جمعہ، 15 دسمبر، 2023

ساہیوال جیل میں درود ابرا ہیمی کی محفل


 یہ میرا ایک پرانا مضمون ہے جو ایمیلز کی تلاش کے دوران ہاتھ لگا پھر ایک بار آپ سب سے شئر کر رہی ہوں اس اُمید کے ساتھ یقیناً آپ لوگوں کو بھی پسند آئے گا

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ .إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌاللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ .إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ پاکستان کے علاقے پنجاب کے شہر ساہیوال کی جیل کا احوال اس طرح سے بتایا جاتا ہے -ساہیوال جیل کے سارے قیدی یا تو طالب علم ہیں یا استاد ہیں ،جو پڑھے لکھے ہیں وہ پڑھاتے ہیں جو ان پڑھ ہیں وہ پڑھتے ہیں یو ں وہ ہیڈ ماسٹر ،پی ٹی سر ، وائس پرنسپل ،پرنسپل کے عہدے سنبھالے اپنی قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جس تیزی سے اس جیل کا تعلیمی ماحول فروغ پا رہا ہے گمان غالب ہے کہ بہت جلد کسی کو وائس چا نسلر بھی نام زد کرنا پڑے گا-تعلیم بالغاں، اور روائتی تعلیمی نصاب الغرض پہلی جماعت سے سولہویں جماعت تک کلاسز جاری ہیں -ووکیشنل ٹریننگ او-ر ویلڈنگ کورسز کے علاوہ مجھے بتا یا گیا کہ الیکٹریکل انجینئر بننے تک کی سا ری سہولیات یہان ں موجود ہیں-جیل میں چار ہزار مسلمان اور ستّا ئیس غیر مسلم قیدی ہیں ان قیدیوں میں چالیس خواتین قیدی بھی ہیں نماز کی پابندی کرنے والے قیدی کو قید میں رعائت دی جاتی ہے ،

غیر مسلموں کو ان کی عبا دت کی آزادی اور سہو لت ہےہر مسلمان قید ی پر روزانہ 200 مرتبہ درود پڑھنا لا زم ہے ،،اس سے زیاد ہ پڑ ھنے والے کو قید میں چھوٹ ملتی ہے ،روزانہ سارا درود شریف ایک جگہ جمع کروا دیا جاتا ہے اور پھر جہلم کی تحصیل ‘‘ دینہ‘‘ کے موضع چک عبد الخالق میں سیّد حسنات احمد کمال کے پاس جمع کروایا جاتا ہے جو درود شریف کے ورلڈ بنک سر پرست ہیں ،،سا ہیوال کی اس جیل کے تعلیمی نظام کے انچارج ڈ پٹی جیلر شیخ محمّد اکرام  کا کہنا ہے کہ  درود شریف کا کمال یہ ہے کہ جو قیدی یہاں سے رہا ہوتا ہے وہ دوبارہ کبھی جیل میں مجرم کے طور پر نہیں آیا شیخ اکرام کو جیل میں د رود شریف کے اجرا کی تاکید مسجد نبوی میں ندیم پیر زادہ نے کی تھی جو ان د نوں ڈیرہ غازی خان میں جیلر تھے اور آج کل لاہور کے ایم اے او کالج کے پروفیسر ہیں -

 ،جبکہ 12 اسسٹنٹ جیلر ،اور ایک جیلر کامران انجم ہیں-مزہبی تعلیمی پروگرام کے انچارج قاری عبد العزیز ہیں ،ملتان انٹر میڈیٹ بورڈ ، بہا الدّین زکریا یونیورسٹی ،علّا مہ اقبال اوپن یونیور سٹی مدرسہ حافظ نزر محمّد لاہور ،جمیعت تعلیم القران کراچی سے اس کا تعلیمی الحاق ہے-امتحانات کے دنوں میں جیل امتحانی مرکز بنی ہوتی ہے ،،جیل میں لائبریری بھی ہے ، جسے نادر و نایاب کتا بیں پہنچانے کا بیڑہ لاہور سے ملک مقبول احمد نے اٹھا یا ہےوہ قیدی جو سزا ختم ہونے کے بعد جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیل میں پڑے رہتے ہیں انہیں لاھور کے علّامہ عبدالستا ر عاصم جو خود بھی کئ کتابو ں کے مولّف ہیں ،رانا فضل الرّحمٰن فا ؤنڈ یشن کی جانب سے جرمانہ ادا کر کے چھڑاتے ہیں--ساہیوال جیل کی دیگر خوبصورت باتوں میں سے ایک خوبصورت بات یہ ہے کہ وہاں کوئ جھوٹ نہیں بولتا ہے عملہ بھی اور قیدی بھی ،سچ جیل کی بنیاسی شناخت اور اصول ہے-

ہمارے آج کے سیاستداں حکومت میں ہوں یا اپو زیشن میں انہیں کچھ عرصے ساہیوال جیل میں گزارنا چاہئے ،سچّائ کے حصول کے لئے پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی پکار رہی ہے چلو چلو ساہیوال جیل چلو-پیارے نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجنا تمام مسلمین اور مؤمنین کی روزمرّہ زندگی کا لازمی جزو ہے کیونکہ ہم کم از کم پانچ دفعہ نماز میں درودِ ابراہیمی کے کلمات دہراتے ہیں۔ مومنین کو نبی کی طرف سے بروز جمعہ درود و سلام کی کثرت کرنے کی تاکید کی گئی ہے کہ اس دن ہمارا درود و سلام نبی ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے ۔ درود پڑھنے کی بے پناہ فضیلت ہے کہ ایک دفعہ پڑھنے سے دس نیکیاں بڑھائی جاتی ہیں، دس گناہ مٹائے جاتے ہیں اور دس درجات کی بلندی کا باعث بنتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ درودِ ابراہیمی میں ایسا کیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ان کلمات کو ہر آن دہرا رہے ہیں۔ 

درودِ ابراہیمی پر غور کرنے سے یہ گمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آلِ محمّد میں سے بھی ایک ایسی نسل تیار کریں گے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتی ہو گی اور اللہ اور رسول ان سے محبت رکھتے ہوں گے۔ چونکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا معجزہ قرآن تھا اس لیے اللہ اور رسول کی فرمانبردار نسل کا معجزہ بھی غیر معمولی علم ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور لوگوں کا درود و سلام پڑھنا ہمارے پیارے نبی ﷺ کی روحانی قوّت کو جلا بخشتا ہے اور ان کے مشن کو مقامِ محمود تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جو ان کی وفات کے بعد بھی فعال ہے اور تا قیامت رہے گی۔ صرف زبان سے درود پڑھنے سے زیادہ اس وقت ہمیں عملی طور پر رسول اللہ ﷺ کا دستِ بازو بننے کی ضرورت ہے۔ یہ مقام ہم سیرت ، اخلاص اور اخلاقیات میں نبی ﷺ کی پیروی کر کے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔آئیں ہم سب مل کر یہ دعا کریں کہ اے اللہ پیارے نبی ﷺ ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ہمیں ان کے دستِ شفقت کی ضرورت ہے۔ اے اللہ ہمیں اپنے پیارے نبی کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے چُن لے

آمین

جمعرات، 14 دسمبر، 2023

خاموش دشمن جاں بیماری''بلڈ پریشر"

ہائی بلڈ پریشر دنیا بھر میں قبل از وقت موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ غیر متعدی بیماریوں کے عالمی اہداف میں سے ایک 2010 اور 2030 کے درمیان ہائی بلڈ پریشر کے پھیلاؤ کو 33 فیصد تک کم کرنا ہے۔جائزہ-ہائی بلڈ پریشر (ہائی بلڈ پریشر) تب ہوتا ہے جب آپ کی خون کی نالیوں میں دباؤ بہت زیادہ ہو (140/90 mmHg یا اس سے زیادہ)۔ یہ عام ہے لیکن اگر علاج نہ کیا جائے تو یہ سنگین ہوسکتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر والے لوگ علامات محسوس نہیں کرسکتے ہیں۔ جاننے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنا بلڈ پریشر چیک کرائیں۔بڑھتی ہوئ  عمر زیادہ وزن یا موٹاپا ہونا، جسمانی طور پر متحرک نہ ہونا، زیادہ نمک والی غذا بہت زیادہ الکحل پینا، طرز زندگی میں تبدیلیاں جیسے صحت مند غذا کھانا، تمباکو چھوڑنا اور زیادہ متحرک رہنا بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ک

ہائی بلڈ پریشر کو ہائپر ٹینشن بھی کہا جاتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے شریانوں کے خلاف خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، جس کہ وجہ سے خون کی نالیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر کا شمار عام بیماریوں میں کیا جاتا ہے، کیوں کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا میں اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک ارب اٹھائیس کروڑ ہے۔ جب کہ ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق پاکستان میں ہر بیس میں سے نواں شخص ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے۔طبی ماہرین کے مطابق کئی افراد میں یہ مرض خاموش قاتل بھی ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی علامات لمبے عرصے تک ظاہر نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ ہائپر ٹینشن کی وجہ سے اسٹروکس، دل کی بیماریوں، اور گردوں کے مسائل کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔عمومی طور پر نارمل بلڈ پریشر 80 سے 120 ملی میٹر مرکیوری ہونا چاہیئے، اس کے برعکس ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے بلڈ پریشر نارمل سطح سے بڑھ جاتا ہے۔ 

ہائپر ٹینشن لاحق ہونے کی صورت میں بہت زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے مزید طبی مسائل کے خطرات بڑھ جاتے ہیں -ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 30-79 سال کی عمر کے 1.28 بلین بالغ افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں، زیادہ تر (دو

 تہائی) کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں- نصف سے بھی کم بالغ افراد (42%) ہائی بلڈ 

علامات-ہائی بلڈ پریشر والے زیادہ تر لوگ کوئی علامات محسوس نہیں کرتے۔ بہت زیادہ بلڈ پریشر  درد، دھندلا نظر، سینے میں درد اور دیگر علامات کا سبب بن سکتا ہے۔اپنے بلڈ پریشر کی جانچ کرنا یہ جاننے کا بہترین طریقہ ہے کہ آیا آپ کو ہائی بلڈ پریشر ہے۔ اگر ہائی بلڈ پریشر کا علاج نہ کیا جائے تو یہ دیگر صحت کی حالتوں جیسے گردے کی بیماری، دل کی بیماری اور فالج کا سبب بن سکتا ہے۔بہت زیادہ ہائی بلڈ پریشر والے لوگ (عام طور پر 180/120 یا اس سے زیادہ) علامات کا تجربہ کر سکتے ہیں بشمول:شدید سر درد-سینے کا درد-چکر آنا-سانس لینے میں دشواری-متلی-بے چینی-الجھاؤ-کانوں میں گونجنا-ناک سے خون بہنا-غیر معمولی دل کی تال - کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہائی بلڈ پریشر۔ ہائی بلڈ پریشر کا پھیلاؤ خطوں اور ملکی آمدنی والے گروپوں میں مختلف ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او افریقی خطے میں ہائی بلڈ پریشر کا سب سے زیادہ پھیلاؤ (27%) ہے جبکہ امریکہ کے ڈبلیو ایچ او کے خطے میں ہائی بلڈ پریشر کا سب سے کم پھیلاؤ ہے (18%)۔ ہائی بلڈ پریشر والے بالغوں کی تعداد 1975 میں 594 ملین سے بڑھ کر 2015 میں 1.13 بلین ہو گئی، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا۔

بلڈ پریشر کو دو نمبروں کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ پہلا (سسٹولک) نمبر خون کی نالیوں میں دباؤ کو ظاہر کرتا ہے جب دل سکڑتا ہے یا دھڑکتا ہے۔ دوسرا (ڈائیسٹولک) نمبر برتنوں میں دباؤ کی نمائندگی کرتا ہے جب دل دھڑکنوں کے درمیان آرام کرتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص اس صورت میں کی جاتی ہے جب اسے دو مختلف دنوں میں ناپا جاتا ہے، دونوں دنوں میں سسٹولک بلڈ پریشر کی ریڈنگ 140 mmHg ہے اور/یا دونوں دنوں میں diastolic بلڈ پریشر کی ریڈنگ 90 mmHg ہے۔خطرے کے عوامل-قابل ردوبدل خطرے والے عوامل میں غیر صحت بخش غذا (بہت زیادہ نمک کا استعمال، سیر شدہ چکنائی اور ٹرانس چکنائی والی خوراک، پھلوں اور سبزیوں کا کم استعمال)، جسمانی غیرفعالیت، تمباکو اور الکحل کا استعمال، اور زیادہ وزن یا موٹاپا شامل ہیں۔غیر تبدیل شدہ خطرے کے عوامل میں ہائی بلڈ پریشر کی خاندانی تاریخ، 65 سال سے زیادہ عمر اور ساتھ موجود بیماریاں جیسے ذیابیطس یا گردے کی بیماری شامل ہیں۔ یہ اضافہ بنیادی طور پر ان آبادیوں میں ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کے عوامل میں اضافے کی وجہ سے ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا جواب-ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) صحت عامہ کے مسئلے کے طور پر ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لیے ممالک کی مدد کرتا ہے۔2021 میں، ڈبلیو ایچ او نے بالغوں میں ہائی بلڈ پریشر کے فارماسولوجیکل علاج کے لیے ایک نئی گائیڈ لائن جاری کی۔ یہ اشاعت ہائی بلڈ پریشر کے علاج کے آغاز کے لیے شواہد پر مبنی سفارشات اور فالو اپ کے لیے تجویز کردہ وقفے فراہم کرتی ہے۔ دستاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کے لیے حاصل کیا جانا ہے، اور یہ معلومات بھی شامل ہیں کہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں کون علاج شروع کر سکتا ہے۔امراض قلب کی روک تھام اور کنٹرول کو مضبوط بنانے میں حکومتوں کی مدد کرنے کے لیے، ڈبلیو ایچ او اور ریاستہائے متحدہ کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (یو ایس سی ڈی سی) نے ستمبر 2016 میں گلوبل ہارٹس انیشیٹو کا آغاز کیا، جس میں ہارٹس تکنیکی پیکیج بھی شامل ہے۔ HEARTS تکنیکی پیکیج کے چھ ماڈیولز (صحت مند طرز زندگی سے متعلق مشاورت، ثبوت پر مبنی علاج کے پروٹوکول، ضروری ادویات اور ٹیکنالوجی تک رسائی، رسک پر مبنی انتظام، ٹیم پر مبنی دیکھ بھال، اور نگرانی کے نظام) قلبی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر فراہم کرتے ہیں۔


اتوار، 10 دسمبر، 2023

2023-12-10 -غزّہ میں موت اور بھوک ناچ رہی ہے

  میں نے ابھی غزّہ کی تازہ صورتحال معلوم کرنے لئے کمپیوٹر کھولا تو اب سے  6 گھنٹے پہلے کی تازہ صورتحال بی بی سی نے اس طرح بیان کی ہوئ ہےاقوام متحدہ کے ایک سینیئر امدادی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے وہاں کی آدھی آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے۔قوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے کہا کہ غزہ پٹی میں ضروری سامان کا صرف ایک حصہ ہی داخل ہو پا رہا ہے جس کی وجہ سے 10 میں سے نو لوگوں کو روزانہ کا کھانا بھی میسر نہیں۔مسٹر سکاؤ نے کہا کہ غزہ کے جنگی حالات نے رسد اور سامان کی ترسیل کو ’تقریباً ناممکن‘ بنا رکھا ہے۔جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسے حماس کے خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے غزہ پر فضائی حملے جاری رکھنا ہوں گے۔اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچٹ نے ہفتے کے روز بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی بھی شہری کی موت اور درد تکلیف دہ ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ہم غزہ پٹی کے اندر جتنا ممکن ہے پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سات اکتوبر سے غزہ کے اندر اور باہر نقل و حرکت پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ واضح رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سخت حفاظتی باڑ کو توڑ دیا تھا اور ان کے حملے میں 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ انھوں نے 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دیں اور علاقے پر فضائی حملے شروع کر دیے اور غزہ کے باشندوں کے لیے ضروری سامان کی رسد اور امداد کی ترسیل کو بہت حد تک روک دیا۔حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنی انتقامی مہم میں غزہ کے 17,700 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں 7,000 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔

صرف رفح سرحد کھلی ہےمصر کی سرحد سے متصل صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے۔رواں ہفتے اسرائیل نے امدادی لاریوں کے معائنے کے لیے اگلے چند دنوں میں اسرائیل سے غزہ کے لیے کریم شلوم کراسنگ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد ٹرک غزہ میں داخل ہونے کے لیے رفح جائیں گے۔مسٹر سکاؤ نے کہا کہ وہ کسی بھی طرح غزہ میں موجود 'خوف، افراتفری اور مایوسی' کے لیے تیار نہیں تھے جن کا انھیں اور ان کی ٹیم کو رواں ہفتے غزہ کے دورے کے دوران سابقہ پڑا۔انھوں نے کہا کہ انھوں نے 'گوداموں میں افراتفری، تقسیم کے مقامات پر ہزاروں مایوس بھوکے لوگوں کے ہجوم، سپر مارکیٹوں کی خالی الماریاں اور خستہ حال باتھ رومز اور پناہ گاہوں میں لوگوں کی گنجائش سے زیادہ بھیڑ' دیکھی۔گذشتہ ماہ بین الاقوامی دباؤ اور سات روزہ عارضی جنگ بندی سے غزہ پٹی میں کچھ اشد ضروری امدادی اشیا کی ترسیل کی اجازت ملی تھی لیکن ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کا اصرار ہے کہ غزہ پٹی کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب دوسرے سرحدی کراسنگ کو کھولے جانے کی ضرورت ہے۔صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے-غزہ کے یتیم بچے:’میں نے اپنی ٹانگ اور اپنا خاندان کھو دیا-غزہ کا شہر خان یونس: جہاں بھوک و افلاس کے باعث ایک نئے انسانی بحران کا خطرہ موجود ہے-

سرائیلی بمباری کے دوران غزہ کا دنیا سے رابطہ منقطع-

سکاؤ کا کہنا ہے کہ بعض جگہ تو ہر دس میں سے نو نو افراد ’رات دن بغیر کسی کھانے کے‘ گزار رہے ہیں۔غزہ کے جنوب میں واقع خان یونس کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ٹینکوں کے دو محاذوں پر گھرے شہر کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔شہر کی واحد باقی رہ جانے والی صحت کی سہولت ناصر ہسپتال میں پلاسٹک سرجری اور برنز یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر احمد مغرابی خوراک کی کمی کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رو پڑے۔ انھوں نے کہا: 'میری تین سال کی ایک بیٹی ہے، وہ مٹھائی، سیب اور پھل کے لیے ضد کرتی رہتی ہے۔ میں اسے کچھ نہیں دے سکتا۔ میں خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہوں۔'یہاں کافی کھانا نہیں ہے، بلکہ کھانا ہی نہیں ہے۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ صرف چاول ہی ہے؟ ہم دن بھر میں ایک بار، صرف ایک بار کھاتے ہیں۔خان یونس میں گنجائش سے زیادہ آبادی نے لوگوں کو کھلے میں رہنے پر مجبور کیا ہے-خان یونس کے حالات ناگفتہ بہ -خان یونس حالیہ دنوں میں شدید فضائی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور وہاں کے ناصر ہسپتال کے باس نے کہا کہ ان کی ٹیم کا ہسپتال پہنچنے والے مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد پر 'کنٹرول نہیں رہا ہے'۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما خان یونس میں ممکنہ طور پر سرنگوں کے زیر زمین نیٹ ورک میں چھپے ہوئے ہیں، اور یہ کہ وہ گروپ کی عسکری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے گھر گھر اور 'کونے کونے' میں لڑ رہا ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے سنیچر کے روز غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد امریکہ پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔لامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 13 ممالک نے جنگ بندی کے مطالبے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور امریکہ واحد ملک تھا جس نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا

۔فلسطینی اتھارٹی کے رہنما مسٹر عباس نے کہا کہ وہ ’(اسرائیلی) قابض افواج کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے خون بہائے جانے کا ذمہ دار واشنگٹن کو ٹھہراتے ہیں۔‘اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رابرٹ وڈ نے ویٹو کا دفاع کیا اور کہا کہ قرارداد ایک 'غیر پائیدار جنگ بندی' کا مطالبہ کر رہی ہے جس سے 'حماس اس قابل ہو جائے گا کہ وہ 7 اکتوبر کو کیے جانے والے اقدامات کو دہرا سکے۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ وہ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ’درست موقف‘ کو سراہتے ہیں۔ سات دن کی عارضی جنگ بندی ابھی ایک ہفتہ قبل ختم ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے تحت حماس نے اسرائیلی جیلوں میں قید 180 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 78 مغویوں کو رہا کیا تھا۔غزہ میں حماس کے ہاتھوں میں اب بھی 100 سے زائد لوگ یرغمال ہیں۔’غزہ میں انسانی حقوق کے علاقے میں کوئی انسانی حقوق میسّر نہیں‘اسرائیلی فوج نے بار بار غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک ایسے علاقے جسے وہ ’یومینیٹیرین زون‘ کہہ رہے ہیں وہاں منتقل ہو جائیں  خیال رہے کہ یہ علا لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے بھی چھوٹا ہے۔المواصی بحیرہ روم کے کنارے زمین کی ایک تنگ پٹی ہے۔ اس میں چند عمارتیں ہیں اور یہ زیادہ تر ریتیلے ٹیلوں اور زرعی زمین پر مشتمل ہے۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی طرف سے نامزد کیا گیا محفوظ علاقہ صرف 8.5 مربع کلومیٹر (3.3 مربع میل) ہے۔ایک پناہ گزین اس علاقے میں کئی ہفتوں سے زمین پر سو رہی ہیں اور چار دیگر خاندانوں کے ساتھ ایک ہی ٹینٹ میں رہ رہی ہیں۔انھیں لگا کہ یہ جگہ بمباری اور لڑائی سے محفوظ ہو گی لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں تھیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پانی ایک دن آتا ہے اور دس دن نہیں آتا، باتھ روم میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اور بجلی کی بھی یہی صورتحال ہے۔اسرائیلی فوج نے کم از کم 15 دفعہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو المواصی جانے کو کہا ہےآ آخری دفعہ انھوں نے 2 دسمبر کو یہ اعلان کیا تھا۔نٹرنیٹ کے محدود ہونے کی وجہ سے لوگوں کو غزہ کے دیگر علاقوں میں محفوظ جگہیں ڈھونڈنا مشکل ہوچکا ہے۔ 

تاہم المواصی کے متعلق اسرائیلی فوج کی ہدایات بھی کئی دفعہ تبدیل ہوئی ہیں۔عام شہریوں کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے پیغامات کی وجہ سے محفوظ علاقوں کی نشاندہی کرنا ان کے لیے ایک مشکل بن گئی ہے۔ اسرائیلی فوج کی ہر پوسٹ میں ایک نقشہ ہے جس میں المواصی کے اندر ایک علاقے میں جانے کو کہا جاتا ہے۔لیکن مختلف اوقات میں المواصی کے اندر مختلف مقامات کو اسرائیل نے محفوظ مقام قرار دیا ہے۔مونا الاستال ایک ڈاکٹر ہیں جب ان کے پڑوسی کا گھر بمباری سے تباہ ہو گیا تھا انھیں مجبوراً خان یونس چھوڑ کر المواصی آنا پڑا۔وہ کہتی ہیں کہ بمباری کی آوازوں کی وجہ سے وہ پوری رات جاگتی رہتی ہیں۔مونا بھی اس علاقے میں پانی بجلی اور سہولیات کی عدم موجودگی کا بتاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ٹینٹ اور دیگر اشیائے ضروریہ کے لیے انھیں 300 ڈالر دینے پڑے۔مونا کہتی ہیں انھوں نے لوگوں کو اقوام متحدہ کے سٹورہاؤس میں زبردستی گھستے ہوئے بھی دیکھا ہے کیونکہ وہ ’بہت بھوکے تھے اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔‘

مونا مزید کہتی ہیں ’ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے لیے یہاں خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘

 

 

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر