوانوں نے فیڈرل بی ایریا کا نام گلستان مصطفی رکھنے کی تحریک چلائی تھی -اس وسیع علاقہ کو بھی دارالحکومت کے لحاظ سے بسایا گیا تھا ۔ لیکن 1960 میں کراچی کے بجائے اسلام آباد کو دارالحکومت کا درجہ دینے کے باعث یہ علاقہ وہ مقام نہ پاسکا جس مقصد کے تحت اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے بسایا گیا تھا۔ فیڈرل بی ایریا  کو انتظامی لحاظ سے 22مختلف بلاکوں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جس میں بلاک21/22 صنعتی علاقوں کی حیثیت سے مختص ہیں۔اس کے علاوہ یہان 102سوسائٹیاں بھی ہین جن میں الاعظم ، کریم آباد، دستگیر کالونی ،عزیز آباد نمایاں ہین کے ڈی اے اسکیم نمبر ۱۶فیڈرل بی ایریا میں بلاک نمبر ۱اور 2میں پہلے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا


یہان ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے  گز120کے  مکانات تعمیر کئے گئے تھے دوکمروں باورچی خانہ ،غسل خانہ اور بیت الخلاء پر مشتمل کوارٹر کی قیمت پہلے 7500اور پھر کم کرکے5500کردی گئی تھی بلاک نمبر ایک کے مکانات ایک پرائیوٹ تعمیراتی  کمپنی نے تیار کئے تھے اس کمپنی کے مالک شریف چوہان اسی علاقے کے رہائشی تھے لہذ ا انھوں نے 1966میں ازخود اس  کا نام  شریف آباد رکھ دیا ابتداء میں صرف ان کے بنائے ہوئے مکانات ہی اس نام سے پہچانے جاتے تھے پھر آہستہ آہستہ اس نام سے پورا علاقہ مشہور ہوگیا  انچولی (انگریزی: Ancholi)، پاکستان کا ایک رہائشی علاقہ جو کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے، یہ رہائشی علاقہ ضلع وسطی میں شامل ہے اور گلبرگ ٹاؤن کا بھی حصہ تھا۔


فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی

 فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی' یہ میرا   تجزیہ نہیں بلکہ کراچی میں تعلیم کا اوسط نکالنے والی ٹیم کا کہنا ہے  -میرے شوہر بتاتے تھے کہ جب پاکستان بن  چکا اور  ان کے خاندان کو جانیں بچانے کے لئے پاکستان وارد ہوئے  'اس وقت  میرے شوہر کی عمر دس برس تھی اور وہ پانچویں جماعت کے انگلش اسکول میں پڑھ رہے تھے  لیکن  پاکستان آنے کے بعد ان  کا  داخلہ بھی نہیں کیا جاسکا  کیونکہ اب گھر بھر کی کفالت  کے لئے میرے شوہر کو کریانہ کی  دکان سنبھالنی پڑی  اس دوران میرے شوہر کی والدہ  ہجرت کی افتاد برداشت  نہیں کر سکیں اور ہجرت کے  دو برس بعد  ہی خدا کے گھر چلی گئیں لیکن اپنی آخری سانس سے پہلے انہوں نے میرے شوہر کو اپنے پاس بلایا  اور سونے کے  وہ دو گنگن    جنہیں وہ بچا کر ساتھ لائیں تھیں  ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے وصیت کی کہ ان کنگنوں کی لاج رکھنا اور  انہیں بیچ کر  اسکول میں داخلہ لے لینا -میرے شوہر نے ان کی وصیت کی لاج رکھی اور خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ پروفیشنل تعلیم دلوائ


    اگست  1947 میں قیام  پاکستان  کے وقت مختلف ہندوستانی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم مہاجرین نوزائیدہ ملک پاکستان ہجرت کرکے آئے۔  ہندوستان  میں پنجاب سے  ہجرت   کر کے آنے والے پاکستان کے پنجاب میں آباد ہوئے جبکہ تھر پار کر سے آ نے والے کراچی  میں  آباد ہوئے    ان دنوں شہر کراچی میں  ایک لاکھوں مہاجرین    نے بے سر و سامانی کے عالم   میں سر چھپانے کے لئے  جھگیوں   سے اپنے نشیمن بنا کر ان میں  پناہ لی   - لیکن  یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے  اپنی بے سروسانی کے باوجود  مہاجرین نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ  دی  اس خصوصی توجہ کا یہ ثمر کہ آج الحمد للہ مہاجروں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے -اور انکی تعلیم میں اس دور کے تمام اسا تذہء کرام کا -بھرپور کردار ہے جنہوں نے رنگ نسل کے امتیاز کے بغیر ہماری نسلوں کی تعلیمی آبیاری کی علی کوچنگ سنٹر سیفی کوچنگ سینٹر  عزیز آباد کے علاقے کے نامور کوچنگ سینٹر ہوا کرتے تھے  دہلی کالج کریم آباد  کمپری ہنسیو  اسکول  کے اساتذہ  کی      تعلیمی خدما ت کے بغیر  ہمارے طالب علم نامور ہو ہی نہیں سکتے تھے  ان اساتذہ نے ہمارے قوم کے بچوں  تراشہ  'سنوارا  اور ان کو مستقبل کا معمار بنا دیا اور بلا شبہ بچوں نے بھی ان کی محنت کا بھر پور صلہ دیا-انہوں نے بہترین رزلٹ کے لئے  اپنے کھیلنے کی شامیں کوچنگ سینٹرز کو دے  دیں 


   اب کچھ ضلع وسطی کی آبادیوں کے بارے میں   قیام پاکستان کے وقت  شہر سے  گزرنے والی  حب ندی کے کنارے  آبادی صرف تین ہٹی تک تھی  پھر جو مہاجروں کا سیلاب بے کراں وارد ہوا  تو  آبادی لالو کھیت نمبر دس تک آ پہنچی ۔ سنہء 1953 وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ    کے بینر تلے     بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے "منصورہ" کے نام سے مختلف قطعات پر مشتمل ایک عظیم رہائشی منصوبہ تشکیل دیا ۔جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ منصورہ کے بجائے فیڈرل بی ایریا کے نام سے زیادہ معروف ہوگیا اس رہائشی منصوبے کا باقاعدہ آغاز صدر پاکستان کے حکم نمبر ۵مجریہ دسمبر ۱۹۵۷کے تحت قائم کئے جانے والے ادارہ ترقیات کراچی کو سونپا گیا تھا اس وقت یہ ادارہ  کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ ، کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ ۔پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ ، اور وزارت بحالیات کا جانشین تھا فیڈرل بی ایریا کا رقبہ  ہزاروں ایکڑ پر ہے اور کئ ہزار قطعات پر مشتمل ہے 


یہ قطعات 120 گز سے لیکر ایک ہزار گز تک ہیں ان میں سے 353قطعات صنعتی علاقے کے لئے اور  707قطعات تجارتی مراکز کیلئے اور ۱۰۱قطعات شہری سہولتوں کے لئے مختص کئے گئے تھے    ۔1985   میں علاقے کے نوجوانوں نے فیڈرل بی ایریا کا نام گلستان مصطفی رکھنے کی تحریک چلائی تھی -اس وسیع علاقہ کو بھی دارالحکومت کے لحاظ سے بسایا گیا تھا ۔ لیکن 1960 میں کراچی کے بجائے اسلام آباد کو دارالحکومت کا درجہ دینے کے باعث یہ علاقہ وہ مقام نہ پاسکا جس مقصد کے تحت اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے بسایا گیا تھا۔ فیڈرل بی ایریا  کو انتظامی لحاظ سے 22مختلف بلاکوں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جس میں بلاک21/22 صنعتی علاقوں کی حیثیت سے مختص ہیں۔اس کے علاوہ یہان 102سوسائٹیاں بھی ہین جن میں الاعظم ، کریم آباد، دستگیر کالونی ،عزیز آباد نمایاں ہین کے ڈی اے اسکیم نمبر ۱۶فیڈرل بی ایریا میں بلاک نمبر ۱اور 2میں پہلے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا


یہان ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے  گز120کے  مکانات تعمیر کئے گئے تھے دوکمروں باورچی خانہ ،غسل خانہ اور بیت الخلاء پر مشتمل کوارٹر کی قیمت پہلے 7500اور پھر کم کرکے5500کردی گئی تھی بلاک نمبر ایک کے مکانات ایک پرائیوٹ تعمیراتی  کمپنی نے تیار کئے تھے اس کمپنی کے مالک شریف چوہان اسی علاقے کے رہائشی تھے لہذ ا انھوں نے 1966میں ازخود اس  کا نام  شریف آباد رکھ دیا ابتداء میں صرف ان کے بنائے ہوئے مکانات ہی اس نام سے پہچانے جاتے تھے پھر آہستہ آہستہ اس نام سے پورا علاقہ مشہور ہوگیا  انچولی (انگریزی: Ancholi)، پاکستان کا ایک رہائشی علاقہ جو کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے، یہ رہائشی علاقہ ضلع وسطی میں شامل ہے اور گلبرگ ٹاؤن کا بھی حصہ تھا۔


انچولی شاہراہ پاکستان کے نزدیکی علاقے فیڈرل بی ایریا بلاک 17 اور 20 کو کہا جاتا ہے۔ ان دونوں بلاکس کے درمیان انچولی روڈ بھی واقع ہے، جو شاہراہ پاکستان سے النور موڑ کو جاتی ہے۔ انچولی روڈ پر شاہراہ پاکستان کے سرے پر انچولی بس اسٹاپ ہے جبکہ دوسرے سرے پر النور موڑ ہے۔ عام طور پر انچولی کا نام فیڈرل بی ایریا بلاک 20 کو دیا جاتا ہے، لیکن اہلیانِ بلاک 20 اپنے علاقے کا نام سادات سوسائٹی بتاتے ہیں۔ ۲ کا نام مولانا محمد علی جوہر کے نام ہر جوہر آباد ہوگیا بلاک نمبر ۳کا نام حسین آباد "حسین ٹیکسٹائل مل کے گجراتی مالک حسین سیٹھ کے نام پر رکھ دیا گیا اسی طرح بلاک۲ اور آٹھ نمبر کا نام عزیز آباد کے ڈی اے کے ممبر لینڈ عزیزالحق  تھانوی کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے اس بستی کو بسانے میں بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا عزیز الحق تھانوی ممتاز عالم دین جامع مسجد جیکب لائن کے خطیب وامام احتشام الحق تھانوی کے عزیز تھے عزیز الحق تھانوی کا انتقال دسمبر 1975 میں انکی نماز جنازہ احتشام الحق تھانوی نے پڑھائی ۔



 اسی طرح بلاک نمبر 9،14اور 15کی دستگیر کالونی کہلاتی ہے ان علاقون میں مکانات تعمیر کرنے والے ادارے کانام  دستگیر کوآپریٹیو سوسائٹی تھا اور  ان کی کنسٹرکشن کمپنی کا نام دستگیر کنسٹرکشن کمپنی تھا جو پیران پیر دستگیر حضرت عبدالقادر جیلانی رح  کے نام سے منسوب کیا گیا تھا 1966کے بعد گلبرگ،سمن آباد، نصیر آباد، انچولی وغیرہ نام رکھے گئے 1970میں بلاک 16فیڈرل ایریا میں الاعظم لمٹیٹڈ نے یوسف پلازہ کے نام سے ایک بڑا رہائشی منصوبہ شروع کیا تھا ۔31سال قبل1985 میں  یہان معروف سماجی شخصیت مولانا عبدالستار ایدھی نے ایدھی میت خانہ ، غسل خانہ قائم کیا تھا فیڈرل بی ایریا کی مرکزی شاہراہ پاکستان ( سپر ہائی وے) کا شمار ملک کی قومی شاہراہ میں ہوتا ہے۔ اس سڑک کا افتتاح 29؍ اپریل  1970ء کو سابق صدر مملکت یحییٰ خان نے کیا تھا 


افتتاحی تقریب  میں گورنر مغربی پاکستا ن لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان ، وزیر صنعت حفیظ الدین، کمشنر کراچی مسعود نبی نور۔ڈپٹی کمشنر کنور ادریس، ڈی آئی جی پولیس محمد یوسف سمیت چاروں مسلح افواج کے سربراہان شریک تھے۔ افتتاحی تقریب کے بعد شاہراہ پاکستان کو کراچی اور حیدرآباد کے درمیان عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا تھا . سڑک لیاقت آباد نمبر ۱۰ مسجد شہدا سے شروع ہوکر براستہ کریم آباد، عائشہ منزل، واٹر پمپ، انچولی سوسائٹی سہراب گوٹھ پرختم ہوتی ہے۔ سہراب گوٹھ الاآصف اسکوائر سے حیدرآباد کے درمیان گزرنے والی سپر ہائی وےکو ایم نائین کا نام دیا گیا ہے ۔ شاہراہ پاکستان پر کریم آباد ،واٹر پمپ ، عائشہ منزل اور سہراب گوٹھ کے مقام پر فلائی اوور تعمیر کئے گئے ہیں شہر میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے، قوانین پر عمل اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس نے شہر میں واٹر ٹینکرز اور آئل ٹینکرز کو رات ۹ بجے سے صبح ۶ بجے تک جب کہ دیگر ہیوی ٹریفک رات  سے صبح ۶ بجے تک چلائے جانے کا قانون بنایا تھا لیکن اس  پر عمل درآمد نہیں ہوسکا      


 پورے ضلع وسطی کا ایک  منفرد گراؤنڈ   ہوتا تھا جس کو سنگم گراؤنڈ کہا تھا  - اپنے ماضی میں اتوار کے دن   علاقے کے نوجوان سنگم گراؤنڈ میں کر کٹ کھیلتے تھے -سابقہ مکہ چوک، اور اب لیاقت علی خان چوک، سے تھوڑے فاصلے پر واقع 3200 سکوائر میٹر پر پھیلا یہ میدان ماضی میں سنگم سپورٹس کرکٹ کلب کے نام سے منسوب  تھا -     ۔اس گراؤنڈ میں  ایک دن کے لئے   کئ سو دکانوں کا سستا بدھ بازار بھی لگتا تھا      -پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما و سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین نے ضلع وسطی میں 6پارکوں کا افتتاح کر دیااخوت فیملی پارک کے افتتاح کے بعد بلدیہ وسطی کے محکمہ باغات کی جانب سے تعمیرِ نو کے بعد بحال کئے جانے والے باغات کی گولڈن جوبلی ہوگئی اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ سیاست سے بالا تر ہوکر ضلع وسطی کی خدمت کر رہا ہوں عوام بھی ضلع کی بحالی کے کاموں میں تعاون کریں،


پیپلز پارٹی عوامی جماعت ہے اور عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود اس کا اوّلین ہدف ہے انہوں نے کہا کہ ضلع وسطی میں نتیجہ خیز منصوبوں اور خدمات پر ڈپٹی کمشنر طہٰ سلیم خراجِ تحسین کے مستحق ہیں اس موقع پر طحہٰ سلیم نے ڈاکٹر عاصم کی جانب سے ضلع وسطی کے عوام اور بلدیہ وسطی کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے تعاون پرشکریہ ادا کیابعد ازاں ڈاکٹر عاصم حسین نے ڈپٹی کمشنر و ایڈمنسٹریٹر ضلع وسطی طحہٰ سلیم کے ہمراہ بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار و شہنشاہ غزل مہدی حسن کے نو تعمیر مقبرے پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی اور مہدی حسن کے لواحقین سے ملاقات بھی کی۔افتتاح کیے جانے والے پارکس میں راہ عمل پارک ناظم آباد نمبر3،رانی باغ نارتھ ناظم آباد بلاک H،عثمان غنی پارک گلبرگ بلاک 9،شریف شہید پارک سیکٹر 5E نیو کراچی، اخوت فیلمی پارک ناظم آباد نمبر1،KDA چورنگی پارک نارتھ ناظم آباد اور بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار مہدی حسن کے مقبرے کی تعمیر نو بھی شامل ہیں۔

 

اتوار، 11 مئی، 2025

حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ اور راہب اعظم part-2

 


راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو 

بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حوالہ 

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم :وہ بارہ جن کا تیرھواں نا ہو 

با یزید: یہ ازل سے سال کے بارہ مہینے ہیں  ربّ جلیل نے سورہء توبہ میں جن کا زکر کیا ہے

راہب اعظم :وہ تیرہ جن کا چودھواں نا ہو

بایزید : وہ حضرت یوسف علیہ السّلام  کا خواب ہئے سورہ یوسف کی آئت نمبر 4کا  حوالہ

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں ) 

راہب اعظم : وہ قوم کونسی ہے جو جھوٹی ہونے کے باوجود جنّت میں جائے گی

بایزید : وہ قوم حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی ہیں جن کو پروردگارعالم نے معاف کر دیا

راہب اعظم : وہ سچّی قوم کون سی ہئے جو سچّی ہونے کے باوجود دوزخ میں جائے گی

بایزید: وہ قوم یہود نصا ریٰ کی قوم ہئے سورہ بقرہ آئت نمبر113

 راہب اعظم:  انسان کا نام  اس کے جسم میں کہاں رہتا ہے

بایزید :  انسان کےنام کا قیام  اس کے کانوں میں رہتا ہے

  راہب اعظم :  وَا لذّٰ ر یٰتِ ذَ رٴ وً ا ۃ کیا ہیں

با یذید : وہ چار سمتوں سے چلے والی ہوائیں ہیں شرقاً ،غرباً،شمالاً ،جنوباً

  سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 1

 راہب اعظم:  فَا ٴلحٰمِلٰتِ وِقرًا کیا ہیں

بایزید :  وہ وہ پانی بھرے بادلوں کو اپنے جلو میں لے کر بارش برسانے والی ہو ائیں ہیں   سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 2 

 راہب اعظم  فَا ٴلجٰر یٰت یُسرًا ۃ کیا ہیں

با یزید : ( پھر بادلو ں کو اٹھا کر ) آہستہ آہستہ چلتی  ہیں سورہ و الزّا ریات آئت نمبر  3

     راہب اعظم: فَالمقسّمات امراً کیا ہیں 

بایزید :(یہ رب کریم کی جانب سے بارش کی تقسیم ہئے )،ہواؤں کو جہاں حکم ہوتا ہئے و ہیں جاکر بادلو ں کو ٹہرا کر(بارش تقسیم کرتی) برسا تی ہیں

  راہب اعظم: وہ کیا ہے جو بے جان ہو کر بھی سانس لیتی ہے 

بایزید: وہ صبح ہے جس کا زکر قران نے اس طرح کیا ہے

وا لصّبح اذ اتَنفّسَ

 سورہ تکویر آئت نمبر 81

راہب اعظم : وہ چودہ جنہوں نے ربّ جلیل سے گفتگو کی 

بایزید: وہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں  )

راہب اعظم : وہ قبر جو اپنے مقبور کو اپنے ہمراہ لے کر چلی 

بایزید : وہ حضرت یونس علیہ السّلا م کو نگل لینے والی مچھلی تھی 

 راہب اعظم : وہ پانی جو نا تو زمین سے نکلا نا آسمان سے برسا

بایزید: وہ ملکہ بلقیس کے گھوڑوں کا پسینہ تھا جسے ملکہ نے گھوڑوں سے حاصل کر کے بطور تحفہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو بھجوایا تھا

راہب اعظم : وہ چار جو پشت پدر سے اور ناشکم مادر سے پیدا ہوئے 

بایزید: وہ حضرت آدم علیہا لسّلام اور بی بی حوّا اور ناقہ ء صالح علیہ ا لسّلام اور دنبہ بعوض

حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام 

راہب اعظم: پہلا خون جو زمین پر بہا گیا 

بایزید : وہ ہابیل کا خون تھا جو قابیل نے بہایا تھا

راہب اعظم : وہ جس کو پیدا کر کے خدا نے خود خرید لیا اور پھر اس کی عظمت بیان کی

 با یزید: وہ مومن کی جان ہئے جس کے لئے اللہ خود خریدار بن گیا     

 اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر

خرید لئے ہیں کہ کہ ان کی قیمت ان کے لئے بہشت ہئے سورہ توبہ آئت نمبر 111 

   راہب اعظم: وہ کون سی محرمات ساری دنیا کی محرمات سے افضل ہیں 

بایزید : بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا ،بی بی فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا ، بی بی آسیہ سلام اللہ علیہا و بی بی مریم سلام اللہ علیہاہیں 

   راہب اعظم : اب میں تم سے سوال کر رہا ہوں کہ بلبل اپنی زبان میں کیا کہتی ہئے 

بایزید: بلبل کہتی ہے فَسُبحٰنَ اللہِ حِینَ  تُمسُو نَ وَ حِینَ تُصبِحُو نَ ْراہب اعظم : اونٹ کیا کہتا ہے

بایزید : حَسبِی اللہُ وَ کفیٰ بِا للہِ وَکِیلاَ

راہب اعظم : بتاؤ گھوڑا کیا کہتا ہے

بایزید : سُبحانَ حافِظی اذا اثقلت الابطالراہب اعظم :مور کیا کہتا ہے 

بایزید:الرّحمٰن علی العرش الستویٰ راہب اعظم :  مینڈک کیا کہتا ہئے

  بایزید:سُبحا ن المعبود فی البراری وا لقفار سبحان الملک الجبّار سور ہ نحلراہب اعظم :کتّا بھونکتے وقت کیا کہتا ہے 

 بایزید : وَیلُن( دو پیش کی آواز سے پڑھیں )

 راہب اعظم :گدھا ہینکتے وقت کیا کہتا ہئے 

 بایزید : لعن اللہ العشار

 راہب اعظم :چاند لگاتار تین راتیں کہاں غائب رہتا ہے 

 بایزید : یہ بھی غامض میں جاکر رب جلیل کے حضور سجدہ ریز رہتا ہے اور پھر طلوع ہوتا ہےراہب اعظم : طامّہ کیا ہے

بایزید :قیامت کا دن ہئے

راہب: اعظم :طمّہ و رمّہ  کیا ہئے 

بایزید: یہ حضرت آدم علیہالسّلام سے قبل کی مخلوقات تھیں

راہب اعظم: سبد و لبد کیا ہئے 

یہ بھیڑ و بکری کے بال کہے جاتے ہیں 

راہب اعظم :ناقوس بجتا ہئے تو کیا کہتا ہئے بایزید:سبحان اللہ حقّاً حقّاً انظر یا بن آدم فی ھٰذا الدّنیا غرباً شرقاً ما تریٰ فیھا امراً یبقیٰ   راہب اعظم : وہ قوم کو ن سی ہئے جس پر اللہ تعالٰی نے وحی بھیجی جو ناتو انسان ہئے ناہی جن ہئے اور ناہی فرشتہ ہئےبایزید : وہ شہد کی مکھّی ہئے سورہ نحل میں جس کا تذکرہ ہئے وہ کون سی بے روح شئے ہئے جس پر حج فرض بھی نہیں تھا پھر بھی اس نے طواف کعبہ بھی کیا اور حج بھی کیابایزید: وہ کشتئ نوح علیہ السّلام ہئے جس نے پانی کے اوپر چلتے ہوئےہی حج کے ارکان ادا کئے راہب اعظم : قطمیر کیا ہئے?بایزید کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو غلاف ہوتا ہئے اس کو قطمیر کہتے ہیں-راہب اعظم : نقیر کسے کہتے ہیںبایزید :کھجور کی گٹھلی کی پپشت پر جو نقطہ ہوتا ہئے اس کو نقیر کہتے ہیںراہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہےراہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہےبایزید: آنکھون کا پانی نمکین ہوتا ہے

 جبکہ ناک کا پانی ترش ہئے اور منہ کا پانی میٹھا ہئے اورکانوں کا پانی کڑوا ہے اور ان چاروں کا مرکز مغز ہے جو کاسہء سر میں بند ہے      راہب اعظم :جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے اور جب رات چلی آتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہےبایزید : رات اور دن لگاتار اللہ تعالیٰ کے غامض میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کسی کی بھی رسائ نہیں ہے راہب اعظم : ایک درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتّے ہیں ہر پتّے پر پانچ پھول ہیں ،دو پھول دھوپ کے ہیں اور تین پھول سائے میں ہیں بایزید: ا ئے راہب اعظم وہ جو تم نے درخت پوچھا تو وہ ایک سال کی مدّت ہےاس کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینے کے تیس دن ہیں ہر دن کی پانچ نمازیں ہیں دو دھوپ کے وقت پڑھی جاتی ہیں تین سائے کے وقت پڑھی جاتی ہیں

راہب اعظم: بتاؤ نبی کتنے ہیں اور رسول اور غیر رسول میں کیا فرق  ہے 

بایزید : تین سو تیرہ رسول ہیں باقی نبی ہیں    راہب اعظم بہشت کی اور آسمانوں کی کنجیا ں کن کو کہا گیا ہئے بایزید: وہ اللہ کے مقرّب ترین بندے پنجتن پاک حضرت رسول خدا محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسلّم آپ (صلعم )کی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاان کے شوہر حضرت علی علیہ ا لسلام  ان کے دونوں بیٹےحضرت  امام حسن علیہالسّلام  اور امام حسین علیہالسّلام  ہیں  اور جب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے راہب اعظم کی گفتگو تمام ہوئی تو وہ بایزید کے دست حق پرست پر اپنے پانچ سو ما تحت راہبوں کے ہمراہ دین اسلام پر ایمان لے آیا اس طرح ندائے غیبی کی وہ بات پوری ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا--- ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر