ہفتہ، 27 اپریل، 2024

ڈاؤن سنڈروم-وجوہات

  دورانِ حمل ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہونے پر 90 فیصد خواتین اسقاطِ حمل کا انتخاب کرتی ہیں، جو پیدائش تک قانونی ہے۔ لیکن اس حوالے سے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ متوقع والدین کو فرسودہ مشورے اور اسقاطِ حمل کی ترغیب دی جاتی ہے۔بی بی سی نے تین ماؤں سے بات کی جو چاہتی ہیں کہ نظام بدلا جائے۔’مدد صرف اس صورت میں موجود تھی اگر میں اسقاط حمل کا انتخاب کرتی‘جیکسن بک ماسٹر ایک عام سا چھ سالہ لڑکا ہے۔ جسے تیراکی، کاریں، ڈایناسور، مکی ماؤس اور اپنے میوزیکل تھیٹر گروپ کے ساتھ سٹیج پر پرفارم کرنا پسند ہے۔پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے انھیں’ایک چھوٹا سا مزاح نگار‘ کہا جاتا ہے جس سے مل کر کچھ حد تک ’شرارتی مزاح‘ کا احساس ہوتا ہے۔جیکسن ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہیں، جس کا مطلب ہے کہ جیکسن میں ایک اضافی کروموزوم موجود ہے اور انھیں سیکھنے میں معذوری کا سامنا ہے۔لورین کا کہنا ہے کہ اپنے بیٹے جیکسن کا اسقاطِ حمل کروانے کے لیے ان پر بہت دباؤ ڈالا گیا


ان کی والدہ لورین کا کہنا ہے کہ ’جیکسن کو کسی کام کو مکمل کرنے زیادہ وقت لگتا ہے، لیکن ہم اس چیز کو بہت زیادہ مناتے ہیں کیونکہ یہ اس کے لیے یہ ایک کامیابی ہے۔‘جیکسن اپنے سکول میں بہت اچھا شاگرد ہے جہاں اس کے بہت سے دوست ہیں اور اسے صحت کے کسی اور مسائل کا سامنا نہیں ہے۔اسی لیے لیے اب ملٹن کینس میں رہنے والی لورین سمجھ نہیں پا رہیں کہ جب وہ حاملہ تھیں تو دائیاں ان کی حالت کے متعلق اتنا منفی رویہ کیوں رکھتیں تھیں۔ان کی عمر کی وجہ سے اضافی سکریننگ اور بلڈ ٹیسٹ کروانے پر رضامندی کے بعد انھیں پتہ چلا کہ جیکسن کو ڈاؤن سنڈروم ہوسکتا ہے۔وہ کہتی ہیں ’اس وقت میں 45 سال کی تھی اور میں جانتی تھی کہ خطرہ ہے لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ دائی نے کہا کہ ہمیں سکرین پر جیکسن کو دیکھنے کے لیے زیادہ وقت چاہیے لہذا ہم نے ایسا ہی کیا۔‘


سونوگرافر نے وضاحت کی کہ اگر بچے نے اس حالت کو ظاہر کیا تو اگلا قدم امونیوسنٹیسیس ہوگا، ایک ایسا ٹیسٹ جس میں اسقاط حمل کا تھوڑا سا امکان ہو سکتا ہے۔میں نے کہا نہیں، ہمیں اس میں دلچسپی نہیں ہوگی، کیونکہ ہم نے پچھلے سال ایک بچہ کھو دیا تھا۔ وہ بہت غصے میں تھیں اور انھوں نے کہا کہ ’آپ جیسی عورتیں مجھے پسند نہیں۔ اگر آپ اس بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتیں تو سکریننگ کرنے کی زحمت کیوں کی؟‘جیکسن اپنے سکول میں بہت اچھا شاگرد ہے جہاں اس کے بہت سے دوست ہیں اور اسے صحت کے کسی اور مسائل کا سامنا نہیں ہےبعد میں ایک دایہ نے فون کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں بہت افسوس ہے‘ لیکن ان کے پاس ’واقعی بری خبر‘ تھی۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بچے میں ڈاؤن سنڈروم ہونے کا پانچ میں سے ایک امکان موجود ہے۔لورین اور اس کے شوہر مارک نے مزید جانچ کرانے سے انکار کردیا۔ وہ اپنے بچے کو دنیا میں لانا چاہتے تھے، چاہے وہ جیسا بھی ہو۔لورین کا مزید کہنا ہے کہ ’مدد صرف اسی صورت میں میسر تھی اگر میں اسقاط حمل کا انتخاب کرتی، لیکن جب میں نے کہا کہ میں جیکسن کو جنم دینا چاہتی ہوں تو ان کو کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔‘


جیکسن اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے-جیکسن کی پیدائش کے وقت ہی اس میں ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہو گئی تھی اور لورین کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان نے کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے دوسرے بچے جیکسن سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس بات پر آپس میں لڑتے ہیں کہ بڑے ہونے پر ان میں سے جیکسن کی دیکھ بھال کون کرے گا۔وہ کہتی ہیں ’میں چاہتی ہوں کہ اس کی شادی ہو اور وہ نوکری کرے اور اس کا نارمل مستقبل ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ اسے ہمیشہ مدد کی ضرورت ہوگی لیکن ہمیں واقعتاً یقین ہے کہ وہ ایک بھرپور زندگی گزارے گا۔ وہ ایک شو مین اور ایک بہترین انٹرٹینر ہے اور ہمارا خیال ہے کہ وہ سٹیج تک پہنچے گا۔‘’38ویں ہفتے میں مجھے بتایا گیا کہ میں اب بھی اسقاطِ حمل کروا سکتی ہوں‘20 ہفتوں کے سکین پر ایما کو بتایا گیا کہ ان کی بیٹی جیمی کے دماغ میں کچھ سیال مادہ موجود ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے معذور ہونے کا امکان ہےپورے نو ماہ کے حمل کے دوران ایما میلر نے اپنی بیٹی جیمی کا اسقاطِ حمل کروانے کا دباؤ محسوس کیا۔ اس وقت 24 سال کی عمر میں ان کا اپنے شوہر سٹیو سے پہلے ہی ایک جوان بیٹا تھا۔


وہ کہتی ہیں ’پوری ایمانداری کے ساتھ بتاؤں تو ہمیں 15 مرتبہ اسقاطِ حمل کا مشورہ دیا گیا، اگرچہ ہم نے یہ واضح کردیا تھا کہ ہمارے لیے یہ کوئی آپشن نہیں تھا، لیکن وہ دباؤ ڈالتے رہے اور ایسا لگتا تھا کہ وہ واقعتاً یہ چاہتے تھے کہ ہم اسقاطِ حمل کروا دیں۔‘20 ہفتوں کے سکین پر ایما کو بتایا گیا کہ ان کی بیٹی کے دماغ میں کچھ سیال مادہ موجود ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے معذور ہونے کا امکان ہے۔’اسی لمحے انھوں نے مشورہ دیا کہ ہم اسقاطِ حمل کروا دیں اور ہمیں کہا گیا کہ سوچیں آپ کے بیٹے اور اس کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔‘ن کا بیٹا لوگن اس وقت سرجری کروانے کے لیے منتظر مریضوں کی فہرست میں تھا۔ لوگن دل میں سوراخ کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔38ویں ہفتے میں ڈاکٹروں نے واضح کر دیا کہ اگر کسی دن صبح اٹھنے پر میرا ارادہ بدل جائے تو میں انھیں بتاؤں کیونکہ ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی‘ایما کا کہنا ہے کہ جس وقت وہ اپنے بیٹے کے ٹھیک ہونے کے منتظر تھے، اپنی بیٹی کی دھڑکن کو روکنے کے لیے دل میں انجیکشن لگا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں (یہ 22 ہفتے ختم ہونے کے بعد اسقاطِ حمل کا تجویز کردہ طریقہ ہے)۔’اس چیز نے ہمیں درست فیصلہ کرنے کا حوصلہ دیا۔ یہ  مضمون میں نے  انٹر نیٹ سے لیا ہے-


جمعہ، 26 اپریل، 2024

پاکستان کی زراعت میں نہروں کا کردار



تقسیم سے پہلے برصغیر کا بڑا حصہ زراعت کے لیے بارشوں پر انحصار کرتا تھا۔ انگریز نے دیکھا کہ گلیات کے پہاڑوں سے  اترائ کی زمین پر بارشوں کا تناسب  گھٹتا جاتا ہے اور یہاں کی زمین زرخیز ہونے کے باوجود بڑی حد تک بیابان کا منظر پیش کرتی ہے اس لیے انہوں نے ان علاقوں کو آباد  کاری کا فیصلہ کیا   ان کے جیا لوجیکل ماہرین  نے سروے کر کے بتایا  کہ اس علاقے میں نہریں آسانی سے کھودی جا سکتی ہیں، کیوں کہ پوٹھوہار کے بعد ایک بتدریج ڈھلوان ہے جو سندھ  تک چلی گئی ہے۔ ویسے تو اکا دکا نہریں چھوٹے پیمانے پر کھودنے کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہو گیا تھا مگر باقاعدہ نہری نظام کا آغاز 1886 میں ہوا، جس کے تحت انگریزوں نے سب سے پہلے جنوبی پنجاب میں ملتان کے قریب سدھنائی نہر کھودی۔یہ صرف نہر ہی نہیں تھی بلکہ اس سے جو علاقہ سیراب ہوا، وہاں دوسرے علاقوں سے 2705 کسانوں کو لا کر ان میں پونے دو لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ اراضی تقسیم کی گئی۔ اس طرح یہ صرف زرعی نہیں بلکہ سماجی منصوبہ بھی تھااس کے بعد سہاگ پاڑا، چونیاں، چناب، جہلم، لوئر باری دوآب، اپر چناب، اپر جہلم، اور نیلی بار میں لاکھوں ایکڑ سیراب کر کے وہاں لوگوں کی آباد کاری کی گئی۔ان نہروں سے پہلے پنجاب کا کل زرعی رقبہ 30 لاکھ ایکڑ سے بڑھا کر ایک کروڑ 40 لاکھ ایکڑ پر لے گئے۔ یہ سارا کام جدید مشینری اور بلڈوزروں کے بغیر بیلچوں،  اورگھریلو اوزاروں اور مزدوروں کے ذریعے کیا گیا  

قدرتی حسن سے مزیں یہاں، دریا، ندی ،پہاڑ،صحرااورکہیں کہیں تو چپے چپے پہ جھیلیں ، جنگلا  ت سر سبز وشاداب نظارے دکھائی دیتے ہیں۔تاہم کچھ عرصہ سے پانی کی کمی وجہ سے سرسبزہریالی اور زراعت کی کھیتی باڑی پربڑا اثر پڑا ہے۔ درمیان میں بھارت سے آنے والے دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث زراعت سے لے کر باغات اور نہری نظام والے علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح میں بھی کمی شروع ہوئی۔ادھر بارشوں کی کمی کے باعث وطن عزیز کے کئی علاقوں میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔قبل ازیں ملک کے اکثر وبیشتر علاقوںمیں پانی کی وافر مقدار سے زراعت ، باغات اور پینے کے لئے پانی وافر مقدار میں ملتا تھا۔ تاہم اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں کاریز سسٹم موجود تھا۔ پانی کے قدرتی چشموں سے بھی پہاڑی جگہوں پر ضروریات زندگی کا استعمال اور فصلات اگائی جاتی تھیں۔ملک میں بارشیں اور زیادہ سرد بالائی علاقوںمیں برف باری بڑی مقدارمیں ہوتی رہتی، بعض پہاڑی جگہوں پر برف کے تودے بن جاتے تھے جن کے پگھلنے کے باعث پانی کی زیر زمین سطح میں اضافہ ہوتا رہتا۔دریا، ندی، نالے بہتے رہتے۔تاہم آج کل ان میں کمی واقع ہوگئی ہے۔


 اس حوالے سے مبصرین کی رائے ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موسم کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔دنیا کے سرد علاقوںمیں سردی کی شدت میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ گرمی کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین بتاتے  ہیں کہ دنیا بھر میں برفانی تودے بھی جلدی سے پگھل رہے ہیں۔کیونکہ پانی اسٹاک کے حوالے سے قدرتی طور پربرفانی تودے اپنابڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تاہم دنیا میں کشمیروتبت کے مقام پر بھی برفانی تودے بڑی مقدار میں بنتے ہیں جن کے پگھلنے سے پانی وہاں سے ہوتا ہوا پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں میں آتا ہے جس سے ملک میں ضروریات زندگی اور نہری نظام کے ذریعے زراعت کی جاتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں موجود کا صرف 2 فیصد استعمال میں لایا جاتا ہے باقی 98 فیصد پانی سمندر میں جا گرتا ہے۔سمندر کا پانی نہ تو پینے کے لئے اور نہ ہی زراعت کے استعمال میں آتاہے۔دوسری جانب1960میں بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہواتھا۔ اس حوالے سے پاکستان کے تین دریا بھارت کو دیئے گئے تھے، جن میں ستلج ، بیاس اور راوی جبکہ دریائے سندھ ، جہلم اور چناب پاکستان کو دیئے گئے تھے۔


ان دریاؤں پر دونوں ممالک کوڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت تھی۔ ادھر بھارت نے پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں پربھی ڈیم بنانا شروع کر دیئے ، کشن گنگا ڈیم اس کی کڑی ہے۔ تاہم بھارت کی جانب سے پانی کی تقسیم کے بارے عداوت چلتی رہی ہے، ابھی کچھ عرصہ پہلے بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی بند کر دیا تھا۔جس سے پاکستان کے چھوٹے چھوٹے دریاؤں اور نہری نظام پر بڑااثرا پڑا۔مذکورہ علاقوں میں پانی کی کمی ہوگئی، بھارت اس حوالے سے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان نے کئی بار عالمی سطح پر اس کی شکایات بھی کی ہیں۔واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدے میں ضامن کا کردار ورلڈبینک نے ادا کیا تھا۔بھارت نے پانی بند کیا تو پاکستان نے اس مسئلے کے لئے ثالثی عدالت کے قیام جبکہ بھارت نے اس سے فراریت اختیار کی۔تاہم عالمی بینک کے مرکزمیں ہونے والے مذاکرا ت میں بھارت اعتراضات اورتحفظات کو دور نہیں کر سکا اور عالمی بینک کو بھی مطمئن نہیں کر سکا حالانکہ یہ ایک بڑا معاہدہ ہے اور پاکستان نے ہمیشہ اس کی پاسداری رکھی اور اسے مقدم جانا۔ویسے بین الاقوامی اصول کے تحت دنیا میں اوپری حصے والے ممالک نیچے والے ملکوں کو پانی دیں گے اور یہ قدرت کا نظام ہے کہ پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی جانب جاتاہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کے دریاؤں میں پانی اوپری سطح سے بھارت، کشمیر اورتبت کے مقام سے آتاہے۔ ان آنے والے دریاؤں میں پانی کو یہاں نہری نظام اور ندی نالوں کے ذریعے باغات ،کھیتی باڑی اور پینے کے لئے بھی استعمال میں لایاجاتا ہے۔ نہری نظام پر مشتمل علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے کے سبب ہینڈ پمپ اور اس پر واٹرموٹر رکھ کر پانی حاصل کیا جاتا ہے۔

یہ امر حقیقی ہے کہ پانی کی وافرمقدار بنجر زمین کو آباد کرتی ہے، اس سے غذائی پیداوار کے معاملے میں خودکفیل ہو اجاتا ہے۔ اسی طرح ملکی پیداوار ، زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ افراط زر کا خاتمہ بھی پیداوارمیں اضافے سے ہی ہوتا ہے۔ لیکن بھارت آئے دن پاکستانی دریاو ں پر بند باندھ کر پاکستان کو خشک سالی سے ددو چار کرتا رہتا ہے۔ درمیان میں بھارت سے آنے والے دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث زراعت سے لے کر باغات اور نہری نظام والے علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح میں بھی کمی شروع ہوئی۔ادھر بارشوں کی کمی کے باعث وطن عزیز کے کئی علاقوں میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔قبل ازیں ملک کے اکثر وبیشتر علاقوںمیں پانی کی وافر مقدار سے زراعت ، باغات اور پینے کے لئے پانی وافر مقدار میں ملتا تھا۔ تاہم اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں کاریز سسٹم موجود تھا۔ پانی کے قدرتی چشموں سے بھی پہاڑی جگہوں پر ضروریات زندگی کا استعمال اور فصلات اگائی جاتی تھیں۔ملک میں بارشیں اور زیادہ سرد بالائی علاقوںمیں برف باری بڑی مقدارمیں ہوتی رہتی، بعض پہاڑی جگہوں پر برف کے تودے بن جاتے تھے جن کے پگھلنے کے باعث پانی کی زیر زمین سطح میں اضافہ ہوتا رہتا۔دریا، ندی، نالے بہتے رہتے۔تاہم آج کل ان میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے مبصرین کی رائے ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موسم کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔دنیا کے سرد علاقوںمیں سردی کی شدت میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ گرمی کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین بتاتے ہیںکہ دنیا بھر میں برفانی تودے بھی جلدی سے پگھل رہے ہیں۔کیونکہ پانی اسٹاک کے حوالے سے قدرتی طور پربرفانی تودے اپنابڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تاہم دنیا میں کشمیروتبت کے مقام پر بھی برفانی تودے بڑی مقدار میں بنتے ہیں جن کے پگھلنے سے پانی وہاں سے ہوتا ہوا پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں میں آتا ہے جس سے ملک میں ضروریات زندگی اور نہری نظام کے ذریعے زراعت کی جاتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں موجود کا صرف 2 فیصد استعمال میں لایا جاتا ہے باقی 98 فیصد پانی سمندر میں جا گرتا ہے۔سمندر کا پانی نہ تو پینے کے لئے اور نہ ہی زراعت کے استعمال میں آتاہے-پاکستان میں اس وقت اور مستقبل میں پانی کے بحران سے بچنے کا واحد حل نئے ڈیم بنانا ہیں تاکہ سیلابی پانی کو زخیرہ کیا جاسکے


جمعرات، 25 اپریل، 2024

ایک جری لیڈر ابراہیم رئیسی



ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے تین روزہ دورے پر پیر کو اسلام آباد پہنچے ہیں۔

     جناب ابراہیم رئیسی کے بارے میں سوچتے ہوئے میرا زہن ماضی کے ایران میں جاپہنچا اور میں نے سوچا اگر ایرانی عوام نے شاہ ایران سے نجات پانے کے لئے  جہاد کا فریضہ انجام نا دیا ہوتا تو اس وقت ایرانی عوام کی سانسوں کی ڈور بھی ان قو توں کے ہاتھ میں ہوتی جو اپنی مرضی سے ایرانی  عو   ام کو سانس لینے اجازت دیتے اور زرا سی حکم عدولی پر ڈور کھینچ کر ایرانی عوام کا دم گھونٹ دیا کرتے --آج ایران ایک باحمیت قوم کی طرح سر اٹھا کے کھڑی ہے جس کے راہبرجری اور باغیرت افراد ہیں -آئے ان کے آج کے را  ہبرکے بارے میں جانتے ہیں  ست دان، مسلم فقیہ، ایران کے چیف جسٹس ، اور صدر ایران کے صدر ہیں، جو 2021 کے ایرانی صدارتی انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے ایران کے عدالتی نظام میں متعدد عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جیسے اٹارنی جنرل (2014–2016) اور ڈپٹی چیف جسٹس (2004–2014)۔ وہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں تہران کے پراسیکیوٹر اور ڈپٹی پراسیکیوٹر بھی رہے تھے۔ وہ سنہ 2016 سے 2019 تک آستانہ قدسیہ     کےکسٹوڈین اور چیئرمین تھے۔  وہ جنوبی خراسان صوبہ سے ماہرین اسمبلی کے رکن بھی ہیں، 2006 کے انتخابات میں پہلی بار منتخب ہوئے

سنہ 2021 میں صدر منتخب ہونے کے بعد ابراہیم رئیسی کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے جسے خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک اہم دورہ قرار دے رہے ہیں۔شاہ ایران کی معزولی کے بعد انقلاب اسلامی سریر آرائے سلطنت ہوا  تو ساری دنیا نے   انقلاب ایران کے مظالم کا نیا چہرہ  دیکھا - ساری دنیا میں پھانسیوں کا شہرہ ہوا اور پھر تطہیر کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایرانی عوام کی دولت انہی پر خرچ ہونے لگی  پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق 22 سے 24 اپریل تک جاری رہنے والے اس دورے کے دوران صدر رئیسی پاکستان کے صدر اور وزیرِ اعظم کے علاوہ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی سے بھی ملاقات کریں گے۔اس کے علاوہ دورے کے دوران ایرانی صدر اور ان کا وفد کراچی اور لاہور میں صوبائی حکومتوں کے عہدیداروں سے بھی ملے گا۔ایرانی صدر پاکستان کا دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ایران اسرائیل تنازع عروج پر ہے اور اس سے قبل رواں برس کے آغاز میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بھی اس وقت تلخی دیکھنے میں آئی تھی جب دونوں پڑوسی ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کی سرزمین پر کیے جانے والے حملوں کو مبینہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں قرار دیا گیا تھا۔

اعدلیہ میں شمولیت اور پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدماتابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہوئے جہاں شیعہ مسلمانوں کے مقدس ترین مزارات میں سے ایک واقع ہے۔ ان کے والد ایک عالم تھے اور ان کی وفات اس وقت ہوئی جب ابراہیم فقط پانچ برس کے تھے۔شیعہ روایت کے مطابق اُن کا سیاہ عمامہ اُن کے پیغمبر اسلام کی آل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اُنھوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا۔ایک طالب علم کے طور پر انھوں نے مغربی حمایت یافتہ شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ شاہ ایران سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد معزول ہو گئے تھے۔انقلاب کے بعد انھوں نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور کئی شہروں میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اس دوران وہ آیت اللہ خامنہ ای کی زیر تربیت بھی تھے جو سنہ 1981 میں ایران کے صدر بنے۔

’ڈیتھ کمیٹی‘ کا حصہ -رئیسی جب تہران میں ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے اس وقت وہ صرف 25 سال کے تھے۔اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے ان چار ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو 1988 میں قائم اُن   ٹربیونلز کا حصہ تھے جو کہ ’ڈیتھ کمیٹی‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ٹربیونل نے مبینہ طور پر ایسے ہزاروں قیدیوں پر ان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث دوبارہ مقدمات قائم کیے جو پہلے ہی مقید تھے اور سزائیں بھگت رہے تھے۔ ان قیدیوں میں زیادہ تر بائیں بازو کے اپوزیشن گروپ مجاہدین خلق (MEK) کے ممبر تھے، جنھیں پیپلز مجاہدین آرگنائزیشن آف ایران (PMOI) بھی کہا جاتا ہے۔رئیسی بارہا بڑے پیمانے پر سزائے موت دینے کے معاملے میں اپنے کردار سے انکار کر چکے ہیں لیکن انھوں نے یہ بھی کہا ہے ہ وہ سزائیں سابق رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے فتوے کی وجہ سے جائز تھیں۔چند برس قبل ابراہیم رئیسی، عدلیہ کے کئی دیگر ارکان اور اُس وقت کے نائب سپریم لیڈر آیت اللہ حسین علی منتظری کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ایک آڈیو ٹیپ لیک ہوئی تھی۔اس میں منتظری کو سزائے موت کو ’اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جرم‘ قرار دیتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے۔ایک سال بعد منتظری نے خمینی کے نامزد کردہ جانشین کی حیثیت سے اپنا مقام کھو دیا اور خمینی کی وفات پر آیت اللہ خامنہ ای سپریم لیڈر بن گئے۔ابراہیم رئیسی 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل مقرر ہونے سے پہلے تہران کے پراسیکیوٹر، پھر سٹیٹ انسپکٹوریٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور عدلیہ کے پہلے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔دو سال بعد آیت اللہ خامنہ ای نے اُنھیں ایران کی سب سے اہم اور امیر ترین مذہبی تنظیموں میں سے ایک ’ آستانہ قدسیہ رضویہ‘ کا نگہبان نامزد کیا تھا۔یہ تنظیم مشہد میں آٹھویں شیعہ امام امام رضا کے مزار کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ تمام مختلف فلاحی اداروں اور تنظیموں کا انتظام سنبھالتی ہے۔ امریکہ کے مطابق اس تنظیم کا تعمیرات، زراعت، توانائی، ٹیلی کمیونیکیشن اور مالیاتی خدمات میں بڑا حصہ ہے۔2017


 میں رئیسی نے صدارت کا امیدوار بن کر مبصرین کو حیران کر دیا تھا۔2017 کے انتخابات میں حسن روحانی، جو ابراہیم کے ایک ساتھی عالم تھے، انھوں نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کر لی تھی۔’کرپشن مخالف جنگجو‘رئیسی نے خود کو ایک ’کرپشن مخالف جنگجو‘ کے طور پر پیش کیا تھا لیکن صدر نے ان پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے عدلیہ کے نائب سربراہ کی حیثیت سے بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ سنہ 2017 کے الیکشن میں 38 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے تھے۔اس نقصان نے رئیسی کی شبیہہ کو داغدار نہیں کیا اور سنہ 2019 میں آیت اللہ خامنہ ای نے اُنھیں عدلیہ کے سربراہ کے طاقتور عہدے پر نامزد کیا۔اگلے ہی ہفتے وہ ماہرین کی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین کے طور پر بھی منتخب ہوئے جو کہ 88 رکنی علما کا ادارہ ہے جو اگلے سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے ذمہ دار ہے۔

بحیثیت عدلیہ کے سربراہ رئیسی نے اصلاحات نافذ کیں جس کی وجہ سے ملک میں منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پانے اور پھانسی کی سزا پانے والوں کی تعداد میں کمی آئی تاہم ایران اب بھی چین کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ لوگوں کو سزائے موت دینے والا ملک ہے۔عدلیہ نے سکیورٹی سروسز کے ساتھ مل کر دوہری شہریت رکھنے والے ایرانیوں یا غیر ملکی مستقل رہائشیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا۔اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رئیسی پر سنہ 2019 میں ان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی بنیاد پر پابندیاں عائد کیں اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ ان افراد کی پھانسیوں پر انتظامی نگرانی کرتے ہیں ‘لیکن تمام تر طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایران اپنے جری رہبران قوم کے ہمراہ ترقی کی زریں مثالی ملک ہے

بدھ، 24 اپریل، 2024

برمودہ مثلث 'ایک معمہ

 


اس --اللہ  پاک  قران پاک میں  فر ما رہا ہے -تم میں سے کوئ نہیں جانتا ہے کہ کون کہاں مرےگا اور کون کہاں گڑے گا  -قران کریم کی اس روشنی میں ہم برمودہ مثلث کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہاں قدرت کے کسی اسرار کے تھت بڑے بڑے دیو ہیکل جہاز اور بڑے بڑے طیارے  غائب ہو جاتے ہیں اور پھر سمندر کی اتاہ گہرائیوں میں بھی ان کا سراغ نہیں ملتا ہے تو پھر وہ جاتے کہاں ہیں؟ اور ان میں موجود افراد کس جگہ جا کر دفن ہو جاتے ہیں -اس خطے میں بحری جہازوں کے غائب ہونے واقعات کی کہانیاں 19 ویں صدی کے وسط میں پھیلنا شروع ہوئیں جبکہ کچھ جہازوں کو مکمل طور پر خالی دریافت کیا گیا جس کی وجہ سامنے نہیں آسکی۔مگر اس کو شہرت دسمبر 1945 میں اس وقت ملی جب امریکی بحریہ کی فلائٹ 19 جو کہ 5 یو تارپیڈو بمبارطیاروں پر مشتمل تھی، اٹلانٹک میں معمول کے مشن پر نکلی اور غائب ہوگئی، طیاروں کا ملبی یا عملےکے 14 ارکان کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوسکا۔لوگوں کے تجسس میں مزید اس وقت اضافہ ہوا جب یہ رپورٹس سامنے آئی کہ اس فلائٹ مشن کو ڈھونڈنے والے طیاروں میں سے ایک بھی غائب ہوگیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا بحریہ کا یو ایس ایس سائیکلوپ بھی اس خطے میں 1918 میں گم ہوگیا تھا جس کا سراغ نہیں ملا، مگر اس وقت لوگوں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی، حالانکہ اس کے ساتھ 300 افراد بھی غائب ہوگئے تھے۔اس کے بعد مضامین اور کتابیں جیسے چارلس برلیٹز کی 1974 میں شائع کتاب دی برمودا ٹرائی اینگل نے اس خطے کو دنیا بھر میں شہرت دلا دی، اس کتاب کی 30 زبانوں میں 2 کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں 


سائنسدانوں نے برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں توہمات کو ختم کرنے کی متعدد کوششیں کیں اور بحری و فضائی جہازوں کے غائب ہونے پر مختلف خیالات پیش کیے۔مثال کے طور پر 2016 میں کولوراڈو یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں اس راز کو دریافت کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس خطے کے اوپر پھیلے شش پہلو بادل ممکنہ طور پر بحری جہازوں اور طیاروں کی گمشدگی کا باعث بنتے ہیں۔کولوراڈو یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شش پہلو بادل 65 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں پیدا کرتے ہیں جو 'ہوائی بم' کی طرح کام کرتے ہوئے بحری جہازوں کو غرق اور طیاروں کو گرا دیتی ہیں۔سائنسدانوں نے ناسا کے سیٹلائیٹ کا استعمال کرتے ہوئے اس خطے کا ڈیٹا اکھٹا کیا اور شش پہلو بادلوں کو دریافت کیا جو کہ 32 اور 88 کلو میٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔


محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بادل انتہائی غیر معمولی ہیں ' آپ عام طور پر بادلوں کے ایسے کونے نہیں دیکھتے'۔انہوں نے مزید بتایا ' اس طرح کے بادل سمندر کے اوپر ہوائی بموں کی طرح کام کرتے ہیں، وہ ہوا کے دھماکے کرتے ہیں اور نیچے آکر سمندر سے ٹکرا کر ایسی لہریں پیدا کرتے ہیں جو کہ بہت زیادہ بلند ہوتی ہیں'۔اسی سال ناروے کی آرکٹک یونیورسٹی نے خیال پیش کیا تھا کہ سمندری تہہ میں موجود میتھین یا قدرتی گیس کی موجودگی اس معمے کے پیچھے ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس گیس کا اچانک اخراج جہازوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے باعث ہی طیارے اور جہاز غائب ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ گیس ہوا میں داخل ہوکر طوفانی کیفیت پیدا کرسکتی ہے جس سے طیارے گرجاتے ہیں۔دوسری جانب 2017 میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدان کارل کروزن لینسکی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس سمندری خطے میں متعدد بحری جہازوں اور طیاروں کے بغیر کسی سراغ کے غائب ہونے کے پیچھے خلائی مخلق یا اٹلانٹس کے گمشدہ شہر کے فائر کرسٹلز کا ہاتھ نہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں گمشدگیاں ماورائی نہیں بلکہ خراب موسم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں اور اگر اوسط کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں ہر جگہ اس طرح بحری اور ہوائی جہاز غائب اتنی تعداد میں ہی غائب ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ سمندری تکون 5 لاکھ اسکوائر میل رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور یہاں بہت زیادہ سمندری ٹریفک ہوتی ہے۔ان کے بقول جب آپ وہاں غائب ہونے والے جہازوں کی تعداد پر غور کریں تو یہ نتیجہ نکالیں گے کہ دیگر سمندری خطوں کے مقابلے میں اس میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں۔اسٹریلین سائنسدان کے مطابق امریکی بحریہ کی فلائٹ 19 کا واقعہ خراب موسم اور انسانی غلطی کے باعث پیش آیا تھا جس کا عملہ بھی نشے میں دھت تھا۔2018 میں برطانیہ کی ساﺅتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اس سمندری تکون کا راز وہاں کی 100 فٹ بلند تیز لہروں میں چھپا ہے۔


تحقیقی ٹیم کا ماننا تھا کہ برمودا ٹرائی اینگل کے اسرار کی وضاحت تند و تیز لہروں سے ممکن ہے۔محققین نے اس مقصد کے لیے طوفانی لہروں کو لیبارٹری میں بنایا جو کہ بہت طاقتور اور خطرناک تھی، جبکہ ان کی اونچائی 100 فٹ تک تھی۔اس قسم کی لہروں کو سائنسدان اکثر شدید طوفانی لہریں قرار دیتے ہیں۔تحقیقی ٹیم نے ایک بحری جہاز یو ایس ایس سائیکلوپ کا ماڈل تیار کیا تھا،542 فٹ کے اس جہاز کا ملبہ کبھی نہیں مل سکا اور نہ ہی عملے اور مسافروں کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکا۔تحقیقی ٹیم کے مطابق اس تکون میں 3 مختلف اطراف سے شدید طوفان آسکتے ہیں جو کہ کسی بہت بڑی لہر کو بنانے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی لہر کسی بڑے بحری جہاز کو بھی ڈبو سکتی ہے، جیسا لیبارٹری میں آزمائش کے دوران اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی۔مگر کسی بھی تحقیق میں اب تک اس سوال کا جواب سامنے نہیں آسکا کہ اگر بادل یا لہر جہازوں اور طیاروں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں تو ان کا ملبہ کہاں جاتا ہے، کیونکہ ایک غیرمصدقہ رپورٹ کے مطابق ہر سال اس خطے میں اوسطاً چار طیارے اور 20 بحری جہاز گم ہوجاتے ہیں ان کی آباد کاری کی

منگل، 23 اپریل، 2024

منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر

  24 نومبر، 1952 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔ آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں-پروین شاکر نئے لب و لہجہ کی تازہ بیان شاعرہ تھیں، جنھوں نے مرد کے حوالے سے عورت کے احساسات اور جذباتی مطالبات کی لطیف ترجمانی کی۔ ان کی شاعری نہ تو آہ و زاری والی روایتی عشقیہ شاعری ہے اور نہ کُھل کھیلنے والی رومانی شاعری۔ جذبہ و احساس کی شدّت اور اس کا سادہ لیکن فنکارانہ بیان پروین شاکر کی شاعری کا خاصہ ہے۔ ان کی شاعری ہجر و وصال کی کشاکش کی شاعری ہے جس میں نہ ہجر مکمل ہے اور نہ وصل۔ جذبہ کی صداقت،رکھ رکھاؤ کی نفاست اور لفظیات کی لطافت کے ساتھ پروین شاکر نے اردو کی نسائی شاعری میں اک ممتاز مقام حاصل کیا۔ بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔پروین شاکر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے، ان کے مربّی احمد ندیم قاسمی کا کہنا تھا کہ پروین کی شاعری غالب کے شعر "پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا * افسونِ انتظار تمنا کہیں جسے" کا پھیلاؤ ہے۔ 

پروین شاکر  اپنے منفرد لب و لہجے اور عورتوں کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل پیش کرنے کے باعث اردو شاعری کو اک نئی جہت دیتی نظر آتی ہیں۔ وہ بےباک لہجہ استعمال کرتی ہیں، اور انتہائی جرات کے ساتھ جبر و تشدد کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے جذبات و خیالات پر شرم و حیا کے پردے نہیں ڈالتیں ۔ ان کے موضوعات محدود ہیں، اس کے باوجود قاری کو ان کی شاعری میں نغمگی،تجربات کی صداقت،اور خوشگوار تازہ بیانی ملتی ہے۔پروین شاکر 24 نومبر 1952 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ۔ ان کے والد ،شاکر حسین ثاقب جو خود بھی شاعر تھے،قیام پاکستان کے بعد کراچی میں آباد ہو گئے تھے۔پروین کم عمری سے ہی شاعری کرنے لگی تھیں، اور اس میں ان کو اپنے والد کی حوصلہ افزائی حاصل تھی۔ پروین نے میٹرک کا امتحان رضویہ گرلز اسکول کراچی سے اور بی اے سر سید گرلز کالج سے پاس کیا۔ 

1972 میں انھوں نے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی، اور پھر لسانیات میں بھی ایم۔ اے پاس کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ عبداللہ گرلز کالج کراچی میں بطور ٹیچر ملازم ہو گئیں۔ 1976ء میں ان کی شادی خالہ کے بیٹے نصیر علی سے ہوئی جو ملٹری میں ڈاکٹر تھے۔ یہ شادی پروین کی پسند سے ہوئی تھی، لیکن کامیاب نہیں رہی اور طلاق پر ختم ہوئی۔ ڈاکر نصیر سے ان کا ایک بیٹا ہے۔ کالج میں 9 سال تک پڑھانے کے بعد پروین نے پاکستان سول سروس کا امتحان پاس کیا اور انھیں 1982 میں سیکنڈ سکریٹری سنٹرل بورڈ آف ریوینیو مقرر کیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اسلام اباد میں ڈپٹی کلکٹر کے فرائض انجام دئے۔1990ء میں ٹرینٹی کالج جو امریکا سے تعلق رکھتا تھا سے تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی محض 25 سال کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ کلام "خوشبو" منظر عام پر آیا تو ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ انھیں اس مجموعہ پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

پروین کے پہلے مجموعے "خوشبو" میں اک نو عمر لڑکی کے رومان اور جذبات کا بیان ہے جس میں اس نے اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کو گہری فکر اور وسیع تخیّل میں سمو کر عورت کی دلی کیفیات کا انکشاف کیا ہے۔ان کے یہاں بار بار یہ جذبہ ابھرتا دکھائی دیتا ہے کہ وہ نہ صرف چاہے جانے کی آرزو کرتی ہیں بلکہ اپنے محبوب سے زبانی طور پر بھی اس کا اظہار چاہتی ہیں۔ پروین کی شاعری شباب کی منزل میں قدم رکھنے والی لڑکی اور پھر ازدواجی زندگی کے بندھن میں بندھنے والی عورت کی کہانی ہے۔ ان کے اشعار میں نئی پود کو اک شعوری پیغام دینے کی کوشش ہے، جس میں شادی کے غلط تصور اور عورت پر مرد کی اجارہ داری کو چیلنج کیا گیا ہے۔ پروین نے بار باردہراے گئے جذبوں کو د ہرانےوالی شاعری نہیں کی۔ انھوں نے شرما کر یا جھجک کر اپنی مشرقیت کی لاج رکھنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے شاعری سے ماورائیت کو خارج کر کےاردو کی نسائی شاعری کو اپنی بات اپنے انداز میں کہنے کا حوصلہ دی

پروین کی شخصیت میں بلا کی خود اعتمادی تھی جو ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔ اسی کے سہارے انھوں نے زندگی میں ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کیا۔ 18 سال کے عرصہ میں ان کے چار مجموعے خوشبو ،صدبرگ،خودکلامی اور انکار شائع ہوئے۔ ان کی کلیات ماہ تمام 1994 ء میں منظر عام پر آئی۔ 1985 میں انھیں ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ اور 1986 میں یو ایس آئی ایس ایوارڈ ملا۔ اس کے علاوہ ان کو فیض احمد فیض انٹرنیشنل ایوارڈ اور ملک کے وقیع ایوارڈ "پرائڈ آف پرفارمنس" سے بھی نوازا گیا۔سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔ بی۔ آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔ 26 دسمبر 1994ء کو اک کار حادثہ میں ان کا انتقال ہو گیا- اور محض بیالیس برس کی عمر میں یہ زندگانی چھوڑ کر جانے والی پروین شاکر اپنے مدّاحوں کے دل میں آج بھی زندہ ہے   

پیر، 22 اپریل، 2024

سیالکوٹ توجہ کا طالب ہے


   بتایا جاتا ہے کہ سیالکوٹ کی کم و بیش چار ہزار سال پرانی تاریخی حیثیت ہے۔ایک اور تحقیق کے مطابق تحریک آزادی اور ختم نبوت کے ایک نامور مجاہد مولانا ظفر علی خان بھی سیالکوٹ میں ہی پیدا ہوئے۔سیالکوٹ نے میدان کرکٹ اور ہاکی کے بھی بے شمار نامور اور بڑے کھلاڑی پیدا کئے،جن میں ظہیر عباس، اعجاز احمد، شعیب ملک، شہناز شیخ اور منظور جونیئر جیسے درخشندہ ستارے شامل ہیں۔ سیالکوٹ کی علمی، ادبی، ثقافتی اور تاریخی حیثیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر صرف سیالکوٹ کی تجارتی اور کاروباری حیثیت کو ہی معیار بنا لیں تو پھر بھی یہ شہر اقبال پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔قیام پاکستان کے وقت جن دو تین شہروں سے ہندو کاروبار چھوڑ گئے، اُن میں سیالکوٹ بھی شامل تھا۔ بارڈر کے اُس پار  بھارت کا ضلع جموں تھا جس کی حیثیت صرف گیٹ وے ٹو کشمیر کی تھی مگر بھارت نے جموں کو اُس کے  کافی سال پہلے ڈویژن کا درجہ دے کر یہ ثابت کیا کہ یہ صرف ایک سرحدی علاقہ نہیں ہے جو جنگوں میں سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے بلکہ وہاں باقاعدہ ریڈیو سٹیشن بھی قائم کیا تاکہ سٹرٹیجک اہمیت بھی اجاگر ہو سکے۔  سیالکوٹ کے پاس ہلال استقلال کا منفرد اعزاز ہو یا سیالکوٹ میں ڈرائی پورٹ کا قیام ہو یا پھر ایئر پورٹ کا، سیالکوٹ کے دلیر اور فراخ دل کاروباری لوگوں نے سود و زیاں سے بے فکر ہو کر خالصتاً انسانی جذبوں سے لیس ہو کر نہ صرف شہر اقبال بلکہ ملکی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنے میں وہ تاریخی کردار ادا کیا کہ عصر حاضر میں پاکستان تو کیا دنیا کے کسی دیگر شہر کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ایئر پورٹ کا منفرد منصوبہ اِس قدر جامع اور ہمہ گیر ہے اور حکومت سے ایک پائی وصول کیے بغیر اتنا بڑا پراجیکٹ اپنی مدد آپ کے تحت پایہ تکمیل کو پہنچنا،پھر یہاں کی بزنس کمیونٹی کی جانب سے ”ائیر سیال“ کے نام سے اپنی ایئر لائن کامیابی سے چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

 اسی طرح نوآبادیاتی طرز کے بنے ہوئے بیرکوں میں پرانی آرمی ویلفیئر شاپس کی کھڑکیوں، کلاسک برآمدے، اونچی چھتوں اور کشادہ لان میں اب وی مال کی تجارتی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں۔ تمام  مالز میں مقبول ریٹیل برانڈز موجود ہیں جبکہ یہاں فوڈ چینز، گروسری اور بچوں کے لیے پلیئنگ ایریا بھی موجود ہے۔کمرشلائزیشن اور مال کلچر کے اس پہلو پر تو افسوس کیا جاسکتا ہے کہ یہ متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے کے لیے بنایا گیا ہے (جس سے طبقات میں فرق ہوگا) لیکن اس کے قطع نظر ان شاپنگ مالز میں خواتین ملازمین کی موجودگی ایک مثبت امر ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے خواتین ریٹیل افرادی قوت میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے بیوٹی سیلون انڈسٹری کے علاوہ خواتین بطور سیلز پرسن، کیشئرز، کیوسک آپریٹر اور انٹرپرونیورز بھی کام کررہی ہیں۔سیالکوٹ مال کے میک اپ سٹی میں کام کرنے والی ایک خاتون سیلزپرسن سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر کی کفالت کرتی ہیں جبکہ ان کے والد بھی چمڑے کی فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں۔لیکن سیالکوٹ کے نظرانداز شدہ شہر ہونے کا اس وقت شدت سے احساس ہوتا ہے جبموٹر وے سے اترنے کے بعد لگتا ہے کہ ہم کسی پسماندہ علاقے مکی حڈود میں داخل ہو گئے ہیں- شہر میں کسی بھی راستے سے داخل ہوں، شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں،بیکار اور تعفن شدہ سیوریج،شکست و ریخت سے بھرپور در و دیوار اور بڑے بڑے پائپ، کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہم سیالکوٹ جیسے صنعتی ہب میں ہیں یا کسی علاقہ غیر میں داخل ہو چکے ہیں۔واٹر فلٹریشن پلانٹ کے غیر ضروری منصوبے کے لئے ہمارے علاقے کی200ایکڑ سے زائد نہایت بہترین زرعی اراضی چھوٹے کاشتکاروں کو اونے پونے داموں دے کر حاصل کی گئی اور صرف کمیشن کھانے کے لیے ایک بے کار منصوبہ شروع کرتے ہوئے سارے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ سیالکوٹ کی حالت زار پر تو اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر کالم کی تنگ دامانی کا سامنا ہے، لہٰذا بات کو مختصر کرتے ہوئے سیالکوٹ کے ساتھ ہونے والی سیاسی اور انتظامی نا انصافیوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ 

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تحت مقامی کاروباری برادری کی جانب سے بنائے گئے ایس آئی اے ایل کے اس تاریخی میگا پروجیکٹ کے بارے میں پہلے بھی متعدد بار بات کی جاچکی ہے۔ اسے اکثر دیگر شعبوں اور شہروں کے لیے سرکاری مدد کے بغیر خالصتاً سول سوسائٹی کی اجتماعی طاقت کی ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ایس آئی اے ایل کی کامیابی کے بعد سیالکوٹ نے اپنی ایئرلائنز، ایئر سیال کی سروسز کا آغاز کیا۔ ایئر سیل جسے ابتدائی طور پر بڑی مقامی نجی ایئرلائنز کی کم ہوتی سروسز اور قومی ایئرلائن کی پروازوں کو درپیش مسائل کے باعث شروع کیا گیا تھا، اب ایئر سیال کو اس کی سروسز اور معیار کی وجہ سے مسافروں میں خوب پسند کیا جارہا ہے۔نومبر 2007ء میں اپنے آغاز کے بعد سے سیالکوٹ ایئرپورٹ کے اثرات دور رس رہے پھر چاہے وہ معاشی مواقع کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، اس کے سماجی اور ثقافتی اثرات کا دائرہ کار کافی وسیع ہے۔ سب سے پہلے تو کسی بھی ایئرپورٹ کی طرح سیالکوٹ ایئرپورٹ نے ملازمین کے لیے مواقع پیدا کیے۔ ایئرپورٹ کے لیے متنوع افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جن میں منصوبہ سازوں اور انجینئرز، تعمیراتی عملے، گراؤنڈ ہینڈلنگ کا عملہ جیسے کار پارکنگ، سامان کی ریپنگ، سامان کی اسکیننک، مسافروں کو سہولیات فراہم کرنے کا عملہ اور ایئر ٹریفک کنٹرول شامل ہیں۔ ایس آئی اے ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے قوائد کے مطابق ملازمتوں کے لیے سب سے پہلے مقامی آبادی کو ترجیح دی جاتی ہے اور ان ملازمتوں کے مواقعوں نے علاقے کی معاشی ترقی میں اپنا کلیدی حصہ ڈالا ہے۔

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق کارگو ہیوی ایئرپورٹ نے سیالکوٹ کی اسپورٹس اور سرجیکل سامان کی صنعتوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ان دیگر صنعتوں کو بھی ابھرنے کا موقع ملا ہے جوکہ اس سے پہلے صرف برائے نام موجود تھیں، بالخصوص کپڑوں کی صنعت اس کی واضح مثال ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سیالکوٹ کے زیادہ تر حصوں میں فی کس آمدنی کا تناسب بھی قومی اوسط سے زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ بہتر معیارِ زندگی کی تلاش میں لوگوں کو سیالکوٹ ایک پُرکشش مقام لگنے لگا ہے۔ معاشی ترقی کی کشش کی وجہ سے شہر میں لوگ ہجرت کرکے آرہے ہیں اور یوں افرادی قوت میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔فی الوقت سندھ کی ہندو برادری کے بہت سے لوگ سیالکوٹ کی کپڑوں کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ چونکہ ان صنعتوں میں بہتر معاوضے والی ملازمتیں موجود ہیں اس لیے گھریلو کام جیسے صفائی اور تعمیرات کے کام کرنے والے لوگوں کی کمی ہوگئی ہے۔ اس کمی کو اب وہ افرادی قوت پورا کر رہی ہے جوکہ جنوبی اور وسطی پنجاب حتیٰ کہ خیبرپختونخوا سے ہجرت کرکے آئی ہے۔شاپنگ مالز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی شہر کی صورت کو تبدیل کردیا ہے۔ ایک وقت میں سیالکوٹ جو بازاروں کی چہل پہل کے لیے جانا جاتا تھا، اب اس نے مقبول برینڈز، فوڈ چینز اور کھانے کی شاندار مقامات کی موجودگی کے ساتھ ہی جدید شاپنگ کے تصور میں بھی خود کو ڈھال لیا ہے۔ یہ مالز کنٹونمنٹ کے اردگرد بنائے گئے ہیں جہاں پہلے گھنٹہ گھر کے ساتھ صدر بازار ایک تجارتی مرکز تھا۔ سیالکوٹ مال، وی مال، سینٹرل مال اور برینڈز ولیج، یہ تمام ایک مخصوص دائرے ہی میں کھلے ہیں جس کی وجہ سے انگریزوں کی ایک بہت پرانی فوجی چھاؤنی جوکہ نوآبادیاتی دور کی میراث تھی، اسے اب ایک جدید تجارتی مرکز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔سیالکوٹ کا  گھنٹہ گھر جسے شہر کا ورثہ کہا جاتا ہے اب اس سے متصل سیالکوٹ مال واقع ہے جہاں دکانیں، ملٹی پلیکس سینما اور گیمنگ آرکی موجود ہے۔ 

اتوار، 21 اپریل، 2024

پتنگ کی خونیں ڈور


    پتنگ کی خونیں  ڈور -ایک سال کی ننھی بچی باپ کی گو د میں بیٹھی بائیک پر جا  رہی  تھی کہ اچانک اس کی گردن ڈھلک گئ اور ساتھ ہی باپ کے کپڑے خون میں تر بتر ہو گئے-بچّی کو پتنگ کی قاتل ڈور نے مار ڈالا تھا  دوسرا کیس -افطار میں کچھ ہی وقت باقی تھا، آصف اپنی والدہ کے ساتھ افطاری کرنا چاہتا تھا، اس لیے وہ تیزی سے بائیک چلاتا ہوا اپنے گھر جارہا تھا کہ اچانک اسے اپنے گلے پر کسی چیز کے ٹکرانے اور شدید تکلیف کا احساس ہوا۔ آصف بائیک سے گرگیا، اپنی تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اس نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اس کا دماغ ماؤف ہورہا تھا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔سڑک سے گزرنے والے لوگ بھاگ کر اس کی طرف آرہے تھے۔ صرف چند سیکنڈ میں آصف کے پورے کپڑے خون میں لت پت ہوچکے تھے۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ سکتا، وہ لڑکھڑا کر گرگیا۔ آصف کی زندگی کی ڈور، کسی پتنگ کی ’’بے رحم قاتل ڈور‘‘ نےمنقطع کردی تھی آصف کی منگنی ہو چکی تھی اور گھر والے شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے 

۔یوں تو ہر دور میں پتنگ بازی ایک دلچسپ مشغلہ رہا ہے۔ نیلے آسمان کی وسعتوں میں سفید، اودے، سرمئی بادلوں کے ساتھ ہوا کے دوش پر اٹکھیلیاں کرتی رنگ برنگی پتنگیں سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلیتی ہیں۔پاکستان میں بھی یہ کھیل بہت مقبول ہے لیکن اب کچھ عرصے سے پتنگ بازی پر حکومت کی جانب سے بار بار پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ پتنگ بازی جیسے مشغلے پر پابندی کی بنیادی وجہ وہ ’’قاتل ڈور‘‘ ہے جس نے اَن گنت افراد کی ’’سانسوں کی ڈور‘‘ کو منقطع کردیا ہے۔ پاکستان بھر میں پتنگ کی اس قاتل ڈور نے نہ صرف درجنوں افراد کو شدید زخمی اور ہمیشہ کےلیے آواز سے بھی محروم کردیا، بلکہ کئی افراد اس ڈور کا شکار ہوکر زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اکثر لوگ جانتے ہیں کہ سرکس میں جو کر لوگوں کو اپنی حرکات و سکنات سے خوش کرنے اور ہنسانے کے لیے مختلف کرتب دکھاتا ہے۔ لوگ اس سے انجوائے کرتے ہیں اور محظوظ ہوتے ہیں۔ ایک سرکس کے دوران جو کر نے بلندی سے چھلانگ لگائی اور زمین پر چاروں شانیں چت لیٹ گیا ۔ وہاں موجود حاضرین زبر دست تالیاں اور سیٹیاں بجا بجا کر اسے داد دیتے رہے، خوش ہوتے رہے لیکن اس نے نہ اٹھنا تھا نہ اٹھا وہ مر چکا تھا۔ اسی طرح لوگ پتنگ بازی کرتے ہوئے محظوظ ہوتے ہیں، اسے ایک روایتی کھیل اور شغل قرار دیتے ہیں۔کہتے ہیں پتنگ بازی کا آغاز 3 ہزار سال پہلے   ہوا ۔ شاید کبھی یہ ایک مشغلہ کھیل تماشار ہا ہو، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ جب سے پتنگ بازی کے لیے تیز دھار ، دھاتی اور کیمیکل ( مانجھا ) لگی ڈور کا استعمال بڑھا ہے یہ ایک خونی عمل بن چکا ہے۔ پتنگوں کی ڈور پھرنے کی بناءپر، گلے کٹنے سے لوگ مر رہے ہیں ۔

 اکثر موٹر سائیکل سوار ڈور پھرنے اور بچے   پتنگیں لوٹنے کی کوشش میں حادثات کا شکار ہو کر زخمی ہو جاتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے کثیر تعداد میں لوگ پتنگ بازی سے مضروب اور جان بحق ہو چکے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ کوئی شخص اپنی نوکری ختم کر کے یا بازار سے سودا سلف لے کر اپنے خیالوں میں تم اپنے دھیان میں خود یا بچے کے ساتھ اپنے گھر اپنی فیملی کے پاس جارہا ہو اور اچانک سڑک پر کہیں سے تیز دھار دھاتی ڈور ا سکے ساتھ الجھ کر اسے یا بچے کو شدید مضروب کر دے یا زندگی ہی ختم کر دے تو ایک شخص کا حادثہ نہیں ہوگا بلکہ یہ پوری فیملی کے لیے نہایت اذیت اور کرب کا باعث ہوگا۔ اور اس کا احساس صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ پینگیں بنانا، فروخت کرنا ، اْڑانا ، اڑانے میں سہولت مہیا کرنا اور اس دوران ہوائی فائرنگ کرنا قانوناً جرم قرار دیے جاچکے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر پولیس سختی سے قانونی کاورائی کرنے کے لیے عزم ہے۔اس سلسلے میں عوام الناس کو پتنگ بازی کے مضمرات سے مطلع کرنے کے لیے ایک بھر پور آگاہی مہم کا آغاز بھی ہو چکا۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم سب بھی مل کر پتنگ بازی کے اس خونی کھیل تماشہ کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔ والدین پر اس سلسلے میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس خونی شغل سے باز رکھیں ورنہ بچوں کی جانب سے کسی غیر قانونی فعل کی ذمہ داری براہ راست ان کے والدین کی گردانی جاتی ہے۔ 

پتنگ بازی سے ہونے والے نقصانات و حادثات کو عموماً سیریس نہیں لیا جاتا اور لوگ اسے محض وقتی کھیل تما شاہی سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد تعلیمی اداروں میں ، علماءمساجد میں اور صحافی اپنے قلم سے غرض یہ کہ معاشرے کا ہر فر دلوگوں کو پتنگ بازی کے نقصانات سے آگاہ کرنے میں اپنا اپنا کردارادا کریں اور ہم سب مل کر پتنگ بنانے ، فروخت کرنے ، اْڑانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں اور اسے روکیں-اس سال کی ابتدا سے ہی گلے پر ڈور پھرنے سے کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئیں۔ حالانکہ ’’انسداد پتنگ بازی ایکٹ‘‘ بھی موجود ہے لیکن پاکستان میں کسی بھی قانون پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہوا ہی کب ہے؟ انسداد پتنگ بازی کی ٹیمیں پتنگ بازوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں سرگرم تو ہیں لیکن ان کی کارروائیاں معصوم بچوں کی پکڑ دھکڑ اور انھیں سرزنش کرنے تک ہی محدود ہیں۔پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق پتنگ بازی پر ممانعت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر صرف ایک ماہ میں2855 مقدمات درج کیے گئے اور 2991 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 

فیصل آباد میں ہونے والے اس حالیہ واقعے کے بعد ہی پولیس نے چوبیس گھنٹوں کے دوران پتنگ بازی میں ملوث 512 افراد کو گرفتار کیا، اور ساٹھ ہزار کے قریب پتنگیں، سات سو ڈوریں اور چرخیاں وغیرہ بھی برآمد کی گئیں۔ پنجاب پولیس کے مطابق سوچنے کی بات ہے کہ آخر پتنگ بازی کا یہ دلچسپ مشغلہ ایک خونیں کھیل کیسے بن گیا؟ آخر کیوں پتنگ بازی سے انسانی ہلاکتوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں؟ صرف دو دہائی پہلے تک بھی پتنگ بازی اور بسنت کو ایک ثقافتی کھیل کا درجہ حاصل تھا۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ماہِ فروری کی آمد کے ساتھ ہی بہار کے استقبال اور بسنت منانے کےلیے بطور خاص پتنگ بازی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ نہ صرف اس کھیل کو ’’غیر شرعی‘‘ قرار دیا جانے لگا بلکہ کئی غیر قانونی طریقوں اور پتنگ اڑانے میں استعمال کی جانے والی غیر قانونی ڈور کے استعمال نے بھی اس مشغلے پر پابندی کی راہ ہموار کی۔  کے دوران مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ پتنگیں ضبط کرکے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر