بدھ، 11 اگست، 2021

زرا زمین میں چل پھر کے تو دیکھو-القران

 

  تاریخ کی گم گشتہ قوم ''اصحاب الرّ س"

عربی زبان میں کنوئیں کو رس کہتے ہیں 'اس قوم کے پاس پانی  کی فراہمی کا کوئ زریعہ نہیں تھا اس لئے انہوں نے پہاڑوں سے نہرین نکال کر ان نہروں کو کنوؤں

 سے ملا کر بہترین آبپاشی کا نظام قائم   کیا تھا-لیکن اس قوم کے اجتماعی اعما ل و افعال بہت برے تھے –اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ

قومو ن کے اجتماعی اعمال و افکار ہی ہوتے ہیں جو ان کو زندہ یا مردہ بناتے جاتے ہیں دنیا کے افق سے مٹ جانے والی ایک قوم کا نام قران پاک کے مطابق

 اصحاب الرّس تھا ،یہ قوم بت پرست تھی اور درختو ں کی پوجا کرتی تھی اورصنوبر کا درخت ان کے لئے بے حد مقدّس تھا یہ وہ درخت تھا جسے حضرت نوح علیہ

 السّلام کے بیٹے یافث نے طوفان نوح علی السّلام کے تھم جانے کے بعد ایک بڑے آ بی زخیرے جس کا نام روشن آب تھااُسے لگایا تھا صنوبر کے درخت کویہ قوم

 تمام درختو ں کا بادشاہ کہتے تھے اور پھر اس قوم نے اسی آ بی زخیرے سے ایک نہر نکال کر اس کے کنارے بارہ شہر اباد کئے تھے جن کے نام ہیں

1۔ آبان2 ۔ازد3۔ رے4۔ بہمن5۔اسفند6۔ فروردین7،،،ارد بہشت

8،،،،خرداد9،،،تیر10،،،،مرداد11،،،شہریور12،،،مہر,,,,ان کے شہروں کے بار ہ ہی بادشاہ ہوتے تھے لیکن گیارہ

 بادشاہ بارھویں بادشاہ کے تابع کام کرتے تھے یہ ہر مہینے اپنے اپنے شہر وں میں عید مناتے تھے لیکن اسفند کے مہینے میں

 یہ اپنے سب سے بڑے اور مقدّس شہر اسفند جمع ہو کر بارہ دن کی عید مناتے یہ بہت ترقّی یافتہ قوم تھی ان کے شہر بہت خوبصورت تھے جو پتھّر سے تراش کر بنائے جاتے تھے ،ان کی ہر ہر عمارت پتّھر سے تراشیدہ ہوتی تھی

ان کے عید منانے کا طریقہ یہ تھا کہ یہ شہر سے باہر جاکر اپنے لگائے ہوئے صنوبر کے درختو ں کے پاس جا کر آ گ جلاتے اور پھرجانور قربان کر کے اسےآگ

 میں ڈال دیتے تھے جب جانور پوری طرح آگ میں جلنے لگتا تو یہ سجدے میں گر جاتے اور خوب رو رو کر درخت کی پو جا کرتے تھےاور سال میں جب ان کے

 شہر اسفند کی باری آتی تو وہدرختوں کو خوش کرنے کے لئے خوب خوب جانور زبح کرتے اور درختوں کے آگے سجدے کر تے ہوئے روتے رہتے تھے یہ شہر

 ان کے بادشاہوں کی تخت گاہ بھی مانا جاتا تھا-جب وہ کفر کی حدوں سے بھی تب اللہ تعالٰی نے ان کی فہمائش کے لئے بنی اسرائیل سے ایک نبی علیہ السّلام کو بھیجا وہ نبی اللہ کے آنے پر اور بھی زور آور ہو گئے ،

در اصل وہ اپنی عادتوں کے اس قدر خوگرہو گئے تھے کہ اس سے دست بردار ہونے کو تیّار ہی نہیں تھے چنا نچہ نبی اللہ نے ان کے درختوں کو بد دعا دی جس کے

 سبب سارے درخت سوکھ گئے اور وہ قوم کہنے لگی کہ نعو ذو باللہ )اس شخص نے ہمارے درختوں پر جادو کر دیا ہئے اور انہون نے نبی اللہ کو ایک گہرے کنوئیں

 میں ڈال کر بند کر دیا اور اس پر خود بیٹھ گئے ،نبی اللہ کنوئیں کے اندر سے آہ بکا کرتے رہے لیکن انہون نے ان کی فریاد نا سنی اور نبی اللہ بالآخر اللہ کو پیارے ہو

 گئے اس قوم کو اللہ تعا لٰی نے یہ سزا دی کہ ان کے پانی کے زخائر کو پانی بند کر دیا ظاہر ہے کہ دنیا کی ہر زندہ شئے پانی کی بنیاد پر اپنا وجود رکھتی ہے اس لئے جب

 ان کے پانی کے زخائر سوکھے تودرخت بھی سوکھ گئے اور وہ بھی ہلاک ہو گئے


منگل، 10 اگست، 2021

قطب شاہی والئ دکن اہل تشیع نہیں تھے

 

ہندوستان میں شیعت کی بات ہو گی تو قطب شا ہی خاندان کے حکمرانوں کو تزکرہ لازمی ہو گااا

قطب شاہی والئ دکن اہل تشیع نہیں تھے لیکن انہون نے اہل بیت کی تعلیمات کو اس طر ح اپنی زندگی میں سمو لیا تھا کہ وہ سراپا اہل تشیع ہی ہو گئے تھے ماہ محرّم

 کا آغازہوتے ہی ان کے محل میں تمام شاہی خواتین اور حضرات سیاہ ماتمی لباس سے آراستہ ہو جاتے تھے اور سوگ بڑھنے تک سیاہ لباس ہی زیب تن رکھتے تھے 

شہدائے کربلا سے ان کی عقیدت کا وہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی زندگیاں ہی ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر چلنے کے لئے وقف کر دی تھین صرف ماہ محرّم

 کے لئے وہ جو کچھ اہتمام کرتے تھے اس کی تفصیل لکھنے کے لئے تو ایک ضخیم کتاب بھی ناکافی ہو گی محرّم کا چاند نظر آنے سے لے کر بالخصوص عاشور کی شام

 غریباں تک قطب شاہ خود بھی مجالس سننے کے لئے حاضر ہوتے اور تمام اہل دربار کو بھی ساتھ لاتے تھے

سات محرّم سے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوتا تو ان جلوسوں میں بھی بنفس نفیس شریک ہوتے تھے اور صبح عاشور کے علم تعزیہ کے جلوس میں برہنہ پاء جلوس

 کے ہمراہ چلتے تھے اس جلوس میں شہدائے کربلا کے تبرّکات ہاتھی کی پشت پر ہودج مین سجا کر زیا رت عام کے لئے رکھے جاتے تھے یہ تبرّکات کربلا ء سے جو

 حضرت اپنے ہمراہ لائے تھے-حیدر آباد دکن میں ہاتھی پر نکلنے والا بی بی کا الاوہ علم

پرانے شہر کے دارالشفا میں واقع عاشور خانہ" سرطوق" کا شمار ایک تاریخی عاشور خانہ کے طور پر ہوتا ہے۔دکن کےپانچویں پشت کے  قطب شاہ نے اپنے

 دورحکمرانی میں یہ عاشور خانہ تعمیر کروایا گیا تھا-عاشورہ کے موقع پر شہر حیدرآباد میں سب سے اہم علؐم بی بی کا علؐم کہلاتا ہے، جو دختر رسول سیدہ فاطمۃ الزہرا سلا

 م اللہ عنہا کے نام سے موسوم ہے۔اور اسی عاشور خانہ میں امام زین العابدین علیہ السّلام کے طوق کا وہ ٹکڑا موجود ہے جوآپ علیہ السّلام کو طویل قید کے دوران

 پہنا کر قید کیا گیا تھا -اس عاشور خانہ کے قیام سے لے کر آج تک شہروالیء  حیدرآباد میں قائم قلی قطب شاہ کا یہ یادگارجلوس محرم الحرام کے موقع پر نہایت ہی

 عقیدت و احترام سےہاتھی کی پشت پرروز عاشورہ  اور مزید تبرّکات  کے ہمراہ رکھ کر جلوس کی شکل میں اپنے قدیم مقرّرہ راستوں پرپا پیادہ خاص و عام زیارت

 کروائ جاتی ہے ۔حیدرآباد میں بلا لحاظ مذہب و ملت عقیدت مند اپنے اپنے طریقے سے یوم عاشورہ کا اہتمام کرتے ہیں۔

۔یہ عاشور خانہ دواخانہ دارالشفاء کی عمارت میں تعمیر کیا گیا تھا جو اپنی تاریخی اہمیت کے باعث محکمہ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل تھا۔تاہم حکومت  کی جانب

 سے 2017 میں ترمیم کئے جانے کے بعد اسے فہرست سے خارج کردیا گیا جس سے شیعہ برادری میں غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔

محمد قلی قطب شاہ نے بصرف کثیر بادشاہی عاشور خانہ تعمیر کرائی۔ محمد قلی قطب شاہ اپنے نام کے ساتھ خادم اہل بیت (ع) کے الفاظ لکھنا لکھوانا پسند کرتا تھا۔

 قطب شاہی پیشوائے سلطنت میر مومن تھا جو ایام محرم میں شہدائے کربلا ع کے اسمائے گرامی پر علم استادہ کراتا تھا۔ غیر مومن مذہب جعفریہ کی ترویج کے

 لئے ہمہ وقت درمے‘ قدمے سخنے کوشاں رہتا تھا محمد قلی قطب شاہ‘ کا بھتیجا اور داماد سلطان بنا عزاداری کو اس کے عہد میں ترقی ہوئی

کلیات محمد قلی قطب شاہ مرتبہ ڈاکٹر سیدہ جعفر میں اس قصیدے کاعنوان ’عید میلادالنبی‘ دیا گیا ہے ۔ (ص 711) ۔ لیکن یہ قصیدہ بیک وقت نعت بھی ہے اور

 منقبت بھی‘ کیوں کہ اس کے زیادہ تر اشعار میں سرکارِ دوعالم ؐ کی مدح کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہ‘ کی مدح بھی ملتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد قلی

 قطب شاہ اثنائے عشری عقائد کا پیرو تھا ۔کلیات میں ’بعثت نبی صلی اللہ علیہ و سلم‘ کے عنوان سے ایک قصیدے کے صرف دو شعر درج کیے گئے ہیں اور نیچے نوٹ دیا گیا ہے کہ اس کے بعد کے صفحات موجود نہیں ہیں

سلطان محمد قلی قطب شاہ : (1580 – 1611) قطب شاہی سلطنت کے پانچویں سلطان تھے۔ ان کا دارالسلطنت گولکنڈہ تھا۔ انہوں نے حیدرآباد شہر کی تعمیر

 کرکے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا۔ شہر حیدرآباد کو ایرانی شہر اصفہان سے متاثر ہوکر بنوایا گیا۔سلطان محمد قلی قطب شاہ، ابراہیم قلی قطب شاہ کے فرزند تھے۔

 انہوں نے شہر حیدر آباد، دکن کی تعمیر کی۔ ان کی  راجدھانی گولکنڈہ سے شہر حیدرآباد کو منتقل کیا۔ شہر حیدر آباد کی تعمیری ڈیزائن ایرانی آرکٹکٹس سے کروائ  گئی۔

شہر حیدرآباد کو حضرت امام علی علیہ السّلام  کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہر حیدرآباد دلیروں کا شہر ہے۔محمد قلی قطب شاہ نے

 1591 ء میں شہر حیدرآباد کے درمیان چار مینار کی تعمیر کروائی۔حیدر آباد دکن میں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی بنائی ہوئی تاریخی یادگار۔ اس کا سنگ بنیاد

 999ھ میں رکھا گیا۔ جس جگہ چار مینار واقع ہے وہاں کبھی موضع چچلم واقع تھا۔

محمد قلی قطب شاہ‘ عبد اللہ قطب شاہ‘ قطبی‘ احمد شریف‘ وجہی‘ غواصی‘ عابد‘ فائز‘ محب‘ لطیف‘ شاہی‘ گولکنڈہ والے مرثیہ گو شعرا تھے۔وہ  اچھے حکمرانوں کی

 اولاد تھےاور زمانے میں اپنے نیک نام جان نشینوں کو چھوڑ گئے جن کی نشانیاں حیدرآباد کے چپّے چپّے پر عظیم عمارتوں کی صورت موجو د ہیں  


پیر، 9 اگست، 2021

حضرت عبد المطّلب اور اُن کی منّت کی کہانی

 حضرت عبد المطّلب اور اُن کی منّت کی کہانی

حضرت عبد المطّلب اور اُن کی منّت کی کہانی کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ طوفان نوح علیہ السّلام میں آب زم زم کے معدوم ہو جانے والے کنوئیں کی بنیاد

 یں اپنے اکلوتے بارہ برس کے بیٹے جناب حارث کے ہمراہ محض قیاس کی بنیاد پرتمام'تمام دن زمین کھود کھود کر تلاش کرتے تھے اس وقت ان کا ایک پڑوسی

 ان پر طعنہ زنی کرتا ہوا گزرتا تھا اور کہتا تھا عبد المطّلب چھوڑو 'رہنے دو بھلا اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ یہ مشکل کام کیسے کر سکتے ہو'دراصل اس شخص کے بہت

 سے بیٹے تھے ایک دن حضرت عبدا لمطّلب اس کی طعنہ زنی سے اتنے بیزار ہوئے کہ انہوں نے منّت مانی کہ اللہ مجھے کثرت سے  بیٹے دے تو اپنا ایک بیٹا قربان کروں گا

اللہ بڑی شان والا ہے دکھی دل کی فریاد ضرور سن لیتا ہے اور اس نے کثرت سے بیٹے دے دئے لیکن بشری فطرت کے عین مطابق حضرت عبالمطّلب اپنی مانی

 ہوئ منّت بھول گئے یہاں تک کہ سب بیٹے جوان ہو گئے،تب ایک رات جناب عبد المطّلب کو بشارت ہوئ کہ انہوں نے منّت مانی تھی لیکن منّت یاد نہیں

 آئ کہ کیا مانی تھی پھر انہوں نے اپنا قاصد کاہنہ کے پاس بھیجا کہ منّت یاد نہیں آ رہی ہے کہ کیا مانی تھی'کاہنہ نے کہلوایا کہ سوتے وقت ایک اونٹ صدقہ کر

 کے سوئیں تب معلوم ہو گا کہ منّت کیا تھی

 حضرت عبد المطّلب نے اونٹ صدقہ کیا لیکن منّت پھر بھی یاد نہیں آئ پھر کاہنہ سے کہلوایا کہ اونٹ صدقہ کر نے کے بعد بھی منّت یاد نہیں آئ ہے تو کاہنہ

 نے جواب میں کہلوایا کہ دوسری رات بھی اونٹ صدقہ کیا جائے اور اگر دوسری رات بھی بشارت نا ہو توتیسری رات بھی اونٹ کا صدقہ کیا جائے حضرت عبد المطّلب کوتیسری رات کی قربانی کے بعد بشارت ہوئ کہ بیٹا قربان کرنے کی منّت مانی تھی

ا ب کون سا بیٹا قربان کیا جائے حضرت عبد المطّلب سوچ بچار میں پڑ گئے اورپھر کاہنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ کیا کروں؟

کاہنہ نے کہلوایا کہ بیٹوں کے نام کے قرعہ ڈالے جائیں گے جس بیٹے کا نام آئے گا اس کی قربانی ہوگی قرعے ڈالے گئے تو جناب عبد اللہ کا نام نکلا  جب بستی کے

 لوگوں کو پتا چلا کہ جناب عبد اللہ کی قربانی ہونی ہے تو وہ سراپا احتجاج بن گئےاور احتجاج اتنا بڑھا کہ پھر کاہنہ سے مدد لی گئ

 در اصل جناب عبد اللہ حضرت عبد المطّلب کے سب بیٹوں میں سب سے چھوٹے اور تمام بیٹوں میں سب سے خوبصورت اور بہت  نفیس مزاج اور بلند اخلاق

 کے مالک تھے –اور انہی اعلیٰ  اوصاف کی بنا  پر وہ  حضرت عبد المطلب  کی بستی کے لوگوں میں بھی بہت پسند کئے جاتے تھے اب حضرت عبد المطّلب کسی اور بیٹے

 کی قربانی چاہتے تھے -لیکن کاہنہ نے کہلوا دیا کہ قربانی صرف اسی بیٹے کی ہو گی جس کے نام قرعہ نکلا ہے ورنہ بیٹے کے بدلے اونٹ قربان کیے جائیں گے

سوال یہ تھا کہ  اونٹوں کی کتنی تعداد  صدقہ کی جائے

      کاہنہ نے اس کی ترکیب یہ بتائی گئی کہ کاغذ کے ایک کاغذ پر دس اونٹ لکھے جائیں, دوسرے پر عبداللہ کا نام لکھا جائے, اگر دس اونٹ والی پرچی نکلے تو دس

 اونٹ قربان کردئے جائیں , اگر عبداللہ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ کا اضافہ کردیا جائے - پھر بیِس اونٹ والی پرچی اور عبداللہ والی پرچی ڈالی جائے - اب اگر

 بیِس اونٹ والی پرچی نکلے تو بیِس اونٹ قربان کردئے جائیں, ورنہ دس اونٹ اور بڑھادئیے جائیں, اس طرح دس دس کرکے اونٹ بڑھاتے جائیں -

حضرت عبدالمطلب نے ویسا ہی کیا ہے جیسا کہ کاہنہ نے بتایا  "اور ہر بار جناب عبد اللہ کا نام موقوف ہوتا گیا اور اونٹوں کی تعداد دس دس اونٹ بڑھاتے چلے گئے

 " ہر بارجناب  عبداللہ کے نام کی پرچی نکلتی گئ, یہاں تک اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی - تب کہیں جاکرجناب عبد اللہ کا نام موقوف ہوا - اس طرح ان کی جان

 کے بدلے سو اونٹ قربان کئیے گئے – حضرت عبدالمطلب کو اب پورا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالٰی نے عبداللہ کے بدلہ سو اونٹوں کی قربانی منظور کرلی ہے --اور اس طرح حضرت عبد اللہ کی جان بچ گئ

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر