نواب آصف الدولہ (پیدائش: 1748ء، وفات: 1797) اردو شاعر اور والی اودھ، نواب شجاع الدولہ کے بیٹے تھے۔ باپ کی وفات کے پر 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے۔ بعد ازاں لکھنؤ کو دار الحکومت بنایا۔ تعمیرات کا بہت شوق تھا ان کا تعمیر کردہ لکھنؤ کا شاہی محل اور امام باڑہ مشہور عمارتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شعر و شاعری اور دیگر علوم و فنون کے قدر دان تھے۔ دہلی کے مشہور شعرا مرزا رفیع سودا میر تقی میر اور سید محمد میر سوز انہی کے عہد حکومت میں لکھنؤ آئے اور دربار سے وابستہ ہوئے۔ اردو، فارسی، دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے اور میر سوز سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ لکھنؤ میں انتقال کیا ہوا اور اپنے بنائے ہوئے امام باڑے میں دفن ہوئے۔ ایک دیوان ان سے یادگار ہے۔ جن میں غزلیں، رباعیاں، مخمس اور ایک مثنوی ہے۔
آصف الدولہ نے فیض آباد کو اودھ کی
راجدھانی ترک کرکے لکھنؤ کو اپنا دار الحکومت بنا لیا تھا۔ انہوں نے خوبصورت
عمارتوں کی تعمیر کرائی،جن کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔آصف الدولہ کے اس امام
باڑے،مسجد،اور بھول بھلیاں وغیرہ کی بنیاد1784 میں رکھی گئی۔کئی سال تک عمارت کی
تعمیر جاری رہی اورجب مکمل ہوئی تو پوری دنیا نے واہ واہ کی صدا بلند کی۔بہرحال
فراخ دل نواب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا کہ جس کو نہ دیں مولا۔اس کو دیں آصف
الدولہ یعنی فراخدلی اور ترس خدائی کی وجہ سے نواب کی یہ شبیہ ابھری۔
امام باڑے کے وسیع دالان میں نواب آصف
الدولہ کی قبر ہے، امام باڑے میں جھاڑ ،فانوس کی بڑی تعداد ٹوٹی اور پھوٹی حالت میں
دیکھی جا سکتی ہیں۔ شاہ نشین پر علم و تعزیے ہیں،شیشہ آلات کافی ہیں مگر ان کی قلعی
اتر چکی ہے، فرش جا بجا اکھڑا ہوا ہے ۔محرم میں یہاں برقی قمقموں سے عمارت کو سجایا
جاتا ہے اور نواب کے دور کے محرم کی سجاوٹ کو دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔مگر سب سے
زیادہ افسوسناک پہلو امام باڑے کی آمدنی کا صحیح استعمال اور اس کے رکھ رکھاؤ کا
فقدان ہے۔امام باڑے کی زمینون کو یو پی سرکار نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جس کا
کوئی معاوضہ بھی نہیں۔ مجموعی طور سے آصف الدولہ کا امامباڑہ اور مسجد بہت اچھی
حالت میں نہیں ہے۔مسجد کے گنبدوں،میناروں کا بھی جا بجا پلاسٹر ٹوٹا ہوا ہے اور کسی
بھی ناگہانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ہوبیگم کی ساس یعنی ابوالمنصور صفدر جنگ کی زوجہ نواب بیگم، جنہیں صفدر جہاں بیگم کا خطاب ملاتھا، محل میں انہیں نواب بیگم ہی کہاجاتا تھا، بہت ہوشیار اور اعلیٰ مرتبت خاتون تھیں، آصف الدولہ ان کے بیٹے تھے، ان کی شادی دیوان دلی کے امتیاز الدولہ کی دختر شمس النساء بیگم سے ہوئی تھی، جس میں 1749ء میں شاہ عالم باد شاہ خود نفس بہ نفیس شریک ہوئے تھے، بیگمات اودھ میں آخری تاجدار اودھ بیگم حضرت محل کا نام بھی درخشاں ہے جو اپنے بیٹے برجیس قدر کی ایک سال تک عہدۂ بادشاہت کی سرپرستی کرتی رہیں، اور جب انگریزوں کی شور ش حد سے بڑھ گئی تو کبھی ہاتھی، اور کبھی گھوڑے پر برجیس قدرکوساتھ لئے ہوئے مورچہ جماتی تھیں، جب ایک شہر ہاتھ سےنکل جاتاتھا تودوسرے شہر کی جانب رخ کرتی تھیں، انھوں نے جنگ ضرور ہاری ،مگرہمت نہیں ہاری تھی۔
لکھنو بڑے امام باڑے کی عمارت کی تعمیر
پہلے کسی اور مقصد کے لئے کی گئ تھی جسے بعد میں امام بار گاہ کے لئے مختص کر دیا
گیا-نواب آصف الدولہ کا تعمیر کردہ (بڑا امام باڑہ | امام بارگاہ) ابھی بھی لکھنؤ
کی شان ہے۔یہ شہرہ آفاق امام بارگاہ ١٧٩٠ء
میں ایک کروڑ کی لاگت سے تیار ہوا۔اس کا نقشہ حافظ کفایت اللہ مہندس نے تیار کیا
۔جنہیں کچھ لوگوں نے دہلوی اور بعض دیگر نے شاہ جہاں پوری لکھا ہے)اس کا وسطی ہال 303فٹ
لمبا،53فٹ چوڑا اور 63فٹ
اونچا ہے۔اس کی چھت دنیا کی اعلیٰ ترین چھتوں میں سے ہے جس میں لوہے لکڑی کے بغیر
اتنی بڑی چھت کی ڈاٹ جوڑی گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اس امام بارگاہ کے
حدود میں ایک ضعیفہ کا مکان بھی آگیا تھا ۔(جس کا نام لاڈو شاخن بیان ہوا ہے۔)لیکن
وہ مکان دینے پر راضی نہ تھی ۔چونکہ نوابین اودھ رعایا پرور تھے لہٰذا اس پر کسی
طرح کی زور زبردستی نہیں کی گئی ۔خود نواب آصف الدولہ اس کے پاس جاتے ہیں اور وہ
چند شرائط کے ساتھ اپنا مکان دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے ۔اس کی پہلی شرط تھی کہ اسے
کسی اور جگہ دوسرا مکان دیا جائے اور دوسری اہم شرط یہ تھی کہ امام باڑے میں اس کے
نام کا تعزیہ رکھا جائے۔نواب نے یہ شرائط منظور کئے ۔اُس کا تعزیہ داہنی طرف کی
صحنچی میں خود رکھوایا جو آج بھی اسی مقام پر رکھا جاتا ہے -
بہو بیگم کے اس فراخدل بیٹے آصف
الدولہ کی اس عمارت میں کبھی کبھار کچھ مرمت کاری ہوجاتی ہے لیکن اوپری حصوں سے ان
میں دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر داخلی حصے، شاہ نشین اور چھتوں کی
حالت بد تر ہے۔ کہا جا تا ہے کہ دنیا کی یہ واحد عمارت ہے جس میں لکڑی یا لوہے کا
کہیں استعمال نہیں ہواہے۔ روشن اور ہوادار امامباڑے کو دیکھنے روزانہ ہزاروں سیاح
دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں۔امام باڑے کے پہلو میں شاندار وسیع آصفی مسجد ہے
جہاں شیعہ حضرات عید ین کے علاوہ جمعہ اور پنجگانہ نماز ادا کرتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں