ہفتہ، 11 فروری، 2023

پاکستان کے مایہ ء ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان

 

پاکستان کے  مایہ ء ناز  ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان

پاکستانی ایٹم بم کے خالق اور مایہ ء ناز سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے، جو کہ صدر کے مشیر بھی رہ چکے ہیں، ـڈاکٹر قدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان آگئےـڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں انہوں نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی ـ اس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاءالحق نے تبدیل کرکے ’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہےـمئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ـکہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائیل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا

۔دارے نے پچیس کلو میٹر تک مارکرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، لیزر رینج فائنڈر، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیومیٹر، ریموٹ کنٹرول مائن ایکسپلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لئے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کیلئے متعدد آلات بھی بنائےـانیس سو چھتیس میں ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والےڈاکٹر خان نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا ـڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیںـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھا -ڈاکٹر خان کو صدر جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹیو اپنا مشیر نامزد کیا اور جب جمالی حکومت آئی تو بھی وہ اپنے نام کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر کا عہدہ لکھتے ہیں لیکن 19 دسمبر 2004ء کو سینیٹ میں ڈاکٹر اسماعیل بلیدی کے سوال پر کابینہ ڈویژن کے انچارج وزیر نے جو تحریری جواب پیش کیا ہے اس میں وزیراعظم کے مشیروں کی فہرست میں ڈاکٹر قدیر خان کا نام شامل نہیں تھاـ

ڈاکٹر قدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔ دونوں بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور اب تو ڈاکٹر قدیر خان نانا بن گئے ہیں۔ڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں ـ انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔چودہ اگست1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی انکو عطا کیا گیا تھا۔ڈاکٹر قدیر خان نےسیچٹ sachet کے نام سے ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہےـ

ڈاکٹر قدیر خان نےسیچٹ sachet کے نام سے جو این جی او  بنائی وہ تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہےـ-مئی 1998ء کو آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلہ میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی ـبالآخر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دورمیں آپ نے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے ـاس موقع پر عبد القدیر خان نے پورے عالم کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔یوں آپ پوری دنیا میں مقبول عام ہوئے۔

سعودی مفتی اعظم نے عبد القدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا اور پاکستان کے لیے خام حالت میں تیل مفت فراہم کرنے کا فرمان جاری کیا۔اس کے بعد سے پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے خام تیل مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔مغربی دنیا نے   پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جسے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بخوشی قبول کر لیا۔پرویز مشرف دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظربند رہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے لئے انتہائی افسوسناک اور عظیم سانحہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر قدیر خان نے مسلمان ممالک کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی طاقت سے نواز کر مسلم دنیا کو مضبوط کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے لئے جو خدمات سر انجام دیں انہی کی بدولت آج ہم آزادی کی فضاء میں سانس لے رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے مسلمان سائنسدان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پاکستان سے محبت تھی کہ وہ عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر پاکستان آئے اور تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کی سر زمین پر ہی خاک کی چادر اوڑھ کراپنے خالق کے حضورابدی نیند سو گئے

جمعہ، 10 فروری، 2023

مولائے کائنات کی عظمت و جلالت غیر مسلم مشاہیر عالم کی نظر میں

مولائے کائنات کی عظمت و جلالت غیر مسلم مشاہیر عالم کی نظر میں ان ہستیوں نے مولا علی  کے جو اوصاف لکھے ہیں ان میں سے ہر ایک کتاب حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک حصے کو بیان کرتی ہے اور ان کی زندگی کا ہر پہلو تمام نوع انسانی بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب و مکتب ، قوم و ملت ، شرق و غرب زندگی کے تمام مراحل ، شعبے اور ادوار کے لئے مشعل راہ ہے۔ آج علماء و دانشور اپنی علمی پیاس بجھانے اور ناخواندہ اپنے ہادی سے درس ہدایت کی تلاش میں ہیں زاہد ، متقی ، عابد امام المتقین کی تلاش میں ہیں ۔ حقوق انسانی سے لے کر حقوق غیر بشری تک یا گھریلو حقوق سے لےکر عالمی طبقاتی و غیر طبقاتی حقوق تک سب فطری طور پر ایک ایسے ہی فطری رہنماء کی تلاش میں ہیں سیاستدان اپنی سیاست ، دیندار اپنے دینی مسائل ، تاجر اپنی تجارت کے معاملات میں ، محقق اپنی تحقیق کے مراحل میں ، فطرت سلیم جیسے کامل ترین رہنماء کی تلاش میں ہیں مختلف مکاتب ومسالک ، مذاہب و ادیان کے علماء و دانشوروں نے نبی کریمﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو ان تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا ہے۔

ا ایک (ہندو پنڈت اچاریہ پرمود کرشنا)

کی منقبت  جو ایک ہندو ہوکرحضرت علیؓ کیلئے بھرپور خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔

میرے سینے کی دھڑکن ہیں میری آنکھوں کے تارے ہیں۔

سہارا بے سہاروں کا نبیﷺ کے وہ دُلارے ہیں۔

سمجھ کر تم فقط اپنا انہیں تقسیم نہ کرنا،

علی جتنے تمہارے ہیں علی اتنے ہمارے ہیں۔

نبیﷺ نورِ خدا ہے تو علی نورِ نبیﷺ سمجھو

نہ اس سے کم گوارا تھا نہ اس سے کم گوارا ہے۔

سمندر درد کا اندر مگر میں پی نہیں سکتا

لگے ہوں لاکھ پہرے پر لبوں کو سی نہیں سکتا

علی والو علی کے عشق کی یہ داستان سن لو

اگر علی کا ذکر نہ ہو تو یہ بندہ جی نہیں سکتا۔

جس کسی نے بہی اس عظيم شخصیت کے کردار،گفتار اور اذکار ميں غور کيا، وہ دريائے حيرت ميں ڈوب گيا اور شانِ علیؓ لکھنے پر مجبور ہوگیا۔ايک غیر مسلم محقق لکھتا ہے کہ حضرت علی عليہ السلام وہ پہلی شخصيت ہيں جن کا پورے جہان سے روحانی تعلق ہے وہ سب کے دوست ہيں اور اُن کی موت پيغمبروں کی موت جیسی ہے-

معروف سکھ دانشور، شاعر و ادیب کنور مہندر سنگھ بیدی سحر لکھتا ہے۔

تُو تو ہر دین کے، ہر دور کے انسان کا ہے

کم کبھی بھی تیری توقیر نہ ہونے دیں گے

ہم سلامت ہیں زمانے میں تو ان شاء اللہ

تجھ کو اک قوم کی جاگیر نہ ہونے دیں گے۔

تھامس کار لائیل لکھتا ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) ایک عظیم ذہن رکھتے تھے اور بہادری ان کے قدم چومتی تھی، ہم علی(علیہ السلام )کو اس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم ان کو دوست رکھتے ہیں اور ان کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں، وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے، ان کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے، ان کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے، وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن ان کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش بھی تھی پھر اچانک کوفہ میں کسی بہانے سے انہیں قتل کردیاگیا، ان کے قتل کی وجہ حقیقت میں ان کا درجہء کمال تک پہنچا ہوا عدل تھا، جب علی(علیہ السلام) سے اُن کے قاتل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں زندہ رہا تو میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہئے، اگر میں زندہ نہ بچ سکا تو یہ کام آپ کے ذمہ ہے، اگر آپ نے قصاص لینا چاہا تو آپ صرف ایک ہی ضرب لگا کر سزا دیں گے اور اگر اس کو معاف کردیں تو یہ تقویٰ کے نزدیک تر ہے۔

تھامس کار لائل مزید لکھتا ہے کہ ہمارا اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) سے محبت اور عشق کریں، کیونکہ وہ ایک جوانمرد اور عالی نفس انسان تھے۔

برطانوی تاریخ دان ایڈورڈ گبن۔

(1737-1794) لکھتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کی فصاحت تمام زمانوں میں زندہ رہے گی، بلاشبہ خطابت اور تیغ زنی میں وہ یکتا تھے۔

شامی نژاد امریکی پروفیسر فلپ کے (1886-1978) لکھتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں کیلئے فراخ دل تھے۔

اسکاٹش سیاستدان سر ویلیم مور (1918-1905) کا ماننا ہے کہ سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی اور انہوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسولِ خداﷺ کے نام کر دیا تھا۔جیرالڈ ڈی گورے (1897-1984) لکھتا ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی کی مثال رہیں گے۔

برطانوی ماہر تعلیم ولفرڈ میڈلنگ

(1930-2013) لکھتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخ دلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔معروف مورخ چارلس ملز لکھتا ہے کہ خوش نصیب ہے وہ قوم کہ جس میں علیؑ جیسا عادل انسان پیدا ہوا، نبی اللہ سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسٰیؑ سے حضرت ہارونؑ کو تھی۔

برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) کہتا ہے کہ خانہ خدا میں حضرت علی کی ولادت ایک ایسا خاصا ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں۔(9) بھارتی صحافی ڈی-ایف-کیرے، 1911-1974، لکھتا کہ علی (علیہ السلام) کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔

حضرت مولا علی (علیہ السلام)کی ان تمام صفات کو ایک شاعر استاد شہریار ایک شعر میں یوں بیان کرتا ہے

نہ خدا تو انمش گفت نہ بشرتو انمش خواند

متحیرم چہ نامم شہ ملکِ لافتیٰ را

میں علی (علیہ السلام) کو نہ تو خدا کہہ سکتا ہوں اور نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ اس شہ ملکِ لافتیٰ کو کیا کہوں.

(ایک عیسائی محقق ڈاکٹر شبلی شُمَیّل

کتاب ادبیات و تعہد در اسلام، مصنف: محمد رضا حکیمی، صفحہ250)حضرت علی پاک (علیہ السلام ) تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہیں اور ایسی شخصیت ہیں کہ دنیا نے مشرق و مغرب میں، زمانہٴ گزشتہ اور حال میں آپ کی نظیر نہیں دیکھی۔

تھامس کارلائل لکھتا ہے: ”ہم علی کواس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم اُن کو دوست رکھتے ہیں اور اُن کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ کسقدرجوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے۔ 

جمعرات، 9 فروری، 2023

ترکی-شام زلزلہ -اچانک سوتے میں قیامت صغریٰ آ گئی

ترکی-شام زلزلہ -اچانک سوتے میں قیامت صغریٰ آ گئی -بلند و بالا عمارتوں کے خس خاشاک تلے مردہ نیم مردہ'روتے کراہتے فریاد کرتے لوگ اور اشرف المخلوقات کی بے بسی-جی ہاں اس تباہ کن زلزلے کی اب تک کی تفصیلات جو منظر عام پر آئ ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں ترکیہ میں 12 ہزار 391 اور شام میں 2 ہزار 992 افراد ہلاک ہوئے، دونوں ملکوں میں 40 ہزار اموات کا خدشہ ہے، عالمی ادارہ صحت ترکیہ اور شام میں تباہ کن زلزلے سے اموات کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کرگئی،

 ترکیہ میں 12 ہزار 391 اور شام میں 2 ہزار 992 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق پیر کو آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے کے بعد 7.6 شدت کا ایک اور زلزلہ آیا، جس نے مزید تباہی پھیلائی۔ زلزلے کے جھٹکے قبرص، یونان، شام، اردن،لبنان اور فلسطین میں بھی محسوس کیےگئے جب کہ قیامت خیز تباہی کے بعد 300 سے زیادہ آفٹر شاکس آچکے ہیں۔ملبے تلے اب بھی متعدد افراد کے پھنسے ہونےکا خدشہ ہے، انہیں نکالنےکے لیے دن رات ریسکیو آپریشن جاری ہے تاہم شدید سردی اور بعض علاقوں میں برفباری کے باعث متاثرین کو کٹھن حالات کا سامنا ہے اور امدادی کارروائیوں میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں،
 ترکیہ میں عمارتوں کےملبوں سے8 ہزار سے زائد افراد کو نکالا جا چکاہے۔

 ترک وزیر صحت کے مطابق زلزلے سے 32 ہزار کے قریب افراد زخمی ہیں اور متاثرہ علاقوں میں 5 ہزار 775 عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں، زلزلے میں مرنے والوں میں57 فلسطینی بھی شامل ہیں۔شام میں زخمیوں کی تعداد 8 ہزار سے زائد بتائی جارہی ہے۔ترک میڈیا کے مطابق ملبے تلے دبے زلزلہ متاثرین موبائل فون سے ویڈیوز، وائس نوٹس اور لائیو لوکیشن بھیج رہے ہیں۔ شام میں ملبے تلے دبی ایک خاتون بچےکو جنم دے کر زندگی ہارگئی، لوگ دل تھام کر بیٹھ گئے جب کہ سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملبے میں دبی شامی بچی کو خود سے زیادہ ننھے بھائی کی فکر ہے، شام میں مدد کے منتظر دو بچوں کی وائرل ویڈیو نے دل پگھلادیے، شامی شہر ادلب میں ایک خاندان کو چالیس گھنٹوں بعد ملبے سے نکالے جانے پر جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ عالمی ادارہ صحت نے دونوں ملکوں میں 40 ہزار اموات اور 2 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہونےکا خدشہ ہے جن میں 14 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔

خبر ایجنسی کے مطابق ترکیہ میں 3 لاکھ 80 ہزار زلزلہ متاثرین کو شیلٹرز میں منتقل کردیا گیا، ترکیہ میں زلزلے سے ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔نقرہ میں خطاب سے ترک صدر کا کہنا تھاکہ ہولناک زلزلے کے باعث نقصانات سے امدادی کاموں میں دشواری ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جنوبی ترکیہ میں زلزلے کا شکار 10 شہروں کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے اور ان متاثرہ علاقوں میں 3 ماہ کے لیے ہنگامی حالت نافذ کردی گئی جبکہ امدادی کاموں کے لیے 5 ارب ڈالرز مختص کیے ہیں۔ترک صدر کا کہنا تھاکہ بے گھر ہونے والے افراد کے لیے 45 ہزار پناہ گاہیں جنگی بنیادوں پر تعمیرہوں گی جب کہ زلزلہ زدگان کو اناطولیہ کے ہوٹلوں میں عارضی طور رکھنے پرغور کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ ترکیہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے سانحہ سے گزر رہا ہے، 70 سے زائد ممالک نے امداد اور امدادی کارروائیوں میں تعاون کی پیشکش کی ہے ۔شام میں باغیوں کے علاقے میں زلزلہ- نائب وزیر صحت احمد ضمیریہ نے شام کے الاخباریہ چینل کو بتایا کہ زلزلے سے لطاکیہ، حلب، حماہ اور طرطوس کے علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ شامی عرب نیوز ایجنسی نے بتایا کہ دمشق میں مرکزی انتظامیہ اور حمص اور طرطوس کی گورنریوں جانب سے ایک ہنگامی ٹیم اور موبائل کلینک حلب اور لطاکیہ بھیجے گئے ہیں۔وا‏ضح رہے کہ پیر کی صبح ترکی اور شام کے جنوب مشرقی علاقوں میں 7.8 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جس کی وجہ سے عمارتیں منہدم ہوگئیں اور سخت سردی کے درمیان شہری گھروں سے باہر نکل آئے۔زلزلے سے شام کے سرحدی ، باغیوں کے زیر قبضہ گنجان آباد علاقوں کو زیادہ نقصان پہنچا جہاں تقریباً 4 ملین شامی شہری ملک کے دوسرے حصوں سے جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کر گئے تھے۔

زلزلے کا مرکز شام کی سرحد سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ترک شہر غازی عنتپ کے شمال میں تھا۔ امریکی جیولوجیکل سروے نے بتایا ہے کہ زلزلے کا مرکز ترکی کے شہر غازی عنتپ سے 33 کلومیٹر دور تھا اور اس کا مرکز 18 کلومیٹر کی گہرائی میں تھا اور مرکزی زلزلے کے تقریباً 10 منٹ بعد 6.7 ڈگری کا شدید آفٹر شاک آیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ترکی بڑی فالٹ لائنوں پر واقع ہے جو اکثر زلزلوں کا باعث بنتا ہے۔ اس سے قبل ترکی کے شمال مغربی علاقوں میں آنے والے شدید زلزلوں میں تقریباً 18000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ شام میں جنگ کے شعلوں سے بچ نکل کر ترکیہ میں پہنچنے والے نوجوان کو وہاں پر بھی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑے گا۔ یہ ایک شامی لڑکے کی کہانی ہے۔ وہ ہجرت کرکے ترکیہ کے شہر ہاتائے پہنچ گیا تاہم یہاں جس عمارت میں اسے رکھا گیا تھا وہ پیر 6 فروری کے زلزلہ میں گر کر تباہ ہوگئی۔ شامی نوجوان نے ملبے کے نیچے سے ویڈیو کلپ فلمایا 

اور احساسات بیان کردیئے۔ نوجوان کہتا سنائی دے رہا ہے کہ ’’ میں زندہ ہوں‘‘ ۔ نوجوان ویڈیو میں۔ اس نے کہا کہ اس کا خاندان اور بہت سے دوسرے خاندان ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس نے بتایا کہ اسے ملبے کے درمیان عمارت کے گرنے سے لوگوں کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔یاد رہے امدادی ٹیمیں ترکیہ اور شام میں آنے والے شدید زلزلے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں وقت کے ساتھ دوڑ رہی ہیں۔ ہر گذرتے لمحے ترکی اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد ہولناک مناظر سامنے آ رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک وڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ شام میں ادلب کے علاقے سالکین میں امدادی ٹیمیں ملبے کے نیچے سے شامی لڑکی کو نکالنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اور جب بچی سے پوچھا جاتا ہے کہ " کیا اندر کوئی اور ہے؟" تو وہ معصومیت سے جواب دیتی ہے کہ "میری ماں اور بہنیں اندر ہیں،لیکن وہ مر چکی ہیں-

پاور آف اٹارنی- پاکستانی عوام کے لئے یہ ایک خوشخبری ہے

 

  بیرون ملک رہنے والے پاکستانی عوام کے لئے یہ ایک خوشخبری ہے 

پاکستان کی حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ایک اور سہولت ان کی دہلیز پر پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی بہت جلد گھر بیٹھ کر صرف 25 ڈالر فیس ادا کرکے پاور آف اٹارنی (اتھارٹی لیٹر) بنوا سکیں گے۔اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور نادرا نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پاور آف اٹارنی کا نیا نظام متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس آٹومیشن نظام کے ذریعے پاور آف اٹارنی کا نظام آن لائن اور آٹومیشن پر ہوگا اور کسی کو سفارت خانے یا سرکاری دفاتر کے چکر نہیں کاٹنا پڑیں گے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ٹیکس گوشواروں کے لیے ایف بی آر کے نئے لنک کا اجرا-صرف یہی نہیں بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کے اندر جس کو بھی اتھارٹی تفویض کر رہے ہوں گے اسے بھی کسی دفتر جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ اس نئے نظام کے تحت پاور آف اٹارنی کا پورا نظام آٹومیشن پر منتقل ہو جائے گا۔ اس طرح پاور آف اٹارنی کا دستاویزی سلسلہ ختم کر دیا جائے گا۔

اس حوالے سے وزارت خارجہ نے ضروری قانونی ترامیم کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری حاصل کر لی ہے جب کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے آٹومیشن کا نظام تیار کرنے کے لیے نادرا کو 83 اعشاریہ تین ملین روپے کی تکنیکی گرانٹ فراہم کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے۔اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویز کے مطابق وزیر اعظم کی ہدایت پر پاور آف اٹارنی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نادرا کو آٹومیشن کا نظام لانے کی ہدایت کی گئی۔

اس حوالے سے مشاورتی اجلاسوں میں معلوم ہوا کہ پاور آف اٹارنی کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں خاص طور پر وقت اور پیسے کا ضیاع سب سے اہم ہیں۔ اسی طرح بہت سے ممالک میں پاکستانی شہریوں کا ایک شہر سے سفر کرکے دوسرے شہر میں سفارت خانوں میں جانا پڑتا ہے جو ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی کسی وکیل سے پاور آف اٹارنی لکھواتے ہیں۔ 

اس حوالے سے طے پایا کہ نادرا آٹومیشن ک نظام لائے گا جس پر ابتدائی کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ وزارت خارجہ وزارت قانون سے مشاورت کے بعد ضروری قانونی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے رولز میں ترامیم کرے گی جو کہ مکمل کر لی گئی ہیں اور اس پر مزید مشاورت بھی جاری ہے تاکہ کسی قسم کی کوئی کمی باقی نہ رہے۔اس حوالے سے معاملہ جب وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا گیا تو وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے آٹومیشن کے نظام کے غلط استعمال کو روکنے کے حوالے سے کچھ تجاویز دیں جن پر اتفاق کرتے ہوئے ان پر عمل در آمد کے حوالے سے مزید مشاورت کی ہدایت کی گئی۔ آف اٹارنی کا نیا نظام حتمی مرحلے پر پہنچنے پر نادرا اور وزارت خارجہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پائے گا جس کے تحت نادرا ایک پاور آف اٹارنی کے لیے درخواست دہندہ سے 25 ڈالر فیس وصول کرے گا۔ یہ فیس بھی آن لائن ہی نادرا کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنا ہوگی۔

پاور آف اٹارنی کیا ہے؟پاور آف اٹارنی ایک قانونی دستاویز ہے جس کے ذریعے ایک فرد کسی دوسرے فرد کو اپنی نمائندگی کا حق دیتا ہے اور ایسا بالخصوص قانونی معاملات یا دستاویزات کی تصدیق وغیرہ کے لیے کیا جاتا ہے۔Aٹومیشن نظام کے ذریعے پاور آف اٹارنی کا نظام آن لائن اور آٹومیشن پر ہوگا۔ عموماً بیرون ملک مقیم پاکستانی کسی وکیل سے پاور آف اٹارنی لکھواتے ہیں اور سفارت خانے میں جا کر مجاز افسر کے سامنے اس پر دستخط کرتے ہیں اور پاکستان میں اس کو قانونی حیثیت دینے کے لیے سفارت خانے سے تصدیق کرواتے ہیں۔پاور آف اٹارنی بنوانے کا طریقہ کار خاصا پیچیدہ اور وقت طلب ہے۔ اس کے لیے ہر ملک میں فیس الگ اور وکیلوں کی فیسیں الگ دینا پڑتی ہیں۔

سعودی عرب میں پاور اٹارنی کی کم از کم فیس 18 ریال جبکہ زیادہ سے 136 ریال ہے۔ یورپ میں پاور آف اٹارنی کی کم از کم فیس 16 اور زیادہ سے 48 یورو، امریکہ میں 8 سے 16 ڈالر،  انڈیا میں 300 سے 600 انڈین روپے ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانی آٹومیشن نظام پاور آف اٹارنی اتھارٹی لیٹر قانون اب کس مرحلے میں ہے اس لئے آپ جس ملک میں بھی رہتے ہوں وہاں کے پاکستانی قونصلیٹ سے رابطہ کر کے معلومات لے سکتے ہیں 


بدھ، 8 فروری، 2023

آہ ! پرویز مشرّف الوداع

  ہر اچھّے شوہر کی خواہش وتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کا دل خوش کرنے لئے اس کی پسند کا تحفہ دے -چنانچہ صدر پرویز مشرف نے اپنی مسز صہبا مشرف کے لئے چک شہزاد فارم ہاوس میں ایک خوبصور ت ولا کا تحفہ دیا -تعمیر شروع ہوئ اوربرسوں کی محنت کے بعد ولا تیّار ہو گیا -لیکن مقدّرکس نے دیکھا ہے -یہ ولا اپنے مکینوں کی راہ دیکھ ہی رہا تھا کہ اجل کا فرشتہ اس محل کی چھت اڑا لے گیا-aپنے خوابوں کے محل کے تعمیراتی مراحل میں ابتداً کئی بار دونوں ایک ساتھ فارم ہاؤس جایا کرتے تھے، بعد میں پرویز مشرف کی مصروفیات کے باعث اس میں طویل وقفے آنے لگے۔ پھر ایک موقع پر جنرل صاحب نے اپنی بیگم صاحبہ سے کہا کہ ’نقشہ آپ کی مرضی سے بنا ہے اب تزئین و آرائش کی ذمہ داری آپ کی ہے اس لئے اسٹرکچر مکمل ہونے کے بعد ہی آپ کا کام شروع ہوگا‘۔

 فارم ہاؤس پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری رہا، اس پُرتعیش فارم ہاؤس میں سوئمنگ پول، پھلوں کے باغات، بطخوں اور دیگر آبی پرندوں کے لیے پول، جاگنگ ٹریک، بیٹھنے کے لیے بینچز نصب کی گئیں، فول پروف سیکیورٹی سے لیس اس رہائش گاہ پر سواتِ اور کشمیر سے منگائی گئی قیمتی لکڑی کا کام کئی مہینوں تک ہوتا رہا۔ صہبا مشرف کے خوابوں کا ’تاج محل‘ ویران ہوگیا واضح رہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے اس گھر کے باہر ابتداً سیکورٹی نہ ہونے کے برابر تھی اور اُن کی رہائش گاہ کے باہر پولیس کا کوئی اہلکار موجود نہیں ہوتا۔ ایک رپورٹ میں مقامی پولیس نے بتایا کہ اس زیر تعمیر فارم ہاؤس میں سکیورٹی صرف اُس وقت لگائی جاتی تھی جب سابق صدر اپنے فارم ہاؤس پر آتے تھے۔ فارم ہاؤس کے اندر کچھ افراد موجود ہوتے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اہلکار ہیں۔
 جب سابق صدر پرویز مشرف کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہوئے تو اس کے پیش نظر ان کے فارم ہائوس کے ارد گرد بم پروف دیواروں کی تعمیر بھی کی گئی ہے۔ فارم ہائوس کے اندر مشرف کے رہائشی کمروں کے گرد بوریوں میں ریت بھر کر دیوار بنائی گئی تاکہ بارود سے بھری گاڑی سے حملے کی صورت میں نقصان کو کم کیا جاسکے۔ حفاظتی انتظامات کو مزید موثر بنانے کے لیے فارم ہاؤس کے تینوں اطراف میں دیوار بنائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ سابق صدر کی ریٹائر منٹ کے بعد سے ان پر حملوں کے کئی منصوبوں کا انکشاف ہوچکا تھا۔ یاد رہے کہ 2013 میں ججز نظر بندی کیس کے دوران پرویز مشرف کے اس فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دیا گیا تھا۔ 2016 میں سنگین غداری کیس کے میں ان کا اسلام آباد کا چک شہزاد فارم ہاؤس اور ڈی ایچ اے اسلام آباد کا پلاٹ بحق سرکار ضبط کر لیا گیا تھا۔ 

بعدازاں ان کی اہلیہ صہبا مشرف نے دعویٰ کیا کہ پرویز مشرف نے یہ فارم ہاؤس انہیں تحفے میں دیا ہے۔ پرویز مشرف اور ان کی اہلیہ صہبا مشرف کے (خوابوں کا یہ فارم ہائوس) آج ویران ہوگیا، جتنی محبتوں اور چاہتوں کے ساتھ انہوں نے اپنے اس ’’تاج محل‘‘ کی تعمیر کی تھی اس میں انہیں ایک ساتھ زندگی گزارنے کا موقع نہیں ملا۔ گذشتہ برس پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے اورسیز صدر افضال صدیقی نے میڈیا کو بتایا تھا کہ سابق صدر کو ایک نادر بیماری لاحق ہے جس کا نام ایمالوئڈوسس (amyloidosis) ہے۔ یہ بیماری کتنی عام ہے اور اس کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟ ایمالوئڈوسس ایسی بیماری ہے جس میں پروٹین کے مالیکیول درست طریقے سے تہہ نہیں ہوتے اس لیے اپنا کام نہیں کر پاتے۔ اسے یوں سمجھیے جیسے کسی ورق کو آپ مختلف طریقوں سے تہہ کر کے ان سے مختلف کام لے سکتے ہیں۔ اس سے جہاز بنا کر ہوا میں اڑا سکتے ہیں یا پھر کشتی بنا کر پانی میں چھوڑ سکتے ہیں۔ کاغذ وہی ہے لیکن اس کے تہہ کرنے کے طریقے سے اس کی شکل اور کام بدل جاتا ہے۔ پروٹین کے مالیکیول بھی کچھ اسی طریقے سے کام کرتے ہیں۔ وہ صرف اسی صورت میں اپنے مختلف افعال سرانجام دے سکتے ہیں اگر وہ درست طریقے سے فولڈ ہوئے ہوں، ورنہ وہ مقررہ کام ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔یمالوئڈوسس میں بھی یہی ہوتا ہے کہ پروٹین کا مالیکیول بنتا تو درست طریقے سے ہے، لیکن فولڈنگ میں گڑبڑ ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پروٹین جسم میں کرتی کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے: سب کچھ۔ مختصراً یہ کہ جسم جو بھی کام کرتا ہے، اس میں پروٹین انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں، چاہے وہ دل کا دھڑکنا ہو، پھیپھڑوں کا سانس لینا ہو، گردوں کا خون صاف کرنا، یا دماغ کا سوچنا، کوئی بھی کام پروٹین کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ایملوئیڈوسز بیماری کیا ہے؟ بہت کم افراد کو متاثر کرنے والی ’Amyloidosis‘ ایک نایاب بیماری ہے جس میں پورے جسم کے اعضاء دل، دماغ، گردے، تلی اور جسم کے دیگر حصوں کے سیلز میں ’ایملوئیڈ‘ (amyloid) نامی غیر معمولی پروٹین جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس پروٹین کی غیر معمولی افزائش کے نتیجے میں متاثرہ شخص کے اعضاء کی کارکردگی ناصرف متاثر ہوتی ہے بلکہ مریض ہلنے جلنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ بیماری مریض میں اعضاء کے ناکارہ ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ واضح رہے کہ 2018ء میں پرویز مشرف میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی تھی جس پر ڈاکڑوں نے اُن کی حالت تشویش ناک قرار دی تھی۔ ایملوئیڈوسز بیماری کے لاحق ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟ جانس ہاپکنز میڈیسن کے مطابق اس بیماری کے لاحق ہونے کی وجوہات تاحال دریافت نہیں کی جا سکی ہیں 

 بعض ماہرین کی جانب سے جین میں تبدیلی کو اس بیماری کا وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ایملوئیڈوسز بیماری کی اقسام املوئیڈوسز بیماری کی کئی اقسام ہیں۔ لائٹ چین (AL) Amyloidosis، اس قسم میں سر، دل، گردے، تلی اور جسم کے دیگر اعضاء متاثر ہوتے ہیں، یہ قسم زیادہ تر ہڈیوں کےدرد میں مبتلا افراد کو متاثر کرتی ہے۔AAAmyloidosis، اس قسم میں مریض کے جسم کے مختلف اعضاء میں مخصوص پروٹین ’ایملوئیڈ‘ کی غیر معمولی افزائش ہونے لگتی ہے جس کے نتیجے میں یہ ایملوئیڈوسز بیماری کی اس قسم میں مبتلا مریض کے 80 فیصد گردے

منگل، 7 فروری، 2023

یو گی کے استھان سے من مندر کے استھان تک-افسانہ

 

 

وہ بہت چھوٹی سی تھی جب سے سوچنا  شروع کیا تھا پوجا پاٹ کے لئے چھوٹے بچّے بچّیاں اپنی ماوں کی انگیا ں تھامے ہوئے مندر آتے جاتے ہیں اور پھر اس کے ننھّے سے زہن نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا میرے لئے وہ ہاتھ کہاں ہیں میں جس کی انگلی تھام کر مندر کی سیڑھیا ں چڑھتی اور اترتی مندر کا پجاری اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا پھر بھی اس نے ایک دن جا کر اس سے سوال کر ہی لیا تھا  پجاری جی میری ماتا میرے پتا کون تھے ؟ پھر پجاری نے اسے بتا یا تھا کہ  اُس کو اس کی ماں نے اپنی کوئ منّت پوری کرنے پر دان میں دیا تھا پر تیری ماتا پھر لوٹ کر کبھی بھی مندر نہیں آئ اور دیوداسی نے اپنا سر جھکا لیا تھا - مندر کے  بوڑھے پجاری  کے چرنوں میں بیٹھی اس کی  جوانی جب جوبن پر آئ  تب پجاری  کو اس کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی وہ اسی کے چرنوں میں ہی  بیٹھی  ہوئ تھی  -

-پجاری  بوڑھا ہو گیا تھا   اور تب بھی اس نے اس سے ایک بار بھی نہیں کہا تھا کہ وہ کہیں جا کر باہر کی دنیا دیکھ آئے  - لیکن ایک روز ایک اجنبی اس کے من مندر میں آ پہنچا  اس نے پجاری کو بتایا  تو پجاری اس کو  اپنے جھرّیوں بھرے  چہرے میں دھنسی  ہوئ  آنکھوں سےدیکھتے ہوئے   پہلے تو  ایک دم  آگ بگولہ سا گرم ہو اٹھا  پھر نا جانے کیا سوچ کر ایک دم ہی سنبھل کر  بولا  دیکھ   دیوداسی میں تجھ کو منع نہیں کروں گا -چل تو خود دیکھ لے  ،،یہاں تو تُو اپنے  من کے رشتے سے رہتی ہے ،،وہاں تو تن کے رشتے سے رہے گی ،،لیکن پجاری جی  وہ مجھ سے بہت محبّت کرتا ہے ،،ہاں میں کب کہ رہا ہوں  کہ وہ محبّت نہیں کرتا ہے ،،اچھّا جا اب  آزما لے پھر آ جایئو ، پھر اسی شام ڈھلے مندر کی بتّیاں جلنے کے بعد وہ اسے لینے آ گیا 

دیکھ دیوداسی یہ میرے دوست کا گھر ہے وہ بدیس گیا ہوا جب آئے گا تب ہم اپنا ڈیرہ کہیں اور جما لیں گے- پھر اس نے من مندر کے دیوتا کے لیئے  اپنی سیج سجا لی اور ایک  گھر آنگن کا خیالی تصّوراپنے دل میں بسا کربیٹھ  گئ،،وہ حسبِ وعدہ  ہر رات آنے لگا  وہ  شادی شدہ تھا اس لئے دن کے اجالے میں نہیں آسکتا تھا  بس رات ہی اس کے لئے  موزوں تھی اس لئے وہ ہر رات بلا دھڑک آتا تھا  -لیکن یہ رات اور راتوں سے زرا مختلف رات تھی  اس رات وہ بہت سخت بیمار تھی  اورتیز بخار میں پھنک رہی تھی لیکن اس کی نظریں  ہر پل دروازے کی جانب دیکھ رہی تھیں کہ اب وہ آ ئے گا  اور پھر ہر رات کی طرح آج کی رات بھی وہ آگیا تھا لیکن آ ج کی رات   اُس آنے والے کے لئے  بے قیمت  تھی کیونکہ آنے والے کو ایک خوف لاحق تھا 'کوئ مخبر اس کی خبر اُس کی گھر والی تک پہنچا سکتا تھا جس کے بدلے میں اس کا آنگن  ویران ہو جاتا ،اس لئے اس نے آکراسے دیکھا اور چپ چاپ اس کی چارپائ پر زرا سا ٹک کر کہنے لگا دیوداسی میرے گھر میں تیرے کارن طوفان آ گیا ہے میری گھر والی نے اپنے میکہ کا جرگہ بلا نے کی دھمکی دی ہے اب تُو صبح پَو پھٹنے پر مندر چلی جا ایسا نا ہو کہ کوئ تیری سن گن لینے یہاں آ جائے پھر وہ الٹے  قدموں سے واپس لوٹ گیا  ،،

 بخار کی حدّت میں وہ پوری طرح ہوش میں نہیں تھی پھر بھی اس نے اپنے دل میں ایک موہوم سی خواہش  جاگتی  محسوس کی تھی کہ آنے والا اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بہت آہستہ سے پوچھے  گا  کہ کیا ہوا؟لیکن آنے والا تو کب کا جا چکا تھا  اس کے دل کے کواڑباقی تمام رات اذیّت سے بجتے رہے  اور لمبی کالی وہ ایک  رات اس کے  دل کی تنہائیوں میں  سسکتی ہوئ  دھیرے دھیرے کھسکتی  رہی  صبح دم وہ اس قابل تو نہیں تھی لیکن اپنے آ پ کو زبردستی اٹھا کر  یوگی کے استھان پر جا پہنچی  ابھی تو مندر  کے سنہرے کلس پر دھوپ کی پہلی کرن پر بھی نہیں پڑی تھی ،کلس  ابھی اجلا نہیں میلا نظر آرہا  تھا اور کلس کی مانند اس کا دل بھی میلا تھا ،  مندر کی سیڑھیوں پر اس نے پہلا قدم رکھّا ہی تھا کا مندر کی گھنٹیاں گھونگھر بجانے لگیں اور  سیڑھیا ں چڑھتے ہی  مندر  کے پجاری  نے اس کو دیکھا جو گھنٹیا ں بجا کر ہٹ رہا تھا  اس   کی بھی پہلی نظر پجاری پر پڑی اور  پھر اس نے  ہولے ہولے آگے بڑھتے ہوئے  بلکل مریل آواز میں پجاری کے قدموں میں جھک  کراسے پرنا م کیا  جو اس کو آتا دیکھ کر وہیں ٹھٹھک کر  کھڑا ہو گیا تھا  وہ سیدھی ہوئ  ،تو پجاری نے کہا  بول دیو داسی  کیا ہوا ،وہ کچھ نہیں بول سکی  کیونکہ آنسو اس کے دل  سے نکل کر گلے میں اٹک گئے تھے   پجاری نے اپنی بوڑھی گردن کو ایک  جانب ہلکا سا جھٹکا دیا   اور معنی خیز لہجے میں بولا جان گیا 'کیا ہوا ،،ہرجائ نہیں  آیا 

پجاری کی بات کا جواب دینے کے بجائے وہ مندر کے فرش پر پاؤں پسار کر بیٹھ گئ  اور پجاری سے روتے ہوئے کہنے لگی-پجاری جی  مجھے بتاؤ کیا دنیا کی ہر عورت اتنی بے قیمت ہوتی ہے  جتنی مندر کی دیوداسیاں ہوتی ہیں اور پھر اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور آنسووں کی قطاریں اس کے چہرے کو بھگونے لگیں -ہاں مرد کی زات ایسی ہوتی ہےبوڑھے  پجاری نے اپنی جہاںدیدہ  نظروں سے آسمان کو دیکھتے ہوئے  کہا  ،،،،دیکھ  دیوداسی   میں نے پہلے بھی تجھے سمجھایا تھا  کہ تو بھو گی سنسار کے  ان  ظالم جھمیلوں میں   نا جا -پر تو مانی ہی نہیں  ،،، خیر  ابھی بھی  خیر ہے ---،  تو جا  تیرا  مسکن سونا ہے جا کر اسے آباد کر ،،میں جانتا تھا   یہی ہونا تھا ،،پجاری بڑبڑاتا ہوا وہاں سے ہٹ کر  چلا گیا اور دیو داسی اپنی ساری کے پلّو سے اپنے آنسوؤں  کو صاف کرتے ہوئے مندر کے سونے مسکن میں  واپس چلی گئ  - اب اُس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ دیو داسیاں صرف استھانوں پر دان کے لئے ہوتی ہیں اُن کے من کے استھان میں کوئ سچّا پریمی بسیرا کرنے نہیں آتا ہے  

افسانہ نگار زائرہ عابدی

 

 

پیر، 6 فروری، 2023

ترکی اور شام میں 7.8 شدت کا بھیانک زلزلہ

ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں پیر کو آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے سے ترکی اور شام میں 529 سے زائد اموات ہوئیں اور سینکڑوں افراد زخمی ہیں۔ متعدد عمارتیں تباہ ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہےفرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے ترکی کے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ترکی میں تاحال 284 اموات اورپانچ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ترک شہرمالتیا کے گورنر کا کہنا ہے کہ زلزلے سے 140 عمارتیں منہدم ہوگئیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے شام کے سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زلزلے سے ملک میں 245 اموات اور چھ سو سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سرچ آپریشن ابھی جاری ہے۔ 
 
 شام کے شمال مشرقی شہر افرین میں زلزلے سے تباہ حال عمارت کا ملبہ ہٹانے کی کوشش جاری ہے (اے ایف پی) امریکی جیولوجیکل سروے کا کہنا ہے کہ پیر کو جنوب مشرقی ترکی میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جن کی شدت 7.8 تھی۔ اس زلزلے سے کئی شہروں میں عمارتیں منہدم ہوگئیں اور ہمسایہ ملک شام میں بھی نقصان ہوا۔امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلہ مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بج کر 17 منٹ پر 17.9 کلومیٹر کی گہرائی میں آیا جبکہ 15 منٹ بعد 6.7 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ترک ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امدادی کارکن کاہرمانماراس اور غازی انتیپ شہر میں زمین بوس عمارتوں کا ملبہ ہٹا رہے ہیں۔ 
  
 ترک صدر رجب طیب اردوان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا، ’میں زلزلے سے متاثر ہونے والے تمام شہریوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ہم امید کرتے ہیں کہ ہم جلد از جلد اور کم سے کم نقصان کے ساتھ مل کر اس آفت سے نکل جائیں گے۔‘

شام کے صدر بشار الاسد نے زلزلے کے بعد صبح ہنگامی اجلاس بلایا ہے تاکہ امدادی سرگرمیوں کی سمت کا تعین کیا جائے۔شام کے فلاحی ادارے وائٹ ہیلمٹس کا کہنا ہے کہ شمال مغربی شام میں متعدد عمارتیں زمین بوس ہونے بعد ان کی ٹیمیں لاشوں اورزخمیوں کو ریسکیو کر رہی ہیں -اور ابتدائ طبّی امداد بھی فراہم کر رہی ہیں 
ترکی میں گذشتہ 80 سال کا سب سے بڑا زلزلہ
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترکی اور شام میں حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ ہےترک سرحد کے قریب باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی کام کرتی ہیں) متاثرین کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔

شام میں کئی سال تک جاری جنگ، سست رفتار تعمیر نو اور دمشق میں قائم مرکزی حکومت پر سخت عالمی پابندیوں کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔دونوں ملکوں میں مجموعی طور پر 500 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں یہ ممکنہ طور پر ترکی کا سب سے بڑا زلزلہ ہے جس کے بعد 40 سے زیادہ جھٹکے بھی محسوس کیے گئے ہیں -زلزلے کے مقام کے قریب شامی پناہ گزین کی بڑی تعداد مقیم ہے۔ ترکی نے عالمی سطح پر سب سے زیادہ شامی پناہ گزین کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد 37 لاکھ ہے
کئی لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جبکہ خراب موسم کی وجہ سے بھی امدادی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں برطانیہ میں قائم سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 320 تک جا پہنچی ہےاور لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے اورچارں جانب آہ بکا کا سماں ہے

 زلزلے کے وقت سے لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگ ابھی گھروں میں سو رہے تھے، جس سے ممکنہ ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ کچھ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ برف میں پاجامہ پہنے کھڑے، تباہ شدہ گھروں کے ملبے کو ہٹانے والے امدادی کارکنوں کو دیکھ رہے ہیں۔ این ٹی وی ٹیلی ویژن کا کہنا ہے کہ ترکی کے شہر ادیمان اور مالتیہ شہروں میں بھی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔سی این این ترک ٹیلی ویژن کے مطابق زلزلے کے جھٹکے وسطی ترکی اور دارالحکومت انقرہ کے کچھ حصوں میں بھی محسوس کیے گئے۔ ’سب سے بڑا زلزلہ‘ اے ایف پی کے نامہ نگاروں کے مطابق اس زلزلے کے جھٹکے لبنان، شام اور قبرص میں بھی محسوس کیے گئے۔’ہمیں آدھی رات کو جگا دیا‘شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ شام کے مغربی ساحل پر لاذقیہ کے قریب ایک عمارت منہدم ہو گئی ہے۔حکومت کے حامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ وسطی شام کے شہر حما میں متعدد عمارتیں جزوی طور پر منہدم ہو گئیں اور شہری دفاع اور فائر فائٹرز ملبے سے زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ شام کے قومی زلزلہ مرکز کے سربراہ راید احمد نے حکومت کے حامی ریڈیو کو بتایا کہ یہ تاریخی طور پر مرکز کی تاریخ میں ریکارڈ کیا جانے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا

۔ترکی کا شمار دنیا کے ایسے علاقوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ ترکی کے صوبہ دوزسے میں 1999 کے اندر 7.4 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلے میں17 ہزار سے زیادہ اموات ہوئی تھیں، جن میں سے تقریبا ایک ہزار اموات استنبول میں ہوئیں۔جنوری 2020 میں ایلازگ میں 6.8 شدت کا زلزلہ آیا، جس میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی برس اکتوبر میں بحیرہ ایجین میں 7.0 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں 114 اموات اور ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ماہرین نے طویل عرصے سے متنبہ کر رکھا ہے کہ ایک بڑا زلزلہ استنبول کو تباہ کر سکتا ہے، جس نے حفاظتی احتیاطی تدابیر کے بغیر بڑی عمارتوں کی اجازت دے رکھی ہے۔

اتوار، 5 فروری، 2023

ڈاکٹر عبد القدیر خان کی خوش رنگ زاتی زندگی



ڈاکٹر عبد القد یر خان کی زاتی زندگی کیسی تھی?-تو میری اسٹڈی کے مطابق وہ ایک خوش مزاج انسان تھے -اور اس طرح ان کی زاتی زندگی بھی خوش رنگ تھی--آج انٹر نیٹ کے مطالعہ کے دوران اپنے وطن عزیز کے اور پاکستانی قوم کے محسن ڈاکٹر عبد القدیر کے لئے ان کے کسی پرستار کی جانب سے لکھا ہوا ایک مضنون نظر سے گزرا -میں کوشش کے با وجود صاحب مضمون کا نام نہیں معلوم کر سکی جس کے لئے معذرت خواہ ہوں

- یہ مضمون ڈاکٹر صاحب کی زاتی زندگی کے پہلوں پر روشنی ڈال رہا ہے یقیناً آپ کو بھی پسند آئے گا مجھے بڑے لوگوں کے کارناموں سے زیادہ ان کی شخصیت پر غور کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ کارنامے ساری دنیا دیکھتی ہے لیکن شخصیت کسی کسی پر ظاہرہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے لئے جو کارنامہ انجام دیا وہ سب کے سامنے ہے کیونکہ ہمارا میڈیا کارناموں ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ اگر ہمارا میڈیا بڑے لوگوں کی شخصیت کے مخفی پہلوؤں پر روشنی ڈالے تو ناخدائوں کی خدائی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ انہیں اپنا قد چھوٹا محسوس ہونے لگتا ہے۔

 انہیں لگتا ہے کہ کل یہی شخص ان کی جگہ لے لے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جونہی کسی شخصیت پر قوم کا اتفاق ہونے لگتا ہے، وہیں اسے متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے محسن، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے ہاں عام سے وزراء کا پروٹوکول دیکھ کر عام لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب کا پروٹوکول یہ تھا کہ انہیں دیکھ کر شہری احتراماً کھڑے ہو جاتے تھے۔ ان سے ہاتھ ملاتے اور نہیں تو نظریں ملا کر ہی خوش ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ان سائنس دانوں میں سے نہیں تھے جو دو جمع دو چار پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو سکوت لالہ و گل سے کلام کرتے ہیں۔ شعر و سخن ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ ان کے کالموں میں کلاسیکی شاعروں کے ساتھ ساتھ جدید شاعروں کے اشعار پڑھنے کو ملتے تھے۔ غالب، مومن، مصحفی، جگر، جوش، اقبال، مجاز، اختر شیرانی، فیض، عدم اور فراز کی شاعری کے وہ رسیا تھے۔ وہ چونکہ سخن شناس تھے اس لئے کسی ایک شاعر کی شاعری کے اسیر ہو کر نہیں رہے۔ کہتے تھے کہ ہر شاعر کی دو چار غزلیں یا نظمیں ایسی ضرور ہوتی ہیں جو مجھے پسند آتی ہیں۔ سائنس کے بیش تر لوگ، کسی شاعر کا شعر لکھتے ہوئے ناانصافی کر جاتے ہیں۔ لفظوں کو یوں آگے پیچھے کرتے ہیں کہ آسودئہ خاک شاعر کی روح تڑپنے لگتی ہے لیکن ہمارے ڈاکٹر صاحب نے شاعروں کی روحوں کو کبھی نہیں تڑپایا۔ 

مجھے ان کے گھر جانے کا موقع نہیں ملا لیکن جو احباب ان کے در دولت پر جاتے رہتے تھے، وہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے اردگرد ہر وقت شاعری کی کتابیں دھری رہتی تھیں۔ سوانح عمریاں وہ شوق سے پڑھتے تھے۔ لوگ انہیں اپنی کتابیں تحفتاً بھیجتے تو ان کی باقاعدہ رسید دیتے۔ کبھی کالم میں تبصرہ کرکے، کبھی خط لکھ کر، ایک بار وہ لاہور کے فائیواسٹار ہوٹل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں آئے تولوگوں کا حصار توڑ کر میں اسٹیج پر ڈاکٹر صاحب کے پاس جا پہنچا اور اپنا لکھا ہوا عمرے کا سفرنامہ ’’پہلی پیشی‘‘ انہیں پیش کر دیا۔ جب ساری تقریریں ہو گئیں تو ڈاکٹر صاحب کی باری آئی۔ انہوں نے میری کتاب کی رسید وہیں دے دی۔ وہ کتاب کی ورق گردانی کر چکے تھے۔

 سو تحسینی کلمات کہنے میں دیر نہ لگائی۔ کتابیں ان کی تنہائی کی دوست تھیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص شاعری کا ذوق رکھتا ہو، موسیقی سے دور رہے؟ ڈاکٹر صاحب اقبال بانو، منی بیگم، عابدہ پروین، ملکہ پکھراج اور غلام علی جیسے گلوکاروں کے عاشق تھے۔ حسرت موہانی کی غزل جو غلام علی نے گائی تھی، ڈاکٹر صاحب کی پسندیدہ غزل تھی۔ کیوں نہ ہوتی؟ ڈاکٹر صاحب بھی تو برسوں سے چپکے چپکے رات دن آنسو بہاتے رہے تھے۔ 28 مئی 1998کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی دھماکے کر دیئے تو ڈاکٹر صاحب کی نیک نامی اور شہرت کا گراف یک دم بلندیوں کو چھونے لگا۔ غیر کیاہمارے کچھ اپنوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ طعنہ زنی ہوئی،الزام لگے۔ ڈاکٹر صاحب بجا طور پر سمجھتے تھے کہ ایٹمی توانائی کو استعمال کرکے ملک کو اندھیروں سے نکالا جا سکتا ہے 

لیکن وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ دروغ گو حکمرانوں کی موجودگی میں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ان کے اندر ایک غصہ پایا جاتا تھا۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ کیا آپ پاکستانی قوم سے ناراض ہیں؟ وہ کہتے کہ میں احسان فراموش اور نمک حرام لوگوں سے ناراض ہوں۔ عام پاکستانیوں سے مجھے پیار ہے۔ وہ بھی مجھے پیار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے دل میں ہمیشہ یہ پچھتاوا رہا کہ سائنس کی طرف آنے کی بجائے وہ پروفیسر کیوں نہ بن گئے؟ کتابیں پڑھتے، کتابیں لکھتے، مزے کی زندگی گزارتے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب! آپ اگرپروفیسر بن جاتے تو میں آپ کے بارے میں یہ تحریر شاید کبھی نہ لکھتا۔ پروفیسر تو ہزاروں ہیں لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ہی ہے۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب کیلئے دو تازہ شعر؎ اک آہنی انسان بنایا تھا خدا نے آیا تھا ہمیں جرم ضعیفی سے بچانے دشمن کی نگاہوں سے وطن آج ہے محفوظ محسن تھا ہمارا، کوئی مانے کہ نہ مانے

آخر میں ڈاکٹر صاحب کیلئے دو تازہ شعر؎

اک آہنی انسان بنایا تھا خدا نے

آیا تھا ہمیں جرم ضعیفی سے بچانے

دشمن کی نگاہوں سے وطن آج ہے محفوظ

محسن تھا ہمارا، کوئی مانے کہ نہ مانے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر