کہتے ہیں محبت کے دریا کے سوتے کبحی خشک نہیں ہوتے ہیں -بتایا جاتا ہے وجے لکشمی کے والد موتی لال نہرو ایک کشمیری پنڈت کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے،موتی لعل نہرو کی پہلی بیوی اپنے پہلے بچے کی ولادت کے ساتھ آنجہانی ہو گئ تھیں -اس کے بعد موتی لعل نہرو نے دوسری شادی کی - دوسری بیوی سے جواہر لعل نہرو تین بچوں سب سے بڑےتھے، جواہر لعل کے بعد وجے لکشمی کا نمبر تھا اور جب وجے لکشمی انیس برس کی ایک جازب نظر تعلیم یافتہ دوشیزہ بن کر ہندوستان کی سیاست میں قدم رکھ رہی تھی اس کے گھر میں کلکتہ سے ایک خوبرو اعلیٰ تعلیم یافتہ صحافی مہمان بن کر آیا وہ چونکہ مہمان بن کر آیا تھا اس لئے اس کی میز بانی وجے لکشمی کے حصے میں آئ اور کچھ ہی عرصہ میں وجے نے سید حسین کے سامنے شادی کا مطالبہ رکھ دیا سید حسین مسلمان تھا اور یہی بات وہ وجے کو سمجھاتا رہا کہ ایک ہندو لڑکی کے ساتھ اس کی شادی نہیں ہو سکتی ۔ مگر وہ دیوانی ہو چکی تھی اور اُسے پانے کو اسلام قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہو گئی۔ جب لکشمی نے شادی نہ ہونے کی صورت میں خود کشی کرنے کی دھمکی دی تو سید حسین کا دل بھی موم ہو گیا ۔ اُس نے وجے کو ساتھ لیا جس نے مولانا سید فاخر حسین الہ آبادی کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ۔ اس کے بعد دونوں کا نکاح ہوا ، یوں وجے لکشمی سے وہ عائشہ حسین ہو گئی ۔ سید حسین نے موتی لال کے اخبار کی ملازمت چھوڑ دی اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر کلکتہ آ گئے ۔ یہاں وہ ”کامریڈ ” کے ایڈیٹر بن گئے ۔ ہندوستان میں وجے لکشمی کے مسلمان ہونے اور شادی کی خبر آناً فاناً پھیل گئی تھی ۔
نہرو خاندان کے ساتھ ساتھ مہاتما گاندھی ، ولبھ بھائی پٹیل اور ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اپنا سر پیٹ لیا ۔ ان میں شری راج گوپال اچاریہ تنہا تھے جس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ آل انڈیا نیشنل کانگریس میں سیکولر قانون موجود ہے ، لکشمی کے مسلمان ہونے کا غم نہ کر یں ورنہ کانگریس ہی توڑ ڈالو ۔ یہ وہی راج گوپال تھے جو ماونٹ بیٹن کے بعد آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل بنے لیکن مسّلہ کشمیر پر نہرو سے اختلاف ہوا تو سال بعد مستعفی ہو گئے تھے ۔ مہاتما گاندھی نے اس شادی کے مسّلہ پر موتی لال اور جواہر لال سے خفیہ صلاح مشورے کیے ۔ اُنہوں نے منصوبہ کے مطابق اس شادی پر رضا مندی کے لیے سید حسین کے سامنے انگریزی میں امریکہ سے پی ایچ ڈی کرنے کی شرط رکھی اور ساتھ ہی خرچہ اٹھانے کی حامی بھری ۔ دراصل چال یہ تھی کہ جونہی وہ امریکہ چلا جائے تو موتی لال فوراً اپنی بیٹی کو کسی ہندو سے بیاہ دیں گے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ بابو راجندر پرشاد کو بھی امریکہ جانے کے لیے تیار کیا کہ وہاں امریکی حسینائیں سید حسین کی قربت میں آکر اُسے واپس ہندوستان نہ آنے دیں ۔
مہاتما اپنی چال میں کامیاب ہوئے ، سید حسین نیو یارک چلے گئے ۔ عائشہ ( وجے لکشمی ) بڑی روئی اور شوہر کو جانے سے آخری وقت تک روکتی رہی ۔ ایک سال بعد سب نے مل کر لکشمی کو سمجھایا کہ اُسے بھارت ماتا کی آزادی کے لیے سیاسی کردار ادا کرنا ہے ، آزادی کے بعد یو پی کی گورنر بنو گی لہذا سید حسین کا خیال چھوڑ دو ۔ وجے لکشمی نے اپنی ممکنہ حد تک انکار کیا مگر اس کی شادی زبردستی رنجیت سیتا رام ایڈووکیٹ سے کر دی ۔ بیگم عائشہ حسین پھر ہندو ہو گئی ۔ اُدھر سید حسین نے ڈیڑھ سال میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور راجندر پرشاد کی سازش سے کیلیفورنیا یونیورسٹی میں اُسے ہندوستانی تاریخ و ثقافت کا پروفیسر مقرر کر دیا گیا ۔ وقت گزرتا رہا ، لکشمی کے ہندو شوہر کو کسی ذریعہ سے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اب بھی ڈاکٹر سید حسین سے عشقیہ خط وکتابت کرتی ہے ۔ اس صدمہ سے بیمار رہنے لگا اور کچھ عرصہ میں انتقال کر گیا ۔ اب موتی لعل آنجہانی ہو چکے تھے بڑ ے، بھائی جواہر لال انگریز کی قید میں تھے ،شوہر کا بھی انتقال ہو گیا تو وجے لکشمی امریکہ چلی گئی ۔ وہاں دونوں محبت کرنے والے آپس میں ملے لکشمی پھر مسلمان ہو گئی اور دونوں پھر ساتھ رہنے لگے ۔لیکن مہاتما گاندھی اور جوہر لعل نہرو کا خفیہ فیصلہ تھا ان دونوں کو ساتھ نہیں رہنے دینا ہے اس لے زبردستی پریشر ڈال کر دونوں کو ہندوستان واپس بلا گیا اور آزادی سے قبل جواہر لال کے کہنے پر دونوں واپس لوٹ آئے ۔
اب وہ دونوں مل کر ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے لگے لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو اور گاندھی جی کا متفقہ فیصلہ تھا دونوں کی قربت کو ختم کرنا لازمی ہے اس منصوبہ کے تحت وجے لکشمی کو روس میں اور ڈاکٹر سید حسین کو مصر میں بھارت کے سفیر مقرر کیا گیا ۔سید حسین کی مصر میں وفات3- مارچ 1948 کو سید حسین نے مصر کے شہنشاہ ایم ایم فاروق کو اپنی اسناد پیش کیں انھیں روایتی طور پر چار گھوڑوں والی گاڑی میں مصر کے شہنشاہ کے عابدین محل میں لے جایا گیا۔ان کے جلوس میں مصری فوج کے تقریباً 100 گھڑ سوار شامل تھے۔ جیسے ہی وہ محل کے قریب پہنچے تو شہنشاہ کے محافظوں نے انھیں گارڈ آف آنر دیا۔قاہرہ میں قیام کے دوران سید نے گھر پر قیام نہیں کیا اور شیفرڈ ہوٹل میں قیام کرتے رہے۔حسین کے مصر میں قیام کے دوران ان سے ملنے کے لیے جواہر لال نہرو، وجے لکشمی پنڈت اور ان کی بیٹیاں چندرلیکھا اور نینتارا وہاں گئیں۔ لیکن ایک سال کے اندر ہی سید حسین کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمر 61 سال تھی۔انھیں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔مصری حکومت نے ایک گلی کا نام ان کے نام پر رکھا ہے۔انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو مئی 1949 میں قاہرہ گئے اور سید حسین کی قبر پر پھول چڑھائے۔کچھ دنوں بعد وجے لکشمی پنڈت اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل نمائندہ بن گئیں۔نیویارک کے سرکاری دوروں کے دوران وہ اکثر قاہرہ میں رکتیں اور سید حسین کی قبر پر پھول چڑھاتیں۔لیکن اس تقرری کے ایک سال کے اندر ڈاکٹر سید حسین کا انتقال دل کے دورے کے سبب ہوا تو قریبی دوست جمال عبد الناصر کی ہدائت پر سید حسین کی قاہرہ میں ہی تدفین کی گئ -وجے لکشمی کو روس میں جب سید حسین کی وفات کی اطلاع ملی تو اس کی قبر پر پہنچی اور قبر سے لپٹ کر اس طرح روئ کہ وہاں موجود ہر شخص آ بدیدہ ہو گیا *قاہرہ سے واپس آکر رشیا میں وجے لکشمی نے اپنا استعفےٰ دے دیا اور باقی ماندہ عمر اپنے بڑے بھائ جواہر لعل نہرو کے گھر میں گزاری کہتے ہیں سید حسین کے انتقال کے وقت وجے لکشمی کی زیادہ عمر نہیں تھی لیکن اپنی باقی ماندہ عمر اس نے سید حسین کے نام کی مالا جپتے ہوئے گزار دی -بتایا جاتا ہے کہ وجے جب تک زندہ رہی پابندی سے سیدحسین کی قبر پر پھولوں کا نذرانہ چڑھانے شوہر کی پر شکوہ قبر پر جایا کرتی تھی -یہ قبر بھی وجے کی خواہش پر تعمیر کی گئ تھی جو آج بھی پر شکوہ ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں