بدھ، 14 مئی، 2025

فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی

 فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی' یہ میرا   تجزیہ نہیں بلکہ کراچی میں تعلیم کا اوسط نکالنے والی ٹیم کا کہنا ہے  -میرے شوہر بتاتے تھے کہ جب پاکستان بن  چکا اور  ان کے خاندان کو جانیں بچانے کے لئے پاکستان وارد ہوئے  'اس وقت  میرے شوہر کی عمر دس برس تھی اور وہ پانچویں جماعت کے انگلش اسکول میں پڑھ رہے تھے  لیکن  پاکستان آنے کے بعد ان  کا  داخلہ بھی نہیں کیا جاسکا  کیونکہ اب گھر بھر کی کفالت  کے لئے میرے شوہر کو کریانہ کی  دکان سنبھالنی پڑی  اس دوران میرے شوہر کی والدہ  ہجرت کی افتاد برداشت  نہیں کر سکیں اور ہجرت کے  دو برس بعد  ہی خدا کے گھر چلی گئیں لیکن اپنی آخری سانس سے پہلے انہوں نے میرے شوہر کو اپنے پاس بلایا  اور سونے کے  وہ دو گنگن    جنہیں وہ بچا کر ساتھ لائیں تھیں  ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے وصیت کی کہ ان کنگنوں کی لاج رکھنا اور  انہیں بیچ کر  اسکول میں داخلہ لے لینا -میرے شوہر نے ان کی وصیت کی لاج رکھی اور خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ پروفیشنل تعلیم دلوائ


    اگست  1947 میں قیام  پاکستان  کے وقت مختلف ہندوستانی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم مہاجرین نوزائیدہ ملک پاکستان ہجرت کرکے آئے۔  ہندوستان  میں پنجاب سے  ہجرت   کر کے آنے والے پاکستان کے پنجاب میں آباد ہوئے جبکہ تھر پار کر سے آ نے والے کراچی  میں  آباد ہوئے    ان دنوں شہر کراچی میں  ایک لاکھوں مہاجرین    نے بے سر و سامانی کے عالم   میں سر چھپانے کے لئے  جھگیوں   سے اپنے نشیمن بنا کر ان میں  پناہ لی   - لیکن  یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے  اپنی بے سروسانی کے باوجود  مہاجرین نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ  دی  اس خصوصی توجہ کا یہ ثمر کہ آج الحمد للہ مہاجروں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے -اور انکی تعلیم میں اس دور کے تمام اسا تذہء کرام کا -بھرپور کردار ہے جنہوں نے رنگ نسل کے امتیاز کے بغیر ہماری نسلوں کی تعلیمی آبیاری کی علی کوچنگ سنٹر سیفی کوچنگ سینٹر  عزیز آباد کے علاقے کے نامور کوچنگ سینٹر ہوا کرتے تھے  دہلی کالج کریم آباد  کمپری ہنسیو  اسکول  کے اساتذہ  کی      تعلیمی خدما ت کے بغیر  ہمارے طالب علم نامور ہو ہی نہیں سکتے تھے  ان اساتذہ نے ہمارے قوم کے بچوں  تراشہ  'سنوارا  اور ان کو مستقبل کا معمار بنا دیا اور بلا شبہ بچوں نے بھی ان کی محنت کا بھر پور صلہ دیا-انہوں نے بہترین رزلٹ کے لئے  اپنے کھیلنے کی شامیں کوچنگ سینٹرز کو دے  دیں 


   اب کچھ ضلع وسطی کی آبادیوں کے بارے میں   قیام پاکستان کے وقت  شہر سے  گزرنے والی  حب ندی کے کنارے  آبادی صرف تین ہٹی تک تھی  پھر جو مہاجروں کا سیلاب بے کراں وارد ہوا  تو  آبادی لالو کھیت نمبر دس تک آ پہنچی ۔ سنہء 1953 وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ    کے بینر تلے     بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے "منصورہ" کے نام سے مختلف قطعات پر مشتمل ایک عظیم رہائشی منصوبہ تشکیل دیا ۔جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ منصورہ کے بجائے فیڈرل بی ایریا کے نام سے زیادہ معروف ہوگیا اس رہائشی منصوبے کا باقاعدہ آغاز صدر پاکستان کے حکم نمبر ۵مجریہ دسمبر ۱۹۵۷کے تحت قائم کئے جانے والے ادارہ ترقیات کراچی کو سونپا گیا تھا اس وقت یہ ادارہ  کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ ، کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ ۔پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ ، اور وزارت بحالیات کا جانشین تھا فیڈرل بی ایریا کا رقبہ  ہزاروں ایکڑ پر ہے اور کئ ہزار قطعات پر مشتمل ہے 


یہ قطعات 120 گز سے لیکر ایک ہزار گز تک ہیں ان میں سے 353قطعات صنعتی علاقے کے لئے اور  707قطعات تجارتی مراکز کیلئے اور ۱۰۱قطعات شہری سہولتوں کے لئے مختص کئے گئے تھے    ۔1985   میں علاقے کے نوجوانوں نے فیڈرل بی ایریا کا نام گلستان مصطفی رکھنے کی تحریک چلائی تھی -اس وسیع علاقہ کو بھی دارالحکومت کے لحاظ سے بسایا گیا تھا ۔ لیکن 1960 میں کراچی کے بجائے اسلام آباد کو دارالحکومت کا درجہ دینے کے باعث یہ علاقہ وہ مقام نہ پاسکا جس مقصد کے تحت اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے بسایا گیا تھا۔ فیڈرل بی ایریا  کو انتظامی لحاظ سے 22مختلف بلاکوں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جس میں بلاک21/22 صنعتی علاقوں کی حیثیت سے مختص ہیں۔اس کے علاوہ یہان 102سوسائٹیاں بھی ہین جن میں الاعظم ، کریم آباد، دستگیر کالونی ،عزیز آباد نمایاں ہین کے ڈی اے اسکیم نمبر ۱۶فیڈرل بی ایریا میں بلاک نمبر ۱اور 2میں پہلے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا


یہان ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے  گز120کے  مکانات تعمیر کئے گئے تھے دوکمروں باورچی خانہ ،غسل خانہ اور بیت الخلاء پر مشتمل کوارٹر کی قیمت پہلے 7500اور پھر کم کرکے5500کردی گئی تھی بلاک نمبر ایک کے مکانات ایک پرائیوٹ تعمیراتی  کمپنی نے تیار کئے تھے اس کمپنی کے مالک شریف چوہان اسی علاقے کے رہائشی تھے لہذ ا انھوں نے 1966میں ازخود اس  کا نام  شریف آباد رکھ دیا ابتداء میں صرف ان کے بنائے ہوئے مکانات ہی اس نام سے پہچانے جاتے تھے پھر آہستہ آہستہ اس نام سے پورا علاقہ مشہور ہوگیا  انچولی (انگریزی: Ancholi)، پاکستان کا ایک رہائشی علاقہ جو کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے، یہ رہائشی علاقہ ضلع وسطی میں شامل ہے اور گلبرگ ٹاؤن کا بھی حصہ تھا۔


انچولی شاہراہ پاکستان کے نزدیکی علاقے فیڈرل بی ایریا بلاک 17 اور 20 کو کہا جاتا ہے۔ ان دونوں بلاکس کے درمیان انچولی روڈ بھی واقع ہے، جو شاہراہ پاکستان سے النور موڑ کو جاتی ہے۔ انچولی روڈ پر شاہراہ پاکستان کے سرے پر انچولی بس اسٹاپ ہے جبکہ دوسرے سرے پر النور موڑ ہے۔ عام طور پر انچولی کا نام فیڈرل بی ایریا بلاک 20 کو دیا جاتا ہے، لیکن اہلیانِ بلاک 20 اپنے علاقے کا نام سادات سوسائٹی بتاتے ہیں۔ ۲ کا نام مولانا محمد علی جوہر کے نام ہر جوہر آباد ہوگیا بلاک نمبر ۳کا نام حسین آباد "حسین ٹیکسٹائل مل کے گجراتی مالک حسین سیٹھ کے نام پر رکھ دیا گیا اسی طرح بلاک۲ اور آٹھ نمبر کا نام عزیز آباد کے ڈی اے کے ممبر لینڈ عزیزالحق  تھانوی کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے اس بستی کو بسانے میں بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا عزیز الحق تھانوی ممتاز عالم دین جامع مسجد جیکب لائن کے خطیب وامام احتشام الحق تھانوی کے عزیز تھے عزیز الحق تھانوی کا انتقال دسمبر 1975 میں انکی نماز جنازہ احتشام الحق تھانوی نے پڑھائی ۔



 اسی طرح بلاک نمبر 9،14اور 15کی دستگیر کالونی کہلاتی ہے ان علاقون میں مکانات تعمیر کرنے والے ادارے کانام  دستگیر کوآپریٹیو سوسائٹی تھا اور  ان کی کنسٹرکشن کمپنی کا نام دستگیر کنسٹرکشن کمپنی تھا جو پیران پیر دستگیر حضرت عبدالقادر جیلانی رح  کے نام سے منسوب کیا گیا تھا 1966کے بعد گلبرگ،سمن آباد، نصیر آباد، انچولی وغیرہ نام رکھے گئے 1970میں بلاک 16فیڈرل ایریا میں الاعظم لمٹیٹڈ نے یوسف پلازہ کے نام سے ایک بڑا رہائشی منصوبہ شروع کیا تھا ۔31سال قبل1985 میں  یہان معروف سماجی شخصیت مولانا عبدالستار ایدھی نے ایدھی میت خانہ ، غسل خانہ قائم کیا تھا فیڈرل بی ایریا کی مرکزی شاہراہ پاکستان ( سپر ہائی وے) کا شمار ملک کی قومی شاہراہ میں ہوتا ہے۔ اس سڑک کا افتتاح 29؍ اپریل  1970ء کو سابق صدر مملکت یحییٰ خان نے کیا تھا 


افتتاحی تقریب  میں گورنر مغربی پاکستا ن لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان ، وزیر صنعت حفیظ الدین، کمشنر کراچی مسعود نبی نور۔ڈپٹی کمشنر کنور ادریس، ڈی آئی جی پولیس محمد یوسف سمیت چاروں مسلح افواج کے سربراہان شریک تھے۔ افتتاحی تقریب کے بعد شاہراہ پاکستان کو کراچی اور حیدرآباد کے درمیان عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا تھا . سڑک لیاقت آباد نمبر ۱۰ مسجد شہدا سے شروع ہوکر براستہ کریم آباد، عائشہ منزل، واٹر پمپ، انچولی سوسائٹی سہراب گوٹھ پرختم ہوتی ہے۔ سہراب گوٹھ الاآصف اسکوائر سے حیدرآباد کے درمیان گزرنے والی سپر ہائی وےکو ایم نائین کا نام دیا گیا ہے ۔ شاہراہ پاکستان پر کریم آباد ،واٹر پمپ ، عائشہ منزل اور سہراب گوٹھ کے مقام پر فلائی اوور تعمیر کئے گئے ہیں شہر میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے، قوانین پر عمل اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس نے شہر میں واٹر ٹینکرز اور آئل ٹینکرز کو رات ۹ بجے سے صبح ۶ بجے تک جب کہ دیگر ہیوی ٹریفک رات  سے صبح ۶ بجے تک چلائے جانے کا قانون بنایا تھا لیکن اس  پر عمل درآمد نہیں ہوسکا      


 پورے ضلع وسطی کا ایک  منفرد گراؤنڈ   ہوتا تھا جس کو سنگم گراؤنڈ کہا تھا  - اپنے ماضی میں اتوار کے دن   علاقے کے نوجوان سنگم گراؤنڈ میں کر کٹ کھیلتے تھے -سابقہ مکہ چوک، اور اب لیاقت علی خان چوک، سے تھوڑے فاصلے پر واقع 3200 سکوائر میٹر پر پھیلا یہ میدان ماضی میں سنگم سپورٹس کرکٹ کلب کے نام سے منسوب  تھا -     ۔اس گراؤنڈ میں  ایک دن کے لئے   کئ سو دکانوں کا سستا بدھ بازار بھی لگتا تھا      -پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما و سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین نے ضلع وسطی میں 6پارکوں کا افتتاح کر دیااخوت فیملی پارک کے افتتاح کے بعد بلدیہ وسطی کے محکمہ باغات کی جانب سے تعمیرِ نو کے بعد بحال کئے جانے والے باغات کی گولڈن جوبلی ہوگئی اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ سیاست سے بالا تر ہوکر ضلع وسطی کی خدمت کر رہا ہوں عوام بھی ضلع کی بحالی کے کاموں میں تعاون کریں،


پیپلز پارٹی عوامی جماعت ہے اور عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود اس کا اوّلین ہدف ہے انہوں نے کہا کہ ضلع وسطی میں نتیجہ خیز منصوبوں اور خدمات پر ڈپٹی کمشنر طہٰ سلیم خراجِ تحسین کے مستحق ہیں اس موقع پر طحہٰ سلیم نے ڈاکٹر عاصم کی جانب سے ضلع وسطی کے عوام اور بلدیہ وسطی کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے تعاون پرشکریہ ادا کیابعد ازاں ڈاکٹر عاصم حسین نے ڈپٹی کمشنر و ایڈمنسٹریٹر ضلع وسطی طحہٰ سلیم کے ہمراہ بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار و شہنشاہ غزل مہدی حسن کے نو تعمیر مقبرے پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی اور مہدی حسن کے لواحقین سے ملاقات بھی کی۔افتتاح کیے جانے والے پارکس میں راہ عمل پارک ناظم آباد نمبر3،رانی باغ نارتھ ناظم آباد بلاک H،عثمان غنی پارک گلبرگ بلاک 9،شریف شہید پارک سیکٹر 5E نیو کراچی، اخوت فیلمی پارک ناظم آباد نمبر1،KDA چورنگی پارک نارتھ ناظم آباد اور بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار مہدی حسن کے مقبرے کی تعمیر نو بھی شامل ہیں۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر