ہفتہ، 2 دسمبر، 2023

امام علی نقی علیہ السلام


  امام علی نقی علیہ السلام ایک دن کسی اهم کام کی وجہ سے سامره سے ایک دیہات کی طرف جارهے تھے ۔ اسی دوران ایک عرب نے امام علیہ السلام کے بارے میں معلوم کیا تو اس کو بتایا گیا کہ امام  فلان دیہات کی طرف روانہ هوئے هیں، وه عرب اس قریہ کی طرف چلنے لگا۔ جب وه حضرت کے محضر مبارک میں  پہونچا تو اس نے کہا: میں کوفہ کا رهنے والا هوں اور آپ کے جد بزرگوار امیرالمؤمنین کی ولایت کے متمسّکین میں سے هوں، لیکن بڑے بھاری قرض نے میری کمر توڑ دی هے، وه اس قدر بھاری هے کہ میں اسے تحمّل کرنے کی تاب نهیں رکھتا هوں۔ اور آپ کے علاوه میں کسی کو نهیں پہچانتا کہ وه میری ضرورت کو پورا کرسکے۔ امام علیہ السلام   نے پوچھا: تمهارا قرض کتنا هے ؟ اس نے عرض کیا: تقریباً دس هزار درهم ۔

امام علیہ السلام  نے اسے تسلّی دی اور فرمایا: تم ناراض نہ هو تمهاری مشکلیں حل هوجائیں گی۔ میں جو حکم تمهیں دوں اس پر عمل کرو اور اس کے انجام دینے میں تکلّف نہ کرنا۔ یہ میرا نوشتہ اپنے پاس رکھو۔ جب تم سامره میں آؤ تو اس ورقہ میں لکھے هوئے مبلغ کا مجھ سے مطالبہ کرو، هرچند لوگوں کے مجمع میں هو اور اس کام میں ذرّه برابر کوتاهی سے کام نهیں لینا۔

امام کے سامره واپس هونے پر وه مرد عرب، حضرت کے محضر مبارک میں آیا جبکہ خلیفہ کے جاسوس، ایجنٹ اور کچھ لوگ وهاں بیٹھے هوئے تھے، اس آدمی نے امام کا لکھا هوا خط انهیں دکھا کر اپنے قرض کا مطالبہ اور اصرار کرنے لگا ۔امام علیہ السلام  نے بڑی نرمی و مهربانی سے اس کی تاخیر کی معذرت خواهی کی اور اس سے مهلت کی درخواست کی تاکہ مناسب وقت پر اسے ادا کریں،

 اس نے کہا مجھے ابھی چاهئے ۔ یہ ماجرا متوکل تک پہونچا ۔ اس نے دستور دیا کہ تیس هزار دینار امام کو دیئے جائیں۔ امام نے ان تمام دیناروں کو لے کر اس مرد عرب کے حوالہ کردیا، اس نے دیناروں کو لے کر کہا: خداوند عالم بہتر جانتا هے کہ اپنی رسالت کو کس خاندان میں قررا دے۔ائمہ معصومین  علیہم  السلام خداوند عالم کی قدرت و عظمت کے مظاهر، ذات مقدس پروردگار کے کلمات و حکمت کے معادن اور اس کی تجلّیات کے منبع و مرکز اور خاص انوار هیں، اسی بنیاد پر یہ حضرات ایک غیر معمولی معنوی قدرت کے حامل تھے اور لوگوں میں خاص مقام و مرتبہ اور رعب و دبدبہ رکھتے هیں:

"طَأْطَأَ كُلُّ شَرِيفٍ لِشَرَفِكُمْ وَ بَخَعَ كُل‏ مُتَكَبِّرٍ لِطَاعَتِكُمْ وَ خَضَعَ كُلُّ جَبَّارٍ لِفَضْلِكُمْ وَ ذَلَّ كُلُّ شَيْ‏ءٍ لَكُمْ” هر شریف و بزرگ نے آپ کی شرافت و عظمت کے سامنے سرخم کردیا هے اور هر متکبّر و مغرور نے آپ کی اطاعت کی هے اور هر جابر و ظالم نے آپ کے فضل و کرم کے مقابلے میں سر جھکادیا هے 

اور ساری چیزیں آپ کے سامنے ذلیل و خوار هوگئی هیں ۔

زید بن موسی۔ نے کئی بار (عمربن فرخ) کا کان بھرا اور اس سے درخواست کیا کہ اسے اس کے بھتیجے (امام علی نقی علیہ السلام) پر ترجیح دے، اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا تھا، وه جوان هیں اور میں ان کے والد کا چچا هوں۔ عمر نے اس کی بات امام علی نقی علیہ السلام  سے بیان کردی، امام  نے فرمایا:

تم ایک بار یہ کام کرو، کل مجھے ان سے پہلے بزم میں بٹھا دو، اس کے بعد دیکھو کیا هوتا هے ۔دوسرے دن عمر بن فرخ نے امام علی نقی علیہ السلام  کو بلایا اور حضرت کو بزم میں صدر مقام پر بٹھایا، اس کے بعد زید کو آنے کی اجازت دی۔ زید، امام کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا ۔جب پنجشنبہ کا دن آیا تو پہلے زید کو داخل هونے کی اجازت دی اور صدر مجلس میں بٹھایا، اس کے بعد امام سے اندر آنے کی درخواست کی، امام  علیہ السلام  اندر داخل هوئے جس وقت زید کی نظر امام علیہ السلام  پر پڑی اور امام کی هیبت و جلالت کو ان کے رخسار پر دیکھا تو اپنی جگہ سے کھڑا هوگیا، امام کو اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود امام کے سامنے بیٹھا ۔ائمہ معصومین علیہم السلام پروردگار عالم کی معرفت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے اور ان کی یہی گہری معرفت و بصیرت باعث بنی کہ یہ حضرات همیشہ پروردگار عالم سے انس و لگاؤ رکھیں اور خدائے متعال سے انس و مجبت کے یہی رابطے تھے کہ جو پروردگار کی بارگاه میں حاضری کے لئے بے چین کئے رهتے تھے اور سکون و اطمینان کو ان سے چھین لیتے تھے۔

امام علی نقی علیہ السلام  رات کے وقت بارگاه پروردگار میں حاضر هوکر پوری رات عبادت، حالت خشوع و خضوع اور سجدے و رکوع میں گزارتے تھے اور آپ کی نورانی پیشانی زمین پر هوتی، جس کے درمیان سوائے سنگریزوں اور خاک کے کوئی چیز حائل نهیں هوا کرتی تھی اور مسلسل اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ۔ ” الٰهي مُسيٌء قد وَرَدَ، و فقيرٌ قد قَصَدَ، لا تُخيِّبْ مسعاه و ارحَمهُ و اغفر لَه خَطۡاَهُ؛ اے میرے پروردگار تیرا گنہگار بنده تیرے پاس آیا هے اور ایک تہی دست تیری بارگاه میں حاضر هوا هے اس کی سعی و کوشش کو ناکام نہ کرنا اور اسے اپنی رحمت و عنایت کے سایہ میں قرار دے اور اس کی لغزشوں کو معاف کردے  

 ائمہ معصومین علیہم السلام پروردگار عالم کی معرفت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے اور ان کی یہی گہری معرفت و بصیرت باعث بنی کہ یہ حضرات همیشہ پروردگار عالم سے انس و لگاؤ رکھیں اور خدائے متعال سے انس و مجبت کے یہی رابطے تھے کہ جو پروردگار کی بارگاه میں حاضری کے لئے بے چین کئے رهتے تھے اور سکون و اطمینان کو ان سے چھین لیتے تھے۔امام علی نقی  علیہ السلام  کے اخلاق و فضائل کسی پر پوشیده نهیں هیں، علماء اور مؤرخین اس بات سے اچھی طرح واقف هیں، یہاں تک کہ اهل بیت علیہم السلام کے دشمنوں نے بھی آپ کی مدح و ثنا کی هے ۔  "خدا کی قسم وه روئے زمین پر الله کی بہترین مخلوق اور لوگوں میں سب سے افضل هیں

جمعرات، 30 نومبر، 2023

اھلاً و سھلاً مرحبا 'ولا دت امام زین العابدین علیہ السّلام

 

 

 اھلاً و سھلاً مرحبا 'بے شک منجانب پرور دگار عالم  یہ ہمارے لئےروز سعید ہے- ولا دت با سعادت فرزند نبی امام زین العابدین علیہ السّلام تمام خانوادے بنو ہاشم اور کائنات کی تمام مومن مخلوقات کومبارک ہو

 والدہ ماجدہ: آپ کی والدہ جناب شہربانو بنت یزدجرد ابن شہریار ابن کسری ہیں ،یعنی آپ نوشیرواں عادل کے نواسے ہیں۔ علم: امام زین العابدین علیہ السلام کا علم آل رسول کا علم ہے اور آل رسول کا علم ان کے جد امجد والا ہی علم ہے کہ جو بیٹے کو باپ سے باپ کو جد امجد سےاور جد امجد کو جبرائیل سے اور جبرائیل کو خدا سے ملا ہے۔اہل سنت اور شیعہ علماء نے امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت سے علوم، دعائیں، نصیحت بھری باتیں، تفسیر، حلال و حرام کے شرعی احکام اور مختلف واقعات وغیرہ کو نقل کیا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہونے والی احادیث یا کسی قول کو امام علیہ السلام نے کسی صحابی یا تابعی سے نقل نہیں کیا بلکہ ان سب چیزوں کا مصدر رسول خدا ہیں۔ تمام لوگ علوم میں اہل بیت کے محتاج ہیں اور اہل بیت کسی بھی شخص کے محتاج نہیں ہیں۔امام زین العابدین علیہ السلام فقیہ اور محدث تھے اور اپنے دادا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرح فقہی مسائل کی تمام جوانب اور فروعات پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔جب بھی امام زین العابدین علیہ السلام ایسے نوجوانوں کو دیکھتے کہ جو علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ انھیں قریب کر لیتے اور فرماتے خوش آمدید آپ لوگ علم کے امانت دار ہو، آج آپ لوگ اپنی قوم کے چھوٹے شمار ہوتے ہو لیکن عنقریب آپ قوموں کے بڑے بزرگ بن جاؤ گے۔ جب بھی کوئی طالب علم امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آتا تو امام علیہ السلام اسے خوش آمدید کہتے اور فرماتے کہ تم ہی رسول خدا کی وصیت کے مصداق ہو۔

جب بھی کوئی طالب علم زمین پہ موجود کسی بھی خشک یا تر چیز پہ قدم رکھتا ہے تو زمین کے ساتوں طبقے اس کے لیے تسبیح بجا لاتے ہیں۔کسی بھی شخص کا امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس علوم محمدیہ و علویہ ہونے کے بارے میں اختلاف موجود نہیں ہے اگر ظالم و جابر حکمران امام زین العابدین علیہ السلام کو نظر بندی اور جاسوسی جال کی قید میں نہ رکھتے تو یہ علوم ہر طرف پھیل جاتے اور کتابیں ان سے بھر جاتیں۔عبادت اور اخلاق: جب نماز کا وقت آتا تو امام زین العابدین علیہ السلام کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور رنگ پیلا پڑ جاتا اور جسم کانپنے لگتا۔امام زین العابدین علیہ السلام ایک دن اور رات میں ہزار رکعت نماز ادا کرتےاور بہت زیادہ نمازیں پڑھنے کی وجہ سے امام زین العابدین علیہ السلام کے ساتوں اعضاء سجدہ پہ گہرے نشان پڑ گئے۔امام زین العابدین علیہ السلام نےایک اونٹنی پہ بیس مرتبہ حج کیا لیکن اسے کبھی ایک مرتبہ بھی چھڑی سے نہ مارا۔امام زین العابدین علیہ السلام ہر اس شخص سے بھی نیکی اور بھلائی سے پیش آتے کہ جو انھیں اذیت دیتا۔ ہشام بن اسماعیل مدینہ کا گورنرتھا وہ جان بوجھ کر امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کو اذیت پہنچاتا رہتا تھاجب ولید نے اسے معزول کیا تو ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ وہ راستے میں کھڑا ہو جائے تا کہ ہر شخص اس سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لے ہشام اس حکم کی وجہ سے امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت ڈرا ہوا تھا لیکن امام سجادعلیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور اصحاب کو اس سے سختی سے پیش نہ آنے کی نصیحت کی پھر امام زین العابدین علیہ السلام خود ہشام کے پاس گئے اور اس سے کہا تمہیں ہم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تمہیں جس چیز کی بھی ضرورت ہے ہم اسے پورا کریں گے۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے61 ھ میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھال لیں ۔ 10 محرم کی شام کویزیدی فوج نے اہلیبیت علیہ السلام کےتمام خیموں کو آگ لگا دی تمام بییبیاں ایک خیمہ سے دوسرے خیمہ میں منتقل ہوتی رہیں بالآخرامام وقت کے حکم پر اپنے آپ کو بچانے کی خاطر بیبیاں خیموں سے باہر آگئیں اس کے بعد تو ظلم کی انتہا ہوگئی اور تمام بیبیوں کی چادریں چھین لی گئیں۔ 11 محرم کو آپ کے اہلِ حرم کو بے کجاوہ اؤنٹوں پرسوار کیا گیا اور امام (ع) کے گلے میں لوہے کاطوق اور ہاتھوں میں ھتکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر پہلے کوفہ اور بعد میں دمشق روانہ کیا گیا۔ تمام شہداء بشمول امام حسین علیہ السلام کے سر نیزوں کی نوکوں پر ساتھ روانہ کیے گئے۔ خاندانِ رسالت کا یہ قافلہ 16 ربیع الاول سن 61 ھ کو دمشق پہنچا اور عورتوں اور بچوں کو رسیوں میں بندھا ہوا دربارِ یزید میں پیش کیا گیاایک سال کی قید و صعوبت کی مشکلات سہ کر آپ 8 ربیع الاول سن 62 ھ کو مدینے واپس تشریف لائے اور تمام عمر خاندانِ رسالت کی شہادت اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل کی بازارِ شام اور کوفہ میں کی گئی بے حرمتی پر گریہ کرتے رہے۔ آپ کی زیادہ تر زندگی عبادت اور گریہ میں گزری وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے ، وہ اعمال جو آپ(ع) نے انجام دیئے وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہیں۔ جب امام علیہ السلام سے پوچھا جاتا کہ آپ کو کہاں پر زیادہ مصیبت کا سامنا کرنا پڑا آپ آہ بھرتے اورفرماتے الشام ، الشام ، الشام۔ آپ (ع) کو اس بات کا سب سے زیادہ قلق تھا نبی زادیوں کو سر برہنہ فاسق و فاجر یزید معلون کے دربار میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ:

”اے لوگوجومجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پرپیاسا ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے ۔۔۔۔۔۔“دمشق میں یزید کے دربار میں آپ نے جو مشہور خطبہ دیا اس کا ایک حصہ یوں ہے:۔ ۔ ۔ میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔ ۔ ۔“یہ خطبہ سن کر لوگوں نے رونا اور شور مچانا شروع کیا تویزید گھبرا گیا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے،چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا کہ اذان دے کہ امام خاموش ہو جائیں،اگرچہ کہ اذان کا وقت تھا نہ نماز کا مگر یزید کے حکم پر اذان شروع ہوئی تو حضرت علی ابن الحسین خاموش ہو گئے۔ جب مؤذن نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی گواہی دی تو حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور کہا کہ اے یزید تو بتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیرے نانا تھے یا میرے؟ یزید نے کہا کہ آپ کے تو حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘پھر کیوں تو نے ان کے اہل بیت کو شہید کیا’۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں۔

اسی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی مشہور ہے جو آپ نے مدینہ واپس آنے کے بعد دیا۔ ۔جب حجاج نے کعبہ کو تباہ کیا اور اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی تو حجر اسود کو نصب کرنے کا مسئلہ ہوا کیونکہ جو کوئی بھی اسے نصب کرنا چاہتا تھا تو حجر اسود متزلزل اور مضطرب رہتا اور اپنے مقام پر نہ ٹھہرتا۔ بالآخر حضرت علی ابن الحسین زین العابدین نے اسے بسم اللہ پڑھ کر نصب کیا تو بخوبی نصب ہو گیا۔اگرچہ آپ گوشہ نشین تھے اور خلافت کی خواہش نہ رکھتے تھے مگر حکمرانوں کو ان کے روحانی اقتدار سے بھی خطرہ تھا اور خوف تھا کہ کہیں وہ خروج نہ کریں، چنانچہ 95 ھ میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دے دیا ، امام مظلوم حضرت علی ابنِ حسین ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام 25 محرم سن 95 ھ کو درجۂ شہادت پر فائزہوئے۔ آپ کی تجہیز و تکفین آپ کے فرزند اور پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کی اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں امام حسن ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کے پہلو میں کی گئی ا

بدھ، 29 نومبر، 2023

مکھانے اور آپ کی صحت

  مکھانے کاپودا تالابوں میں پیداہوتاہے۔اس کے پھول اور پتے نیلوفر کے پھول اور پتوں سے مشابہ ہوتے ہیں۔اس کی جڑ چھوٹے چقندر کے برابر ہوتی ہے۔اس کا بیرونی چھال سیاہ اور کھردری ہوتی ہے۔اس کے جوف میں خانے ہوتے ہیں اور ہرایک خانے کے اندر سے سیاہ رنگ کے گول بیج نکلتے ہیں جن کا مغز سفید اور قدرے شیریں لیس دارہوتاہے۔خام ہونے کی حالت میں ان کا مغز نکال کر کھاتے ہیں اور خشک شدہ کو مرکبات میں شامل کرتے ہیں۔مزاج سردتر ہے تازہ مکھانا مقوی بدن،مقوی باہ اورمولدمنی خیال کیاجاتاہے۔جبکہ خشک بھونے ہوئے مکھانے قابض اورغذائیت سے بھرپو رہوتے ہیں۔ مکھانے زیادہ تر مستورات کو بچے کی پیدائش کے بعدک مزوری کو دور کرنے کے لئے حلووں یا سفوف میں شامل کرکے کھلاتے ہیں۔مکھانے میں شامل کیمیائی اجزا:پھول مکھانے میں کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفورس کی وافر مقدارپائی جاتی ہے۔ جن لوگوں کو  ہائی بلڈپریشر کا مسئلہ ہے انہیں مکھانہ کا استعمال باقاعدگی سے کرنا چاہیئے:پھول مکھانے خواتین کے بعض دوسرے مسائل کا حل بھی ہے۔اس نسخے کو تیار کرنے کے لئے آپ کو تھوڑا تردد کرنا پڑے گا۔ لیکن آپ کے بہت سے مسائل اس سے حل ہوجائیں گے۔جن خواتین کو پرانی لیکوریا ہو کمر ٹانگوں اور پنڈلیوں میں ایسا درد ہو کہ درد کی گولیاں کھا کر عاجز آگئی ہوں۔ دوسری طرف بلڈ پریشر ہو۔گرم چیزیں نہ کھاسکتی ہوں اور تیسری طرف موٹاپا بہت زیادہ ہو۔ ایسی خواتین اس نسخے کا استعمال کریں۔حیران کن فائدہ ہوگا۔اسی طرح وہ خواتین جو کمزور ہیں۔ جن میں خون کی کمی ہے۔ پٹھے اعصاب اور جسم دکھتا ہے۔ ہر وقت سانس پھولتا ہے۔طبیعت اکتاہٹ اور بیچینی کا شکار رہتی ہے۔ وہ بھی یہ نسخہ استعمال کرسکتی ہیں۔ اسی طرح مہوروں کا مسئلہ،ڈسک پرابلم،اعصابی کھنچاؤ،اس نسخے کے سامنے ایسے ہیں جیسے آٹے میں سے بال نکل جائے۔کے بیج ہیں   

مکھانوں سےجریان،ضعف باہ اور رقت منی کے لئے سفوفات میں شامل کرتے ہیں۔ان کو کھانے کیلئے فرائینگ پین ہلکی آنچ پر رکھ کر چھوڑ دیجئے اور جب پین گرم ہوجائے تو پھول مکھانے اس پر ڈال کر ان کو پانچ منٹ تک پکاتے رہیں۔تیل وغیرہ کچھ بھی نہیں ڈالنا۔صرف پھول مکھانے کو روسٹ کرنا ہے اس دورا ن آپ نے چمچ کے ساتھ ان کو ہلاتے رہنا ہے تا کہ یہ ہر طرف سے پک جائیں۔ان کو روسٹ کرنے کے بعد آپ نے انہیں اتار لینا ہے۔ ایک برتن میں آپ نے ایک گلاس گرم دودھ لینا ہے اور اس میں پھول مکھانے شامل کر لینے ہیں۔ اور ان کو تقریبا دس منٹ تک رکھ کے چھوڑ دینا ہے تا کہ مکھانوں میں دودھ اچھی طرح سے جذب ہوجائے۔یہ لیجئے آپ کا یہ نسخہ تیارہوگیا۔اس کو آپ کھا لیں اور اگر ذائقے کے لئے آپ نے شہد شامل کرنا ہے تو آپ حسب ذائقہ شامل کرسکتے ہیں۔یہ نسخہ ایسا قیمتی ہے کہ اس سے آپ کی ہر طرح کی کمزوری دورہوجائے گی۔آپ اپنے آپ کو تندرست اور توانا محسوس کریں گے۔ بدن میں موجود ہر طرح کے دردوغیرہ دور ہوجائییں گے۔ نہ آپ کبھی تھکاوٹ محسوس کریں گے اور نہ ہی سستی۔

   یہ نہ صرف انکے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے-بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔مکھانےبلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے-بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔جسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے۔جریان، ضعف باہ کا علاج -اس نسخے کو کچھ عرصے تک استعمال کرنا شرط ہے۔ اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نسخہ ہو ایک یا دو بار استعمال کرنے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی نسخے کا مستقل استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں بے اولادی کے مسائل ہوں اور وہ اپنی بے اولادی کے لئے مختلف ادویات استعمال کر چکی ہوں۔

ان کو فائدہ نہ ہوتا ہو تو انہیں یہ نسخہ ضرور استعمال کرنا چاہئے۔وہ مرد جن کا مادہ تولید اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں اور ہر ٹیسٹ ان کا ناکام ہوتا ہے اور وہ مایوس ہوچکے ہیں وہ بھی یہی مرکب دودھ کے ساتھ ضرور استعمال کریں۔ چند دن چند ہفتے اور چند مہینے کا استعمال انہیں بے اولادی کے روگ سے نکال کر اولاد کی خوشیاں دے گا۔نسخہ تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے: ،ثابت مونگ ایک کلو۔بادام گری ایک پاؤ۔،پسی ہوئی چینی یا دیسی شکر ایک کلو۔پستہ ایک چھٹانک۔سونف آدھا پاؤ۔ناریل ایک پاؤ۔پھول مکھانے آدھا پاؤ۔چھوٹی الائچی۔ایک تولا۔چاروں گوندیں ایک پاؤ۔ نشاستہ ایک پاؤ۔اسپغول کا چھلکا آدھا پاؤ۔دیسی گھی ڈیڑھ کلو۔ ثابت مونگ کو بھون لیں۔ بعد میں اس کا آٹا بنا لیں۔ دیسی گھی میں چاروں گوندیں براؤن کریں اور کوٹیں۔ پھر پھول مکھانے بھی دیسی گھی میں براؤن کریں اور کوٹیں۔ بادام گھی میں براؤن کر کے کوٹ لیں۔ سونف کو بھی براؤن کر کے اس کا آٹا بنا لیں۔ یعنی سب دیسی گھی میں نشاستے کو بھی گھی میں براؤن کریں۔باقی پستہ اور چھوٹی الائچی کو براؤن کئے بغیر ہلکا کوٹ لیں۔آخر میں تمام اجزاء کو ملا کر گھی میں بھون لیں اور پسی ہوئی چینی شامل کردیں۔خوب مکس کریں۔ اس کے بعد ناریل کھوپرا اور اسپغول کا چھلکا ملالیں۔تمام اشیاء ملانے کے بعد ایک کھلے برتن میں ٹھنڈا کریں اور ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔بے اولاد افراد توجّہ دیںجسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے

مکھانے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے-بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔جسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے۔  -اس نسخے کو کچھ عرصے تک استعمال کرنا شرط ہے۔ اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نسخہ ہو ایک یا دو بار استعمال کرنے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی نسخے کا مستقل استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں بے اولادی کے مسائل ہوں اور وہ اپنی بے اولادی کے لئے مختلف ادویات استعمال کر چکی ہوں۔ان کو فائدہ نہ ہوتا ہو تو انہیں یہ نسخہ ضرور استعمال کرنا چاہئے۔وہ مرد جن کا مادہ تولید اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں اور ہر ٹیسٹ ان کا ناکام ہوتا ہے اور وہ مایوس ہوچکے ہیں وہ بھی یہی مرکب دودھ کے ساتھ ضرور استعمال کریں۔

 چند دن چند ہفتے اور چند مہینے کا استعمال انہیں بے اولادی کے روگ سے نکال کر اولاد کی خوشیاں دے گا۔نسخہ تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے: پہلے اجزاء نوٹ فرمائیے،ثابت مونگ ایک کلو۔بادام گری ایک پاؤ۔،پسی ہوئی چینی یا دیسی شکر ایک کلو۔پستہ ایک چھٹانک۔سونف آدھا پاؤ۔ناریل ایک پاؤ۔پھول مکھانے آدھا پاؤ۔چھوٹی الائچی۔ایک تولا۔چاروں گوندیں ایک پاؤ۔ نشاستہ ایک پاؤ۔اسپغول کا چھلکا آدھا پاؤ۔دیسی گھی ڈیڑھ کلو۔ ثابت مونگ کو بھون لیں۔ بعد میں اس کا آٹا بنا لیں۔ دیسی گھی میں چاروں گوندیں براؤن کریں اور کوٹیں۔ پھر پھول مکھانے بھی دیسی گھی میں براؤن کریں اور کوٹیں۔ بادام گھی میں براؤن کر کے کوٹ لیں۔ سونف کو بھی براؤن کر کے اس کا آٹا بنا لیں۔ یعنی سب دیسی گھی میں نشاستے کو بھی گھی میں براؤن کریں۔باقی پستہ اور چھوٹی الائچی کو براؤن کئے بغیر ہلکا کوٹ لیں۔آخر میں تمام اجزاء کو ملا کر گھی میں بھون لیں اور پسی ہوئی چینی شامل کردیں۔خوب مکس کریں۔ اس کے بعد ناریل کھوپرا اور اسپغول کا چھلکا ملالیں۔تمام اشیاء ملانے کے بعد ایک کھلے برتن میں ٹھنڈا کریں اور ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔ 

پیر، 27 نومبر، 2023

ملتان میں تعزیہ داری کی ابتدا


ملتان میں تعزیہ داری کی تاریخ بہت قدیم ہے۔اور ملتان وہ  واحد شہر ہے جہاں یوم عاشور پر ایک سو سے زائد تعزیوں کے ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں ان سب تعزیوں میں بناوٹ اور تاریخی لحاظ سے استاد اور شاگرد کے تعزیے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ امیر تیمور کے دور میں شروع ہونے والی تعزیہ داری اپنی تاریخی روایات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ آغاز میں کھجور کی چھڑیوں اور بانسوں سے تعزیہ تیار کیا جاتا تھا ماتمی جلوس امام بارگاہوں تک محدود تھے۔ رفتہ رفتہ تعزیوں کی تیاری میں لکڑی‘ کاغذ اور دیگر اشیاءاستعمال ہونے لگیں۔ انگریز دور میں ہندووں کی جانب سے اس روایت کی مخالفت کی گئی تو شیعہ سنی متحد ہو گئے۔ انگریز حکومت نے 1845ءمیں تعزیوں کے لائسنس کے اجراءکے ساتھ ساتھ باقاعدہ روٹس متعین اور جلوس کے آغاز اور اختتام کے وقت مقرر کئے۔ہر تعزیہ ملتان دستکاری کا خوبصورت نمونہ ہے لیکن استاد اور شاگرد کے تعزیے تعزیہ داری کی تاریخ میں خاص مقام رکھتے ہیں۔کسی دور میں تعزیہ سازی میں چنیوٹ خاصا مشہور تھا یہاں کے چوب کار زیارتیں تیار کرتے تھے استاد پیر بخش اور شاگرد محکم الدین کا رشتہ بھی اسی کام کے دوران پختہ ہوا۔

استاد کا تعزیہ۔استاد پیر بخش نے 1810میں تعزیے کا کام شروع کیا گیا اور 1835ءمیں اسے مکمل کیا۔بعد از اسے ملتان میں زیارت کے لئیے رکھوایا گیا۔یہ خالص ساگوان کی لکڑی سے تیار کیا گیا ہے۔بناوٹ کے لحاظ سے اس تعزیہ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی صرف اوپر والی منزل کے جھروکوں کو نئے انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔  تعزیے کی اونچائی 27 فٹ اور چوڑائی 8 فٹ ہے۔ اس کی سات منزلیں 35 حصوں پر مشتمل ہیں۔اس کا وزن 70 من ہے۔اور اسے 50 آدمی مل کر بانسوں کی مدد سے اٹھاتے ہیں۔شاگرد کے تعزیہ۔شاگرد محکم الدین نے  یہ تعزیہ اپنے استاد کے تعزیے کے کچھ عرصہ بعد تیار کیا۔ایک روایت کے مطابق شاگرد دن کو استاد کے ساتھ تعزیہ تیار کرتا اور رات کو اپنا تعزیہ تیار کرتا۔اس تعزیے کی پہلی زیارت بوسیدہ ہو گئی تو استاد علی احمد نے دوسری زیارت تیار کی وہ 1943 میں آگ لگنے سے خاکستر ہو گئی تو اس کا تیسرا اور موجودہ تعزیہ استاد عنایت چنیوٹی نے تیار کیا۔ پہلے دو تعزیے دستکاروں نے تیار کئے جبکہ موجودہ تعزیہ کی تیاری میں مشینی کام کا بہت عمل دخل ہے۔شاگرد کے تعزیے کی اونچائی تقریباً 25 فٹ اور چوڑائی 12 فٹ ہے۔ اس تعزیے کو ایک سو کے قریب عزادار مل کر اٹھاتے ہیں۔

تعزیوں کی بناوٹ میں چوب کاری کا فن نمایاں نظر آتا ہے جو خاصا محنت طلب ہے۔ دستکاروں نے نفاست‘ مہارت اور مذہ عقیدت کے ساتھ لکڑی کے کٹ ورک سے شاہکار زیارتیں تخلیق کی ہیں۔ تعزیوں کو بغور دیکھیں تو اس کی ہر منزل‘ ہر کونہ اور گوشہ محرابوں‘ کھڑکیوں‘ کبڑوں اور آرائشی میٹریل سے مزین ہوتا ہے۔ نقش کاری‘ مینا کاری‘ شیشہ کاری میں اتنی مہارت دکھائی گئی ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے روضہ مبارک کی شبیہ کے طور پر سجائے گئے یہ استاد اور شاگرد کے تعزیے دستکاروں کی جادوئی انگلیوں کا کمال ہیں جن میں مذہبی عقیدت اور محنت کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔کسی کے مرنے پر صبر کی تلقین اور اظہار ہمدردی کرناتعزیت کہلاتا ہے۔ (عربی تعزیة) اہل تشیع کے نزدیک شہید کربلا اور دیگر شہدا کا ماتم جو ان کے روضے پر، گھروں یا امام بارگاہوں میں محرم کی پہلی تاریخ سے دسویں تک کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر کہیں تابوت، کہیں ان کے روضے کی تصویر، جسے تعزیہ کہتے ہیں، کہیں دُلدُل یا علم نکالے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ شہدا کا ماتم بھی کرتے ہیں۔ مجالس عزا میں مرثیہ، نوحہ، سلام پڑھتے اور شہادت کا حال بیان کرتے ہیں۔ ہرملک میں تعزیت کے مختلف طریق رائج ہیں۔ اسلامی ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں شہدا کا ماتم ضرور کیا جاتا ہے۔

عراقی اسے شبیہ کہتے ہیں، کیونکہ وہ لوگ حادثہ کربلا کی نقل پیش کرتے ہیں۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری امام حسین منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی۔ ایران میں دولت صفویہ کے عہد سے یعنی سولہویں صدی کے شروع سے تعزیہ داری کا رواج ہوا۔ اور پھر رفتہ رفتہ برصغیر پاکستان و ہندوستان میں بھی تعزیہ داری ہونے لگی۔امام  حسین علیہ السلام  کے روضہ مبارک کی شبیہہ کو اردو میں  تعزیہ کہا جاتا ہے۔ تعزیہ سونے، چاندی، لکڑی، بانس، کپڑ اسٹیل  اور کاغذ  سے تیار کیا جاتا ہے۔ اہل تشیع تعزیہ کو غم اور  سوگ کی علامت کے طور پر جلوس کی شکل میں نکالتے ہیں۔ جلوس تعزیہ امام بارگاہ سے برآمد ہو کر کربلا پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعزیہ کی ابتدا تیمور کے دور میں ہوئی۔ بناوٹ کے لحاظ سے تعزیہ کی مختلف اقسام ہیں ؛

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر