ماوراء النہر (نہر یا دریا سے پار کا علاقہ) وسط ایشیا کے ایک علاقے کو کہا جاتا ہے جس میں آج ازبکستان، تاجکستان، جنوبی کرغیزستان اور جنوب مغربی قازقستان شامل ہیں۔ جغرافیائی طور پر اس کا مطلب آمو دریا اور سیر دریا کے درمیان کا زرخیز علاقہ ہے۔ ماوراء النہر کے اہم ترین شہروں میں سمرقند و بخارا، فرغانہ، اشروسنہ اور ترمذ شامل ہیں۔پانچ صدیوں تک یہ خطہ ایران اور عالم اسلام کا متمدن ترین خِطہ رہا ہے۔ یہ علاقہ بہت سے مشہور بزرگانِ دین، علما، دانش وروں، درویشوں اور اولیاء اللہ کا مدفن و مسکن رہا۔معروف شاعر فردوسی کے شاہنامے میں بھی ماوراء النہر کا ذکر ہے-ازبکستان کا مشہور و معروف شہر بخارا اس خطہ کا اہم ترین شہر ہے؎-اس شہر میں سادات کی آمد اس طرح ہوئ کہ حجاز میں عباسی حکمرانوں کے سادات پر ظلم کے سبب سادات نے حجاز کو خیر باد کہ کر بخارا کو اپنا مسکن بنایا -بخارا آنے والوں میں امام علی نقی علیہ السلام کے فرزندان سید عرب اور سیداحمد و سید محمد شامل تھے -
اور یہ خطہ کیونکہ عباسی سلطنت کا حصہ نہیں تھا اس لئے سادات یہاں ان کی دسترس سے دور ہو جاتے تھے اور جو سندھ آتے تھے عباسی حکمراں ان کو شہیدکروادیتے تھے جیسے حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کروایا تھا -اب کچھ بخارا کی ثقافت کے بارے میں -بخارا صدیوں سے تہذیبی اور ثقافتی مرکز تو رہا ہی ہے لیکن اس شہر کی تاریخ کا ایک نہایت اہم پہلو، اس شہر کا تجارتی ورثہ بھی ہے۔ شاہراہِ ریشم کے اہم مقام پر موجود ہونے کے سبب، تجارتی قافلے یہاں آتے، منڈیاں سجتی اور خوب خرید و فروخت ہوتی۔ یہ روایت آج بھی چلی آرہی ہے۔بخارا کے قدیم بازار، اسی طرح آباد ہیں اور یہاں ہر وقت چہل پہل رہتی ہے۔ دنیا بھر سے آنے والے سیاح یہاں مقامی طور پر بنی اشیا میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ ازبکستان کے دیگر ٹؤرسٹ مقامات کی طرح یہاں بھی لگائے جانے والے اسٹالز اور موجود دکانوں کا انتظام خواتین نے ہی سنبھال رکھا ہے
۔بخارا میں کی جانے والی سنہری کڑھائی کی دھوم بھی دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہے ۔ اس اہم فن کے راز کو نسل در نسل نہایت جانفشانی کے ساتھ منتقل کیا گیا۔ ابتدا میں صرف مرد ہی یہ کام کرسکتے تھے لیکن وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ اس ہنر کی تعلیم خواتین کو بھی دی گئی، اور پھر انہوں نے اپنی ذہانت اور لگن سے اس فن میں اس حد تک مہارت حاصل کرلی کہ پھر یہ کام فقط خواتین کے لیے ہی مختص ہوگیا۔ آج بھی بخارا کی اس فیکٹری میں خواتین اپنے اس ہنر کو استعمال کرتی نظر آتی ہیں بخارا میں کی جانے والی سنہری کڑھائی کی دھوم بھی دُور دُور تک ہےآج بھی بخارا کی اس فیکٹری میں خواتین اپنے اس ہنر کو استعمال کرتی نظر آتی ہیں لیکن اب بھی ایک فن ایسا ہے جس کے لیے مرد ہی زیادہ موزوں ہیں۔ لوہے اور مختلف دھاتوں کو محنت اور مہارت سے مختلف شکلوں میں ڈھالنے اور پھر استعمال میں لانے کا ہنر۔ نسل در نسل منتقل ہونے والا یہ ہنر بھی بخارا کے قدیمی شہر کا ورثہ ہے اور آج بھی یہاں ایسے کارخانے موجود ہیں جہاں ماہر کاریگر اس فن کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
یہاں پر ایک عظیم الشان وسیع و عریض اور خوبصورت تاریخی مسجد ہے جس کو کلیان مسجد کہتے ہیں ۔ اس مسجد کو 1514 میں تعمیر کیا گیا اور یہاں 12 ہزار سے زائد افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ جبکہ اس مسجد کے ساتھ ہی 2 منزلہ مدرسے بھی ہے جس میں 114 حجرے جبکہ 4 ایوان اور 2 بڑے ہال بھی موجود ہیں۔ ایک ہال کو عبادات اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے ہال میں عبیداللہ خان، شیخ عبداللہ یمنی اور دیگر کے مقبرے موجود ہیں۔مدرسے سے متعلق نہایت اہم بات یہ ہے کہ دیگر کئی تاریخی مدارس کے برعکس اس مدرسے میں آج بھی تدریس کا عمل جاری ہے اور یہاں بچوں اور نوجوانوں کو دینی علوم کی تعلیم دی جارہی ہے۔ گائیڈ کے توسط سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ مدرسہ ان چند مدارس میں شامل تھا جہاں تدریس کا سلسلہ سویت دور میں بھی منقطع نہیں ہوا۔پوئی کلیان اسکوائر کی تیسری اہم یادگار، کلیان مینار ہے۔ مینار کی اونچائی تقریباً 50 میٹر ہے اور اس کے اوپر جانے کے لیے 148 سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں، جو یقیناً ایک مشقت طلب کام ہے، لیکن اوپر پہنچ کر، یہاں سے شہر کا نظارہ لاجواب ہے
بخارا جسے اسلامی تہذیب و تمدن میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ آج بھی یہاں کئی مساجد اور مدرسے قائم ہیں لیکن شہر کا سب سے بڑا تعارف امام بخاری ہیں۔ ان کی کتاب صحیح بخاری کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ یہیں پیدا ہوئے اور پھر علم کے حصول کے لیے کئی مقامات کے دورے کئے
جواب دیںحذف کریں