تقسیم سے پہلے برصغیر کا بڑا حصہ زراعت کے لیے بارشوں پر انحصار کرتا تھا۔ انگریز نے دیکھا کہ گلیات کے پہاڑوں سے اترائ کی زمین پر بارشوں کا تناسب گھٹتا جاتا ہے اور یہاں کی زمین زرخیز ہونے کے باوجود بڑی حد تک بیابان کا منظر پیش کرتی ہے اس لیے انہوں نے ان علاقوں کو آباد کاری کا فیصلہ کیا ان کے جیا لوجیکل ماہرین نے سروے کر کے بتایا کہ اس علاقے میں نہریں آسانی سے کھودی جا سکتی ہیں، کیوں کہ پوٹھوہار کے بعد ایک بتدریج ڈھلوان ہے جو سندھ تک چلی گئی ہے۔ ویسے تو اکا دکا نہریں چھوٹے پیمانے پر کھودنے کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہو گیا تھا مگر باقاعدہ نہری نظام کا آغاز 1886 میں ہوا، جس کے تحت انگریزوں نے سب سے پہلے جنوبی پنجاب میں ملتان کے قریب سدھنائی نہر کھودی۔یہ صرف نہر ہی نہیں تھی بلکہ اس سے جو علاقہ سیراب ہوا، وہاں دوسرے علاقوں سے 2705 کسانوں کو لا کر ان میں پونے دو لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ اراضی تقسیم کی گئی۔ اس طرح یہ صرف زرعی نہیں بلکہ سماجی منصوبہ بھی تھااس کے بعد سہاگ پاڑا، چونیاں، چناب، جہلم، لوئر باری دوآب، اپر چناب، اپر جہلم، اور نیلی بار میں لاکھوں ایکڑ سیراب کر کے وہاں لوگوں کی آباد کاری کی گئی۔ان نہروں سے پہلے پنجاب کا کل زرعی رقبہ 30 لاکھ ایکڑ سے بڑھا کر ایک کروڑ 40 لاکھ ایکڑ پر لے گئے۔ یہ سارا کام جدید مشینری اور بلڈوزروں کے بغیر بیلچوں، اورگھریلو اوزاروں اور مزدوروں کے ذریعے کیا گیا
قدرتی حسن سے مزیں یہاں، دریا، ندی ،پہاڑ،صحرااورکہیں کہیں تو چپے چپے پہ جھیلیں ، جنگلا ت سر سبز وشاداب نظارے دکھائی دیتے ہیں۔تاہم کچھ عرصہ سے پانی کی کمی وجہ سے سرسبزہریالی اور زراعت کی کھیتی باڑی پربڑا اثر پڑا ہے۔ درمیان میں بھارت سے آنے والے دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث زراعت سے لے کر باغات اور نہری نظام والے علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح میں بھی کمی شروع ہوئی۔ادھر بارشوں کی کمی کے باعث وطن عزیز کے کئی علاقوں میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔قبل ازیں ملک کے اکثر وبیشتر علاقوںمیں پانی کی وافر مقدار سے زراعت ، باغات اور پینے کے لئے پانی وافر مقدار میں ملتا تھا۔ تاہم اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں کاریز سسٹم موجود تھا۔ پانی کے قدرتی چشموں سے بھی پہاڑی جگہوں پر ضروریات زندگی کا استعمال اور فصلات اگائی جاتی تھیں۔ملک میں بارشیں اور زیادہ سرد بالائی علاقوںمیں برف باری بڑی مقدارمیں ہوتی رہتی، بعض پہاڑی جگہوں پر برف کے تودے بن جاتے تھے جن کے پگھلنے کے باعث پانی کی زیر زمین سطح میں اضافہ ہوتا رہتا۔دریا، ندی، نالے بہتے رہتے۔تاہم آج کل ان میں کمی واقع ہوگئی ہے۔
اس حوالے سے مبصرین کی رائے ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موسم کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔دنیا کے سرد علاقوںمیں سردی کی شدت میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ گرمی کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں برفانی تودے بھی جلدی سے پگھل رہے ہیں۔کیونکہ پانی اسٹاک کے حوالے سے قدرتی طور پربرفانی تودے اپنابڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تاہم دنیا میں کشمیروتبت کے مقام پر بھی برفانی تودے بڑی مقدار میں بنتے ہیں جن کے پگھلنے سے پانی وہاں سے ہوتا ہوا پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں میں آتا ہے جس سے ملک میں ضروریات زندگی اور نہری نظام کے ذریعے زراعت کی جاتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں موجود کا صرف 2 فیصد استعمال میں لایا جاتا ہے باقی 98 فیصد پانی سمندر میں جا گرتا ہے۔سمندر کا پانی نہ تو پینے کے لئے اور نہ ہی زراعت کے استعمال میں آتاہے۔دوسری جانب1960میں بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہواتھا۔ اس حوالے سے پاکستان کے تین دریا بھارت کو دیئے گئے تھے، جن میں ستلج ، بیاس اور راوی جبکہ دریائے سندھ ، جہلم اور چناب پاکستان کو دیئے گئے تھے۔
ان دریاؤں پر دونوں ممالک کوڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت تھی۔ ادھر بھارت نے پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں پربھی ڈیم بنانا شروع کر دیئے ، کشن گنگا ڈیم اس کی کڑی ہے۔ تاہم بھارت کی جانب سے پانی کی تقسیم کے بارے عداوت چلتی رہی ہے، ابھی کچھ عرصہ پہلے بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی بند کر دیا تھا۔جس سے پاکستان کے چھوٹے چھوٹے دریاؤں اور نہری نظام پر بڑااثرا پڑا۔مذکورہ علاقوں میں پانی کی کمی ہوگئی، بھارت اس حوالے سے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان نے کئی بار عالمی سطح پر اس کی شکایات بھی کی ہیں۔واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدے میں ضامن کا کردار ورلڈبینک نے ادا کیا تھا۔بھارت نے پانی بند کیا تو پاکستان نے اس مسئلے کے لئے ثالثی عدالت کے قیام جبکہ بھارت نے اس سے فراریت اختیار کی۔تاہم عالمی بینک کے مرکزمیں ہونے والے مذاکرا ت میں بھارت اعتراضات اورتحفظات کو دور نہیں کر سکا اور عالمی بینک کو بھی مطمئن نہیں کر سکا حالانکہ یہ ایک بڑا معاہدہ ہے اور پاکستان نے ہمیشہ اس کی پاسداری رکھی اور اسے مقدم جانا۔ویسے بین الاقوامی اصول کے تحت دنیا میں اوپری حصے والے ممالک نیچے والے ملکوں کو پانی دیں گے اور یہ قدرت کا نظام ہے کہ پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی جانب جاتاہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کے دریاؤں میں پانی اوپری سطح سے بھارت، کشمیر اورتبت کے مقام سے آتاہے۔ ان آنے والے دریاؤں میں پانی کو یہاں نہری نظام اور ندی نالوں کے ذریعے باغات ،کھیتی باڑی اور پینے کے لئے بھی استعمال میں لایاجاتا ہے۔ نہری نظام پر مشتمل علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے کے سبب ہینڈ پمپ اور اس پر واٹرموٹر رکھ کر پانی حاصل کیا جاتا ہے۔
یہ امر حقیقی ہے کہ پانی کی وافرمقدار بنجر زمین کو آباد کرتی ہے، اس سے غذائی پیداوار کے معاملے میں خودکفیل ہو اجاتا ہے۔ اسی طرح ملکی پیداوار ، زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ افراط زر کا خاتمہ بھی پیداوارمیں اضافے سے ہی ہوتا ہے۔ لیکن بھارت آئے دن پاکستانی دریاو ں پر بند باندھ کر پاکستان کو خشک سالی سے ددو چار کرتا رہتا ہے۔ درمیان میں بھارت سے آنے والے دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث زراعت سے لے کر باغات اور نہری نظام والے علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح میں بھی کمی شروع ہوئی۔ادھر بارشوں کی کمی کے باعث وطن عزیز کے کئی علاقوں میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔قبل ازیں ملک کے اکثر وبیشتر علاقوںمیں پانی کی وافر مقدار سے زراعت ، باغات اور پینے کے لئے پانی وافر مقدار میں ملتا تھا۔ تاہم اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں کاریز سسٹم موجود تھا۔ پانی کے قدرتی چشموں سے بھی پہاڑی جگہوں پر ضروریات زندگی کا استعمال اور فصلات اگائی جاتی تھیں۔ملک میں بارشیں اور زیادہ سرد بالائی علاقوںمیں برف باری بڑی مقدارمیں ہوتی رہتی، بعض پہاڑی جگہوں پر برف کے تودے بن جاتے تھے جن کے پگھلنے کے باعث پانی کی زیر زمین سطح میں اضافہ ہوتا رہتا۔دریا، ندی، نالے بہتے رہتے۔تاہم آج کل ان میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے مبصرین کی رائے ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موسم کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔دنیا کے سرد علاقوںمیں سردی کی شدت میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ گرمی کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین بتاتے ہیںکہ دنیا بھر میں برفانی تودے بھی جلدی سے پگھل رہے ہیں۔کیونکہ پانی اسٹاک کے حوالے سے قدرتی طور پربرفانی تودے اپنابڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تاہم دنیا میں کشمیروتبت کے مقام پر بھی برفانی تودے بڑی مقدار میں بنتے ہیں جن کے پگھلنے سے پانی وہاں سے ہوتا ہوا پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں میں آتا ہے جس سے ملک میں ضروریات زندگی اور نہری نظام کے ذریعے زراعت کی جاتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں موجود کا صرف 2 فیصد استعمال میں لایا جاتا ہے باقی 98 فیصد پانی سمندر میں جا گرتا ہے۔سمندر کا پانی نہ تو پینے کے لئے اور نہ ہی زراعت کے استعمال میں آتاہے-پاکستان میں اس وقت اور مستقبل میں پانی کے بحران سے بچنے کا واحد حل نئے ڈیم بنانا ہیں تاکہ سیلابی پانی کو زخیرہ کیا جاسکے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں