تاریخ کی گم گشتہ قوم ''اصحاب الرّ س"
عربی زبان میں کنوئیں کو رس کہتے ہیں 'اس قوم کے پاس پانی کی فراہمی کا کوئ زریعہ نہیں تھا اس لئے انہوں نے پہاڑوں سے نہرین نکال کر ان نہروں کو کنوؤں
سے ملا کر بہترین آبپاشی کا نظام قائم کیا تھا-لیکن اس قوم کے اجتماعی اعما ل و
افعال بہت برے تھے –اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ
قومو ن کے اجتماعی اعمال و افکار ہی ہوتے ہیں جو ان کو زندہ یا مردہ بناتے جاتے ہیں دنیا کے افق سے مٹ جانے والی ایک قوم کا نام قران پاک کے مطابق
اصحاب الرّس تھا ،یہ قوم بت پرست تھی اور درختو ں کی پوجا کرتی تھی اورصنوبر کا درخت ان کے لئے بے حد مقدّس تھا یہ وہ درخت تھا جسے حضرت نوح علیہ
السّلام کے بیٹے یافث نے طوفان نوح علی السّلام کے تھم جانے کے بعد ایک بڑے آ بی زخیرے جس کا نام روشن آب تھااُسے لگایا تھا صنوبر کے درخت کویہ قوم
تمام درختو ں کا بادشاہ کہتے تھے اور پھر اس قوم نے اسی
آ بی زخیرے سے ایک نہر نکال کر اس کے کنارے بارہ شہر اباد کئے تھے جن کے نام ہیں
1۔
آبان2 ۔ازد3۔ رے4۔ بہمن5۔اسفند6۔ فروردین7،،،ارد بہشت
8،،،،خرداد9،،،تیر10،،،،مرداد11،،،شہریور12،،،مہر,,,,ان کے شہروں کے بار ہ ہی بادشاہ ہوتے تھے لیکن گیارہ
بادشاہ بارھویں بادشاہ کے تابع کام کرتے تھے یہ ہر مہینے اپنے اپنے شہر وں میں عید مناتے تھے لیکن اسفند کے مہینے میں
یہ اپنے سب سے بڑے اور مقدّس شہر اسفند جمع ہو کر بارہ دن کی عید مناتے یہ بہت ترقّی یافتہ قوم تھی ان کے شہر بہت خوبصورت تھے جو پتھّر سے تراش کر بنائے جاتے تھے ،ان کی ہر ہر عمارت پتّھر سے تراشیدہ ہوتی تھی
ان کے عید منانے کا طریقہ یہ تھا کہ یہ شہر سے باہر جاکر اپنے لگائے ہوئے صنوبر کے درختو ں کے پاس جا کر آ گ جلاتے اور پھرجانور قربان کر کے اسےآگ
میں ڈال دیتے تھے جب جانور پوری طرح آگ میں جلنے لگتا تو یہ سجدے میں گر جاتے اور خوب رو رو کر درخت کی پو جا کرتے تھےاور سال میں جب ان کے
شہر اسفند کی باری آتی تو وہدرختوں کو خوش کرنے کے لئے خوب خوب جانور زبح کرتے اور درختوں کے آگے سجدے کر تے ہوئے روتے رہتے تھے یہ شہر
ان کے بادشاہوں کی تخت گاہ بھی مانا جاتا تھا-جب وہ کفر کی حدوں سے بھی تب اللہ
تعالٰی نے ان کی فہمائش کے لئے بنی اسرائیل سے ایک نبی علیہ السّلام کو بھیجا وہ
نبی اللہ کے آنے پر اور بھی زور آور ہو گئے ،
در اصل وہ اپنی عادتوں کے اس قدر خوگرہو گئے تھے کہ اس سے دست بردار ہونے کو تیّار ہی نہیں تھے چنا نچہ نبی اللہ نے ان کے درختوں کو بد دعا دی جس کے
سبب سارے درخت سوکھ گئے اور وہ قوم کہنے لگی کہ نعو ذو باللہ )اس شخص نے ہمارے درختوں پر جادو کر دیا ہئے اور انہون نے نبی اللہ کو ایک گہرے کنوئیں
میں ڈال کر بند کر دیا اور اس پر خود بیٹھ گئے ،نبی اللہ کنوئیں کے اندر سے آہ بکا کرتے رہے لیکن انہون نے ان کی فریاد نا سنی اور نبی اللہ بالآخر اللہ کو پیارے ہو
گئے اس قوم کو اللہ تعا لٰی نے یہ سزا دی کہ ان کے پانی کے زخائر کو پانی بند کر دیا ظاہر ہے کہ دنیا کی ہر زندہ شئے پانی کی بنیاد پر اپنا وجود رکھتی ہے اس لئے جب
ان کے پانی کے زخائر سوکھے تودرخت بھی سوکھ
گئے اور وہ بھی ہلاک ہو گئے