جمعرات، 25 مئی، 2023

مکئ آپ کی غذا بھی اور دوا بھی


گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی روز مرہ غذا کے شیڈول میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے لیکن اس موسم میں مکئی کے بھٹے کے مترادف اور کوئی سبزی نہیں ہے جو اس موسم کے مطابق لذت اور غذائیت سے فیض یاب کرتی ہو‘ مکئی کا ایک سٹہ بھی وہ کمال دکھاتا ہے جو شاید ہی کوئی اور دکھاتا ہو۔ مکئی کا شمار اناج کی اس قسم میں ہوتا ہے جو سال کے آغاز سے اختتام تک مارکیٹ میں باآسانی دستیاب رہتی ہے۔مکئی کے چونکا دینے والے فوائد:اطباء کے نزدیک بادی اور قابض ہے‘ بھوک بڑھاتی اور بدن کو فربہ کرتی ہے۔ بلغم صفرا اور باد کے فساد کو دور کرتی ہے۔ دیر ہضم ہے‘ باہ کو قوت دیتی ہے‘ بدن کو قوت دیتی ہے‘ زیادہ استعمال کرنے سے درد شکم‘ قولنج اور بواسیر کی شکایت ہوجاتی ہے۔ کھانے کے بعد ہونے والی قے کو روکتی ہے۔ سل کے مریضوں میں اس کی روٹی اچھی ہے۔ آنکھوں کی بصارت بڑھاتی ہے۔ کمزور لاغر بدن کو قوت دیتی ہے۔ اس کے آٹے کا لپٹا بنا کر مریض کو پلانے سے صحت ہوتی ہے اور بھوک میں خوب اضافہ ہوتا ہے۔ مکئی کا تیل بدن کو فربہ کرتا ہے۔ اچھی مکئی کے کھانے سے بدن فربہ ہوتا ہے لیکن جس کو موافق نہ آئے اس کو لگاتار کھانے سےدست آنے لگتے ہیں۔

 اس کی گلی کا کوئلہ کرکے اور پیس کر پھانکنا حیض اور بواسیر کے خون کو بند کرتا ہے۔ مکئی کی گلی چھ ماشہ ہیضہ کے مریض کو پیس کر دیں تو فوراً فائد ہوتا ہے۔ اس کی گلی کی راکھ میں نمک ملا کر پھنکی لگانے سے کالی کھانسی اور زکام کی کھانسی کو بہت جلد فائدہ ہوتا ہے۔ اسے دن میں پانچ پانچ رتی تین مرتبہ دیتے ہیں۔ اس کی ڈاڑھی کا جوشاندہ  پلانے سے مثٓانہ کے امراض اور پیشاب کی جلن دور ہوتی ہے اور پیشاب خوب آتا ہے۔ یونانی اطباء کے مطابق مکا بلغم اور خون بستہ کو تحلیل کرتی ہے۔ دستوں کو روکتی ہے‘ سل میں مفید ہے۔ اس کا آتا سرکے میں ملا کر لیپ کرنے سے خارش اور ہاتھ پاؤں و ناخنوں کے پھٹنے کو مفید ہے۔ اس کے جوشاندہ کا حقنہ آنتوں کے زخم کو دور کرتا ہے اس میں غذائیت گیہوں سے کم ہے۔-نشاستہ سے بھرپور خوراک: خوراک میں نشاستہ کی زیادہ مقدار قولون کینسر‘ کولیسٹرول اور آئی بی ایس کے خطرات کم کرنے کا موجب بنتی ہے۔ تحقیقی ماہرین کے مطابق جو لوگ مکئی کا استعمال کرتے ہیں ان میں بلڈشوگر‘ انسولین کی مقدار مناسب حد تک کنٹرول کی جاسکتی ہے۔

 اس حوالے سے ماہرین نے دو ایسے گروپس میں شامل افراد کا موازنہ کیا جو ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا تھے۔ ایک گروپ نے فائبر (نشاستہ) پر مشتمل غذا کا استعمال کیا جبکہ دوسرے گروپ نے کم نشاستہ والی غذا استعمال کی گئی۔ پہلے گروپ میں صحت کی جانب سے مثبت نتائج ظاہر ہوئے کیونکہ ان افراد نے چوبیس گرام تک فائبر روزانہ استعمال کیا جبکہ دوسرے گروپ میں کولیسٹرول اور بلڈشوگر کی شکایات بدستور جاری رہیں۔مکئی کو پاپ کارن‘ سوپ‘ سلاد اور سالن وغیرہ میں پکایا جاتا ہے اور ایک طرح سے اس کو گرمیوں میں باربی کیو کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مکئی کے بھٹے اور سٹے بچوں میں مقبول عام ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں میں اگر مکئی کو زیادہ ترجیح دی جائے تو زیادہ مفید ہے۔سردیوں کے آغاز میں ہی مکئی کی فصل تیار ہوچکی ہوتی ہے ۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جب بازاروں میں مکئی کے بھٹے فروخت کرنے والے اُمڈ آتے ہیں کوئی نمک میں بھون رہا ہے تو کوئی ریت میں پکا کر اُنہیں فروخت کررہا ہے ۔خوراک میں نشاستہ کی زیادہ مقدار قولون کینسر ،کولیسٹرول اور آئی بی ایس کے خطرات کو کم کرنے کا موجب بنتی ہے

ماہرین کی جانب سے  پیلے، ذائقے سے بھرپور چھوٹے چھوٹے دانوں پر مشتمل مکئی کے دانوں میں موجود غذائیت انتہائی صحت بخش قرار دی گئی ہے، اس میں موجود وٹامن B1 اور B5 توانائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پٹھوں کے نئے خلیات بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، مکئی کے استعمال سے صحت پر متعدد طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا بیوقوفی ہو گا۔ غذائی ماہرین کے مطابق چھلی، بھٹہ یا مکئی میں وٹامن سی پایا جاتا ہے جو کہ بے شمار امراض سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قوتِ مدافعت کو مضبوط بناتا ہے، اس میں موجود فائبر جسم کی توانائی بحال کرتا، کولیسٹرول لیول کی سطح متوازن بناتا اور نظامِ ہاضمہ کی کارکردگی درست رکھتا ہے جس کے نتیجے میں قبض کی شکایت سے نجات ممکن ہوتی ہے۔-مکئی کے استعمال سے کمزور بینائی کا علاج بھی ممکن ہے، مکئی میں موجود Carotenoid ناصرف بینائی تیز کرتا ہے بلکہ وٹامن اے کے حصول کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔


حالیہ امریکی تحقیق کے مطابق پاپ کارن صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں جن کا استعمال پھل اور سبزیوں کی طرح ہی مفید ہوتا ہے، تحقیق کے مطابق پاپ کارن میں بھی پھلوں میں پائے جانے والی صحت کے لیے مطلوب غذائیت موجود ہوتی ہے لہٰذا وہ افراد جو پھل اور سبزیاں کھانا پسند نہیں کرتے وہ پاپ کارن کھا سکتے ہیں۔ ڈائٹنگ کرنے والے افراد کے لیے بھی پاپ کارن ایک بہترین آپشن ہے کیونکہ یہ فائبر اور منرلز سے بھرپور بہترین غذا ہے جس کے استعمال سے تادیر بھوک محسوس نہیں ہوتی۔مکئ کے4 منفرد صحت کے فوائد جو آپ کو متعدد بیماریوں سے دور رکھتے مکئ ، جسے میز کے نام سے بھی جانا جاتا ہےاس کے پودے کا پتوں والا ڈنڈا جرگ کے پھول اور الگ الگ بیضوی پھول پیدا کرتا ہے جسے کارن یا مکئ کہتے ہیں جن سے گٹھلی یا بیج نکلتے ہیں، جو کہ اناج ہیں

مکئ ایک سبزی ہےیہ اصل میں ایک سبزی، ایک مکمل اناج، اور ایک پھل ہے. لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ کس شکل میں آتا ہے یا یہ کس زمرے میں آتا ہے، مکئی آپ کے لیے اچھی ہے اور صحت مند غذا کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ سادہ پاپ کارن بھی صحت مند ہوسکتا ہے جب تیل، مکھن یا نمک کے بغیر تیار کیا جائےمیٹھی مکئ-میٹھی کارن- پیلے، سفید یا دو رنگوں کے امتزاج میں آتی ہے اور اس کا ذائقہ ہلکا سا میٹھا ہوتا ہے۔پاپ کارن، تیار کرنے سے پہلے، اس کا ایک نرم، نشاستہ دار مرکز ہوتا ہے جس کے چاروں طرف سنہرے رنگ کے سخت خول ہوتے ہیں۔ اندر پانی کا ایک چھوٹا سا قطرہ ہے۔ جب آپ پاپ کارن کو پین میں یا مائکروویو میں گرم کرتے ہیں، تو اندر کی نمی بھاپ چھوڑ دیتی ہے۔ بھاپ سے دباؤ اس مقام تک بنتا ہے جہاں دانا پھٹ جاتا ہے، اور مرکز ایک سفید سفید ڈلی میں کھل جاتا ہے۔ ڈائٹنگ کرنے والے افراد کے لیے بھی پاپ کارن ایک بہترین آپشن ہے کیونکہ یہ فائبر اور منرلز سے بھرپور بہترین غذا ہے جس کے استعمال سے تادیر بھوک محسوس نہیں ہوتی۔ڈینٹ کارن-ڈینٹ کارن، جو سفید اور پیلے رنگ میں آتا ہے، ہر دانے کے اوپر ایک ڈینٹ ہوتا ہے۔ اس کے بنیادی استعمال جانوروں کی خوراک ۔

مکئی میں یہ خاصیت موجود ہے کہ اگر آپ دن میں ایک بھٹہ یا پھر ایک کپ مکئی کا استعمال کریں تو اس سے 18.4فائبر حاصل کر سکتے ہیں جس سے بلڈ شوگر کو مستحکم کرنے میں مدد حاصل ہوتی ہے ۔ مکئی کے بھٹے کے مترادف اور کوئی سبزی نہیں ہے جو اس موسم کے مطابق لذت اور غذائیت سے فیض یاب کرتی ہو مکئی کا ایک سٹہ بھی وہ کمال دکھاتا ہے جو شائد ہی کوئی اور دکھاتا ہو -اطباء کے نزدیک بادی اور قابض ہے بھوک بڑھاتی اور بدن کو فربہ کرتی ہے ۔بلغم صفر اور باد کے فساد کو دور کرتی ہے ۔زیادہ استعمال کرنے سے درد شکم قولنج اور بواسیر کی شکایت ہوجاتی ہے ۔کھانے کے بعد ہونے والی قے کو روکتی ہے ۔سل کے مریضوں میں اس کی روٹی اچھی ہے ۔آنکھوں کی بصارت بڑھاتی ہے ۔کمزور لاغر بدن کو قوت دیتی ہے ۔مکئی کا تیل بدن کو فربہ کرتا ہے لیکن جس کو موافق نہ آئے اس کو لگاتار کھانے سے دست آنے لگتے ہیں۔اس کے پومل یا کھیلیں مریض کو ہرگز نہ کھلائے جائیں اس کی گلی کا کوئلہ کرکے اور پیس کر پھانکنا حیض اور بواسیر کے خون کو بند کرتا ہے ۔مکئی کی گُلی چھ ماشہ ہیضہ کے مریض کو پیس کردیں تو فوراً فائد ہ ہوتا ہے ۔اس کی گُلی کی راکھ میں نمک ملا کر پھنکی لگانے سے کالی کھانسی اور زکام کی کھانسی کو بہت فائدہ وہتا ہے ۔اس کی داڑھی کا جوشاندہ یا خیساندہ پلانے سے مثانہ کے امراض اور پیشاب کی جلن دور ہوتی ہے ار پیشاب خوب آتا ہے ۔یونانی اطباء کے مطابق مکا بلغم اور خوبستہ کو تحلیل کرتی ہے ۔تیار شدہ کھانے ہیں، جیسے ٹارٹیلا چپس اور گرٹس۔تکنیکی طور پر یہ پورے اناج کے خاندان کا رکن ہے۔ یہ آپ کے لیے بہت اچھا ہو سکتا ہے۔ مکئی بھی قدرتی طور پر گلوٹین سے پاک ہے، جو اسے ان لوگوں کے لیے گندم کا ایک اچھا متبادل بناتی ہے جنہیں گلوٹین سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس ورسٹائل اناج کے صحت سے متعلق فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں مکئی کے چار اور منفرد صحت کے فوائد ہیں۔مکئ ایک مکمل اناج- مکئ کی روٹی - مکئ کا ساگ --بہترین صحت بخش کھانا

مکمل اناج کے طور پر، یہ صحت کے لیے حفاظتی خوراک  ہے۔ غذائی ماہرین کے مطابق جو لوگ اس  کا استعمال کرتے ہیں ان میں بلڈ شوگر، انسولین کی مقدار مناسب حد تک کنٹرول میں رہتی ہے۔اہم غذائی اجزاء سے بھرپورمکئی میں متعدد بی وٹامنز کے ساتھ ساتھ پوٹاشیم بھی ہوتا ہے۔ معدنیات صحت مند بلڈ پریشر، دل کے کام، پٹھوں کے درد کو روکتا ہے، اور پٹھوں کی طاقت کے بڑے پیمانے کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔یہ دیگر اناج کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا زیادہ وٹامن اے فراہم کرتی ہے۔ یہ وٹامن اے مدافعتی نظام کی حمایت کرتا ہے، اور آپ کی سانس کی نالی میں چپچپی جھلیوں کو بنانے میں مدد کرتا ہے۔ مضبوط جھلی جراثیم کو آپ کے خون سے دور رکھنے کے لیے بہتر حفاظتی رکاوٹیں بناتی ہے۔مکئ حفاظتی اینٹی آکسیڈنٹس فراہم کرتی ہےاینٹی آکسیڈینٹ کیروٹینائڈز کے ایک اچھے ذریعہ کے طور پر، جیسے لوٹین اور زیزنتھین، پیلی مکئی آنکھوں کی صحت کو فروغ دے سکتی ہے۔ یہ بہت سے وٹامنز اور معدنیات کا بھی بھرپور ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے، پورے اناج والی مکئی کا اعتدال پسند استعمال، جیسے پاپ کارن یا سویٹ کارن، صحت مند غذا میں ایک بہترین اضافہ ہو سکتا ہے۔سوزش کو روکنے میں مددگار-ینلے اور جامنی مکئ میں دیگر اینٹی آکسیڈینٹ سوزش کو روکنے میں خاص طور پر اچھے ثابت ہوئے ہیں۔ 

بدھ، 24 مئی، 2023

بڑا اما م باڑہ لکھنو'یادگارآصف الدّولہ

 


نواب آصف الدولہ (پیدائش: 1748ء، وفات: 1797) اردو شاعر اور والی اودھ، نواب شجاع الدولہ کے بیٹے تھے۔ باپ کی وفات کے پر 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے۔ بعد ازاں لکھنؤ کو دار الحکومت بنایا۔ تعمیرات کا بہت شوق تھا ان کا تعمیر کردہ لکھنؤ کا شاہی محل اور امام باڑہ مشہور عمارتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شعر و شاعری اور دیگر علوم و فنون کے قدر دان تھے۔ دہلی کے مشہور شعرا مرزا رفیع سودا میر تقی میر اور سید محمد میر سوز انہی کے عہد حکومت میں لکھنؤ آئے اور دربار سے وابستہ ہوئے۔ اردو، فارسی، دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے اور میر سوز سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ لکھنؤ میں انتقال کیا ہوا اور اپنے بنائے ہوئے امام باڑے میں دفن ہوئے۔ ایک دیوان ان سے یادگار ہے۔ جن میں غزلیں، رباعیاں، مخمس اور ایک مثنوی ہے۔ 

آصف الدولہ نے فیض آباد کو اودھ کی راجدھانی ترک کرکے لکھنؤ کو اپنا دار الحکومت بنا لیا تھا۔ انہوں نے خوبصورت عمارتوں کی تعمیر کرائی،جن کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔آصف الدولہ کے اس امام باڑے،مسجد،اور بھول بھلیاں وغیرہ کی بنیاد1784 میں رکھی گئی۔کئی سال تک عمارت کی تعمیر جاری رہی اورجب مکمل ہوئی تو پوری دنیا نے واہ واہ کی صدا بلند کی۔بہرحال فراخ دل نواب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا کہ جس کو نہ دیں مولا۔اس کو دیں آصف الدولہ یعنی فراخدلی اور ترس خدائی کی وجہ سے نواب کی یہ شبیہ ابھری۔

امام باڑے کے وسیع دالان میں نواب آصف الدولہ کی قبر ہے، امام باڑے میں جھاڑ ،فانوس کی بڑی تعداد ٹوٹی اور پھوٹی حالت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ شاہ نشین پر علم و تعزیے ہیں،شیشہ آلات کافی ہیں مگر ان کی قلعی اتر چکی ہے، فرش جا بجا اکھڑا ہوا ہے ۔محرم میں یہاں برقی قمقموں سے عمارت کو سجایا جاتا ہے اور نواب کے دور کے محرم کی سجاوٹ کو دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔مگر سب سے زیادہ افسوسناک پہلو امام باڑے کی آمدنی کا صحیح استعمال اور اس کے رکھ رکھاؤ کا فقدان ہے۔امام باڑے کی زمینون کو یو پی سرکار نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں۔ مجموعی طور سے آصف الدولہ کا امامباڑہ اور مسجد بہت اچھی حالت میں نہیں ہے۔مسجد کے گنبدوں،میناروں کا بھی جا بجا پلاسٹر ٹوٹا ہوا ہے اور کسی بھی ناگہانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ہوبیگم کی ساس یعنی ابوالمنصور صفدر جنگ کی زوجہ نواب بیگم، جنہیں صفدر جہاں بیگم کا خطاب ملاتھا، محل میں انہیں نواب بیگم ہی کہاجاتا تھا، بہت ہوشیار اور اعلیٰ مرتبت خاتون تھیں، آصف الدولہ ان کے بیٹے تھے، ان کی شادی دیوان دلی کے امتیاز الدولہ کی دختر شمس النساء بیگم سے ہوئی تھی، جس میں 1749ء ؁ میں شاہ عالم باد شاہ خود نفس بہ نفیس شریک ہوئے تھے، بیگمات اودھ میں آخری تاجدار اودھ بیگم حضرت محل کا نام بھی درخشاں ہے جو اپنے بیٹے برجیس قدر کی ایک سال تک عہدۂ بادشاہت کی سرپرستی کرتی رہیں، اور جب انگریزوں کی شور ش حد سے بڑھ گئی تو کبھی ہاتھی، اور کبھی گھوڑے پر برجیس قدرکوساتھ لئے ہوئے مورچہ جماتی تھیں، جب ایک شہر ہاتھ سےنکل جاتاتھا تودوسرے شہر کی جانب رخ کرتی تھیں، انھوں نے جنگ ضرور ہاری ،مگرہمت نہیں ہاری تھی۔ 

لکھنو بڑے امام باڑے کی عمارت کی تعمیر پہلے کسی اور مقصد کے لئے کی گئ تھی جسے بعد میں امام بار گاہ کے لئے مختص کر دیا گیا-نواب آصف الدولہ کا تعمیر کردہ (بڑا امام باڑہ | امام بارگاہ) ابھی بھی لکھنؤ کی شان ہے۔یہ شہرہ آفاق امام بارگاہ ١٧٩٠ء میں ایک کروڑ کی لاگت سے تیار ہوا۔اس کا نقشہ حافظ کفایت اللہ مہندس نے تیار کیا ۔جنہیں کچھ لوگوں نے دہلوی اور بعض دیگر نے شاہ جہاں پوری لکھا ہے)اس کا وسطی ہال 303فٹ لمبا،53فٹ چوڑا اور 63فٹ اونچا ہے۔اس کی چھت دنیا کی اعلیٰ ترین چھتوں میں سے ہے جس میں لوہے لکڑی کے بغیر اتنی بڑی چھت کی ڈاٹ جوڑی گئی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس امام بارگاہ کے حدود میں ایک ضعیفہ کا مکان بھی آگیا تھا ۔(جس کا نام لاڈو شاخن بیان ہوا ہے۔)لیکن وہ مکان دینے پر راضی نہ تھی ۔چونکہ نوابین اودھ رعایا پرور تھے لہٰذا اس پر کسی طرح کی زور زبردستی نہیں کی گئی ۔خود نواب آصف الدولہ اس کے پاس جاتے ہیں اور وہ چند شرائط کے ساتھ اپنا مکان دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے ۔اس کی پہلی شرط تھی کہ اسے کسی اور جگہ دوسرا مکان دیا جائے اور دوسری اہم شرط یہ تھی کہ امام باڑے میں اس کے نام کا تعزیہ رکھا جائے۔نواب نے یہ شرائط منظور کئے ۔اُس کا تعزیہ داہنی طرف کی صحنچی میں خود رکھوایا جو آج بھی اسی مقام پر رکھا جاتا ہے -

بہو بیگم کے اس فراخدل بیٹے آصف الدولہ کی اس عمارت میں کبھی کبھار کچھ مرمت کاری ہوجاتی ہے لیکن اوپری حصوں سے ان میں دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر داخلی حصے، شاہ نشین اور چھتوں کی حالت بد تر ہے۔ کہا جا تا ہے کہ دنیا کی یہ واحد عمارت ہے جس میں لکڑی یا لوہے کا کہیں استعمال نہیں ہواہے۔ روشن اور ہوادار امامباڑے کو دیکھنے روزانہ ہزاروں سیاح دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں۔امام باڑے کے پہلو میں شاندار وسیع آصفی مسجد ہے جہاں شیعہ حضرات عید ین کے علاوہ جمعہ اور پنجگانہ نماز ادا کرتے ہیں۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر