ہفتہ، 22 نومبر، 2025

پرتگال میں فاطمہ سٹی میں عقیدت مندوں کا اژدہام

 


 13  مئ  وہ تاریخ ہے جس میں نیا بھر سے کیتھولک زائرین فاطمہ کے مزار پر حاضری دینے آتے ہیں۔کیتھولک زائرین پہلی بار مزار کی زیارت کے لیے 1927 میں فاطمہ آئے اور 1928 میں مزار پر ایک چرچ تعمیر کر دیا گیا۔اس چرچ کے بارے میں خیال ہے یہ اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے کہ جہاں ’حضرت مریم کا ظہور ہوا تھا‘۔ چرچ کے ٹاور کی اونچائی 65 میٹر ہے جس کے اوپر ایک بڑا کانسی کا تاج اور ایک کرسٹل کی سلیب بنی ہوئی ہے۔13 مئی 1967 کو ’ظہور‘ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر تقریباً دس لاکھ زائرین فاطمہ میں جمع ہوئے جہاں پوپ پال ششم نے اجتماعی دعا کروائی۔نو سال کی عمر میں ’حضرت مریم کا ظہور‘ دیکھنے والی لوسیا بعد ازاں راہبہ بن گئیں اور 97 سال کی عمر تک زندہ رہیں۔انھوں نے ’فاطمہ کے تین راز‘ (تھری سیکریٹس آف فاطمہ) لکھی اور ان کی وفات 2005 میں ہوئی۔لیکن فرانسسکو اور جیسنٹا مارٹو 1918-1919 کے انفلوئنزا کی وبا کے نتیجے میں ہلاک ہوئیں۔سنہ 2000 پوپ جان پال دوم نے دونوں بچوں کے سعادت ابدی کا اعلان کیا اور پھر 2017 میں پوپ فرانسس نے ’ظہور‘ کی صد سالہ تقریب کے موقع پر دونوں کو ’سینٹ‘ قرار دے دیا۔اس قصبے کا نام فاطمہ کیسے پڑا، اس بارے میں کئی متضاد روایات پائی جاتی ہیں۔


کچھ کا ماننا ہے کہ قصبے کا نام جزیرہ نما آئبیریا میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں پیغمبرِ اسلام کی بیٹی فاطمہ کے نام کی مناسبت سے رکھا گیا تھاانسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق اس قصبے کا نام 12ویں صدی میں اندلس کے مسلمانوں (موریش) کی ایک شہزادی کے نام پر رکھا گیا۔ موریش شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان حکمرانوں کو کہا جاتا ہے جنھوں نے آٹھویں صدی سے 15ویں  صدی               تک سپین اور آس پاس کے علاقوں پر حکمرانی کی تھی              ایک ویب سائٹ نوبیلٹی کے مطابق سنہ 1158 میں ایک پرتگالی نائٹ نے شہزادی کے والد کو شکست دینے کے بعد فاطمہ کو قیدی بنا لیا۔بعد ازاں نائٹ نے پرتگال کے بادشاہ ڈوم افونسو ہینریکس سے اس سے شادی کی اجازت مانگی۔ بادشاہ نے انھیں دو شرائط پر اجازت دی۔ ایک کہ شہزادی کیتھولک مذہب اختیار کر لے اور دوسری یہ کہ وہ نائٹ سے شادی کرنے پر راضی ہو جائے۔مذہب کی تبدیلی کے بعد شہزادی کا نیا نام اوریانا رکھا گیا۔ پرتگال کے بادشاہ نے شادی کے تحفے کے طور پر انھیں ایک شہر دیا۔ وقت کے ساتھ شہر کا نام بدل گیا اور بعد میں قریبی پہاڑی علاقہ جہاں شہزادی کچھ عرصہ مقیم رہی تھیں وہ ان کے اصل نام سے مشہور ہوا


۔ایک تیسری روایت کے مطابق، فاطمہ کا قصہ 1492 کا ہے جب سقوطہ غرناطہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ جب الفانسو اول اور اس کی فوج فتح یاب ہوئی اور سالٹ پیلس پر قبضی کیا تو جنگی قیدیوں میں اندلس کی ایک شہزادی بھی تھی جس کا نام فاطمہ تھا۔شہزادی نے مذہب تبدیل کیا اور اورم شہر کے گورنر نے اس سے شادی کر لی۔ شہزادی فاطمہ اپنی اعلیٰ ثقافت کے لیے مشہور تھیں۔روایت کے مطابق شہزادی بہت خوبصورت اور نرم دل تھیں جو جلد ہی عوام میں اتنی مقبول ہو گئیں کہ لوگوں نے وہ محل جہاں وہ رہتی تھیں اور آس پاس کے علاقے کا نام ان کے نام پر رکھ دیا۔وقت گزرنے کے ساتھ وہاں ان کے نام سے ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہوگیا جو بعد ازاں دنیا بھر سے آنے والے کیتھولک زائرین کے لیے مقدس حیثیت رکھتا ہے  اس پاکیزہ مرک کے چاروں جانب تسبیحا ت فروخت کرنے والے بیٹھے ہوتے ہیں جبکہ گھٹنوں پر پہننے والے پیڈ بھی بڑی تعداد میں ملتے ہیں کیونکہ عقیدت مند گھٹنو ں  کے بل چل کر تسبیح ہاتھ میں  پکڑ کر اپنی منزل مراد تک جاتے ہیں -یہاں پر ایک گھر بھی ہے جس میں لوسیا کا خیالی دور دکھایا گیاہے جس    سے ظاہرہو رہا کہ اس دور کی عورت با پردہ ہوتی تھی اس کے علاوہ  بڑی بڑی موم بتیاں بھی مرکز میں جلائ جاتی ہیں -

 

دنیا بھر سے کیتھولک زائرین فاطمہ کے مزار پر حاضری دینے آتے ہیں۔کیتھولک زائرین پہلی بار مزار کی زیارت کے لیے 1927 میں فاطمہ آئے اور 1928 میں مزار پر ایک چرچ تعمیر کر دیا گیا۔اس چرچ کے بارے میں خیال ہے یہ اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے کہ جہاں ’حضرت مریم کا ظہور ہوا تھا‘۔ چرچ کے ٹاور کی اونچائی 65 میٹر ہے جس کے اوپر ایک بڑا کانسی کا تاج اور ایک کرسٹل کی سلیب بنی ہوئی ہے۔13 مئی 1967 کو ’ظہور‘ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر تقریباً دس لاکھ زائرین فاطمہ میں جمع ہوئے جہاں پوپ پال ششم نے اجتماعی دعا کروائی۔نو سال کی عمر میں ’حضرت مریم کا ظہور‘ دیکھنے والی لوسیا بعد ازاں راہبہ بن گئیں اور 97 سال کی عمر تک زندہ رہیں۔انھوں نے ’فاطمہ کے تین راز‘ (تھری سیکریٹس آف فاطمہ) لکھی اور ان کی وفات 2005 میں ہوئی۔لیکن فرانسسکو اور جیسنٹا مارٹو 1918-1919 کے انفلوئنزا کی وبا کے نتیجے میں ہلاک ہوئیں۔سنہ 2000 پوپ جان پال دوم نے دونوں بچوں کے سعادت ابدی کا اعلان کیا اور پھر 2017 میں پوپ فرانسس نے ’ظہور‘ کی صد سالہ تقریب کے موقع پر دونوں کو ’سینٹ‘ قرار دے دیا۔اس قصبے کا نام فاطمہ کیسے پڑا، اس بارے میں کئی متضاد روایات پائی جاتی ہیں۔کچھ کا ماننا ہے کہ قصبے کا نام جزیرہ نما آئبیریا میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں پیغمبرِ اسلام کی بیٹی فاطمہ کے نام کی مناسبت سے رکھا گیا تھاانسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق اس قصبے کا نام 12ویں صدی میں اندلس کے مسلمانوں (موریش) کی ایک شہزادی کے نام پر رکھا گیا۔ موریش شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان حکمرانوں کو کہا جاتا ہے جنھوں نے آٹھویں صدی سے 15ویں تک سپین اور آس پاس کے علاقوں پر حکمرانی کی تھی۔

جمعہ، 21 نومبر، 2025

سر گنگا رام جو یائے علم -ائے موت ایسوں کو نہیں کھایا کر

   

    گنگارام حکومت ہند اور مہاراجہ پٹیالہ کے ہاں ملازمت کر رہے تھے  لیکن  اچانک انہوں نے ایک بڑا فیصلہ کیا  اور ملازمت سے استعفیٰ دیا اور قوم کی فلاح کا ارادہ بنا لیا انہوں نے فلاحی کاموں کیلئے سارا پیسہ اپنی جیب سے خرچ کیا۔ یہ پیسہ  انہوں نے اپنی  کاشتکاری سے حاصل کیا۔گنگا رام نے 1903ء میں سرکاری نوکری چھوڑی اور منٹگمری (موجودہ ساہیوال) کے قریب پچاس ہزار ایکڑ بے آباد زمین لیز پر لی‘ اس کی آبادکاری شروع کی اورتین سال کے مختصر عرصے میں یہ بیابان ایک سرسبز قطعہ اراضی میں تبدیل کر دیا۔اس کیلئے   انہوں نے لوئر باری دوآب کینال سے آبپاشی کا نظام قائم کیا اور رینالہ خورد میں اس نہر پر ایک میگاواٹ کاپن بجلی گھر تعمیر کیا۔ اس بجلی سے اپنی ساری زمینوں پر آبپاشی کی غرض سے ٹیوب ویل چلائے۔ یہاں چار عدد ٹربائنیں 1921ء میں نصب کی گئی تھیں اور آج انہیں ایک کم سو سال ہو چکے ہیں۔ چار میں سے تین ٹربانیں اصلی حالت میں چل رہی ہیں اور سال بھر میں قریب دس گیارہ ماہ چلتی رہتی ہیں۔

  نہر کے پانی سے چلنے والے چار عدد پنکھا نما Propeller ان ٹربائنوں کو چلاتے تھے۔ کئی سال ہوئے‘  میں سے  ایک پنکھے کے خراب ہونے کے باعث تین ٹربانیں چل رہی تھیں۔  یہ پنکھا کئی برسوں سے مرمت کا منتظر ہے۔خدا جانے ابھی یہ پنکھا مرمت ہوا ہے یا نہیں؛ تاہم دیگر تین ٹربائنیں آج بھی بجلی فراہم کررہی ہیں۔ اسی طرح گنگارام نے پٹھانکوٹ اور امرتسر کے درمیان ایک پن بجلی گھر لگا کر ہزاروں ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنایا۔جڑانوالہ میں بچیانہ ریلوے سٹیشن کے قریب گنگا پور نامی گائوں آباد کیا اور وہاں بھی سینکڑوں ایکڑ اراضی قابلِ کاشت بنائی۔ آبپاشی کیلئے برطانیہ سے بہت بڑی اور وزنی موٹر منگوائی جسے بچیانہ سے گنگاپور لانے کی غرض سے گنگا رام نے ریلوے لائن بچھائی اور اس موٹر کو گھوڑا ٹرین کے ذریعے گنگا پور لایا۔ یہ ٹرین اپنی نوعیت کا ایک عجوبہ تھا جو اسی سال تک چلنے کے بعد بند ہو گئی۔ سنا ہے‘ اب دوبارہ چالو ہو گئی ہے۔ گنگا رام نے منٹگمری، لائلپور اور پٹھانکوٹ میں واقع وسیع اراضی سے اس زمانے میں کروڑوں کمائے اور زیادہ تر فلاحی اور رفاہی کاموں پر خرچ کر دئیے۔

 سرگنگا رام نے پنجاب میں زرعی اصلاحات کے زمن میں بہت کا م کئے اور جدید زرعئ اصلاحات  متعارف کروائیں۔   انہوں نے چشمہ نما آبپاشی کا نظام متعارف کرایا جس نے بنجر زمینوں کو زرخیز بنا دیا۔ ان کے پرائیویٹ فارم پر ایک وقت میں ہزاروں مزدور کام کرتے تھے۔  انہوں نے بیواؤں کے لیے فلاحی ادارے، یتیم خانے اور رہائش گاہیں بھی قائم کیں۔ لاہور میں  وہ تعمیرات کے بادشاہ بن گئےگنگا رام              گرلز ہائی سکول (موجودہ لاہور کالج فار ویمن) راوی روڈ‘ ادارہ برائے معذوراں، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، ہندو بیوگان کا آشرم، لیڈی منیارڈ انڈسٹریل سکول اور سب سے بڑھ کر سر گنگا رام ہسپتال تعمیر کرائے۔ ان سب خیراتی اور رفاہی اداروں کو چلانے کیلئے مال روڈ پر گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ اور گنگا پور گاوں کی اراضی کو وقف کیا۔اپنے نام سے زیادہ دوسرے ناموں پر اپنے پیسے سے ادارے بنائے۔


 ماڈل ٹائون کا منصوبہ اور ڈیزائن بھی گنگا رام کے زرخیز ذہن کا کمال تھا۔ آج ہم گنگا رام کو بھول چکے ہیں۔ کم از کم ہم یہ کر سکتے ہیں کہ راوی روڈ کے علاقے میں گلیوں کے اندر واقع ان کی سمادھی کی مرمت کروائی جائے۔  یہ لاہور کے محسن کی سمادھی ہے۔سر گنگا رام ہسپتال دہلی، گنگا بھون (انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی رُڑکی) اور سر گنگا رام ہیریٹیج فاؤنڈیشن لاہور اُن کے تعمیری اور خدماتی ورثے کی دیگر یادگاریں ہیں۔ ان کے اعزازات میں رائے بہادر اور سر کے خطاب کے علاوہ ممبر آف رائل وکٹورین آرڈر (MV0) اور کوم پینیئن آف دی انڈین ایمپائر (CIE) کے اعزازات شامل ہیں۔ ان کی بنوائ ہوئ   عمارتیں آج بھی سر گنگا رام کی عظمت کی گواہی دیتی ہیں اور ان کی تعمیرات کے ماتھے پر سر گنگا رام کا نام ہمیشہ ان دنیا کو ان کی یاددلاتا رہےگا 

تلخیص و تحریر انٹر نیٹ سے کی گئ ہے


جمعرات، 20 نومبر، 2025

ابو الفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشا پوری، المعروف، عمر خیام

 

 




 میں  خود  حیران تھی کہ وہ شاعر جس کی کتابوں کے تراجم انگریز  وں نے کئے اور ان کی شاعری سے فیض بھی اٹھایا تو ہماری نظروں سے وہ کیوں اوجھل رہے   شائداس کی وجہ یہ ہو کہ فارسی زبان معاشرے سے ناپید کر دی گئ                              ابو الفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشاپوری، المعروف، عمر خیام   جن کے عِلم وفضل کا اعتراف اہل ِایران سے بڑھ کر اہل ِیورپ نے کیا۔لاتعداد ہستیاں شہرت و عظمت کی بلندیاں چھونے، اورکچھ عرصہ ستاروں کی مانند چمکنے کے بعد معدوم ہوکر خاک نشیں ہو گئیں، ماضی کی گرد میں ایسی گُم ہوئیں کہ نشاں تک نہ رہا، لیکن اِن ہی میں کئی ایسے نام وَر بھی ہوئے، جن کی شہرت زندگی میں بھی چاردانگِ عالم تھی، تو بعد ازمرگ بھی نام و مقام بلند رہا۔ یہاں تک کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی انھیں دوام حاصل ہے۔  عمرخیّام ایران کے شہر نیشا پورمیں1048ء میں پیدا ہوئے اور4دسمبر 1131ء میں اُن کا انتقال ہوا۔ وہ اپنے دَور کے نام وَر فلسفی، ریاضی دان، ماہرِ علمِ نجوم، عالم، طبیب اور کئی دیگر علوم میں یگانۂ روزگارتھے۔ ان علوم کے علاوہ شعر و سخن میں بھی بہت بلند مقام رکھتے تھے


اور بلاشبہ اُن کا شمار دنیا کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ فارسی زبان میں اُن کی رباعیات آج بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ بے پناہ خوبیوں کے حامل، خیّام، عہدِ سلجوقی میں سلجوقی سلطنت سے وابستہ تھے اور ان کی ہمہ گیر شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے 1970ء میں چاند کے ایک گڑھےاور1980ء میں ایک سیارچے کا نام، اُن کے نام پر رکھا گیا۔ یوجین اونیل، اگاتھا کرسٹی اور اسٹیون کنگ جیسے مشہور ادیبوں نے اپنی کتابوں کے نام عمرخیّام کے اقتباسات پر رکھے۔عمرخیّام کو اگرچہ زیادہ شہرت شاعری کی بدولت ملی۔ تاہم، وہ اسے انتہائی غیرسنجیدہ اور فراغت کا مشغلہ سمجھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے زندگی بھر اپنا کلام مرتّب نہیں کیا، لیکن، مشرق و مغرب میں انھیں اصل شہرت اُن کی شاعری ہی کی وجہ سے ملی۔ اُن کی رباعیات نے جنہیں وہ ’’وقتے خوش گزرے‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے،


 کہتے ہیں عمر خیّام جب پیچیدہ علوم کے مسائل سے فارغ ہوتے، تو تفریحِ طبع اور دل جوئی کے لیے شعر کہتے۔اُن کی شاعری کا حاصل اُن کی فارسی رباعیات ہیں، مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ’’خیّام کی رباعیاں اگرچہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں، لیکن سب میں قدرِ مشترک صرف چند مضامین، مثلاً، دُنیا کی بے ثباتی، خوش دلی کی ترغیب، شراب کی تعریف، مسئلہ جبر اور توبہ استغفارہیں۔ وہ ہر ایک مضمون کو سو سو بار اس طرح بدل کر ادا کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا کہ وہ کوئی نئی چیز ہے۔مثلاً ’’توبہ استغفار‘‘ ایک قدیم موضوع ہے، لیکن جس طرح خیّام اسے ادا کرتے ہیں، سننے والے کی آنکھ سے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ مغفرت کی دُعا، اس جدّتِ اسلوب سے مانگتے ہیں کہ دُعا کا اثر بڑھ جاتا ہے۔‘‘ جب کہ معروف ایرانی اسکالر، مجتبیٰ مینوی کا کہنا ہے کہ،’’بلاشبہ، شعرائے ایران میں ایسا کوئی نظر نہیں آتا، جسے خیّام کی مانند عالمی شہرت ملی ہو۔


‘عمر خیّام کے عہد کے فلسفی، علماء و فضلا اُن سے ملاقات کے خواہش مند رہتے اورگاہے بہ گاہے اُن کی خدمت میں حاضری دیتے۔ وہ عمر خیّام سے اختلاف کے باوجود اُن کا احترام کرتے تھے۔ ان کے علم و فضل ہی کی بدولت اُنھیں ’’حجۃ الحق‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تاحیات حق و صداقت کے متلاشی رہے۔ حکیم بو علی سینا کے مشہور شاگرد، ابو نصر محمد ابراہیم نے اُن کی مدح میں عربی میں جو قطعہ لکھا ہے، اس سے اُن کی قدر و منزلت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ترجمہ:’’اے بادِ صبا! علّامہ خیّام کو ہمارا سلام پہنچادے۔ وہ عالی جناب، جن کے آستانے پر خود زمین یوں سجدہ ریز ہے، جیسے حکمت کی بھیک مانگنے والا۔ وہ ایسے بزرگ ہیں، جن کے سحابِ حکمت سے حکمت کی بوسیدہ ہڈیوں میں حیاتِ جاوداں پیدا ہوئی ہے۔ ’’کون و تکلیف‘‘ کے مسائل پر اُنھوں نے وہ افادات فرمائے، جس کے بعد کسی دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔‘‘

بدھ، 19 نومبر، 2025

شہرت کی بلندیوں پر مسند نشین ''عابدہ پروین''

 

عابدہ پروین (ولادت: 20 فروری 1954ء)  پاکستانی صوفی مسلم گلوکارہ، کمپوزر اور موسیقار ہیں۔گائیکی کے ذریعے صوفیانہ کلام کوپھیلانے کی بات کی جائے تو شاید اس وقت پورے برصغیر میں عابدہ پروین سے بڑا کوئی نام نہیں۔ انھوں نے صرف پاکستان اور بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں صوفی شعراکے پیغام کو پھیلایا۔ عابدہ پروین کاایک موسیقار گھرانے سے ہے۔ انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔2012ء میں عابدہ پروین کی فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلالِ امتیازسے نوازا گیا، اسی برس انھیں بھارت کی بیگم اختر اکیڈمی آف غزل کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈبھی دیا گیا۔ عابدہ پروین کو اس سے پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔2015ءمیں بھی پاکستان اور بیرونِ ممالک میں عابدہ پروین نے کئی شوز کیے اور موسیقی کی دنیا میں منفرد شناخت کی حامل رہیں۔

 عابدہ پروین کو پاکستان اور بھارت کے مقابلہ موسیقی پروگرامسر چھترا میں بطور جج بھی رکھا گیا تھا   استاد غلام حیدر کا اپنا میوزیکل اسکول تھا،  ۔جہاں سے عابدہ پروین نے موسیقی کی تربیت حاصل کی-عابدہ پروین کو آرٹس میں بھی دلچسپی ہے۔عابدہ پروین کی گائیکی اور موسیقی کی وجہ سے ان کو 'صوفی موسیقی کی ملکہ' بھی کہا جاتا ہے۔ 2012 کو ان کو پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا سویلین اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔  اور 23 مارچ 2021 کو انھیں صدر پاکستان کی طرف سے پاکستان کا سب سے بڑا سویلین اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا گیاعابدہ پروین کی پیدائش پاکستان کے سندھ کے علاقے لاڑکانہ کے محلہ علی گوہرآباد میں ہوئی تھی۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت ابتدا میں اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کی، جنھیں عابدہ بابا سائیں اور گاوایا کے نام سے پکارتی ہیں۔پروین نے 1970ء کی دہائی کے اوائل میں درگاہوں اور عرس میں نغمے پیش کرنا شروع کیا تھا۔

 1971ء میں، جب نصیر ترابی نے مشرقی پاکستان کے خاتمے پر گہرے دکھ کا اظہار کرنے کے لیے وہ ہم سفر تھا لکھا تو پروین نے اس غزل کو خوبصورت انداز میں پیش کیا۔اگرچہ عابدہ پروین ایک انتہائی ساکھ والی گلوکارہ ہیں، لیکن انھوں نے کبھی فلموں میں اپنی آواز نہیں دی۔ عابدہ پروین کے شائقین اور فاروق مینگل کے اصرار پر ان کے پہلے سے ریکارڈ شدہ گانوں کو فلموں میں استعمال کیا گیا ہے۔ پروین اپنی شرمیلی شخصیت کی وجہ سے انٹرویوز اور ٹیلی ویژن مارننگ شوز میں کم سے کم دکھائی دیتی ہیں۔ پروین نے اعتراف کیا کہ انھیں بالی ووڈ کے فلم سازوں یعنی سبھاش گھئی اور یش چوپڑا کی طرف سے پیش کش ملتی رہتی ہیں لیکن وہ ان سے انکار کردیتی ہیں کیونکہ انھوں نے خود کو تصوف میں ڈھا لیا ہے ہے۔  یہاں تک کہ انھیں را.ون کے لیے شاہ رخ خان کی طرف سے پیش کش بھی آئیں اور میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمان نے بھی انھیں کچھ گانوں کی پیش کش کی ہے

عابدہ پروین کے والد خود بھی ایک صوفی  سنگر ہیں اور انہوں نے عابدہ پروین کی خود تربیت کی پھر ان کو اساتذہ کی تربیت کے سپرد کیا   انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔2012   استاد غلام حیدر کا اپنا میوزیکل اسکول تھا،  ۔جہاں سے عابدہ پروین نے موسیقی کی تربیت حاصل کی-عابدہ پروین کو آرٹس میں بھی دلچسپی ہےء میں عابدہ پروین کی فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلالِ امتیازسے نوازا گیا، اسی برس انھیں بھارت کی بیگم اختر اکیڈمی آف غزل کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈبھی دیا گیا۔ عابدہ پروین کو اس سے پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔2015ءمیں بھی پاکستان اور بیرونِ ممالک میں عابدہ پروین نے کئی شوز کیے اور موسیقی کی دنیا میں منفرد شناخت کی حامل رہیں۔ عابدہ پروین کو پاکستان اور بھارت کے مقابلہ موسیقی پروگرامسر چھترا میں بطور جج بھی رکھا گیا تھا۔ 

منگل، 18 نومبر، 2025

ون ویلنگ کیا ہے ؟وہ جرم جس میں پورا سماج شامل ہے

 



 ون ویلنگ کیا ہے ؟ میرے خیال میں  وہ جرم جس میں پورا سماج شامل ہے-            مستند خبر ہے کہ اسلام آباد کی ایک ون ویلر لڑکی ون ویلنگ ریس کے دوران حادثے کا شکار ہو کر دونوں ٹانگیں تڑوا بیٹھی ہے - ون ویلنگ موٹر سائیکل ریس محض جان لیوا کھیل ہی نہیں بلکہ بعض مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد نے اسے ناجائز کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ ایسے افراد نہ صرف ون یلنگ پر ریس لگواتے ہیں بلکہ اس ریس پر جوا بھی کھیلتے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے کے لئے وہ ون ویلنگ کے جنون میں مبتلا نوجوان لڑکوں کا استعمال کرتے ہیں، ان موٹر سائیکلوں کی چین گراریاں بدل کر موٹر سائیکل کووزن میں ہلکا اور مزید خطرناک بنایا جاتا ہے۔موٹر سائیکل میکنک اچھی خاصی رقم کے عوض موٹر سائیکل کی ازسر نو مرمت کرتے ہیں اور اس میں خطرناک پرزے نصب کر کے اس کی رفتار کو بڑھا دیتے ہیں۔آلٹرموٹر سائیکل میکینکس کا کہنا ہے کہ انکے پاس موٹر سائیکل کا کام کروانے کیلئے بچے، بڑے اور نوجوان سب ہی آتے ہیں،  جو ریسیں لگائی جاتی ہیں یا ون ویلنگ کی جاتی ہے ان ریسوں میں اصل کردار میکینک کا ہوتا ہے، میکینک کی طرف سے ریس کی موٹر سائیکل تیار کی جاتی ہے 



اور پھر اسے چلانے کے لیے جسے مقرر کیا جاتا ہے اسے رائیڈر کہتے ہیں وہ رائیڈر اپنی زندگی کی پرواہ  کیے بغیر اپنے گروپ اوراپنے میکینک کا نام روشن کرنے کے لیے ریس لگاتا ہے جوبعض اوقات جان لیوابھی ثابت ہوجاتاہے  اگر موٹر سائیکل قابو سے باہر ہوجائے یا سلپ ہوجائے تو سر کی چوٹ جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو بہادر دکھانے کے لیے ون ویلنگ کرتے ہیں، جب کہ بعض نوجوان شرطیں بھی لگاتے ہیں۔ اس شرط کے چکر میں زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں.، موٹر سائیکل کی ریس کے لیے مختلف شاہراہوں کا انتخاب کیا جاتا ہے. موٹر سائیکل کی ریس پر گروپس کے درمیان شرطیں بھی لگائی جاتی ہیں،ون ویلنگ اور ریس کے بعد جب فیصلے کا وقت آتا ہے تو بعض اوقات ان گروپوں کے درمیان تصادم بھی ہوجاتا ہے اور فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے. ایسے مستریوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چایئے جو موٹر سائیکل کو ون ویلنگ کے لیے تیار کرکے دیتے ہیں


۔والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ون ویلنگ جیسے خونی کھیل کا حصہ بننے سے روکیں۔جو والدین اپنے بچوں کو موٹر سائیکل خرید کر دیدیتے ہیں، مگر ان کی سرگرمیوں پرنظر نہیں رکھتے وہ بھی قابل گرفت ہیں۔ والدین کئی جتن کرکے اپنے بچوں کو موٹر سائیکل دلاتے ہیں کہ ان کے بچے کو تعلیمی ادارے تک جانے میں پریشانی کا سامنا نہیں ہو، مگر بچے اپنے والدین کی طرف سے دی جانے والی اس سہولت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ موٹر سائیکل کے ساتھ ہیلمیٹ بھی دلائیں کیوں کہ ہیلمیٹ سے سر محفوظ رہتا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں ہیڈ انجری نہیں ہوتی اور بچنے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں۔ عموماً نوجوان ہیلمیٹ کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔ ہر والدین کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھے مقام پر فائز ہو اور والدین کا نام روشن کریں، لیکن ون ویلنگ کے دوران زخمی ہونے یا معذور ہوجانے کے سبب وہ، والدین پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ 


جوان اولاد کی معذوری والدین کی موت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول میں مثبت سوچ کو فروغ دیں کیونکہ اگر منفی سوچ کا شکار ہو کر بچے نے آزاد سانس لینے کاسوچ لیا تو وہ ون ویلنگ سمیت کسی بھی جرم میں ملوث ہو سکتا ہے۔گھر کے بعد کسی کی بھی انسان کی دوسری تربیت گاہ اس کی درس گاہ ہوتی ہے جہاں آپ کے پاس بہت سے آپشن ہوتے ہیں اگر مثبت سوچ کے حامل اساتذہ کی شاگردگی میسر ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ خود ہر برائی سے بچ سکتے ہیں۔ وقت ہم سے یہ تقاضا چاہتا ہے کہ ون ویلنگ کے مضمر اثرات کے بارے میں نئی نسل کو آگاہ کیا جائے ان کو بتایا جائے کہ یہ کھیل ہر گز نہیں یہ جرم کا راستہ ہے

پیر، 17 نومبر، 2025

پاکستان میں چھوٹے صوبے کیوں ضروری ہیں'پارٹ 2

 



 2001ء میں جو لوکل گورنمنٹ آرڈیننس بنا وہ لوکل گورنمنٹ   کی تاریخ میں اچھا نظام قراردیا گیا۔لوکل گورنمنٹ نے عوام کی حقیقی خدمت کیانہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ میئر ڈسٹرکٹ کا ایگزیکٹو ہیڈ تھا، وہ سسٹم صرف 8سال پاکستان میں چل سکا، سیاسی گورنمنٹس اورصوبائی اسمبلی وجود میں آئیں تو لوکل گورنمنٹ نظام کو ختم کر کے ایک ڈمی مئر  کی غلام  ایسی حکومت بنا دی گئ  جس کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں حکومت کے تین ستون ہیں،وفاق،صوبے اورلوکل گورنمنٹ، جس نے عوام کی حقیقی خدمت کی ہے وہ لوکل گورنمنٹ ہے۔میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے لوکل گورنمنٹ کو پاکستان میں کبھی مستحکم نہیں رہنے دیا گیا،  ۔دنیا میں 172 ممالک بلوچستان سے رقبہ میں چھوٹےان کا کہنا تھا کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 52فیصد ہے، دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ ایک فیڈریٹنگ یونٹ باقی تمام سے بڑا ہو، دنیا میں 172ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں، بلوچستان رقبے میں سب سے بڑا اورآبادی میں سب سے چھوٹا صوبہ ہے،


 چین کی آبادی آج 150کروڑ ہے اس کے 31صوبے ہیں، امریکا نے خود کو 17صوبوں سے شروع کیا آج 50 ہیں، انڈونیشیا کی آبادی 27کروڑ ہے اور اس کے 34صوبے ہیں، پاکستان کی آبادی 25کروڑ ہونے والی ہے اور 4 صوبے ہیں، نائیجیریا آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے،اس کے 27صوبے ہیں، برازیل 20کروڑ آبادی کا ملک اوراس کے 36صوبے ہیں، میکسیکو کی آبادی 13کروڑ اورصوبے 31ہیں۔۔عوام کی اقتصادی فلاح ریاست کی ذمہ داری ہےمیاں عامر محمود نے بتایا کہ وجود میں آنے کے بعد کسی بھی گورنمنٹ کی 7ذمہ داریاں ہوتی ہیں، عوام کی اکنامک ویلفیئر ریاست کی ذمہ داری ہے، حکومت خود ایسی پالیسی لاتی ہے جس سے عوام معاشی طور پر ترقی کرسکیں، سرحدوں کی حفاظت بھی فیڈرل گورنمنٹ کی ذمہ داری  ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ورلڈبینک کے ایک گروپ نے پاکستان کے بارے میں سٹڈی کی، ورلڈبینک نے ایک رپورٹ شائع کی کہ پاکستان 100سال کا ہونے پر کیسا ہوگا، ہم نے اپنے علاقوں کو ایک جیسی ترقی نہیں دی، ہم نے 79سالوں میں صرف 5کیپیٹل سٹیز کو ڈویلپ کیا ہے،-


 پنجاب اگر ایک ملک ہوتو دنیا کا 13واں بڑا ملک ہوگا۔کراچی سے نکلیں تو پورا سندھ کچی آبادی کا منظر پیش کرتا ہےچیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے بتایا کہ خیبرپختونخوا چلے جائیں تو ساری ترقی پشاور میں نظر آئے گی، پشاور کی بھی حالت اتنی اچھی نہیں، لاہور سے باہر نکلیں گے تو پنجاب میں ویسی ترقی نظر نہیں آئے گی، پنجاب گورنمنٹ نے اب لاہور سے باہر بھی ترقی کا کچھ کام شروع کیا ہے، کراچی سے باہر نکلیں تو پورا سندھ کچی آبادی کا منظر پیش کرے گا۔میاں عامر محمود نے کہا کہ جب ایک شہر کو ترقی دیتے ہیں تو وہ بھی زیادہ نقل مکانی ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں کرتا، لاہور میں ہر سال انسان بڑھتے ہیں، لاہور میں ہر سال لوگوں کی نقل مکانی بہت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951میں ہوئی اس وقت آبادی 3کروڑ30لاکھ تھی، آج پاکستان کی آبادی 25کروڑ کے قریب ہے، پنجاب آج 13کروڑ آبادی کا صوبہ بن چکا ہے، سندھ 6ملین سے شروع ہوا، آج صرف کراچی کی آبادی 3کروڑ سے زیادہ ہے۔پنجاب ملک ہوتا تو دنیا کا 13 واں بڑا ملک ہوتا


انہوں نے کہا کہ دنیا میں صرف 12ایسے ملک ہیں جو پنجاب سے بڑے ہیں،پنجاب اگر ایک ملک ہوتو دنیا کا 13واں بڑا ملک ہوگا، صرف 31ملک ہیں جن کی آبادی سندھ سے زیادہ ہے، دنیا میں 41ممالک ایسے جن کی آبادی خیبرپختونخوا سے زیادہ ہے، بلوچستان کو دیکھیں تو 172ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری تجویز ہے سندھ کے7ڈویژن ہیں اس کو 7حصوں میں تقسیم کیا جائے، کراچی اورحیدرآباد کیلئے تحریک بہت دیر سے چل رہی ہے، خیبرپختونخوا کے بھی 7ڈویژن ہیں، ہزارہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی الگ صوبے کی تحریک چل رہی ہے۔چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ یواین نے ایک سروے کیا، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول میں 193ممالک کا سروے کیا گیا اور ہمارا نمبر 140واں ہے، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 193ممالک کا سروے کیا گیا ہم 168نمبر پر ہیں، قانون کی بالادستی کے حوالے سے سروے میں ہم142 ممالک میں 129نمبر پر ہیں، گلوبل ہنگر انڈیکس میں 127ممالک کا سروے ہوا،ہمارانمبر109واں ہے۔44 فیصد بچوں کو متوازن غذا نہیں ملتی، ان44فیصد بچوں کی ذہنی   ہمارا وطن پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ارباب اقتدار بار ' بار سوچیں


اتوار، 16 نومبر، 2025

بخارا قدیم تاریخ میں

 


ماوراء النہر (نہر یا دریا سے پار کا علاقہ) وسط ایشیا کے ایک علاقے کو کہا جاتا ہے جس میں آج ازبکستان، تاجکستان، جنوبی کرغیزستان اور جنوب مغربی قازقستان شامل ہیں۔ جغرافیائی طور پر اس کا مطلب آمو دریا اور سیر دریا کے درمیان کا زرخیز علاقہ ہے۔ ماوراء النہر کے اہم ترین شہروں میں سمرقند و بخارا، فرغانہ، اشروسنہ اور ترمذ شامل ہیں۔پانچ صدیوں تک یہ خطہ ایران اور عالم اسلام کا متمدن ترین خِطہ رہا ہے۔ یہ علاقہ بہت سے مشہور بزرگانِ دین، علما، دانش وروں، درویشوں اور اولیاء اللہ کا مدفن و مسکن رہا۔معروف شاعر فردوسی کے شاہنامے میں بھی ماوراء النہر کا ذکر ہے-ازبکستان  کا مشہور و معروف شہر بخارا  اس خطہ کا اہم ترین شہر ہے؎-اس       شہر میں سادات کی آمد  اس طرح ہوئ کہ حجاز میں عباسی حکمرانوں کے سادات پر ظلم کے سبب سادات نے حجاز کو خیر باد کہ کر  بخارا کو  اپنا مسکن بنایا  -بخارا آنے والوں میں امام علی نقی علیہ السلام کے فرزندان سید عرب اور سیداحمد و سید محمد شامل تھے -
 
اور یہ خطہ کیونکہ عباسی سلطنت کا حصہ نہیں تھا اس لئے  سادات یہاں ان کی دسترس سے دور ہو جاتے تھے اور جو سندھ آتے تھے  عباسی حکمراں ان کو شہیدکروادیتے تھے جیسے  حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کروایا تھا -اب کچھ بخارا کی ثقافت کے بارے میں -بخارا صدیوں سے تہذیبی اور ثقافتی مرکز تو رہا ہی ہے لیکن اس شہر کی تاریخ کا ایک نہایت اہم پہلو، اس شہر کا تجارتی ورثہ بھی ہے۔ شاہراہِ ریشم کے اہم مقام پر موجود ہونے کے سبب، تجارتی قافلے یہاں آتے، منڈیاں سجتی اور خوب خرید و فروخت ہوتی۔ یہ روایت آج بھی چلی آرہی ہے۔بخارا کے قدیم بازار، اسی طرح آباد ہیں اور یہاں ہر وقت چہل پہل رہتی ہے۔ دنیا بھر سے آنے والے سیاح یہاں مقامی طور پر بنی اشیا میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ ازبکستان کے دیگر ٹؤرسٹ مقامات کی طرح یہاں بھی لگائے جانے والے اسٹالز اور موجود دکانوں کا انتظام خواتین نے ہی سنبھال رکھا ہے

 
 ۔بخارا میں کی جانے والی سنہری کڑھائی کی دھوم بھی دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہے  ۔ اس اہم فن کے راز کو نسل در نسل نہایت جانفشانی کے ساتھ منتقل کیا گیا۔ ابتدا میں صرف مرد ہی یہ کام کرسکتے تھے لیکن وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ اس ہنر کی تعلیم خواتین کو بھی دی گئی، اور پھر انہوں نے اپنی ذہانت اور لگن سے اس فن میں اس حد تک مہارت حاصل کرلی کہ پھر یہ کام فقط خواتین کے لیے ہی مختص ہوگیا۔ آج بھی بخارا کی اس فیکٹری میں خواتین اپنے اس ہنر کو استعمال کرتی نظر آتی ہیں بخارا میں کی جانے والی سنہری کڑھائی کی دھوم بھی دُور دُور تک ہےآج بھی بخارا کی اس فیکٹری میں خواتین اپنے اس ہنر کو استعمال کرتی نظر آتی ہیں لیکن اب بھی ایک فن ایسا ہے جس کے لیے مرد ہی زیادہ موزوں ہیں۔ لوہے اور مختلف دھاتوں کو محنت اور مہارت سے مختلف شکلوں میں ڈھالنے اور پھر استعمال میں لانے کا ہنر۔ نسل در نسل منتقل ہونے والا یہ ہنر بھی بخارا کے قدیمی شہر کا ورثہ ہے اور آج بھی یہاں ایسے کارخانے موجود ہیں جہاں ماہر کاریگر اس فن کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔  

 
یہاں  پر ایک عظیم  الشان   وسیع و عریض اور خوبصورت تاریخی مسجد ہے جس کو کلیان مسجد کہتے ہیں  ۔ اس مسجد کو 1514 میں تعمیر کیا گیا اور یہاں 12 ہزار سے زائد افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ جبکہ اس  مسجد کے ساتھ ہی 2   منزلہ مدرسے بھی ہے  جس  میں 114 حجرے جبکہ 4 ایوان اور 2 بڑے ہال بھی موجود ہیں۔ ایک ہال کو عبادات اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے ہال میں عبیداللہ خان، شیخ عبداللہ یمنی اور دیگر کے مقبرے موجود ہیں۔مدرسے سے متعلق نہایت اہم بات یہ ہے کہ دیگر کئی تاریخی مدارس کے برعکس اس مدرسے میں آج بھی تدریس کا عمل جاری ہے اور یہاں بچوں اور نوجوانوں کو دینی علوم کی تعلیم دی جارہی ہے۔ گائیڈ کے توسط سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ مدرسہ ان چند مدارس میں شامل تھا جہاں تدریس کا سلسلہ سویت دور میں بھی منقطع نہیں ہوا۔پوئی کلیان اسکوائر کی تیسری اہم یادگار، کلیان مینار ہے۔   مینار کی اونچائی تقریباً 50 میٹر ہے اور اس کے اوپر جانے کے لیے 148 سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں، جو یقیناً ایک مشقت طلب کام ہے، لیکن اوپر پہنچ کر، یہاں سے شہر کا نظارہ لاجواب ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر