جمعہ، 20 اکتوبر، 2023

نابیناوں کی بینا سفید چھڑی

 اللہ کریم و کارساز  نے ہمیں آنکھوں کی جو بیش قیمت  نعمت عطا کی ہےوہ  اتنی  قیمتی ہے کہ اس سے محرومی کی صورت میں چاہے دنیا کی کتنی ہی دولت کیوں نہ ہو سب بےکار ہے۔ اس بات کا احسا   س تب زیادہ شد  ت سے ہوتا ہے جب ہم کسی سفید چھڑی والے فرد کو بازار، سڑک یا کسی پر ہجوم جگہ پر بینا افراد کے درمیان جدوجہد کرتے دیکھتے ہیں۔اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام ہر سال آ ج کا دن یعنی پندرہ اکتوبر سفید چھڑی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کا آغاز 1964ء کو ہوا تھا جب اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ سفید چھڑی کو نابینا افراد کے لیے بطور امید اور سہارا منتخب کیا جس کے بعد ہر برس اس دن کی مناسبت سے سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے آگاہی سیمینارز اور ریلیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔یہ دن منانے کا مقصد نابینا افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات کے متعلق معاشرے کو آگاہی فراہم کرنا ہے تاکہ عام لوگوں کو یہ باور کروایا جا سکے کہ بصارت سے محروم افراد بھی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ ذمہ دار اور مفید شہری ثابت ہو سکتے ہیں۔ 

نابینا افراد کا خیال رکھنا معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے

  ’’بیٹن‘‘ کہلانے والی خاکی چھڑی کسی عہدے اور ذمہ داریوں کی علامت ہے، اسی طرح ’’سفید چھڑی‘‘ نابینا افراد کی بے بسی و محتاجی کی علامت ہے تاکہ اسے دیکھنے والے افراد ان کی ہر ممکن مدد کریں۔ سفید چھڑی کے حامل نابینا افراد کو راستہ بتائیں، ان کو پہلے گزرنے دیں۔

پہلی سفید چھڑی:ایک فوٹو گرافر جس کانام جیمس بکس تھا ، جس کی1921 ء کو ایک حادثے میں بینا ئی جاتی رہی ،یہ پہلا شخض تھا جس نے اپنی چھڑی کو سفید رنگ کروا لیا تا کہ لوگ اس چھڑی کے رنگ سے سمجھ لیں اور اسے راستہ دیں ۔پھر 1930ء میں بوم حیم نامی شخص نے لائنز کلب میں یہ نظریہ پیش کیا کہ نابینا افراد کی چھڑی کو سفید کر دیا جائے اور اس کو عام کیا جائے تاکہ نابینا افراد اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی علم ہو جائے کہ سفید چھڑی رکھنے والے شخص کو بینائی کا مسئلہ ہے۔6 اکتوبر 1964 ء کو کانگریس نے ایک جائنٹ ریزولوشن HR753 پاس کیا جسے USA کے صدر نے منظور کیا کہ ہر سال 15 اکتوبر کو وائٹ کین سیفٹی ڈے منایا جائے گا۔

صدر جانسن پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کو عام کیا اور پاس کیا، اسی وجہ سے 1964ء سے اب تک ہر سال 15 اکتوبر انٹرنیشنل وائٹ کین سیفٹی ڈے منایا جاتا ہے ۔ وائٹ کین کو نابینا افراد کے لئے آزادی اور عزت کا نشان بنا دیا گیا ۔اس دن کی ابتدا کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز 1930ء میں فرانس کے شہر پیرس سے ہوا جہاں عام لاٹھیوں کو سفید رنگ دے کر اس دن کو متعارف کروایا گیا۔ پاکستان میں یہ دن پہلی بارپندرہ اکتوبر 1972 ء کو منایا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں نابینا افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 60 لاکھ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء میں یہ تعداد تین گنا بڑھ کر 11 کر وڑ 50 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت جنوبی ایشیا میں ایک کروڑ 17 لاکھ افراد آنکھوں کے مرض کا شکار ہیں جب کہ مشرقی ایشیا میں یہ تعداد 60 لاکھ 20 ہزار ہے اور جنوب مشرقی ایشیا کی 30 لاکھ 50 ہزار آبادی متاثر ہے۔

پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ افراد بینائی سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ یہاں اندھے پن کی شرح 1.08 ہے، جب کہ پاکستان میں جزوی طور پر نابینا افراد کی تعداد تقریباً 60 لاکھ کے قریب ہے۔ پاکستان کی 17 فیصد آبادی ذیابیطس کی شکار ہے جو اندھے پن کی ایک اہم وجہ ہے جس سے آنکھ کے عدسے کے متاثر ہونے یعنی آنکھ میں موتیا آجانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں نابینا افراد کو کار آمد بنانے کے ادارے ناپید ہیں اور ان خصوصی افراد کو کسی قسم کی سہولت بھی میسر نہیں۔ ان افراد کو روز مرہ کے کاموں کی انجام دہی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تا ہم کچھ نجی ادارے اس کارِ خیر میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

بصارت کی خرابی بعض صورتوں میں اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ ایسے افراد سڑک کے پار کھڑے ہوئے شخص کو شناخت نہیں کر سکتے اور وہ قانونی طور پر ڈرائیونگ کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظر کی بیماریوں اور اس کے علاج معالجے پر سرمایہ کاری کریں۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف متاثرہ افراد کی زندگی میں بہتری آئے گی بلکہ وہ کام کاج کر کے معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق صرف پاکستان میں66 فیصد افراد موتیا، 6 فیصد کالے پانی اور 12 فیصد بینائی کی کمزوری کا شکار ہیں۔ یہ بیماریاں بتدریج نابینا پن کی طرف لے جاتی ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں ڈیجیٹل اشیاء جیسے کمپیوٹر اور موبائل فون کا ضرورت سے زائد استعمال ہماری بینائی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہورہاہے۔ جدید ٹیکنالوجی، اشیاء کی جلتی بجھتی اسکرین ہماری آنکھوں کی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہیں، اس کے باوجود ہم ان چیزوں کے ساتھ بے تحاشاوقت گزار رہے ہیں۔ موبائل کی سکرین خاص طور پر آنکھوں کی مختلف بیماریوں جیسے نظر کی دھندلاہٹ، آنکھوں کا خشک ہونا، گردن اور کمر میں درد اور سر درد کا سبب بنتی ہے۔ ان اسکرینوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا نہ صرف آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ دماغی کارکردگی کو بھی بتدریج کم کردیتا ہے، جب کہ یہ نیند پر بھی منفی اثرات ڈالتا ہے اور انسان رات میں ایک پرسکون نیند سونے سے محروم ہوجاتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آنکھوں سے محروم افراد نے پاکستان کو دو بار ورلڈ کپ جتوا کر اپنا نام عمران خان اور یونس خان کی صف میں شامل کیا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت بصارت سے محروم لیکن بصیرت افروز نابینا افراد کو باعزت روزگار دے کر یا مناسب وظیفہ مقرر کرکے ان کو معاشرے کا بہترین حصہ بنانے میں موثر کردار ادا کرے۔ ہمارے ہاں نابینا افراد مناسب حقوق نہ ملنے پر آئے روز احتجاج کرتے اور دھرنے دیتے نظر آتے ہیں ۔

دنیا بھر میں اس دن کے موقع پر، نابینا افراد کے معاشرتی مسائل کو سنجیدگی سے سوچا جاتا ہے۔ ان افراد کی زندگی میں آنے والے معاشرتی مسائل اور ان کے حقوق کو شفافیت کے ساتھ پیش کرنا اہم ہوتا ہے۔ یہاں پر ان کے معاشرتی مسائل پہ توجہ کی اشد ضرورت ہے۔تعلیم کا دستور،روزگار کی فراہمی اورصحت کی دیکھ بھال ان کی اولین ضروریات ہیں۔نابینا افراد کے لئے معاشرتی شمولیت کی فراہمی مہمان نوازی اور مسائل کی اجتماعی تشہیر اہم ہوتی ہے۔ ---

پیر، 16 اکتوبر، 2023

حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ


حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ کوفہ میں پیدا ہوئے آپ حضرت امام جعفر صادق کے شاگرد اور امام موسی کاظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے جب امام موسی کاظم کے ساتھیوں کو ایک ایک کر کے ختم کرنا شروع کیا تو آپ کچھ ساتھیوں کے ہمراہ امام موسی کاظم سے ملے جو اس وقت زیر حراست تھے جب امام موسی کاظم سے درپیش حالات کے حوالے سے مشورہ مانگا تو آپ نے صرف ایک حرف "ج" لکھ کر دیا۔ اس حرف کی سب نے اپنے اپنے انداز سے تشریح کی اور اس پر عمل کیا۔ "ج" سے جلا وطن، جبل یعنی پہاڑ اور حضرت بہلول دانا کے لیے "ج" سے جنون۔اگلے روز آپ نے اپنی عالیشان زندگی کو خیرآباد کہا اور فقیرانہ حلیے میں بغداد کی گلیوں میں پھرنا شروع کر دیا۔ جلد اہل بغداد نے آپ کو بہلول مجنون کے نام سے پکارنا شروع کر دیا اور اس طرح آپ ہارون الرشید کے عتاب سے محفوظ ہو گئے۔ ذیل میں حضرت بہلول دانا کے چند مشہور واقعات بیان کیے جا رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ نے مصلحت کے تحت مجزوبانہ حلیہ اپنایا تھا۔

کہتے هیں کہ ہارون الرشید کی دلی تمنا تھی کہ حضرت بہلول دانا رح اس سے ملاقات کریں لیکن آپ رح کبھی بھی اس کے دربار میں تشریف نہ لے گئے.. ایک دن یوں هوا کہ ہارون الرشید اپنے محل کی چھت پر بیٹھا تھا ک اس نے حضرت بہلول دانا رح کو شاهی محل کے قریب سے گزرتے دیکھا.. فورا حکم دیا که حضرت بہلول دانا رح کو کمند ڈال کر محل کی چھت پر کھینچ لیا جائے.. چنانچہ ایسا هی کیا گیا.. جب آپ رح ہارون الرشید کے سامنے پہنچے تو اس نے پوچھا.. " یہ فرمائیے کہ آپ اللہ تک کیسے پہنچے..؟ " آپ نے فرمایا.. " جس طرح آپ تک پہنچا.. " ہارون الرشید نے کہا.. " میں سمجھا نہیں.فرمایا. اگر میں خود آپ تک پہنچنا چاهتا تو نہا دھو کر ' لباس فاخره پہن کر ' دربان کی منتیں کر کے محل کے اندر داخل هوتا.. پھر عرضی پیش کرتا ' پھر گھنٹوں انتظار کرتا ' پهر بھی ممکن تھا کہ آپ میری درخواست رد کر دیتے.. لیکن جب آپ نے خود مجھے بلانا چاها تو محض کچھ لمحوں میں هی اپنے سامنے بلا لیا.. " اسی طرح جب اللہ کو اپنے بندے کی کوئی ادا پسند آتی هے تو اسے لمحوں میں قرب کی وه منزلیں طے کروا دی جاتی هیں جو بڑے بڑے عابدوں کیلئے باعث رشک بن جاتی هیں 

حضرت بہلول دانا رح کی ملاقات خلیفہ ہارون الرشید سے ہوئی تو خلیفہ (جو آپ کو مجزوب اور دیوانہ سمجھتا تھا) نے اپنی چھڑی اٹھا کر آپ رح کو دی اور مزاحاً کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اُسے دے دینا۔ حضرت بہلول رح نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی اور واپس چلے آئے۔ کچھ عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہو گئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ طبیبوں نے جواب دے دیا ۔ تو ایک دن حضرت بہلول دانا رح خلیفہ کی عیادت کے لئے پہنچے اور سلام کے بعد پوچھا۔ کیا حال ہے؟ خلیفہ نے کہا حال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے ۔ حضرت بہلول رح نے پوچھا کہاں کا سفر؟ خلیفہ نے جواب دیا۔ آخرت کا۔ حضرت بہلول رح نے سادگی سے پوچھا۔ واپسی کب ہوگی؟ خلیفہ نے کہا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس آتا ہے۔ حضرت بہلول رح نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اور ساتھ ساتھ کون جائے گا؟ ہارون الرشید نے کہا آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا، خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔ حضرت بہلول رح نے فرمایا "اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین ومددگار نہیں پھر تو لیجئے (خلیفہ ہارون الرشید کی دی ہوئی چھڑی بغل سے نکال کر کہا) یہ امانت واپس ہے۔ مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم وخدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اتنے لمبے سفر کی، جس میں واپسی بھی ناممکن ہے، آپ نے تیاری نہیں کی۔ میری نظر میں آپ سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے۔" چھڑی واپس  دے کر اٹھے اور بے نیازی سے چلے گئے

کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی رح سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟" لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟" شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔" مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں حضرت بہلول رح کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ حضرت بہلول رح سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول رح نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟" شیخ نے جواب دیا۔ "میں ہوں جنید بغدادی۔" "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔" شیخ نے جواب دیا۔ حضرت بہلول نے پوچھا "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔" پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔" یہ سن کر بہلول رح اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر حضرت بہلول رح نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"بہلول رح ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا "کون ہو تم؟ "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"بہلول رح نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے تو ناواقف ہو لیکن گفتگو کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔ میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول کے احکام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔ تو بہلول رح نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟" "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول رح کا پیچھا کیا۔ بہلول رح نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔ جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔ بہلول رح نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر بہلول رح نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔" کچھ دیر بعد بہلول رح نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔" شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" پھر بہلول رح نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔ اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو" حضرت بہلول دانا رح کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔حضرت بہلول دانا رح چلے گئے اور اس ملاقات کے بعد خلیفہ ہارون الرشید کی طبیعت درست ہو گئ کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی رح سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟" لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟" شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔" مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں حضرت بہلول رح کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔

شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ حضرت بہلول رح سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول رح نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟" شیخ نے جواب دیا۔ "میں ہوں جنید بغدادی۔" "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟" "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔" شیخ نے جواب دیا۔ حضرت بہلول نے پوچھا "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔" پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔" یہ سن کر بہلول رح اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر حضرت بہلول رح نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔" "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"بہلول رح ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون

ہو تم"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"

بہلول رح نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے تو ناواقف ہو لیکن گفتگو کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔ میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول کے احکام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔ تو بہلول رح نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟" "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول رح کا پیچھا کیا۔ بہلول رح نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔ جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔ بہلول رح نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر بہلول رح نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔" کچھ دیر بعد بہلول رح نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔" شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" پھر بہلول رح نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔ اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو" حضرت بہلول دانا رح کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائےایک دفعہ حضرت بہلول دانا رح کہیں سے گزر رہے تھے کہ ایک بچے کو دیکھا… وہ کھڑا رو رہا تھا … دوسرے بچے اخروٹ سے کھیل رہے تھے… انہوں نے سمجھا اس کے پاس اخروٹ نہیں، اس لیے رو رہا ہے، میں اس کو لے کر دیتا ہوں ، انہوں نے کہا بیٹا !رو نہیں … میں تجھے اخروٹ لے کر دے دیتا ہوں … تو بھی کھیل۔ اس بچے نے کہا: اے بہلول! کیا ہم دنیا میں کھیلنے آئے ہیں؟ ان کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ بچہ ایسا جواب دے گا تو انہوں نے کہا اچھا، پھر کیا کرنے آئے ہیں؟ بچے نے کہا: الله تعالیٰ کیعبادت کرنے آئے ہیں … انہوں نے کہا بچے ابھی تو تم بہت چھوٹے ہو تمہارے غم کی یہ چیز نہیں ہے ابھی تو تمہارا اُس منزل پر آنے میں بھی بہت وقت پڑا ہے … تو اس نے کہا: ارے بہلول! مجھے دھوکہ نہ دے میں نے اپنی ماں کو دیکھا ہے … وہ صبح جب آگ جلاتی ہے تو پہلے چھوٹی لکڑیوں سے جلاتی ہے اور پھر بعد میں بڑی لکڑیاں رکھتی ہے اس لیے مجھے ڈر ہے کہیں دوزخ مجھ سے نہ جلائی جائے اور میرے اوپر بڑوں کو نہ ڈالا جائے ۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر