ہندوستان میں شیعت کی بات ہو گی تو قطب شا ہی خاندان کے حکمرانوں کو تزکرہ لازمی ہو گااا
قطب شاہی والئ دکن اہل تشیع نہیں تھے لیکن انہون نے اہل بیت کی تعلیمات کو اس طر ح اپنی زندگی میں سمو لیا تھا کہ وہ سراپا اہل تشیع ہی ہو گئے تھے ماہ محرّم
کا آغازہوتے ہی ان کے محل میں تمام شاہی خواتین اور حضرات سیاہ ماتمی
لباس سے آراستہ ہو جاتے تھے اور سوگ بڑھنے تک سیاہ لباس ہی زیب تن رکھتے تھے
شہدائے کربلا سے ان کی عقیدت کا وہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی زندگیاں ہی ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر چلنے کے لئے وقف کر دی تھین صرف ماہ محرّم
کے لئے وہ جو کچھ اہتمام کرتے تھے اس کی تفصیل لکھنے کے لئے تو ایک ضخیم کتاب بھی ناکافی ہو گی محرّم کا چاند نظر آنے سے لے کر بالخصوص عاشور کی شام
غریباں تک قطب شاہ خود بھی مجالس سننے کے لئے حاضر
ہوتے اور تمام اہل دربار کو بھی ساتھ لاتے تھے
سات محرّم سے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوتا تو ان جلوسوں میں بھی بنفس نفیس شریک ہوتے تھے اور صبح عاشور کے علم تعزیہ کے جلوس میں برہنہ پاء جلوس
کے ہمراہ چلتے تھے اس جلوس میں شہدائے کربلا کے تبرّکات ہاتھی کی پشت پر ہودج مین سجا کر زیا رت عام کے لئے رکھے جاتے تھے یہ تبرّکات کربلا ء سے جو
حضرت اپنے ہمراہ لائے تھے-حیدر آباد دکن میں
ہاتھی پر نکلنے والا بی بی کا الاوہ علم
پرانے شہر کے دارالشفا میں واقع عاشور خانہ" سرطوق" کا شمار ایک تاریخی عاشور خانہ کے طور پر ہوتا ہے۔دکن کےپانچویں پشت کے قطب شاہ نے اپنے
دورحکمرانی میں یہ عاشور خانہ تعمیر کروایا گیا تھا-عاشورہ کے موقع پر شہر حیدرآباد میں سب سے اہم علؐم بی بی کا علؐم کہلاتا ہے، جو دختر رسول سیدہ فاطمۃ الزہرا سلا
م اللہ عنہا کے نام سے موسوم ہے۔اور اسی عاشور خانہ میں امام زین العابدین علیہ السّلام کے طوق کا وہ ٹکڑا موجود ہے جوآپ علیہ السّلام کو طویل قید کے دوران
پہنا کر قید کیا گیا تھا -اس عاشور خانہ کے قیام سے لے کر آج تک شہروالیء حیدرآباد میں قائم قلی قطب شاہ کا یہ یادگارجلوس محرم الحرام کے موقع پر نہایت ہی
عقیدت و احترام سےہاتھی کی پشت پرروز عاشورہ اور مزید تبرّکات کے ہمراہ رکھ کر جلوس کی شکل میں اپنے قدیم مقرّرہ راستوں پرپا پیادہ خاص و عام زیارت
کروائ جاتی ہے ۔حیدرآباد میں بلا لحاظ
مذہب و ملت عقیدت مند اپنے اپنے طریقے سے یوم عاشورہ کا اہتمام کرتے ہیں۔
۔یہ عاشور خانہ دواخانہ دارالشفاء کی عمارت میں تعمیر کیا گیا تھا جو اپنی تاریخی اہمیت کے باعث محکمہ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل تھا۔تاہم حکومت کی جانب
سے 2017 میں ترمیم کئے جانے کے بعد اسے
فہرست سے خارج کردیا گیا جس سے شیعہ برادری میں غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔
محمد قلی قطب شاہ نے بصرف کثیر بادشاہی عاشور خانہ تعمیر کرائی۔ محمد قلی قطب شاہ اپنے نام کے ساتھ خادم اہل بیت (ع) کے الفاظ لکھنا لکھوانا پسند کرتا تھا۔
قطب شاہی پیشوائے سلطنت میر مومن تھا جو ایام محرم میں شہدائے کربلا ع کے اسمائے گرامی پر علم استادہ کراتا تھا۔ غیر مومن مذہب جعفریہ کی ترویج کے
لئے ہمہ وقت درمے‘ قدمے سخنے کوشاں رہتا تھا محمد قلی قطب شاہ‘ کا بھتیجا اور داماد سلطان بنا عزاداری کو اس کے عہد میں ترقی ہوئی
کلیات محمد قلی قطب شاہ مرتبہ ڈاکٹر سیدہ جعفر میں اس قصیدے کاعنوان ’عید میلادالنبی‘ دیا گیا ہے ۔ (ص 711) ۔ لیکن یہ قصیدہ بیک وقت نعت بھی ہے اور
منقبت بھی‘ کیوں کہ اس کے زیادہ تر اشعار میں سرکارِ دوعالم ؐ کی مدح کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہ‘ کی مدح بھی ملتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد قلی
قطب شاہ اثنائے عشری عقائد کا پیرو تھا ۔کلیات میں ’بعثت نبی صلی اللہ علیہ و سلم‘ کے عنوان سے ایک قصیدے کے صرف دو شعر درج کیے گئے ہیں اور نیچے نوٹ دیا گیا ہے کہ اس کے بعد کے صفحات موجود نہیں ہیں
سلطان محمد قلی قطب شاہ : (1580 – 1611) قطب شاہی سلطنت کے پانچویں سلطان تھے۔ ان کا دارالسلطنت گولکنڈہ تھا۔ انہوں نے حیدرآباد شہر کی تعمیر
کرکے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا۔ شہر حیدرآباد کو ایرانی شہر اصفہان سے متاثر ہوکر بنوایا گیا۔سلطان محمد قلی قطب شاہ، ابراہیم قلی قطب شاہ کے فرزند تھے۔
انہوں نے شہر حیدر آباد، دکن کی تعمیر کی۔ ان کی راجدھانی گولکنڈہ سے شہر حیدرآباد کو منتقل کیا۔
شہر حیدر آباد کی تعمیری ڈیزائن ایرانی آرکٹکٹس سے کروائ گئی۔
شہر حیدرآباد کو حضرت امام علی علیہ السّلام کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہر حیدرآباد دلیروں کا شہر ہے۔محمد قلی قطب شاہ نے
1591 ء میں شہر حیدرآباد کے درمیان چار مینار کی تعمیر کروائی۔حیدر آباد دکن میں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی بنائی ہوئی تاریخی یادگار۔ اس کا سنگ بنیاد
999ھ میں رکھا گیا۔ جس جگہ چار مینار واقع ہے وہاں کبھی موضع چچلم
واقع تھا۔
محمد قلی قطب شاہ‘ عبد اللہ قطب شاہ‘ قطبی‘ احمد شریف‘ وجہی‘ غواصی‘ عابد‘ فائز‘ محب‘ لطیف‘ شاہی‘ گولکنڈہ والے مرثیہ گو شعرا تھے۔وہ اچھے حکمرانوں کی
اولاد تھےاور زمانے میں اپنے نیک نام جان نشینوں کو چھوڑ گئے جن کی
نشانیاں حیدرآباد کے چپّے چپّے پر عظیم عمارتوں کی صورت موجو د ہیں
تو دیکھئے ہم جن کی بات کر رہے ہیں وہ تاریخ کے صفحات پر اور دلوں میں دونوں جگہ ابھی تک زندہ ہیں اور زندہ رہیں گےاور جو فنا ہو گئے ان کی آل و اولاد کا بھی پتہ نہیں ہئے کہ کہاں کس حال میں ہئے ایک طرف والیان ریاست کے عشق اہل بیت کا یہ عالم تھا تو دوسری جانب حیدر اباد دکن کی اس گل رنگ ریاست کو بدعت سے پاک کردینے کامنصوبہ لے کر اورنگ زیب عالمگیر دہلی کا پایہ تخت چھوڑ کر حیدر اباد میں آ کر براجمان ہوا ،،حیدرآباد دکن کو شیعت سے پاک کر دینے کا منصوبہ اس کی دلی تمنا بن چکا تھا جس کے لئے اس نے اپنی زندگی کے ماہ وسال خرچ کردئے لیکن یہ آرزو لے کر وہاپنی زندگی کے آخری ایّام ایک ہندو رقّاصہ کی ہمراہی میں بسر کرتا ہوا دنیا سے چلا گیا حیدرآباد دکن کے چپّے چپے پر اج بھی شیعت لہلہا رہی ہئے الحمدللہ اور مغلیہ سلطنت کو زوال ہی اس وجہ سے ہوااور پھر ساڑھے سات سو سال تک عروج باکمال کی جانب جا کر سلطنت مغلیہ کا سورج غروب ہو گیا
جواب دیںحذف کریں