ہفتہ، 9 ستمبر، 2023

میں مرنے والا ہوں پلیز!

  ہاتھی ایک معزز مرتبہ والا انسان تھا لیکن اللہ کی نافرمانی کے سبب ہاتھی بنا دیا گیا -اللہ کی نافرمان قوم بارہ ہزار کی تعداد میں تھے جو بندر بنادئے گئے  لیکن عذاب کی اس شکل سے پہلے وہ تین بار سنبھلنے کا موقع دیتا ہے-دراصل گناہ انسان کی سرشت میں ہے لیکن یہی گناہ گار انسان جب اللہ کی بارگاہ میں لوٹ آتا ہے تو وہی رب اس گرے ہوئے انسان کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیتا ہے-کیا مہک بخاری اور اس کی ماں کو اللہ کریم نے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا ہوگا -برطانیہ کے شہر لیسٹر میں عدالت نے دو نوجوانوں کے منصوبہ بندی کے تحت قتل کے جرم میں ٹک ٹاکر مہک بخاری اور ان کی والدہ عنصرین بخاری سمیت چار افراد کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے جبکہ دیگر تین افراد کو غیر ارادی قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔نتاشہ اختر کو 11 برس قید، امیر جمال کو 14 برس آٹھ ماہ جبکہ صناف گل مصطفیٰ کو 14 برس نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔اس کیس پر کورٹ روم سے رپورٹنگ کرنے والی بی بی سی کی نامہ نگار ایملی اینڈرسن نے بتایا ہے کہ مہک اور عنصرین دونوں نے سپاٹ چہروں کے ساتھ سزا سنی اور سزا سننے کے بعد مہک بخاری نے اپنے والد کو دور سے ہی بوسہ دیا اور ان سے کہا کہ میں ’مجھے کال کریں۔‘جمعے کو اس کیس کی کارروائی کے آغاز پر وکیلِ استغاثہ کالنگ وڈ تھامسن نے قتل کیے جانے والے 21 سالہ ثاقب حسین کے اہلخانہ کے بیانات پڑھ کر سنائے جس کے بعد دوسرے مقتول ہاشم اعجاز الدین کے اہلخانہ کی جانب سے بیانات پیش کیے گئے۔

اگست 2023 کے آغاز میں مہک بخاری اور ان کی والدہ عنصرین بخاری سمیت سات افراد کو عدالت نے 21 سالہ ثاقب اور ہاشم کو فروری 2022 میں منصوبہ بندی کے تحت سڑک کے حادثے میں ہلاک کروانے کے مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔جیوری نے مہک اور ان کی والدہ کے علاوہ ریحان کاروان اور رئیس جمال نامی ملزمان کو بھی قتل میں ملوث قرار دیا تھا جبکہ برمنگھم سے تعلق رکھنے والی 23 سال کی نتاشا اختر، لیسٹر سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ امیر جمال اور 23 سالہ صناف غلام مصطفیٰ کو قتل کے الزام سے تو بری کر دیا تاہم انھیں غیر ارادی قتل میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔پینتالیس سال کی عنصرین بخاری اور ان کی بیٹی مہک بخاری کو جیوری نے 28 گھنٹے کی مشاورت کے بعد مجرم قرار دیا تھا اور جس وقت جیوری کی جانب سے فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو 24 سالہ ٹک ٹاک انفلوئنسر اور ان کی والدہ رونے لگی تھین ۔اس کیس کی سماعت کے دوران لیسٹر کراؤن کورٹ میں جیوری کو بتایا گیا کہ ثاقب حسین نے عنصرین بخاری کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کی سیکس ویڈیوز اور تصاویر کو عام کر کے ان دونوں کے افیئر کے بارے میں سب کو بتا دیں گے۔مہک بخاری کے ٹک ٹاک پر تقریباً ایک لاکھ 29 ہزار فالوورز ہیں اور وہ فیشن سے متعلق ویڈیوز پوسٹ کرتی تھیں۔ تین مہینے کی عدالتی کارروائی کے دوران یہ بات بتائی گئی کہ مہک بخاری نے ثاقب حسین کے لیے ’جال تیار کیا۔‘استغاثہ کا کہنا تھا کہ آکسفورڈ شائر سے تعلق رکھنے والے ثاقب حسین کو عنصرین بخاری سے ملاقات کا ’لالچ‘ دے کر بلایا گیا۔ انھیں یہ کہا گیا کہ انھوں نے جو تین ہزار پاؤنڈ اپنی معشوقہ پر خرچ کیے تھے وہ انھیں واپس دیے جائیں گے۔ثاقب حسین کو ان کے دوست ہاشم اعجاز الدین گاڑی چلا کر لیسٹر اس ملاقات کے لیے لے کر جا رہے تھے جب دو گاڑیوں نے ان کا تعاقب کرنا شروع کر دیا۔عدالت کو بتایا گیا کہ 11 فروری 2022 کو ہاشم اعجاز الدین کی گاڑی ایک درخت کے ساتھ ٹکرا کر دو ٹکروں میں بٹ گئی اور اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ ریحان کاروان اور رئیس جمال تعاقب کرنے والی گاڑیاں چلا رہے تھے۔جیوری کو حادثے سے چند لمحے پہلے ثاقب حسین کی طرف سے پولیس کو کی گئی کال کی ریکارڈنگ بھی سنائی گئی تھی۔

اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ثاقب حسین نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرتے ہوئے بتایا کہ ماسک پہنے ہوئے لوگ دو گاڑیوں پر ان کی گاڑی کو ٹکر مار کر سڑک سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کال میں پریشان ثاقب حسین آپریٹر کو کہہ رہے ہیں ’وہ لوگ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ انھوں نے چہرے پر ماسک چڑھائے ہوئے ہیں۔ وہ مجھے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’وہ لوگ مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں مرنے والا ہوں، پلیز سر، مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے وہ کار کو پیچھے سے ٹکر مار رہے ہیں۔ بہت تیزی سے۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں۔ میں مرنے والا ہوں۔کال کٹنے سے پہلے ایک زور دار چیخ بھی سنائی دیتی ہے۔عدالت کو بتایا گیا کہ ثاقب حسین اور مہک کی والدہ عنصرین بخاری کے درمیان معاشقے کا آغاز 2019 میں ہوا اور یہ تعلق جنوری 2022 میں ختم ہوگیا تھا۔استغاثہ کے وکیل کولن وڈ تھامپسن نے بتایا کہ ثاقب کے پاس عنصرین کی سیکس ویڈیوز اور تصاویر تھیں اور تعلقات ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ بار بار عنصرین سے رابطہ کرتا رہا۔اس مقدمہ میں سوشل میڈیا انفلوئنسر مہک بخاری کو کم سے کم 31 برس اور آٹھ ماہ قید اور ان کی والدہ عنصرین بخاری کو 26 برس اور نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔مہک بخاری نے اپنے خلاف قتل کے دونوں الزامات کو مسترد کیا ہے-عدالت میں بتایا گیا کہ ’ثاقب حسین کا رویہ دن بدن جنونی ہوتا جا رہا تھا اور وہ عنصرین کو حاصل کرنے کے لیے غصے اور جھنجلاہٹ کا مظاہرہ بھی کرنے لگا تھا۔‘استغاثہ کے بقول ’اسی غصے کے نتیجے میں اس نے عنصرین کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ انہیں دوبارہ رابطہ بحال کرنے پر مجبور کر سکے۔‘ تھامپسن نے کہا ’وہ انہیں دھمکی دینے لگا کہ اگر انھوں نے رابطہ نہیں کیا تو وہ ان کی ذاتی تصاویر اور ویڈیوز انسٹاگرام پر شائع کر دے گا اور ان کے شوہر اور بیٹے کو بھیج دے گا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ عنصرین کی بیٹی کو اس افیئر کے بارے میں معلوم تھا اور جب انھیں بلیک میلنگ کے بارے میں پتا چلاتب انہوں نے ثاقب کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور اس کی جان لے لی 

اتوار، 3 ستمبر، 2023

ایک محبّت کی امر کہانی


 کہتے ہیں محبت  کے دریا  کے سوتے کبحی خشک نہیں ہوتے ہیں -بتایا جاتا ہے وجے لکشمی کے والد موتی لال نہرو  ایک کشمیری پنڈت کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے،موتی لعل نہرو کی پہلی بیوی   اپنے پہلے بچے کی ولادت کے ساتھ آنجہانی ہو گئ تھیں -اس  کے بعد موتی لعل نہرو نے دوسری شادی کی - دوسری بیوی سے جواہر لعل نہرو تین بچوں سب سے بڑےتھے، جواہر لعل کے بعد وجے لکشمی کا نمبر تھا   اور  جب وجے لکشمی انیس برس کی ایک جازب نظر تعلیم یافتہ  دوشیزہ بن کر ہندوستان کی سیاست میں قدم رکھ رہی تھی  اس کے گھر میں کلکتہ سے  ایک خوبرو اعلیٰ تعلیم یافتہ صحافی  مہمان بن کر آیا وہ چونکہ مہمان بن کر آیا تھا اس لئے اس کی میز بانی وجے لکشمی کے حصے میں آئ اور کچھ ہی عرصہ  میں وجے نے سید حسین کے سامنے شادی کا مطالبہ رکھ دیا سید حسین مسلمان تھا اور یہی بات وہ وجے کو سمجھاتا رہا کہ ایک ہندو لڑکی کے ساتھ اس کی شادی نہیں ہو سکتی ۔ مگر وہ دیوانی ہو چکی تھی اور اُسے پانے کو اسلام قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہو گئی۔ جب لکشمی نے شادی نہ ہونے کی صورت میں خود کشی کرنے کی دھمکی دی تو سید حسین کا دل بھی موم ہو گیا ۔ اُس نے وجے کو ساتھ لیا جس نے مولانا سید فاخر حسین الہ آبادی کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ۔ اس کے بعد دونوں کا نکاح ہوا ، یوں وجے لکشمی سے وہ عائشہ حسین ہو گئی ۔ سید حسین نے موتی لال کے اخبار کی ملازمت چھوڑ دی اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر کلکتہ آ گئے ۔ یہاں وہ ”کامریڈ ” کے ایڈیٹر بن گئے ۔ ہندوستان میں وجے لکشمی کے مسلمان ہونے اور شادی کی خبر آناً فاناً پھیل گئی تھی ۔

نہرو خاندان کے ساتھ ساتھ مہاتما گاندھی ، ولبھ بھائی پٹیل اور ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اپنا سر پیٹ لیا ۔ ان میں شری راج گوپال اچاریہ تنہا تھے جس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ آل انڈیا نیشنل کانگریس میں سیکولر قانون موجود ہے ، لکشمی کے مسلمان ہونے کا غم نہ کر یں ورنہ کانگریس ہی توڑ ڈالو ۔ یہ وہی راج گوپال تھے جو ماونٹ بیٹن کے بعد آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل بنے لیکن مسّلہ کشمیر پر نہرو سے اختلاف ہوا تو سال بعد مستعفی ہو گئے تھے ۔ مہاتما گاندھی نے اس شادی کے مسّلہ پر موتی لال اور جواہر لال سے خفیہ صلاح مشورے کیے ۔ اُنہوں نے منصوبہ کے مطابق اس شادی پر رضا مندی کے لیے سید حسین کے سامنے انگریزی میں امریکہ سے پی ایچ ڈی کرنے کی شرط رکھی اور ساتھ ہی خرچہ اٹھانے کی حامی بھری ۔ دراصل چال یہ تھی کہ جونہی وہ امریکہ چلا جائے تو موتی لال فوراً اپنی بیٹی کو کسی ہندو سے بیاہ دیں گے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ بابو راجندر پرشاد کو بھی امریکہ جانے کے لیے تیار کیا کہ وہاں امریکی حسینائیں سید حسین کی قربت میں آکر اُسے واپس ہندوستان نہ آنے دیں ۔

مہاتما اپنی چال میں کامیاب ہوئے ، سید حسین نیو یارک چلے گئے ۔ عائشہ ( وجے لکشمی ) بڑی روئی اور شوہر کو جانے سے آخری وقت تک روکتی رہی ۔ ایک سال بعد سب نے مل کر لکشمی کو سمجھایا کہ اُسے بھارت ماتا کی آزادی کے لیے سیاسی کردار ادا کرنا ہے ، آزادی کے بعد یو پی کی گورنر بنو گی لہذا سید حسین کا خیال چھوڑ دو ۔ وجے لکشمی نے اپنی ممکنہ حد تک انکار کیا مگر اس کی شادی زبردستی رنجیت سیتا رام ایڈووکیٹ سے کر دی ۔ بیگم عائشہ حسین پھر ہندو ہو گئی ۔ اُدھر سید حسین نے ڈیڑھ سال میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور راجندر پرشاد کی سازش سے کیلیفورنیا یونیورسٹی میں اُسے ہندوستانی تاریخ و ثقافت کا پروفیسر مقرر کر دیا گیا ۔ وقت گزرتا رہا ، لکشمی کے ہندو شوہر کو کسی ذریعہ سے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اب بھی ڈاکٹر سید حسین سے عشقیہ خط وکتابت کرتی ہے ۔ اس صدمہ سے بیمار رہنے لگا اور  کچھ عرصہ میں انتقال کر گیا ۔ اب موتی لعل آنجہانی ہو چکے تھے بڑ ے، بھائی جواہر لال انگریز کی قید میں تھے ،شوہر کا بھی  انتقال ہو گیا  تو  وجے لکشمی امریکہ چلی گئی ۔ وہاں دونوں محبت کرنے والے آپس میں ملے   لکشمی پھر مسلمان ہو گئی اور دونوں پھر ساتھ رہنے لگے ۔لیکن مہاتما گاندھی اور جوہر لعل نہرو کا خفیہ فیصلہ تھا ان دونوں کو ساتھ نہیں رہنے دینا ہے اس لے زبردستی  پریشر ڈال کر دونوں کو ہندوستان واپس بلا گیا اور  آزادی سے قبل جواہر لال کے کہنے پر دونوں واپس لوٹ آئے ۔

اب وہ دونوں مل کر ہندوستان کی آزادی  کی جدوجہد میں حصہ لینے لگے لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو اور گاندھی جی کا متفقہ  فیصلہ تھا دونوں کی قربت کو  ختم کرنا لازمی ہے اس منصوبہ کے تحت وجے لکشمی  کو  روس میں اور ڈاکٹر سید حسین کو مصر میں بھارت کے سفیر مقرر کیا گیا ۔سید حسین کی مصر میں وفات3- مارچ 1948 کو سید حسین نے مصر کے شہنشاہ ایم ایم فاروق کو اپنی اسناد پیش کیں انھیں روایتی طور پر چار گھوڑوں والی گاڑی میں مصر کے شہنشاہ کے عابدین محل میں لے جایا گیا۔ان کے جلوس میں مصری فوج کے تقریباً 100 گھڑ سوار شامل تھے۔ جیسے ہی وہ محل کے قریب پہنچے تو شہنشاہ کے محافظوں نے انھیں گارڈ آف آنر دیا۔قاہرہ میں قیام کے دوران سید نے گھر پر قیام نہیں کیا اور شیفرڈ ہوٹل میں قیام کرتے رہے۔حسین کے مصر میں قیام کے دوران ان سے ملنے کے لیے جواہر لال نہرو، وجے لکشمی پنڈت اور ان کی بیٹیاں چندرلیکھا اور نینتارا وہاں گئیں۔ لیکن ایک سال کے اندر ہی سید حسین کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمر 61 سال تھی۔انھیں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔مصری حکومت نے ایک گلی کا نام ان کے نام پر رکھا ہے۔انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو مئی 1949 میں قاہرہ گئے اور سید حسین کی قبر پر پھول چڑھائے۔کچھ دنوں بعد وجے لکشمی پنڈت اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل نمائندہ بن گئیں۔نیویارک کے سرکاری دوروں کے دوران وہ اکثر قاہرہ میں رکتیں اور سید حسین کی قبر پر پھول چڑھاتیں۔لیکن اس تقرری کے ایک سال کے اندر ڈاکٹر سید  حسین کا انتقال  دل کے دورے کے سبب ہوا تو قریبی دوست جمال عبد الناصر کی ہدائت پر  سید حسین کی قاہرہ میں ہی  تدفین کی گئ -وجے لکشمی کو روس میں جب سید حسین کی وفات کی اطلاع ملی  تو اس کی قبر پر پہنچی اور قبر سے لپٹ کر اس طرح روئ کہ وہاں موجود ہر شخص آ بدیدہ ہو گیا *قاہرہ سے واپس آکر رشیا میں  وجے لکشمی نے  اپنا استعفےٰ دے دیا اور باقی ماندہ عمر اپنے بڑے بھائ  جواہر لعل نہرو کے گھر میں گزاری   کہتے ہیں سید حسین کے انتقال کے وقت وجے لکشمی کی زیادہ عمر نہیں تھی لیکن اپنی باقی ماندہ عمر اس  نے سید حسین کے نام کی مالا جپتے ہوئے گزار دی -بتایا جاتا ہے کہ وجے جب تک زندہ رہی پابندی سے سیدحسین کی قبر پر پھولوں کا نذرانہ چڑھانے شوہر کی پر شکوہ قبر پر جایا کرتی تھی -یہ قبر بھی وجے کی خواہش پر تعمیر کی گئ تھی جو آج بھی پر شکوہ ہے 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر