ہفتہ، 18 اکتوبر، 2025

بلتستان میں تاریخ عزاداری

 

بلتستان میں چودہویں صدی عیسوی سے قبل اسلام کا نام و نشان نہ تھا -لیکن چودہویں صدی کے بعد اسلام اس شان وشوکت سے پھیلا کہ اب یہاں علوی اورحسینی تہذیب و تمدن جا بجادکھائی دیتا ھے ۔یہاں اسلام تشیع کی صورت میں پھیلا ھے کیونکہ جنہوں یہاں نوراسلام کو پھیلایا وہ  نور ولایت محمد وآل محمد  سے منور تھے۔یہی وجہ ہے کہ صد ھا سال بعد بھی اس علاقے میں محبان اہلیبیت اطہار علیہم السلام کی اکثریت موجود ہیں جن کے دل محبت آل محمد سے سرشار ہیں ۔آل محمد کی محبت میں یہ لوگ اپنا جان مال سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں ۔جب بھی محرم کا چاند افق عالم پر نمودار ہوتا ہے بلتستان کے لوگ سیاہ لباس میں غم حسین منانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں ان ایام میں کام کاج چھوڑ کر صرف سیدہ زہرا کو ان کے دلبند کا ماتم وپرستہ دیتے ھیں۔جس دن بلتستان میں پہلا مبلغ اسلام میر سید علی ہمدانی پہنچے اسی دن سے عزاداری کی ابتداء ہو چکی   تھی -لیکن  باقاعدہ آداب اسلامی کے ساتھ فرھنگ و تمدن اسلامی کو ملحوظ نظر رکھ کر انجام پانے والے عزاداری کی تاریخ کو اس سرزمین میں دیکھنا ہو تو ہمیں میرشمس الدین عراقی کے دور (1490ء سے 1515ء)کا مطالعہ کرنا ہوگا۔


جس  زمانے  میں میر شمس تبلیغ دین اور ترویج مذہب تشیع کی خاطر آئےتویہاں مقپون بوخا کی حکومت تھی۔مقپون بوخا کا بیٹا شیر شاہ میر شمس الدین عراقی معتقد تھابعد میں 1515ء میں جب وہ خود برسر اقتدار آیا تو اس نے اسلامی رسومات کے فروغ اور اشاعت اسلام کے لیے خدمات انجام دینے والوں کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومتی سطح پر انہیں پروٹوکول دئیے بہت سے علماکرام ،مبلغین دین اور ذاکرین کو مختلف علاقوں میں بھیجے تاکہ زیادہ سے زیادہ ترویج دین ہو سکے بہت سوں کو زمین بخش دئیے۔ان علما کرام کی کوششوں سے دیگر اسلامی آداب و رسوم کے ساتھ عزاداری بھی باقاعدگی سے شروع ھوئی۔بعد میں بلتستان کے معروف راجہ علی شیر خان انچن (1588ء تا 1625ء) کے دور میں رسمِ عزاداری اور فن شاعری کو بھی عروج ملنا شروع ہو گیا۔اس وقت عزاداری حکمرانوں کے درباروں میں ھوتی تھیں -اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مذہب تشیع کی ترویج اور فرھنگ وتمدن شیعی کو بلتستان اور گردو نواح میں مرائج کرنے میں مقپون راجاوں نے بڑا اہم کردار ادا کیاھے ۔


جب سید حسین رضوی کشمیر سے تبلیغ دین کے لئے کھرمنگ پہنچے تو وہاں کے راجہ نے از خود استقبال کئےاور اس سید بزرگوار کے حکم پر راجہ نے پولوگراونڈ میں ہی عزا خانہ بنایا گیا جہاں اب بھی عزاداری ابا عبداللہ ہوتی ہیں۔امام بارگاہ پاک و ہند میں مذہبی رسومات انجام دینے کے جگے کا نام ہے اسی کو خانقاہ بھی کہتے ہیں جنوب ہندوستان میں اسے عاشور خانہ بھی کہتے ہیں ۔پہلی بار نواب صفدر جنگ نے ۱۷۵۴م میں دھلی میں ایک مکان عزاداری کی خاطر تعمیر کروایا جسے پاک و ہند کا اولین امام بارگاہ مانا جاتا ہے اس کے بعد آصف الدولہ کا امام باڑہ ۱۷۸۴ میں تعمیر ہوا جس کے بعد سے امام باڑے تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔داءرۃ المعارف بزرگ اسلامی،ص۱۳۶، جلد دھم۔احمد شاہ مقپون کی دور حکومت 1840ء میں سکردو میں امام بارگاہ کلاں کے نام سے پہلی امام بارگاہ بنی جس کے بعد امام بارگاہ لسوپی اور امام بارگاہ کھرونگ تعمیر ہوئیں۔ امام بارگاہوں کی تعمیر کے ساتھ ہی باقاعدہ عزاداری کا سلسلہ شروع ہوا آج بلتستان کے ہر ہر علاقے میں امام بارگاہیں موجود ہیں جہاں لوگ اپنے علاقوں میں مسجد کو ضروری سمجھتے ہیں وہاں غم ابا عبداللہ الحسین منانے کے لئے عزاخانے کو بھی ضروری سمجھتے ہیں


 اس وقت  بلتستان کی سرزمین پر کوئی محلہ ایسا نہیں جہاں محرم اور صفر میں عزاداری نہ ہوتی ہو ۔لوگ امام بارگاہوں کے علاوہ اپنے گھروں میں بھی عزاداری کرتے ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام رات باری باری لوگوں کے گھروں میں جا کر سیدہ زہرا کو ان کے لال حسین کا پرسہ دیتے ہیں ۔اہل بلتستان کے رگوں میں خون حسینی دوڑ رہا ہے یہ لوگ نام حسین پر سب کچھ فدا کرنے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔عقیدت کی انتہا یہ ہے کہ بعض اہل معرفت لوگ سال بھر میں ہر روز نماز صبح کے بعد ایک مرثیہ پڑھ کرکربلا والوں پر چند قطرے آنسو بھاتے ہیں ۔نہ صرف مرد حضرات ایسا کرتے ہیں بلکہ بعض خواتین کا بھی یہی روش رہتا ھے۔ڈوگروں کا 108 سالہ دور بلتستان والوں کے لیے ایک سیاہ ترین دور تھا لیکن عزاداری کے حوالے سے ڈوگرہ حکمرانوں نے بھی خصوصی سہولیات فراہم کیں۔ جب جلوسِ عزا امام بارگاہ کلاں کے نزدیک پہنچتا تھا تو ڈوگرہ فوج کا ایک خصوصی دستہ تعزیہ اور عَلم کو سلامی پیش کرتا تھا اور جلوس کے اختتام تک احتراماً اپنی سنگینوں کو سرنگوں رکھتا تھا۔


بشکریہ 

بلتستان میں تاریخ عزاداری

تحریر: سید قمر عباس حسینی حسین آبادی

تلخیص (بلتی اسلامی ثقافت پاکستان)


زرا عمر رفتہ کو آواز دینا -ان دنوں میرا اسکول چل رہا تھا

  شادی کے بعد ہم نے چالیس روپئے ماہانہ کرائے پر اپنی ضروریات کے مطابق لالو کھیت چار نمبر بس اسٹاپ کے نزدیک ایک مکان لے کر زندگی کی ابتداء کی ,مکان کی مکانیت یہ تھی ایک بیڈ روم ایک بیڈروم کے ہی اتنا برامدہ اور اتنا ہی بڑا آنگن  ایک چھوٹا سا کچن غسل خانہ  اورعلیٰحدہ سے   ٹوائلٹ  -یہی اس زمانے کا رواج تھا اس مکان کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ ہماری مالک مکان ہمارے ہی ساتھ والے گھر میں رہتی تھی جو بہت با اخلاق خاتون تھیں  اور میرا بہت خیال رکھتی تھیں  ان دنوں میرا اسکول چل رہا تھا اس لئے میں اکثر چھٹی کے بعد  اپنے میکے چلی جایا کرتی کبھی اپنے ہی گھر آجاتی تھی ,,اس وقت اپنی شادی شدہ زندگی کی زمّہ داریوں کو نباہنے کے ساتھ ساتھ   میری توجّہ کا مرکز میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائ ہو ا کرتے تھے اور میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ میں کسی بھی صورت وقت نکال کر اپنی پیاری ماں کی کوئ تو خدمت کر کے گھر واپس آجاؤن ،


میں نے دیکھا کہ اللہ پاک شکر خورے کو شکر ضرور دیتا ہئے چنانچہ اس مالک کے کرم سےمیری شادی کے   بعد ہی   انیّس سو پینسٹھ میں ہی والد صاحب  نے بینکنگ کا ایک امتحان پاس کیا اور ابا جان کی ترقی ہوئ اس ترقی سے ابا جان کو بنک کی جانب سے   بنگلے کی رہائش کی آ فر ہوئ اور  میرے والدین  لالوکھیت کے مکان سے اٹھ کرفیڈرل بی ایریا کے علاقے میں  دو سو چالیس گز کے بنگلے میں  دستگیر نمبر نو میں آگئے،والدہ جیسے ہی فیڈرل بی ایریا شفٹ ہوئیں انہوں نے مجھے بھی اپنے برابر کے مکان بلاکر رکھ  لیا فیڈرل بی ایریا ان دنوں نیا نیا آباد ہونا شروع ہواتھاہمارے  گھر سے بلکل قریب  اونچے اونچے درختوں کی باڑھ تھی اور اس باڑھ کے اندر تازہ سبزیوں کے کھیت ہوا کرتے تھے -ان کھیتوں کی آبیاری کے لئے صبح منہ اندھیرے رہٹ چلا کرتی تھی -وہ سبزیاں  سبزی والے  کھیتوں سے لے کر اپنے اپنے ٹھیلوں پر  لے کر گلی کوچوں میں بیچا کرتے تھے  آ م کا موسم قریب آنے پر کوئل کی کوک وہ بھی صبح صادق میں بہت ہی پیاری سنائ دیتی تھی 


 اور یہاں کے مکانات  بھی  ہرے بھرے درختوں کے درمیان اور لہلہاتے کھیتوں کے قریب ترتیب میں بھی اچھّے لگتے تھے اور رہائش کے لئے بھی کشادہ تھے  یہ نئ بستی لالوکھیت کے مقابلے میں اسوقت  کی ڈیفنس سوسائٹی دکھائ دیتی تھی   چنانچہ والد صاحب جو جہد مسلسل سے وابستہ رہتے ہوئے ترقّی کی جانب گامزن تھے ہما را یہ گھر کرائے کا تھا لیکن والد صاحب نے جلد ہی پھر بنکینگ کا امتحان پاس کیا اس کامیابی نے محض پانچ برس کی قلیل مدت میں  ان  کو  دوسو چالیس گز کے  بنگلے  سے اٹھا کر نارتھ ناظم آباد بلاک ڈی  بابلعلم کی بیک پر  پانچ سو گز کے  اپنے زاتی بنگلے میں بٹھا دیا میری والدہ  ایف بی ایریا میں پانچ سال رہیں اور میں انکے ہمراہ دوسرے گھر مین رہتی رہی اس طر ح پورے پانچ سال گزر گئے  ،لیکن پانچ سالوں  بعدجب مجھے محسوس ہوا کہ اب میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوں تب میں نے قلم کا سفر شروع کیا میرے قلمی سفر کی ابتداء  جنگ اخبار میں معاشرتی موضوعات سےہو ئ لیکن  جلد ہی  افسانہ نگاری شر وع کی

 

افسانہ نگاری کا سفر طویل رہا ،پاکیزہ ،دوشیزہ جنگ ڈائجسٹ ،حنا ،آنچل اخبار جہاں سچّی کہانیا ں آئیڈئیل اور بھئ کئ جن کے نام بھی زہن میں نہیں ہیں ان میں لکھتی رہی ،میرا خیال ہئے کہ آج کے دور میں ناول کے مقابلے میں افسانہ زیادہ پڑھا جانے والا ادب ہئے لیکن ناول پڑھنے والے بھی کم نہیں ہیں ،شائد افسانہ نگاری کی جانب میری زیادہ توجّہ کا سبب بھی یہی ہو کہ افسانہ لکھنا مجھے ناول کی نسبت ہمیشہ آسان لگا در اصل میرے خیال میں ناول ایک بڑی اور کشادہ زہنی کی تخلیق ہوتا ہے ،اور میں اپنی گونا گوں زمّے داریوں کے سبب بڑی سوچ پر آنا نہیں چاہتی ہوں یہاں کینیڈا میں میری اون لائن ناول میں سہاگن بنی !مگر، عالمی اخبار کی زینت بنی ، یہ ناول در حقیقت میں نے پاکستان میں روز افزوں بڑھتی ہوئ شرح'' طلاق''' جیسے ناروا و ناپسندیدہ امر پر لکھی اس کے لکھنے کا مقصد نوجوان نسل کو پیغام دینا تھا کہ شادی ہوجانے  کے بعد ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور کمزوریو ں کو نظر انداز کرتے ہوئے گھر کی بنیاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں

 

،اسی طرح میری کوشش یہی ہوتی ہئے کہ میں اپنی افسانوی تحریروں کے زریعے اپنے سماج کو کوئ ایسا مثبت پیغام دے سکوں جو پڑھنے والے کی رہ نمائ کا باعث ہو  افسانہ نگاری کا لم نویسی آج بھی  جاری ہئے افسانہ نگاری نا ول نویسی معاشرتی مضامین کچھ روحانیت کے کام  پر بھی توجّہ ہئےاس کے علاوہ ایک دستر خوان بھی شمع کا دستر خوان کے نام سے بازار میں آیا ،میرے ایک افسانو ی مجموعے رنگ شفق کی یہاں کینیڈاایڈمنٹن میں ہی ملٹی کلچرل  کونسل کی روح رواں محترمہ صوفیہ یعقو ب صاحبہ نے رونمائ کروائ اور ٹورانٹو سے کہنہ مشق ادیب و شاعرجناب تسلیم الٰہی زلفی نے میرے اس مجموعے پر تبصرہ لکھا  یہ مجھ جیسی کم علم رکھنے والی طالبہ کے لئے ایک یقینی  اعزاز کی بات ہے بات یہ ہئے کہ انسان سماج میں رہتے ہوئے کبھی اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ہئے اس کو ہر حال میں سہاروں کی ضرورت ہوتی ہئے رہبری بھی چاہئے ہوتی ہئے ،یہ میری خوش قسمتی ہئے کہ مجھے تمام عمر ،اچھّے راہبر ،اور اچھّے استاد میسّر آئے جنہوں نے فراخ دلی سےمیری بھرپور رہ نمائ کی اور ادب کی دنیا میں مجھے قدم جمانے کے موقع فراہم کئے

 

جمعہ، 17 اکتوبر، 2025

ہمارے نونہال 'کس کی جانب دیکھیں

 

 ایک  دن کی بات ہےمیرا  کسی کام سے   اپنے گھر فیڈرل بی ایریا بلاک 9 سے   عزیز آبا دنمبر8جانا ہوا واپسی پر میں نے دیکھا عزیز آباد آٹھ نمبر کے کونے پر ایک وسیع عریض کمپری ہنسیو بوائز اسکو ل  کے بہت بڑے گراؤنڈ میں تین حصوں میں طالب علم اپنے انٹرویل ٹائم میں  الگ الگ کھیل 'کھیل رہے تھے -میں بچوں کے ہاتھ تھامے کھڑی ہو کر محویت سے طالب علموں کے کھیل دیکھتی رہی  -پھر اللہ کریم کی کرم نوازی سے وہ دن بھی آیا جب میرے اپنے بچے اسی اسکول  میں   امتیازی کامیابی سے ہمکنار ہو کر دہلی کالج کے طالب علم بنے-میں آج کراچی میں طالبعلموں کی حق تلفی دیکھ کر بہت دکھی ہوتی ہوں جن سے ا نکے کھیل کے میدان چھین لئے گئے اور کوئ پرسان حال نہیں کہ  قوم کے نونہالوں پر یہ ظلم  نہیں کرو-ویسے تو کراچی میں سارے ہی کھیل بڑے شوق سے کھیلے جاتے تھے لیکن ایک ایسا کھیل تھا جو شوق  کے علاوہ جنون سے کھیلا اور دیکھا جاتا اور وہ تھا کرکٹ۔کھیل کود کے اس باب میں ہم بھی زیادہ تر توجہ اسی کھیل پر مرکوز رکھیں گے۔






کرکٹ ایک ایسا کھیل تھا جو ایک بیٹ اور ایک بال کی ملکیت ہونے کے بعد چند دوستوں کو اکٹھا کرکے کہیں بھی شروع کیا جاسکتا تھا۔بیٹنگ کی باریاں لینے کا بہت خوب صورت اندازتھا۔ ایک ہموار جگہ پر کھلاڑیوں کی تعدادکے مطابق لکیریں لگا دی جاتی تھیں اور ان کے پیچھے نمبر لکھ کر بیٹ کے نیچے چھپا دیئے جاتے تھے۔ باہر سے صرف لکیریں ہی نظر آتی تھیں۔ہر کھلاڑی ان میں سے کسی ایک لکیر پر انگلی رکھ دیتا تھا۔ پھر بیٹ اٹھا دیا جاتا اور ہر ایک کو اپنا نمبر دیکھ کر پتہ چل جاتا تھا کہ اس کی بیٹنگ کی باری کب آنی ہے۔ جگہ کا بھی تکلف نہیں تھا۔ کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا میدان مل جاتا تو ٹھیک، اور جو نہ بھی ہوتا تو محلے کی کچی پکی گلیاں تو تھیں نا۔ عموماً ایک لڑکا جو کسی کھاتے پیتے گھر کا ہوتا تھا، اپنے ذاتی وسائل سے بیٹ بال اور وکٹیں لے آ تا تھا۔ باقی چونکہ سارے ہی مفت خورے ہوتے اس لیے اس لڑکے کی کھیل میں موجودگی بڑی اہمیت رکھتی تھی۔اس کے بڑے ناز نخرے اٹھائے جاتے اور اس کو آنکھ کا تارا بنا کر رکھتے تھے۔بلے بازی میں بھی اس کو پہلی باری دے دی جاتی تھی۔






کئی دفعہ تو وہ کلین بولڈ بھی ہو جاتا تو فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا۔ مزاج برہم ہونے کی صورت میں وہ اپنا بیٹ بال اوروکٹیں اٹھا کر کھلاڑیوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر پتلی گلی سے نکل جاتا اور مستقبل کے عمران خان ا ور حنیف محمد منھ تکتے رہتےاس قسم کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے اکثر بچے چندہ ا کٹھاکرکے ہلکا پھلکا سامان لے آتے تھے، جس میں کم از کم بلا اور ٹینس گیند ضروری ہوتے۔ وکٹوں کا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ پیچھے کوئی کرسی کھڑی کر لی جاتی تھی یا کسی قریبی دیوار پر کوئلے سے تین موٹی موٹی لکیریں کھینچ کر وکٹ بنا لی جاتی تھی، تاکہ کرکٹ کی رسمیں بھی پوری ہو جائیں اور کھیل کا بھرم بھی قائم رہے۔ سرکاری اسکولوں اور کالجز میں چند ہی ادارے ایسے تھے جہاں طلبا وطالبات کے لیے کھیل کود کے مواقع میسر تھے۔ ان میں بھی بیشتر اداروں میں نئے کلاس رومز تعمیر کرنے کے لیے گراؤنڈز کی جگہ کو ہی استعمال کیا گیا۔ شہروں میں پرائمری اسکولوں میں تو کھیل کے میدان کا تصور ہی نہیں تھا۔ 




بچے علاقوں میں کھلی جگہوں اور گلیوں میں جسمانی ورزش اور کرکٹ سمیت مختلف کھیلوں سے محظوظ ہوتے تھے جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشونما کے لیے بے حد ضروری ہے۔ انہی گلیوں سے بڑے بڑے کھلاڑیوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا نام بنایا۔لاہور میں گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج سول لائنز کے درمیان ہونے والے کرکٹ کے مقابلے دیکھنے کے لیے لوگ شہر کے مختلف علاقوں سے گورنمنٹ کالج کے گراؤنڈ میں پہنچتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اسکول اور کالج/ یونیورسٹی لیول پر کرکٹ سمیت مختلف کھیل محدود ہوتے گئے اور آج کھیلوں کے یہ مقابلے شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قومی کھیل ہاکی اور سکواش میں پاکستان انتہائی پیچھے چلا گیا اور کرکٹ میں بھی ٹیلنٹ کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔ باقی کھیلوں کے بارے میں تو حکومت نے کبھی سوچا بھی نہیں۔سرکاری اداروں کی سرپرستی میں قبضہ مافیا نے لاتعداد ایسی خالی زمینوں پر قبضہ کیا جہاں مقامی بچے مختلف گیمز کھیلتے دکھائی دیتے تھے۔ کئی میدانوں کو کھیلوں کے لیے وقف کرنے کے بجائے حکومت نے خود پلازے اور عمارتیں کھڑی کرنے میں پراپرٹی مافیا کی مدد کی یا پھر انہیں وہ جگہیں الاٹ کردیں۔


بیگم جہاں آرا شاہنوازکا تحریک پاکستان میں حصہ

    بیگم  جہاں آرا شاہنواز  ہند وستان کے ایک روشن خیال سیاسی گھرانے میں 7/  اپریل 1897ء کو باغبان پورہ لاہور میں پیدا ہوئیں۔آپ پاکستانی سیاستدان اور سماجی کارکن میاں سر محمد شفیع کی دختر تھیں۔آپ کے والد میاں محمد شفیع ایک  کشادہ زہن کے   بلند خیال آدمی تھے اس لیے انھوں نے جہاں آرا کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔آپ کی والدہ امیر النساء بھی عورتوں کی تعلیم وترقی کے لیے ہمیشہ سرگرداں رہیں۔ابتدائی تعلیم کے بعدجہاں آرانے کوئین میری کالج کا رُخ کیا جہاں آپ کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں۔ 1914ء میں جہاں آرا سر شاہنواز بار ایٹ لا کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں بندھ گئیں۔سر شاہنواز تحریک پاکستان کے اہم ارکان میں شامل تھے۔آپ متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔آپ اردو اور انگریزی زبان کی ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کی سر گرم رکن بھی تھیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کا شمار بھی تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی خواتین میں ہوتا ہے۔



ابتدائی تعلیم کے بعدجہاں آرانے کوئین میری کالج کا رُخ کیا جہاں آپ کی صلاحیتیں کھل کر سامنے  آئیں۔ 1914ء میں جہاں آرا سر شاہنواز بار ایٹ لا کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں بندھ گئیں۔سر شاہنواز تحریک پاکستان کے اہم ارکان میں شامل تھے۔آپ متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے ارکان بھی رہے۔جہاں آرا نے ابتدائی عمر سے سماجی کاموں میں دلچسپی لینا شروع کی۔ پہلی خاتون ہیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کی ممبر بنیں۔ 1929ء میں لاہور میں سماجی اصلاحات کی کانفرنس کی نائب صدر چنی گئیں۔ 1933ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کے فرائض انجام دیے۔ 1941ء میں قومی دفاعی کونسل کی رکن منتخب ہوئیں۔ 1943ء تا 1945ء حکومت ہند کے محکمہ  اطلاعات کی جائنٹ سیکرٹری اورعورتوں کے شعبے کی انچارج رہیں۔ 1946ء میں پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ مسلم لیگ کی سول نافرمانی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 


  قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کی مجلس قانون ساز کی رکن چنی گئیں۔ آپ مسلمانوں کی نمائند ہ  بیگم جہاں آرا شاہنواز کو آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی خاتون سیاسی رکن ہونے کے باعث انھوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ اس کے علاوہ لیگ آف نیشنز کے اجلاس سمیت آپ نے مزدوروں کی بین الاقوامی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ 1930ء میں برطانیہ سے جن اہم سیاسی رہنماؤں کو گول میز کانفرس میں مدعوکیا گیا تھا، ان میں بیگم جہاں آرا کے علاوہ اہل خانہ سے ان کے والد اور بیٹی ممتا ز شاہنواز نے بھی شرکت کی۔ قیام پاکستان سے قبل بیگم جہاں آرا کو دو مرتبہ پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔بیگم جہاں آرا شاہنواز کی بیٹی ممتاز شاہنواز نے بھی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کی جدوجہد کی۔  سیاسی و سماجی خدمات   'جہاں آرا نے ابتدائی عمر سے سماجی کاموں میں دلچسپی لینا شروع کی۔ آپ  پہلی خاتون ہیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کی ممبر بنیں۔


 1929ء میں لاہور میں سماجی اصلاحات کی کانفرنس کی نائب صدر چنی گئیں۔ 1933ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کے فرائض انجام دیے۔ 1941ء میں قومی دفاعی کونسل کی رکن منتخب ہوئیں۔ 1943ء تا 1945ء حکومت ہند کے محکمہ اطلاعات کی جائنٹ سیکرٹری اورعورتوں کے شعبے کی انچارج رہیں۔ 1946ء میں پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ مسلم لیگ کی سول نافرمانی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جنوری 1947ء میں قید بھی کاٹی۔ قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کی مجلس قانون ساز کی رکن چنی گئیں۔ اپوا کے بانی ارکان میں سے تھیں اور اس کی نائب صدر بھی رہ چکی ہیں۔آپ اردو اور انگریزی زبان کی ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کی سر گرم رکن بھی تھیں۔ اپوا کے بانی ارکان میں سے تھیں اور اس کی نائب صدر بھی رہ چکی ہیں۔آپ نے 27 نومبر 1979ء کو لاہور میں وفات پائی اور باغبان پورہ میں اپنے خاندانی قبرستان میں سر شاہنواز کے پہلو میں دفن ہوئیں

مدو جزراصغر اور مدو جزر اکبر کیا ہوتے ہیں

     کرہء ارض پر  پروردگار عالم کا بنایا ہوا یک متوازن سسٹم مثلاً زمین، چاند کے درمیان ’’مرکزگریز قوت‘‘ کو متوازن رکھتا ہے لیکن سطح زمین پر دو قوتیں برابر نہیں ہوتیں۔ چاند کے قریب کناروں میں قوتِ کشش چاند کی طرف زیادہ ہوتی ہے جب کہ دوسری طرف ’’مرکز گریز‘‘ قوت کناروں پر مخالف سمت میں عمل کرتی ہے جوزیادہ ہوتی ہے۔ چونکہ چاند زمین کے گرد طواف کرتا ہے، جس کی وجہ سے تقریباً ’51 منٹ’مدوجزر‘‘ روزانہ دیر سے پیدا ہوتا ہے۔ چناں چہ بلند مدوجز12گھنٹے 25منٹ کے فرق سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس لئےتقریباً چھ گھنٹے 45منٹ تک  مدو جزر کے عمل میں پانی آہستہ آہستہ چڑھتا ہے، پھر اُترنا شروع ہو جاتا ہےاور 6 گھنٹے 45 منٹ تک پانی اُترتا رہتا ہے۔ اس طرح ساحل سمندر کا وہ حصہ جو چڑھائو کے وقت پانی میں ڈوب گیا تھا، پھر باہر نمودار ہو جاتا ہے۔ پانی کے اس طرح اُتار چڑھائو کے عمل کو ’’مدوجزر‘‘کہتے ہیں۔ جو عربی زبان کا لفظ ہے جہاں ’’مد‘‘ پانی کے چڑھائو اور’’جزر‘‘ پانی کے اُترنے کا نام ہوتا ہے۔ ۔ جسے  اردو  زبان میں جوار بھاٹا بھی کہتے ہیں


  یہ تمام قدرتی عمل قوت کشش کے ماتحت ہوتا ہے، جس میں سورج کے مقابلے میں چاند کی قوت کشش کو بڑی فوقیت حاصل ہے لیکن اس کے علاوہ عام طور پر سطح زمین سے منسلک ارضی و جغرافیائی عوامل کی کارکردگی کی وجہ سے بھی پانی میں ’’مدوجزر‘‘ کی تخلیق ہوتی ہے لیکن اس کی شدت اور وقت میں مختلف مقامات پر فرق پایا جاتا ہے، کیوں کہ سمندر کے مختلف حصے یا سیکشن چاند اور سورج کی کشش کے حوالے سے علیحدہ ردِعمل کو ظاہر کرتے ہیں ،جس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر ایک مکمل پانی کا جسم تو ہے لیکن سمندری فرش کے ناہموار پروفائل، پہاڑی سلسلے ، ساحل کی بناوٹ اور خطےکی پوزیشن نے اسے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔خصوصی طور پر مدوجزر میں فرق پیدا ہونے کی صورت میں ناہموار اُبھارکی تشکیل ایک عمدہ مثال ہے، جس کی اصل وجہ وہ’’ مرکز گریز قوت‘‘ (Centrifugal Force)ہے جو زمین کی گردش کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور مدوجزر کی تخلیق کا سبب بنتے ہیں سورج کی وجہ سے سمندر میں جوار بھاٹا آتا ہے



 لیکن سورج زمین سے خاصی دوری پر ہونے کی وجہ سے سمندر پر اس کا اثر کم ہوتا ہے۔ چاند اور سورج کی مشترکہ کشش ثقل سمندری پانی پر عمل کرتی ہے تو پھر حالات مختلف ہو جاتے ہیں۔ مثلاً چاند کی پہلی تاریخ اور چودہ تاریخ کو سورج، زمین اور چاند ایک اُفق لائن میں آجاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کرئہ ارض پر موجود سمندر کے پانی کو چاند اور سورج آپس میں مل کر یعنی متحدہ کشش کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتے ہیں، پھر ایسا ہوتا ہے کہ سورج کی کشش سے چاند کی پیدائشی کشش میں اضافہ ہوتا ہے، نتیجے میں سمندر کے پانی میں معمول کی نسبت زیادہ اُتار چڑھاؤ پیدا ہونے لگتا ہے- پانی کا اُتارچڑھائو زیادہ تر تین سے چار فٹ تک ہوتا ہے اس قسم کے مدوجزر کو مدوجزر اصغر (Neap Tide)کہتے ہیں  یہی کیفیت مخصوص وقت میں سورج کی کشش کی وجہ سے بھی ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے اور یوں سمندر کا پانی مدوجزر کی زد میں آتارہتا ہے۔


 دراصل یہ سارا عمل نہ صرف چاند اور سورج کی گردش کا نتیجہ ہوتا ہے بلکہ جس طرح زمین کی محوری گردش 21جون کو ’’راس السرطان‘‘ کو جنم دیتی ہے ۔یعنی اس تاریخ کو خطہ سرطان پر زمین پر سورج کی کرنیں سیدھی پڑتی ہیں اور دن لمبے ہو جاتے ہیں۔ سورج آسمان پر زیادہ اونچا معلوم ہونے لگتا ہے۔ -۔ اس صورت حال میں سمندر کا پانی ٹھاٹیں مارنا شروع کر دیتا ہے ، کئی کئی فٹ اونچا ہو جاتا ہے اور سمندر میں طغیانی آتی ہے جو تباہ کن طوفان میں تبدیل ہو کر خوفناک منظر پیش کرتا ہے۔ یہ بہت بڑا جوار بھاٹا ہوتا ہے جسے ’’مدوجزر‘‘ اکبر (Spring Tide) کہتے ہیں۔ لیکن چاند کی ساتویں اور اکیسویں تاریخ کو چاند سورج کے ساتھ زاویہ قائمہ بناتاہے۔ چناں چہ چاند کی کشش پانی کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور سورج کی کشش پانی کو اپنی طرف لیکن چونکہ چاند سورج کی نسبت زمین کے قریب ہے اسی لئے اس کی کشش زیادہ اثرانداز ہوتی ہے اور سورج کی کشش پر غالب آجاتی ہے۔ ،  


جمعرات، 16 اکتوبر، 2025

حضرت لقمان کو ندائے غیبی آئ

 

  قران  کریم  میں حضرت لقمان  کے نام کی ایک سورۃ آپ کے نام سے موسوم ہے اس سورہ میں آپ نے اپنے بیٹے کو مخا طب کر کے ایسی نصیحتیں کی ہیں جو تمام  انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں -آپ  تمام عمر بھر لوگوں کو نصیحتیں فرماتے رہے۔ تفسیر فتح الرحمن میں ہے کہ آپ کی قبر مقام صرفند میں ہے جو رملہ کے قریب ہے اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آپ کی قبر رملہ میں مسجد اور بازار کے درمیان میں ہے اور اس جگہ ستر انبیا علیہم السلام بھی مدفون ہیں۔ جن کو آپ کے بعد یہودیوں نے بیت المقدس سے نکال دیا تھا اور یہ لوگ بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر وفات پا گئے تھے۔ آپ کی قبر پر ایک بلند نشان ہے اور لوگ اس قبر کی زیارت کے لیے دور دور سے جایا کرتے ہیں۔اللہ کے ایک سچّے بندے تھے اللہ سبحانہٗ نے ان کے اندر وہ خوبیاں دیکھیں جو کہ ایک نبی کے اوصاف میں ہونی چاہئے توایک دن فرشتے کو ان کے پاس اس وقت بھیجا جب کہ ایک دن وہ دوپہر کے کھانے کے بعدقیلولہ کر رہے تھے
 

 غیب سے ندائے فرشتہ آئ کہ ائے لقمان رحمۃ اللہ علیہاللہ تعالٰی آپ  کو منصبِ نبوّت عطا کرنا چاہتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ جلِّ شانہٗ نے آپ کا جواب منگوایا ہے۔حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ ندائے فرشتہ سن کر ہوشیارہو  گئے انہوں نے ادھر ادھر دیکھا لیکن فرشتہ نظر نہیں آیا لیکن فرشتہ کی اپنے قریب موجودگی کو انہوں نے محسوس کر کے جواب میں فرشتے سے کہا کہ اللہ نے میری مرضی طلب کی ہے یا مجھے حکم دیا ہے ،فرشتے نے کہا آ پ کی رضا طلب کی ہے،حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالٰی سے کہنا کہ میں اپنے آپ کو نبوّت کا گراں بار منصب اٹھا نے کا اہل نہیں پاتا ہوں   چنانچہ فرشتے حضرت لقمان کا جواب لے کر واپس چلے گئے ،اور پھر اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام سے علم حکمت واپس لے کر وہ علم حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیا اور منصب نبوّت پر حضرت موسٰی علیہ السّلام کو سرفراز کیا۔یاد رہے کہ دنیا کے پہلے حکیم و طبیب حضرت موسٰی علیہ السّلام تھے اور حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کے سگے خالہ زاد بھائ بھی تھے
 

  حضرت لقمان کا طریقہ علاج سادہ اور فطری اصولوں پر مبنی تھا۔ وہ بیماریوں کو دور کرنے کے لیے قدرتی جڑی بوٹیوں اور غذائی اجزاء کا استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، وہ مریضوں کی روحانی اور نفسیاتی صحت پر بھی توجہ دیتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ جسم اور روح دونوں کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔حضرت لقمان ایک طبیب اور حکیم کے طور پر جانے جاتے تھے، اور انکے علاج کے طریقے قرآن و حدیث میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ ان کے علاج کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:جڑی بوٹیوں کا استعمال:حضرت لقمان مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے جڑی بوٹیوں کا استعمال کرتے تھے۔ وہ جڑی بوٹیوں کی خصوصیات سے بخوبی واقف تھے اور ان کا صحیح استعمال جانتے تھے۔متوازن غذا:وہ مریضوں کو متوازن غذا کھانے کی تلقین کرتے تھے اور ان کی غذا میں مناسب مقدار میں غذائی اجزاء شامل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔صفائی اور پرہیز:حضرت لقمان صفائی کی اہمیت پر بہت زور دیتے تھے اور مریضوں کو پرہیز کرنے کی بھی تاکید کرتے تھے۔روحانی اور نفسیاتی علاج:وہ سمجھتے تھے کہ روحانی اور نفسیاتی صحت کا براہ راست جسمانی صحت پر اثر پڑتا ہے۔
 

حضرت لقمان  جب  مریض  کی نبض دیکھ  کر اس کے مرض کو پہچان لیتے  تب وہ مریض کی روحانی اور نفسیاتی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے تھے۔دعا اور توکل:حضرت لقمان علاج کے ساتھ ساتھ دعا اور توکل کی بھی تلقین کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ شفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور دعا اس کا ایک ذریعہ ہے۔حضرت لقمان کا طریقہ علاج ایک جامع اور فطری طریقہ تھا جو جسم، روح اور ذہن کو صحت مند بنانے پر مرکوز تھا۔حضرت لقمان نے اپنے فرزند کو جن کا نام انعم تھا۔ چند نصیحتیں فرمائی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ لقمان میں ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی دوسری نصیحتیں آپ نے فرمائی ہیں جو تفاسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ مشہور ہے کہ آپ درزی کا پیشہ کرتے تھے اور بعض نے کہا کہ آپ بکریاں چراتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ حکمت کی باتیں بیان کر رہے تھے تو کسی نے کہا کہ کیا تم فلاں چرواہے نہیں ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیوں نہیں، میں یقینا وہی چرواہا ہوں تو اس نے کہا کہ آپ حکمت کے اس مرتبہ پر کس طرح فائز ہو گئے؟ تو آپ نے فرمایا کہ باتوں میں سچائی اور امانتوں کی ادائیگی اور بیکار باتوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے   

بریسٹ کینسر -خاموش جانلیوا مرض

 

ایہ ایک سچی کہانی ہے  جو  میں   نے  معاشرے کی لڑکیوں  اور خواتین کی آ گہی  کے لئے انٹر نیٹ سے   لے کر  یہاں  تحریر کی ہے -ا ٹھائیس سالہ ایم فِل سوشیالوجی کی طالبہ نازیہ* نے نہاتے ہوئے محسوس کیا کہ چھاتی میں ایک اُبھار سا بنا ہوا ہے۔ ہاتھ لگانے پر کچھ گُٹھلی جیسا احساس ہوتا تھا۔ لیکن کوئی خاص درد تکلیف وغیرہ نہ تھی۔ اس نے سوچا والدہ سے ڈسکس کر لے گی۔ چند ہفتے یونہی بےدھیانی میں یاد نہ رہا۔ ایک دن دوبارہ نہاتے ہوئے اس طرف دھیان گیا تو ماں سے اس بارے مشورہ کر ہی لیا۔ ماں نے کہا کوئی درد یا تکلیف ہے تو دکھا لیتے ہیں ڈاکٹر کو، ساتھ مشورہ دیا کہ زیادہ مسئلہ نہیں لگ رہا تو پیاز باندھ لو اور ساتھ وظیفہ پڑھ لو یہ آپ ہی “گُھل” جائے گی۔ چند ہفتے وظیفہ پڑھا، اور پیاز بھی باندھا اور ساتھ ساتھ زیتون کے تیل سے ہلکے ہاتھ مالش بھی کی۔ گویا نازیہ نے نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو یقین دلا دیا کہ ٹوٹکوں سے ابھار کا سائز کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ مطمئن ہو گئی۔ ابھار اپنی جگہ موجود رہا۔ خاموش۔ کسی تکلیف یا درد کے بغیر۔ جیسے طوفان سے پہلے سمندر ہوتا ہے۔چھے مہینے ایسے ہی گزر گئے۔ نازیہ کو بھول گیا کہ ایک چھاتی میں ابھار ہے۔


 اب کے نازیہ کو عجیب سا درد دائیں بازو میں اٹھا، جیسے اس کی ہڈی میں کوئی سوراخ سا کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ درد کی دوا لی چند دن، اور درد کو آرام آ گیا۔ لیکن دوا چھوڑتے ہی درد نے پھر زور پکڑا۔ آخرکار قریبی ڈاکٹر سے مشورہ ہوا۔ اس نے کہا جوان لڑکی ہے اسے کیا ہونا ہے۔ کیلشیئم اور وٹامن ڈی تجویز کیا، ساتھ ایک تگڑا سا پین کِلر انجیکشن ٹھوکا اور گولیاں دے کر چلتا کیا۔ پھر سے عارضی آرام آ گیا۔ لیکن دوا کا کورس ختم ہوتے ہی پھر وہی تنگی شروع!اب نازیہ کو پریشانی ہوئی کہ یہ موئی درد جان کیوں نہیں چھوڑ رہی۔ اس نے اپنی ڈاکٹر دوست کو کہہ کر سرکاری ہسپتال سے ایکسرے کروایا۔ ایکسرے کروا کے ہڈی والے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ اس نے ایکسرے دیکھ کر کہا کہ اس میں کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے، آپ اس کو ذرا کینسر آوٹ ڈور میں دکھا کر آئیں۔ اور یوں میری نازیہ سے پہلی ملاقات کا بندوبست ہوا۔۔۔۔نازیہ نے مجھے سلام کر کے ایکسرے پکڑاتے ہوئے کہا کہ اسے بازو کی ہڈی میں درد کی شکایت ہے۔

 

 میں نے ایکسرے دیکھتے ہی ہڈی کا پوچھنے کی بجائے اس سے پوچھا “آپ کو جسم میں کہیں کوئی گِلٹی محسوس ہوتی ہے”، جس کے جواب میں اس نے کہا کہ ہاں بس چھاتی میں ابھار سا تھا لیکن وہ وظیفے اور مالش سے بہتر ہو گیا، لیکن “تھوڑا سا” ابھی بھی ہے۔ وہ “تھوڑا سا” ابھار چیک کرتے ہی الارم بجنے لگے۔ میں نے نازیہ کو بائیاپسی، ہڈیوں کا اسکین اور سی ٹی اسکین لکھ کر دیے۔ رپورٹ میں چوتھی اسٹیج کا انتہائی اگریسیو بریسٹ کینسر تھا، جس کی جڑیں ہڈیوں میں ہی نہیں بلکہ جگر، پھیپھڑوں اور ایڈرینل گلینڈ میں بھی پہنچ چکی تھیں۔۔۔۔نازیہ کے علاج کا دورانیہ لگ بھگ اٹھارہ ماہ کا تھا۔ زندگی کے آخری چار ماہ اس نے بہت تکلیف میں گزارے۔ بستر پر معذوری کے عالم میں وہ کبھی کبھار اپنے دل کی باتیں کیاکرتی تھی۔ وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔ ڈگری مکمل کرنا چاہتی تھی۔ ماں بننا چاہتی تھی۔ کچھ اور جینا چاہتی تھی۔ لیکن مقدر کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا۔۔۔شاید ہمارے ارد گرد بہت سی نازیہ موجودہوں۔


 کیونکہ ہر نو میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں اس کا شکار ہوتی ہے۔ خواتین کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ چھاتی میں تبدیلیاں ہوں تو ڈاکٹر سے مشورے میں تاخیر نہ کریں۔ پہلی اسٹیجز میں اگر ہم اس بیماری کو پکڑ لیں تو اللہ کی مہربانی سے اسے جڑ سے اکھاڑنے کے اچھے چانسز ہوتے ہیں۔ اگر آپ خاتون ہیں اور تصویر میں دکھائی گئی کوئی علامات آپ میں ہیں تو فوراً کسی ڈھنگ کے ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں۔ اگر آپ مرد ہیں تو اپنی خواتین کو آگہی دیں کہ جھجک، اور خواہ مخواہ کی شرم کو زندگی اور صحت سے قیمتی نہ جانیں۔       خواتین میں چھاتی کے سرطان کا شعور اجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے اس کی بروقت تشخیص اور مؤثر علاج انتہائی ناگزیر ہے۔ موجودہ حکومت سرطان سے بچاؤ کی سہولیات کے لئے پر عزم ہیں۔ چھاتی کے سرطان کی بروقت تشخیص سے کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔چھاتی کے کینسر سے آگاہی کا مہینہ، ہر اکتوبر میں منایا جاتا ہے، چھاتی کے کینسر کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کا ایک اہم وقت ہے، جو دنیا بھر میں خواتین کو متاثر کرنے والے سب سے عام کینسروں میں سے ایک ہے۔ 


مکران کوسٹل ہائی وے ' انتہائ خوبصورت ترین ہائی وے

 

‫مکران کوسٹل ہائی وے ایک نہایت ہی خوبصور ت شاہراہ  ہائی وے کراچی سے گوادر تک  جاتی  ہے اور اس کی تعمیر 1988 میں شروع ہوئی اور 2007 میں مکمل ہوئی۔- کوسٹل ہائی وے کی کل لمبائی 653میل ہے     ۔ اس کی تعمیر سے پہلے راستہ کچا اور سفر طویل تھا، لیکن اب یہ چند گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ یہ بلوچستان میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے منصوبے کا حصہ تھی،  دو رویہ یہ شاہراہ کراچی، اورماڑہ، پسنی سے گزرتی ہے اور اپنی دلکش قدرتی مناظر کی وجہ سے پاکستان کی خوبصورت ترین شاہراہوں میں شمار ہوتی ہے۔مکران کوسٹل ہائی وے وہ راستہ ہے   جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے دلکش راستہ سمجھا جاتا ہے۔اس پر سفر کرنے کے لئے یہ حکومت کی جانب سے  اجازت نامہ  لینا ہوتاہے جو غیر ملکیوں کو ملک کے حساس علاقوں میں سفر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

 
 مکران کے ساحل کو دیکھنے کا یہ واحد راستہ ہے  جو کہ آپ کو پورے پاکستان کے سب سے خوبصورت، ثقافتی لحاظ سے دولت مند اور پر جوش اور دوستانہ خطوں میں سے ایک کی جھلکیاں دکھاتا ہے۔ہم یہ کام نیشنل ہائی وے 10 پر چلتے ہوئے کریں گے جسے عرف عام میں مکران کوسٹل ہائی وے کہا جاتا ہے۔ یہ بلوچستان کے جنوب میں  ہے جو پہلے گوادر لے جاتا ہے پھرایران کی سرحد پر ختم ہوتا ہے۔ یہ جنوبی ایشیا کی سب سے زیادہ ڈرامائی راستے کے طور پر مشہور ہے۔مکران کوسٹل ہائی وے کا زیادہ تر حصہ بحیرۂ عرب کے کنارے کنارے چلتا ہے، اس کے چمکیلے نیلگوں پانی میں مچھلیاں پکڑنے والی کشتیاں سارڈین، کیکڑے اور لابسٹر کی تلاش میں نکلتی ہیں۔ ماہی گیری صدیوں سے مکران کی معیشت کی بنیاد رہی ہے۔ 'مکران' کا نام بذات خود 'مچھلی کھانے والے' کے فارسی لفظ سے بنا ہے۔ یہ پیشہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے لیکن مقامی لوگ دیگر صنعتوں میں بھی کام کرتے ہیں، جیسے کہ جہاز توڑنا 
 

گوادر سے افغانستان کے لیے تجارتی سامان کی ترسیل مکران کوسٹل ہائی وے 650 کلومیٹر دور ہے جو 25 اور ایران کے بارڈر تک لے جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر بلوچستان سے کراچی اور گوادر کے درمیان گزرتی ہے، جو بندرگاہوں اور مارا اور پسنی کے قریب سے گزرتی ہے۔اس شاہراہ سے گزرتے ہوئے آپ شاید دنیا کو محسوس کریں گے کہ یہ چند مقامات میں سے ایک ہے۔ آپ کے ہاتھ پر ساحل سمندر ہے، اور اس سے پہلے ریگستان میں ریت کے ٹیلے اور اس کے ساتھ بلوچستان کی سنگلاخ چٹانیں ہیں۔یہ دیکھنا اور پڑھنا میں افسانوی لگتا ہے، یقین ہے کہ یہ دیکھنے میں زیادہ رومانوی اور افسانوی محسوس ہوتا ہے۔ آپ سے پہلے یہاں سے کسی کا گزر ہی نہیں ہوا۔کراچی سے رخصت کرتے ہوئے ’’ایم سی ایچ‘‘ کا ’’زیرو پوائنٹ‘‘ حب، بلوچستان میں۔ جہاں آپ مکران ساحلی شاہراہ پر ایک بار جب آپ ایم سی آپریشن شروع کریں تو زمین کے خدوخال میں کافی حد تک تبدیلی آ جاتی ہے۔زمین کے خدوخال کے لیے یہ دلکش حیرت زدہ ہو  جاتا ہے

 

، اور ہر چند کلومیٹر کے بعد آپ کو یہ نیا ہوتا ہے یا تو ایک پتھریلی بنجر زمین یا صحرا کے ریت کی چیز دیکھنے کے قابل ہے۔اسی ایچ کی پہلی والی پہلی کشش ’مڈ والکینوز‘۔ ایک گھنٹہ اضافی سفر کرتے ہوئے، آپ ہر ایک کے لیے ایک ابھرتی ہوئی نئی سیاحتی منزل، پرسکون ساحل پر پہنچ گئ -مکران کوسٹل ہائی وے کے مختلف مقامات پر یہ مٹی اگلتے پہاڑ ہیں۔ ان پہاڑوں سے گرم مٹی نکلتی ہے جس کو والکینک ایش بھی کہتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں یہ مٹی اگلتے پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ ان سب میں نامور چندرگپ مڈ والکینو ہے۔مٹی اگلتے پہاڑوں کی تعداد بلوچستان میں 100 کے قریب بتائی جاتی ہے۔ جبکہ یہ چھوٹے سے بڑے ہر سائز میں ہمیں مل سکتے ہیں۔ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے یہ پہاڑ بہت مقدس ہیں۔ وہ ان پہاڑوں کو پانے جسم پر مل کر خاص روحانی طاقت اور سکون محسوس کرتے ہیں۔

بلتی شاعر علی احمد قمر، جو چار زبانوں میں شاعری کرتے ہیں

   ویسے تو  قیام پاکستان سے قبل ہی اردو زبان و ادب کا  پودا  گلگت بلتستان میں  نمو پا چکا تھا لیکن  قیام پاکستان کے بعد بلتی    شعراء کرام  کی  ادب پروری ہوتے'ہوتے  پہلی بار موضع سکردو میں پہلی ادبی انجمن "شائقین ادب” کے نام سے ایک تناور درخت کی شاخت سے  وجود میں آگیا۔۱۹۸۰ء     کے دہائی تک آتےآتے شاعروں کی ایک بڑی کھیپ ایسی تیارہوگئی جن کے ہاں اردومقامی زبان کی نسبت زیادہ استعداد کے ساتھ ذریعہ اظہارقرارپائی۔ اس دورمیں جن شاعروں کو مقامی سطح پرشہرت حاصل ہوئی یاجن کا کلام ادبی رسائل وجرائد کے توسط سے پڑھااور سراہاگیاان کی فہرست طویل ہے حفظ مراتب اور شاعری کے زمانہ آغازسےقطع نظردرجہ ذیل شعراء کے نام اس دور کی اردو شاعری کے حوالے سےقابل ذکرہیں۔   ،  بلتستان کے پہلے صاحب کتاب اردو شاعر سےملیے بلتستان کے پہلے صاحب کتاب اردو شاعر سےبلتستان کے سینیئر شاعر علی احمد قمر، جو چار زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اور حکومتِ پاکستان سے ایوارڈ بھی وصول کیےعلی احمد قمر کا تعلق بلتستان کے سرحدی گاؤں گوما سیاچن سے ہے



 لیکن ان کی پیدائش میسوری انڈیا کی ہے کہرا جسم مگر کسی حد تک خمیدہ، سر پر بالوں کی سفیدی زیادہ نمایاں اور چہرے پر داڑھی۔ علی احمد قمر سے مل کر نہیں لگا کہ وہ ادھیڑ عمری سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔گفتگو کی تو کھلا کہ آواز میں بڑا طنطنہ اور جوش ہے حالانکہ اکثر لوگ اس عمر میں کھردری آواز کے مالک بن جاتے ہیں مگر علی احمد قمر کی آواز صاف اور اس میں کسی نوجوان کی سی تازگی اور فرحت موجود تھی۔خنک دار آواز میں انہوں نے جب اشعار سنائے تو یوں لگا کہ جیسے کوئی نوجوان شاعر بڑے چاؤ سے اپنی قلبی واردات کو الفاظ کے مخملی لباس میں ملفوف پیش کر رہا ہے۔علی احمد قمر کا تعلق بلتستان کے سرحدی گاؤں گوما سیاچن سے ہے لیکن ان کی پیدائش میسوری انڈیا کی ہے۔ کہاں پاکستان کا آخری کونا سلترو گوما اور کہاں مسوری انڈیا لیکن اس تعلق کا پس منظر بھی بڑا دلچسپ ہے۔انڈیا پاکستان کے بٹوارہ سے پہلے بلتستان کے لوگ  اپنا رزق  کمانے کے لیے، شملہ، نینی تال، میسوری، ڈلہوزی، کلو اور کرگل لداخ کا رخ کرتے تھے۔


کیونکہ وہاں کا موسم معتدل تھا لہٰذا میدانی علاقوں کی نسبت ان جگہوں پر رہنا قابل برداشت تھا۔ ان متذکرہ جگہوں تک جانے کے لیے بڑا طویل پیدل راستہ اختیار کیا جاتا تھا۔ سکردو یا خپلو سے کرگل پھر لداخ وہاں سے پھر آگے ان جگہوں کی طرف جانا پڑتا تھا۔علی احمد قمر کے والد بھی 1947 سے کافی پہلے میسوری گئے اور وہیں  پر اپنے قدم جما  کر زندگی کے  شب و روز گزارنے لگے۔ ان کے کئی اور رشتہ دار اور علاقے کے لوگ بھی وہاں  اپنے قدم جمائے ہوئے تھے ۔ وہیں پر علی احمد قمر کی ولادت ہوئ ۔علی احمد قمر کا گھرانہ بھی ہجرت کر کے پہلے پہل لاہور پہنچا اور پھر وہاں سے مری جا کر بس گیا جہاں ان کی تعلیم و تربیت مکمل ہوئی۔ہم نے جب ان سے اُردو شاعری کی طرف راغب ہونے اور شعر کہنے کے شوق کا پوچھا تو ان کہنا تھا کہ بطور علی احمد قمر ان کا نام آٹھویں جماعت میں درج ہوا اور اس نام کے پیچھے بھی ایک بڑی دلچسپ کہانی ہے۔انہوں نے بتایا کہ والد نے ان کا نام علی محاما رکھا تھا اور یہ بلتستان میں عام مروج نام تھا جو یقیناً علی محمد کا مقامی بگڑا تلفظ ہے۔


سکول میں اسے کچھ اور بگاڑ کر علی ماما لکھا گیا تھا جو آٹھویں جماعت تک جوں کا توں رہا۔تاہم ہیڈ ماسٹر نے آٹھویں کلاس میں نام کی تبدیلی کے لیے خود ان سے دریافت کیا کہ کیا لکھا جائے یوں انہوں نے خود کو علی احمد قمر لکھوایا۔انہوں نے بتایا کہ انہیں شعرو سخن سے دلچسپی سکول دور سے شروع ہوئی تھی۔ علی احمد قمر کی شعری تخلیقات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ذہنی میلان غزل کی طرف زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے زیادہ تر شعری مجموعے جو شائع ہو چکے ہیں وہ غزلوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں پہلا مجموعہ ’زخم گل‘ 1976 میں شائع ہوا۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ غالباً بلتستان کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں جن کا اردو میں پہلے پہل کلام منظر عام پر آیا۔

بدھ، 15 اکتوبر، 2025

کراچی کے جزائر'ماہی گیروں کی جنت ہیں پارٹ2

 

علی حسن کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے یہ آرڈیننس جاری کر کے ان جزیروں پر ماہی گیروں کے حقِ ملکیت کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہ جزیرے اور ان سے ملحقہ تمر (mangrove) کے جنگلات قانونی طور پر ہماری ملکیت ہیں۔ ان کی رجسٹریشن کے کاغذات ہمارے پاس موجود ہیں'۔خطرات اور خدشات-محمد علی شاہ پچھلی کئی سالوں سے ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم چلا رہے ہیں۔ ان کے مطابق، کراچی کے جنوب مغرب میں واقع جزائر، جن میں بھنڈار اور ڈنگی بھی شامل ہیں، آٹھ لاکھ کے قریب ماہی گیروں کے لیے روزگار اور رہائش کا ذریعہ ہیں۔ 'اگر یہاں شہر تعمیر کر دیے جاتے ہیں تو بہت بڑی تعداد میں ماہی گیروں کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے'۔محمد علی شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ چار ہزار کے قریب مزید ماہی گیر جو کراچی اور ٹھٹھہ سے منسلک ساحل پر رہتے ہیں مختلف ندیوں کے ذریعے کھلے پانیوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو انہی جزیروں کے پاس سے گذرتی ہیں اور جن میں سب سے بڑی ملیر ندی ہے۔ 'لیکن صدارتی آرڈیننس کے تحت جب بھنڈار اور ڈنگی کو شہر کے باقی حصوں سے ملا دیا جائے گا تو ماہی گیروں کی یہ رسائی ختم ہو جائے گی جس کے باعث ان کا روزگار شدید طور پر متاثر ہو گا'۔

 

ماہرہ عمر کو ماہی گیروں کے معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ آبی اور جنگلی حیات کو لاحق ہونے والے سنگین خطرات کی بھی فکر ہے۔ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر دستاویزی فلمیں بناتی ہیں اور انہوں نے کراچی اور اس کے ارد گرد موجود تمر کے جنگلات پر کئی سال تحقیق بھی کی ہے- ان کا کہنا ہے کہ بھنڈار، ڈنگی اور اس طرح کے دوسرے جزائر 'کے ایک ایک انچ پر قسم قسم کی سمندری مخلوق پائی جاتی ہے جو یہاں موجود قدرتی ماحول میں افزائش پاتی ہے'۔ اس لئے وہ سمجھتی ہیں کہ 'ان جزائر پر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز یہاں موجود آبی اور قدرتی حیات کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو گا'۔بھنڈار اور ڈنگی کے بارے میں ماہرہ عمر کا خاص طور پر کہنا ہے کہ ان جزائر پر پختہ زمین نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کا بیشتر حصہ کیچڑ اور گیلی مٹی پر مشتمل ہے کیونکہ یہ دریاؤں کی لائی ہوئی سِلٹ کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ 'یہ کیچڑ اور دلدلی زمین گھونگوں اور کیچڑ میں پیدا ہونے والی مچھلیوں کی قدرتی نشوونما کے لیے لازم ہیں۔ شہری بستیوں کی تعمیر سے اس تمام آبی حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا'۔

 


ماحولیاتی امور کے ایک اور ماہر نصیر میمن کا خیال ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی پر رہائشی اور تجارتی عمارات کی تعمیر پورے کراچی کے لئے ایک ماحولیاتی خطرہ بن سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی ان جزائر پر لاکھوں ایکڑ پر تمر کے جنگلات پھیلے ہوئے تھے لیکن اب ان کا رقبہ سکڑ کر ستر ہزار ایکڑ تک رہ گیا ہے۔ 'اگر یہاں سے مزید جنگلات ختم کیے گئے تو مستقبل میں کراچی کو خطرناک سونامیوں کا سامنا ہو سکتا ہے'۔کراچی کے مشہور سماجی محقق اور ماہرِ تعمیرات عارف حسن بھی معاشی اور ماحولیاتی وجوہات کی بنا پر اِن جزیروں پر شہری آبادیاں بسانے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے تحت یہاں تعمیرات کی اجازت دینا دراصل رامسار کنوینشن (Ramsar Convention) کی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہیں۔یہ بین الاقوامی کنوینشن 1971 میں ایران کے شہر رامسار میں منظور کیا گیا اس کا مقصد دنیا کے مختلف حصوں میں موجود نم زمینوں (wetlands) کو جنگلی اور آبی حیات کی پناہ گاہوں کے طور محفوظ کرنا ہے۔ جب پاکستان نے 23 نومبر 1976 کو اس کنوینشن کی توثیق کی تو 19 مقامی جگہوں کو اس کے تحت تحفظ مل گیا۔

 

 ان جگہوں میں وہ تمام جزائر، ساحلی علاقے اور جھیلیں شامل ہیں جو دریائے سندھ اور دوسری ندیوں کے سمندر میں گرنے کی وجہ سے قدرتی طور پر وجود میں آئی ہیں۔ ان wetlands کا کل رقبہ 1،343،807 ہیکٹر ہے۔/عارف حسن کے مطابق ان جزائر پر شہری آبادی بنانا ایک طرف تو کراچی کے ماحولیاتی بگاڑ کو اور شدید کردے گا اور دوسری طرف یہ اقدام یہاں موجود پرندوں، کیکڑوں اور نایاب ہرے کھچووں کی قدرتی افزائش کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔ وہ کہتے ہیں: 'بھنڈار اور ڈنگی کے سبز جزائر کراچی کے گرد و نواح میں بچ جانے والے وہ واحد علاقے ہیں جہاں ابھی تک کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا جسکی وجہ سے شہر میں ماحولیاتی استحکام قائم رکھنے میں ان جزائر کا ایک اہم کردار ہے۔ ان پر پختہ تعمیرات کرنا کراچی کو مستقبل میں سنگین قدرتی آفات کے منہ میں دھکیل دے گا'۔ ۔محمد علی شاہ کا دعویٰ ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی کے جزائر پر صدارتی آرڈیننس کے تحت شہر بنانے کی اجازت دینا آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کی ضمانت کی خلاف ورزی ہے اور مضبوط مرکزی حکومت کی حامی قوتوں کی طرف سے سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاقی کنٹرول کے تحت لانے کے وسیع عمل کا پہلا مرحلہ ہے۔ان کے بقول اس طرح کی کوششیں پہلے بھی ہو چکی ہیں۔

 

کراچی کے جزائر' ماہی گیروں کی جنت ہیں

 

کراچی کی سمندری حدود میں صرف نو ایسے جزائر ہیں جو آباد ہیں، ان میں شمس پیر، بابا، بھٹ چاگلو، قلعو، کنیری، واگورو اور بھنڈار شامل ہیں۔ شمس پیر جزیرے کی جیٹی کے قریب نیوی نے مینگرووز کاٹ کر نیول پوسٹ بنا لی ہے۔سندھی میں تحریر کی گئی کتاب کے مصنف کے مطابق صالح آباد جزیرہ تھا لیکن منوڑہ کو بذریعہ سڑک ملانے کے بعد یہ آبادی بن چکی ہے اس طرح منوڑہ بھی جزیرہ نہیں رہا یہ کنٹمونمنٹ ایریا ہے۔ یہاں دو قلعوں کے آثار موجود ہیں جو کراچی شہر اور بندرگاہ کی حفاظت کے لیے بنائے گئے تھے۔باتھ آئی لینڈ کو مصنف کے مطابق مقامی طور پر ’خرکھاری‘ کہا جاتا تھا۔ انگریز دور میں اس کی جزیرے والی حیثیت ختم کردی گئی تھی اور اسی طرح کلفٹن جسے ’ہوا بندر‘ کہا جاتا تھا وہاں بھی جزیرہ نہیں رہا۔کلفٹن کے بارے میں مصنف نے مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ سندھ کے فاتح چارلز نپیئر برطانیہ میں جہاں پیدا ہوئے اس علاقے کا نام کلفٹن تھا۔ اس وجہ سے ہوا بندر کا نام کلفٹن سے منسوب کیا گیا۔


 

   مشہور محقق گل حسن کلمتی کا کہنا ہے کہ اس کے دوسری جلد میں وہ ٹھٹہ اور بدین کے جزائر کی تفصیلات بیان کریں گے۔گل حسن کلمتی ڈیفنس کے قریب گذری کے علاقے کو ’گسری بندر‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہاں کے پہاڑوں کا پتھر کراچی کی قدیم عمارتوں میں استعمال کیا گیا۔ بعد میں یہ علاقہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں آگیا اور میرین ڈرائیو کی وجہ سے ماہی گیروں پر مچھلی کا شکار کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔گل حسن کلمتی نے کراچی کے چھوٹے بڑے تمام ہی جزائر کا خود دورہ کیا ہے اور یہ کتاب تحریر کی ہے۔ تحقیق میں برطانوی دورِ حکومت کے افسران کی ڈائریوں اور سرکاری ریکارڈ کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔مصنف کے مطابق جزائر پر پینے کے پانی، صحت اور صفائی، کھیل کے میدانوں کا فقدان دیکھا گیا۔ بابا اور بھٹ جزائر میں قبرستان نہیں ہیں اور وہاں کے لوگ تدفین کے لیے میتیں موروڑو قبرستان، شیر شاہ اور میوہ شاہ قبرستان لیاری لے کر جاتے ہیں۔کراچی میں ان دنوں چرنا جزیرہ سکوبا ڈائیونگ اور سنارکلنگ کی وجہ سے مقبول ہے۔ گل حسن کے مطابق یہ جزیرہ سندھ اور بلوچستان کی سمندری سرحد ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک پہاڑ ہے جس پر انسانی آبادی نہیں ہے۔

 

 حب ندی سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ جزیرہ 1.2 کلومیٹر لمبا اور نصف کلومیٹر چوڑا ہے۔ یہاں مچھلیوں کی مختلف اقسام سمیت سبز کچھوے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس جزیرے کو پاکستان نیوی فائرنگ رینج کے طور پر استعمال کرتی ہے۔مصنف کے مطابق چرنا کے قریب ماہی گیروں کے تین گاؤں موجود ہیں۔ نیوی نے انھیں وہاں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کے ان کے پاس برطانوی دور کے کاغذات موجود تھے۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا لیکن اب ان علاقوں میں کسی عام شخص کو جانے کی اجازت نہیں جب تک کوئی مقامی شخص ساتھ نہ ہو۔سینڈز پٹ کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ مقامی لوگ اسے ’دوہو‘ کہتے تھے اب اس سے ملحقہ علاقے کو ہاکس بے کہا جاتا ہے۔ انگریز دور میں مسٹر ہاکس کی بیوی بیمار ہوگئیں اور موسم کی تبدیلی کے لیے وہ انھیں یہاں لے کر آئے جس کے بعد سے اس کا نام ہاکس بے پڑ گیا۔کراچی کے ساحلی جزیروں پر تعمیرات کا منصوبہ: ماہی گیروں اور قدرتی ماحول کے لیے سنگین خطرہ۔


 

دابلو قبیلے کے ماہی گیر سندھ کے زیریں ضلع ٹھٹھہ کے علاقے کیٹی بندر میں رہتے تھے لیکن کچھ دہائیاں پہلے سمندر کا کھارا پانی ان کی زمینوں اور بستیوں میں گھس کر انہیں نا قابلِ رہائش بنانے لگا تو انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کے بارے میں سوچنا پڑا۔ان میں سے ایک ماہی گیر علی حسن کے بقول نئی جگہ کے انتخاب کے دوران ان کے پیشِ نظر دو ہی باتیں تھیں، ایک یہ کہ وہ وہاں آسانی سے مچھلیاں پکڑ سکیں اور دوسری یہ کہ انہیں اپنا نیا گھر جلدی نہ چھوڑنا پڑے۔ اس لئے انہوں نے کراچی کے ساحل کے ساتھ واقع دو سمندری جزیروں – بھنڈار اور ڈنگی -- کا انتخاب کیا جو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے انتہائی مغربی حصے – فیز آٹھ – سے لگ بھگ ڈھائی کلومیٹر مغرب میں سمندر کے اندر واقع ہیں اور باقی شہر سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔علی حسن اور ان کا قبیلہ یہاں کئی برسوں سے رہ رہا ہے۔لیکن اب انہیں ایک بار پھر نقل مکانی کا سامنا ہے کیونکہ صدرِ پاکستان عارف علوی کی طرف سے یکم ستمبر 2020 کو ایک آرڈیننس نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کی سرحدوں کے اندر واقع تمام سمندری جزیروں پر رہائشی، تجارتی اور صنعتی منصوبوں کو فروغ دینے کے لئے پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک نیا وفاقی ادارہ بنایا جائے گا جس کے اولین منصوبوں میں بھنڈار اور ڈنگی – جنہیں سرکاری کاغذات میں بُنڈل اور بُڈو کہتے ہیں -- میں پرُ آسائش رہائشی سکیموں اور اونچی اونچی تجارتی عمارات کی تعمیر شامل ہے۔

 تحریر انٹرنیٹ سے لی گئ ہے

منگل، 14 اکتوبر، 2025

"وردزیا غار کمپلیکس" ایک جنگجو ملکہ کی عظیم الشان تعمیرpart '2

 

 اس کے باوجود، وردزیا کو قدرتی زوال اور انسانی اثرات کی وجہ سے تحفظ کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ تحفظ کی کوششیں ایک مشترکہ ترجیح بن گئی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آنے والی نسلیں اس جگہ کے   اس دور  کا تجربہ کر سکیں۔ زیارت اور تعلیم کی جگہ کے طور پر  وردزیا جارجیا کی پیچیدہ تاریخ اور ثقافتی شناخت کو سمجھنے میں ایک لازمی کردار ادا کرتا ہے۔ملکہ تمر کے تحت تعمیراتی آغاز، شاندار غار کمپلیکس، 12 ویں صدی میں ملکہ تمر کے دور میں جارجیا کے قلب سے نکلا تھا۔ اس کا آغاز حملہ آوروں کے خلاف ایک تزویراتی دفاع کے طور پر ہوا، جلد ہی ایک پھلتے پھولتے خانقاہی مرکز میں تبدیل ہو گیا۔ یہ شہر ملکہ تمر کے طاقت اور تقویٰ کے وژن کی عکاسی کرتا ہے، جس میں ہزاروں راہب اور ان کے مقدس فن پارے موجود ہیں۔ وردزیا کے چٹان سے بنے فن تعمیر نے وقت اور فطرت کا مقابلہ کیا، جارجیائی تاریخ کو اپنی دیواروں میں محفوظ رکھا۔-خانقاہی زندگی اور فنی اظہاروردزیا میں زندگی عقیدت اور فنکاری کا امتزاج تھی، جو اس کے چرچ کی دیواروں کو سجانے والے فریسکوز میں گونجتی تھی۔


یہاں کے راہبوں نے عقیدے کے لیے سرشار زندگی بسر کی، جو ان کے پیچھے چھوڑے گئے مذہبی متون اور نقش نگاری میں واضح ہے۔ وردزیا کے فن پارے صرف مذہبی علامتیں نہیں ہیں۔ وہ کہانیاں بیان کرتے ہیں، خانقاہی برادری کے روحانی جوہر اور جارجیا کے کلیسیائی اور ثقافتی مناظر پر ملکہ تمر کے انمٹ اثر کو امر کرتے ہیں۔غار شہر ایک ذہین ترتیب پر فخر کرتا ہے، چیپلوں، لائبریریوں اور رہائشی کوارٹرز سے بھرا ہوا ہے، یہ سب قدرتی خطوں میں ذہانت سے مربوط ہیں۔ شہر کے پیچیدہ آبپاشی کے نظام نے اس کے باشندوں کو پانی فراہم کیا، جس میں انجینئرنگ کی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا۔ وردزیا کے ایک زمانے میں ہلچل مچانے والی راہداریوں کی باقیات اب بھی اس کے معماروں کی تخلیقی صلاحیتوں اور ذہانت سے گونجتی ہیں، جنہوں نے پتھریلی زمین کی تزئین کو ایک خود مختار دنیا میں تبدیل کر دیا۔فوجی اہمیت اور منگول خطرہ وردزیا کی عسکری تاریخ اس کے ثقافتی بیانیے کے ساتھ گہرائی سے جڑی ہوئی ہے۔ خانقاہ کے احاطے نے جارجیا کی سرحد کو منگول خطرے سے بچانے کے لیے ایک پوشیدہ قلعے کے طور پر کام کیا۔ 



اس کی سرنگوں اور تزویراتی محل وقوع نے ایک مضبوط دفاع کی سہولت فراہم کی، جو جارجیائی جنگی حکمت عملیوں کی آسانی میں معاون ہے۔ ایک وقت کے لیے، وردزیا ناقابل تسخیر دکھائی دے رہا تھا، اس کے وسیع دفاعی طریقہ کار نے ملک کے قلب میں گھسنے کی کوشش کرنے والے مختلف دشمنوں کو پسپا کر دیا۔صدیوں کے دوران، وردزیا نے متعدد خطرات کا سامنا کیا ہے، جن میں زلزلے اور حملے شامل ہیں جن کی وجہ سے جزوی تباہی ہوئی ہے۔ بہر حال، یہ سائٹ جارجیائی لچک کے نشان کے طور پر فخر کے ساتھ کھڑی ہے۔ آج کل، وردزیا ملک کی بھرپور تاریخ کا ایک ثبوت ہے، جو اسکالرز اور زائرین کو اس کی گہرائیوں کو تلاش کرنے اور اس کے غار کے تہوں میں چھپی داستانوں کی تہوں کو کھولنے کی دعوت دیتا ہے۔ایک پوشیدہ عجوبہ کا انکشافوردزیا کا جدید دنیا پر انکشاف کوئی واحد واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک بتدریج دوبارہ تعارف تھا۔ صدیوں سے مقامی چرواہوں کو غار کے شہر کے بارے میں معلوم تھا جو ایروشیٹی پہاڑ میں کھدی ہوئی تھی۔

  ایک حیرت انگیز اور منفرد شہر   جس نے تاریخ، مذہب، ثقافت اور انجینئرنگ کو ایک منفرد اور شاندار شکل میں اکٹھا کیا ہے۔  جارجیا کے سنہرے دور کا ایک لازوال شاہکار، جو صدیوں بعد بھی کوہ اروشتی کی چٹانوں پر قابل ستائش طور پر کھڑا ہے۔واردزیا نے  تب عروج حاصل کیا  جب  جارجین معاشرہ  اپنی سیاسی، اقتصادی اور روحانی خوشحالی کے عروج پر تھا۔ اس کمپلیکس کی ابتدائی تعمیر بارہویں صدی کے دور حکومت میں شروع ہوئی اور یہ ان کی بیٹی ملکہ تمر کے دور میں ترقی اور عظمت کے عروج پر پہنچا۔   اور یہ جارجیا کی تاریخ میں دو بااثر شخصیات کے ناموں سے منسلک ہے، یعنی شاہ جیورگی سوم اور ان کی بیٹی ملکہ تمر۔اس کے بنانے کا مقصد پہاڑوں کے قلب میں ایک مستحکم اور اسٹریٹجک پناہ گاہ بنانا تھا۔بادشاہ کی موت کے ساتھ ہی اس منصوبے کا تسلسل ملکہ تمر کے سپرد کر دیا گیا۔ ایک عقلمند خاتون، سیاست دان اور مذہبی، جنہیں جارجیا کی تاریخ میں تاج پوش پہلی خاتون کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس کمپلیکس کا سب سے اہم حصہ چرچ آف دی اسمپشن آف میری ہے جو شہر کے وسط میں واقع ہے اور اسے شاندار دیواری پینٹنگز سے مزین کیا گیا ہے-  اس کمپلیکس کی سب سے اہم عمارتوں میں سے ایک چرچ آف سینٹ میری ہے۔ اس چرچ کی دیواروں پر مذہبی موضوعات کے ساتھ دیواریں، سنتوں کے چہرے، اور ملکہ تمر اور اس کے والد کنگ جارج III کے معروف پورٹریٹ کندہ ہیں۔اب یہ خوبصورت پہاڑی مناظر، صاف ہوا اور قدیم فطرت کا حامل یہ خطہ ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی میزبانی کرتا ہے۔
 

وردزیا غار کمپلیکس ایک جنگجو ملکہ کی عظیم الشان تعمیر

  و ردزیا  ایک جنگجو ملکہ کی کھوہ ہے'حقیقت میں  یہ ایک وسیع و عریض  سطحی کمپلیکس ہے  جوپہاڑ میں تراشی گئی ہے۔ 12ویں صدی میں تعمیر کیا گیا انجینئرنگ کے اس شاندار کارنامے کا مقصد منگول فوج کے خلاف ایک قلعہ بنانا تھا جو دندناتے ہوئے دنیا کو تاراج کر رہے تھے ۔ اس عظیم  پروجیکٹ  کی ملکہ تمر نے منظوری دی تھی، اس کا مقصد ہنگامی  ضرورت  کے وقت   شہر کے مقدس راہبوں کو ایک مستحکم پناہ گاہ فراہم کرنا تھا۔ یہاں کئی ہزار راہب رہ سکتے ہیں، ۔یہ جارجیا کی جنگجو ملکہ تھی جس نے 1100 کی دہائی کے اواخر میں قفقاز میں پھیلنے والی منگول فوجوں کے خلاف مزاحمت کے لیے یہ پناہ گاہ قائم کی تھی۔ملکہ تمر جارجیا کی پہلی خاتون بادشاہ تھیں، جنہوں نے 1184 سے 1213 تک حکمرانی کی۔ 1178 میں اپنے والد کنگ جارج دوم کے ذریعہ 'شریک بادشاہ' کا تاج پہنایا گیا، وہ 25 سال کی عمر میں خود تخت پر بیٹھی تھیں۔ شاید اس کی جنس اور کم عمری کی وجہ سے، اس کے دور حکومت میں ہم نے مردوں کی کوششوں کو دیکھا کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا اور وہ آج بھی اپنی طاقت اور ہمت کی وجہ سے قابل احترام ہیں۔ 



     دنیا  میں منگولوں کی آندھی آ چکی تھی  1185ءمیں  ملکہ تمر نے ایک قلعہ کی تعمیر کا حکم دیا جو ایک بار مکمل ہونے کے بعد زیر زمین 13 سطح تک بڑھا اور اس میں 6000 اپارٹمنٹس، ایک تخت کا کمرہ، ایک بڑا چرچ اور 25 شراب خانے شامل تھے۔ یہ پناہ گاہ منگولوں کو دور رکھنے میں کامیاب رہی لیکن  ملکہ  فطرت کی تباہ کاریوں کو برداشت کرنے میں ناکام رہی۔ صرف ایک سو سال بعد ایک تباہ کن زلزلے نے زیادہ تر کمپلیکس کو تباہ کر دیا، جس سے پہاڑی کے کنارے چھپی ہوئی تعمیر کا انکشاف ہوا (اور اس طرح اس کے پوشیدہ مقام کی وجہ سے حیرت کے عنصر کو ختم کر دیا گیا)۔ یہ ایک خانقاہ کے طور پر قائم رہا، فارسیوں اور ترکوں کے حملوں سے اپنا دفاع کرتا رہا یہاں تک کہ اسے 16 ویں صدی میں مکمل طور پر ترک کر دیا گیا۔ سوویت دور کی کھدائیوں نے اس جگہ کا کچھ حصہ بحال کیا اور 1988 میں راہبوں کا ایک چھوٹا گروپ واپس چلا گیا۔کمپلیکس کا ایک اہم روحانی پہلو بھی ہے۔ چرچ آف دی ڈورمیشن وردزیا کا مقدس مرکز ہے۔ چٹان میں تراشے ہوئے، کشادہ کمرے کی پیمائش 8.2 میٹر (27 فٹ) بائی 14.5 میٹر (48 فٹ) ہے جس کی 9.2 میٹر (30 فٹ) 30 اونچی چھت ہے۔


 دیوار اور چھت کے ہر انچ کو رنگین قرون وسطی کے فریسکوز سے پلستر کیا گیا ہے۔ اوپری دیواریں مسیح کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ دیگر تصاویر میں جنگجو ملکہ تمر کی تصاویر شامل ہیں۔ فریسکوز ملک میں جارجیائی قرون وسطی کے فن کی بہترین مثالوں میں سے ہیں اور روشن رنگ اپنا اثر برقرار رکھتے ہیں۔کمپلیکس کے دیگر علاقوں کو بھی اچھی طرح سے محفوظ کیا گیا ہے۔ ریفیکٹری میں ہم اب بھی پتھر سے بنے ہوئے بینچ اور روٹی کے تندوروں کی باقیات دیکھ سکتے Vardzia  یہ ایک وسیع و عریض کثیر سطحی کمپلیکس ہے جسے Erusheti پہاڑ میں تراشی گئی ہے۔ 12ویں صدی میں تعمیر کیا گیا، انجینئرنگ کے اس شاندار کارنامے کا مقصد منگول فوج کے خلاف ایک قلعہ بنانا تھا۔ مہتواکانکشی پروجیکٹ، جس کی ملکہ تمر نے منظوری دی تھی، اس کا مقصد ہنگامہ خیز اوقات میں ایک مستحکم پناہ گاہ فراہم کرنا تھا۔ یہاں کئی ہزار راہب رہ سکتے ہیں، ان کی تعداد شہر کے وسیع پیمانے کی عکاسی کرتی ہے۔ Vardzia تاریخ کے شائقین اور متجسس مسافروں کو یکساں اشارہ کرتا ہے، جو جارجیا کے قابل فخر قرون وسطی کے ماضی کی ایک نادر جھلک پیش کرتا ہے۔


وردزیا کے آرکیٹیکچرل عجائبات کی تلاش -حصّوں، ہالز اور 600 ایک دوسرے سے جڑے ہوئے کمروں کی بھول بھلییاں  کا تصور کریں، یہ سب ٹھوس چٹان سے ہاتھ سے تراشے گئے ہیں۔ وردزیا کی تعمیراتی صلاحیت کا ثبوت اس کے پائیدار ڈھانچے سے ملتا ہے۔ اپنے شاندار فریسکوز کے ساتھ چرچ سے لے کر پیچیدہ آبپاشی کے نظام تک، ہر تفصیل وسائل سے بھرپور ڈیزائن اور اجتماعی زندگی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ زائرین قدیم راہبوں کی طرح قدموں پر چل سکتے ہیں، شراب خانوں، دواخانوں اور اسٹور رومز میں حیران ہوتے ہیں جو خود کفیل طرز زندگی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ سائٹ انسانی کوششوں اور سخت جارجیائی خطوں کے درمیان ہم آہنگی کو ظاہر کرتی ہے۔وردزیا کی جدید اہمیت اور تحفظ کی کوششیں۔آج، Vardzia جارجیا کی لچک کی علامت اور اس کے ورثے کا ثبوت بننے کے لیے اپنی قرون وسطی کی ابتدا سے آگے نکل گیا ہے۔ یہ ایک قیمتی تاریخی یادگار ہے، جو ماضی کے ساتھ جڑنے کی کوشش کرنے والوں کو کھینچتی ہے۔



امن کا نوبل انعام 'تاج کس کے سر پر سجا

 

  

   اوسلو: وینزویلا کی حزب اختلاف کی ممتاز رہنما ماریہ کورینا ماچاڈو کو اس سال امن کے نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ نوبیل کمیٹی نے جمعہ 10 اکتوبر کو اعلان کیا کہ 58 سالہ ماریہ کورینا ماچاڈو کو جمہوریت کے لیے ان کی غیر معمولی کوششوں اور آمریت سے پرامن جمہوری منتقلی کے فروغ پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔ وہ ملک میں صدر نکولس مادورو کے متنازعہ دوبارہ انتخاب کے بعد سے روپوشی کی زندگی گزار رہی ہیں اور انہیں ‘آزادی دلانے والی’ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ناروے کی نوبیل کمیٹی کے صدر جورگن واٹن فرائیڈنس نے اوسلو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ماریہ کورینا ماچاڈو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ حالیہ لاطینی امریکہ میں شہری جرات کی سب سے غیر معمولی مثالوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ماچاڈو نے ایک وقت میں گہری تقسیم کا شکار رہنے والی اپوزیشن میں اتحاد پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جس نے آزادانہ انتخابات اور نمائندہ حکومت کے مطالبے پر ایک مشترکہ موقف اختیار کیا۔


” انعام کے اعلان پر ماریہ کورینا ماچاڈو نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “میں صدمے میں ہوں!”ماریہ کورینا نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں سیاست میں قدم رکھا تھا، جہاں انہوں نے ہیوگو شاویز کے خلاف ریفرنڈم کے لیے مہم چلائی۔ انہوں نے شاویز کے بعد آنے والے ‘چاویستا’ نظام کا خاتمہ اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ پیشے کے لحاظ سے ایک انجینئر اور تین بچوں کی ماں، ماریہ کورینا کو 2024 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، حالانکہ عوامی سطح پر وہ بہت مقبول تھیں۔ سروے میں پسندیدہ امیدوار ہونے کے باوجود، وہ آج بھی وینزویلا میں روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اور انہوں نے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ ناروے کی نوبیل کمیٹی کے صدر نے وینزویلا کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہیوگو شاویز کے سیاسی وارث نکولس مادورو کے 2013 سے اقتدار میں آنے کے بعد، “وینزویلا ایک نسبتاً جمہوری اور خوشحال ملک سے ایک ظالم اور آمرانہ ریاست میں تبدیل ہو گیا ہے جو انسانی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے۔”


 انہوں نے بتایا کہ تقریباً 80 لاکھ افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔اس سے قبل 30 ستمبر 2024 کو ماریہ کورینا ماچاڈو کو یورپی کونسل کا ویٹسیلاو ہاول انعام بھی دیا گیا تھا، جو انسانی حقوق کے محافظوں کو دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال یہ نوبیل انعام جاپانی تنظیم نیہون ہیدانکیو کو دیا گیا تھا، جو ایٹمی بموں کے متاثرین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ 2023 میں ایرانی انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی کو اس اعزاز سے نوازا گیا تھا۔نوبیل کمیٹی، جس میں پانچ ارکان شامل ہوتے ہیں، عام طور پر باضابطہ اعلان سے کئی دن یا ہفتے قبل اپنا فیصلہ کر لیتی ہے اور آخری میٹنگ اعلان سے قبل اپنے فیصلوں کو حتمی شکل دینے کے لیے منعقد ہوتی ہے۔ کمیٹی کی آخری میٹنگ پیر 6 اکتوبر کو ہوئی تھی۔ اس لیے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ جنگ بندی کا معاہدہ 2025 کے فاتح کے انتخاب پر “بالکل بے اثر” رہا کیونکہ نوبیل کمیٹی اپنا فیصلہ پہلے ہی کر چکی تھی۔



 واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس انعام پر نظر رکھے ہوئے تھے اور دنیا کے کئی تنازعات کو حل کرنے میں اپنے کردار کا دعویٰ کر رہے تھے۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر انہیں یہ اعزاز نہ ملا تو وہ اسے “توہین” سمجھیں گے۔ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد، وائٹ ہاؤس کے کمیونیکیشن سروس نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ‘امن کا صدر’ کہا گیا تھا۔ تاہم، نوبیل کمیٹی کے ترجمان کرسٹیان برگ ہرویکن نے واضح کیا تھا کہ کمیٹی ہر امیدوار کی درخواست کا اس کی اپنی خوبیوں کی بنیاد پر جائزہ لیتی ہے اور کسی بھی بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتی۔ماریہ کورینا ماچاڈو کو اس باوقار انعام کے ساتھ 11 ملین سویڈش کرونر، جو تقریباً 950,000 یورو کے برابر ہیں، کے ساتھ ساتھ 18 قیراط کا سونے کا تمغہ بھی دیا جائے گا۔ 

وینزویلا تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔

 

  اللہ پاک کی یہ دنیا نا جانے کب سے قائم اور دائم ہے 'نا جانے کتنی تہزیبیں آتی ہیں پھلتی پھولتی ہیں اور پھر صفحہ  ہستی سے مٹ جاتی ہیں لیکن    وینزویلا کے نام سے جانے والے  اس  خطہ ء زمین پر 15000 سال قدیم    انسانی رہائش کے شواہد موجود ہیں۔ اس دور میں مستعمل  اوزار مغربی وینزویلا میں ریوپیڈریگال دریا کے بلند کناروں پر پائے گئے ہیں۔ دیر سے پلائسٹوسین شکار کے نمونے، بشمول نیز وں   کا استعمال  -ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے مطابق، یہ تاریخیں 13,000 سے 7,000 قبل مسیح تک ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ ہسپانوی فتح سے پہلے وینزویلا میں کتنے لوگ رہتے تھے۔ اس کا تخمینہ دس لاکھ تک لگایا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے علاوہ جن کو آج جانا جاتا ہے، اس آبادی میں تاریخی گروپس جیسے کالینا (کیریبس)، آوکی، کاکیٹیو، ماریچے اور ٹموٹو-کیوکا شامل تھے۔  ٹموٹو-کیوکا Timoto-Cuica ثقافت پری کولمبیائی وینزویلا کا سب سے پیچیدہ معاشرہ تھا، جس میں پہلے سے منصوبہ بند مستقل گاؤں تھے، جن کے چاروں  اطراف   کھیت تھے۔ ان کے گھر بنیادی طور پر پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے تھے جن کی چھتیں بھوسے کی تھیں لیکن  مظبوط تھیں ۔



وہ  ایک پرامن  معاشرے کے امین تھے اور ان کا گزر بسر موسم کی  فصلوں کو اگانے پر  ہوا  کرتا تھا  ۔  ان کی  علا قائی فصلوں میں آلو اور آلوکو (ایک مقامی سبزی) شامل تھے۔ انھوں نے آرٹ کے بہت سے نمونے چھوڑے، خاص طور پر چینی کے برتن، لیکن کوئی بڑی یادگار عمارت  نہیں بنائی۔ وہ ٹیکسٹائل اور رہائش کے لیے چٹائیوں میں بُننے کے لیے سبزیوں کے ریشے کاتتے تھے۔ انھیں اریپا ایجاد کرنے کا سہرا جاتا ہے، جو وینزویلا کے کھانوں کا ایک اہم حصہ ہے۔فتح کے بعد، آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوئی، خاص طور پر یورپ سے نئی متعدی بیماریوں  نے ان کے معاشرے  کی آبادی کو کم کیا  ۔ کولمبیا سے پہلے کی آبادی کے دو اہم شمال-جنوبی محور موجود تھے، جنھوں نے مغرب میں مکئی اور مشرق میں مین یوک کی کاشت کی۔ وینزویلا کا بیشتر رقبہ جنگل، چراہ گاہ، گھاس میدان اور پہاڑ پر مبنی ہے۔ وینزویلا اقوام متحدہ (UN)، آرگنائزیشن آف امریکن سٹیٹس (OAS)،  جنوبی امریکا کی قوموں کی یونین (UNASUR)، مرکوسول Mercosur،  بولیویرین اتحاد (ALBA)، لاطینی امریکی ایسوسی ایشن (LAIA) اور آئیبیرو امریکی ریاستوں کی تنظیم (OEI)  کا چارٹر ممبر ہے۔



براعظمی خطہ شمال میں بحیرہ کیریبین اور بحر اوقیانوس، مغرب میں کولمبیا، جنوب میں برازیل، شمال مشرق میں ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو اور مشرق میں گیانا سے متصل ہے۔ وینزویلا ایک صدارتی جمہوریہ ہے جو 23 ریاستوں، کیپٹل ڈسٹرکٹ اور وفاقی علاقے پر مشتمل ہے جس میں وینزویلا کے سمندری جزائر بھی شامل ہیں۔ وینزویلا لاطینی امریکا کے سب سے زیادہ شہری آبادی والے ممالک میں شامل ہے۔ اس کے دار الحکومت کا نام کاراکاس ہے۔ وینزویلا کی کرنسی کا نام بولیوار ہے۔ وینزویلا کی اکثریت شمال کے شہروں اور دار الحکومت میں رہتی ہے۔اقوام متحدہ کے شعبہ شماریات کے مطابق 2012 میں وینزویلا کی آبادی 29,954,782 تھی۔ وینزویلا کا رقبہ 916,445 مربع کلومیٹر (353,841 مربع میل) ہے۔ وینزویلا ایک مرکزی آمرانہ ریاستی حکمرانی کے تحت ایک وفاقی صدارتی جمہوریہ ہے۔ اس کے موجودہ صدر نکولس مدورو ہیں اور نائب صدر ڈیلسی روڈریگیز ہیں۔


 ·


    وینزویلا تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ ملکی کنوؤں میں 300,878 ملین بیرل تیل محفوظ ہے۔ وینزویلا کے بعدسعودی عرب (266455) کا نمبر آتا ہے-کینیڈا (169709)وینزویلا ایک ترقی پزیر ملک ہے جس کے پاس دنیا کے سب سے بڑے معلوم تیل کے ذخائر ہیں اور یہ دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندگان میں سے ایک رہا ہے۔ پہلے، ملک کافی اور کوکو جیسی زرعی اجناس کا ایک چھوٹا برآمد کنندہ تھا، لیکن تیل تیزی سے برآمدات اور حکومتی محصولات پر حاوی ہو گیا۔ ملک ریکارڈ افراط زر، بنیادی اشیا کی قلت، بے روزگاری، غربت، بیماری، بچوں کی شرح اموات، غذائی قلت، سنگین جرائم اور بدعنوانی کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے۔ ان عوامل نے وینزویلا کے پناہ گزینوں کے بحران کو جنم دیا ہےجہاں ستر لاکھ سے زیادہ لوگ ملک چھوڑ کر چلےگئے ہیں۔ سنہ 2017ء تک، وینزویلا کو کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کے ذریعے قرض کی ادائیگیوں کے سلسلے میں ڈیفالٹ قرار دیا گیا تھا۔ وینزویلا کے بحران نے انسانی حقوق کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کو بڑھاوا دیا ہے۔اور لوگ نقل مکانی  کو یا بیرون ملک چلے جانے کو بہتر سمجھنے لگے ہیں 

پیر، 13 اکتوبر، 2025

کہاں ملیں گے اب ایسے لوگ ؟

  لاہور سے ملتان جانے والی بس دیپالپور چوک اوکاڑہ  پر رکی اور ایک بارعب چہرہ , اور خوبصورت شخصیت کا مالک نوجوان اترا اسے سول ریسٹ ہاؤس جانا تھا ،اس نے آس پاس دیکھا تو کوئ سواری نظر نہ آئ مگر ایک تانگہ جو کہ چلنے کو تیار تھا نوجوان نے اسے آواز دے کر کہا کہ اسے بھی سول ریسٹ ہاؤس تک لیتے جائیں مگر کوچوان نے صاف انکار کر دیا ، نوجوان نے  التجائیہ الفاظ میں کوچوان سے پھر کہا تو اس نے سخت لہجے میں یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آگے پھاٹک پر ایک سنتری کھڑا ہے وہ مجھے نہیں بخشے گا لہذا میں چار سواریوں سے زیادہ نہیں بٹھا سکتا تانگے میں بیٹھی سواریوں نے جب نوجوان کو بے بس دیکھا تو کوچوان سے کہا کہ ہم سب مل کر اس نوجوان کی سفارش کریں گے لہذا اسے بھی ساتھ بٹھا لیں,  کوچوان نے نہ چاہتے ھوۓ بھی نوجوان کو سوار کر لیا, جب پھاٹک آیا تو پولیس والے نے سیٹی بجا کر تانگہ روک لیا


   سنتری کوچوان پر برس پڑا کہ اس نے 4 سے زیادہ سواریوں کو تانگے میں کیوں بٹھایا  ؟ کوچوان نے 5ویں سواری کی مجبوری  بیان  کی مگر پولیس والےکا لہجہ تلخ سے تلخ ھوتا گیا۔ نوجوان نے 5 روپے کا نوٹ کوچوان کو دیا کہ سنتری کو دے کر جان چھڑاؤ ۔مگر جب سنتری نے 5روپے دیکھے تو وہ اور بھی زیادہ غصے میں آگیا اس نے کوچوان سے کہا کہ تم نے مجھے رشوت کی پیش کش کی ہے جوکہ ایک جرم ھے لہذا اب تمہارا لازمی چالان ھو گا,سنتری نے کہا کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو پاکستان ہی کیوں بنایا ؟یہ کہہ کر اس نے کوچوان کا چالان کر دیا , تانگہ چلا گیا ۔سول ریسٹ ھاؤس کے قریب نوجوان اترا تو اس نے کوچوان سے کہا کہ یہ میرا کارڈ رکھ لو اور کل نو بجے ادھر آجانا میں تمہارا جرمانہ خود ادا کروں گا ۔اگلی صبح 9بجے کوچوان سول ریسٹ ھاؤس پہنچا تو پولیس کے جوانوں نے اگے بڑھ کر کوچوان کو خوش آمدید کہا


اور پوچھا کہ گورنر صاحب سے ملنے آۓ ھو؟کوچوان کیا جانے کہ گورنر کیا ھوتا ھے ۔ پولیس کے جوان کوچوان کو دفتر کے اندر لے گۓ رات والے نوجوان نے کوچوان سے اٹھ کر مصافحہ کیا اور بیٹھنے کو کہا پھر اپنے پاس بیٹھے ڈی سی او کو رات والا واقعہ سنایا ,نوجوان نے رات والے سنتری کو فورا طلب کیا اور ڈی سی او کوحکم دیا کہ اس ایماندار پولیس والے جوان کو فورا ترقی دے کر تھانہ صدر گوگیرہ کا ایس ایچ او تعینات کرو ۔اور کوچوان کا جرمانہ بھی اپنی جیب سے ادا کیا ۔اپنی جیب سے جرمانہ ادا کرنے والا وہ نوجوان سردارعبدالرب نشتر گورنر پنجاب تھے ۔ وہی  سردار عبد الرب نشتر جنہوں  نے مسلم لیگ کیلیے بے شمار خدمات سر انجام دیں اور وہ  قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست اور ایمانداری کی اعلی مثال سمجھے جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے انھیں پہلا وزیر مواصلات بنایا پھر انھیں پنجاب کا گورنر بنایا گیا -


خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعدسردارعبدالرب نشترکو   مرکزمیں وزیربننے کی پیشکش کی گئی لیکن ان لوگوں کے ساتھ چلنا سردارصاحب کے لیے ممکن نہ تھاجس کی وجہ سے آپ نے معذرت کرلی۔سردارعبدالرب نشترکی دورس نظر ان حالات کابغور مشاہدہ کررہی تھی،ان کے لیے ایک راستہ تھااور انہوں نے بہت جلد حزب اقتدارسے حزب اختلاف  کے خیمے میں آن بیٹھے اور آج تک بیٹھے ہیں اور غلامی زدہ،بدعنوان ،مفادپرست اورنااہل لوگ اقتدارکے جھولے میں حکومت   کے مزے لے رہے ہیں ۔   تحریک پاکستان کایہ مرد مجاہد14فروری1958ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔انہیں قائداعظم محمد علی جناح کے مزارکے ساتھ ہی دفن کیاگیا۔سردارعبدالرب نشتربہت اچھے سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے،کراچی میں ان کے نام ایک پارک”نشترپارک”اوران کے نام کی ایک سڑک”نشترروڈ”بھی موجود ہے۔

یہ تحریر انٹر بیٹ کی مدد سے لکھی گئ

ٹیکس، بجلی نرخوں میں اضافہ، خیبرپختونخوا کی ماربل فیکٹریاں بند

  ٹیکس  ہمارے یہاں ماربل  کی بزنس ایک بڑی صنعت شمار ہوتی ہے'لیکن شومئ قسمت کہ ٹیکسز کی بے جا بھرمار  ، بجلی نرخوں میں خوفناک اضافے نے ، خیبرپختونخوا کی ماربل فیکٹریز کو  تباہی کے گڑھے میں پھینک دیا ہے-مردان انڈسٹری ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل منیب الرحمٰن انہوں نے بتایا کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں اس وقت تقریباً 3800 سے لے کر 4000 تک ماربل فیکٹریاں ہیں، جن میں سے تقریباً 60 فیصد تک بند ہو چکی ہیں۔عبدالستار abdulsattar2004@  منگل 30 جولائی 2024 10:45 خیبر پختونخوا میں سنگ مرمر (ماربل) کی صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں اور بجلی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے نصف سے زیادہ کارخانے بند ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے اس انڈسٹری سے وابستہ افراد مالی مشکلات کا شکار ہیں۔مردان انڈسٹری ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل اور ماربل کارخانے کے مالک منیب الرحمٰن نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت ملک کی جو مجموعی معاشی صورت حال ہے، اس میں تعمیرات کا شعبہ بہت متاثر ہوا ہے اور اس کا براہ راست اثر سنگ مرمر کی صنعت پر بھی پڑا ہے



انہوں نے بتایا کہ حالیہ بجٹ میں کارخانوں پر میکسیمم ڈیمانڈ انڈیکیٹر (ایم ڈی آئی) کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا، جو 500 روپے سے بڑھ کر 1250 روپے ہوگیا ہے۔ اسی طرح مختلف ٹیکس اور بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے یہ صنعت بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔بقول منیب الرحمٰن: ’خیبر پختونخوا میں صرف واحد یہ ماربل انڈسٹری ہے، جس کی مائننگ سے لے کر آخری پروڈکشن تک سب کچھ خیبرپختونخوا میں ہی بن رہا ہے، جس کی وجہ سے بہت زیادہ لیبر اس سے وابستہ ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ مردان انڈسٹریل سٹیٹ میں 400 سے زائد فیکٹریز ہیں، جن میں سے تقریباً 120 بند ہو چکی ہیں اور مزید بھی بند ہوتی جا رہی ہیں، جس سے مزدوروں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔منیب الرحمٰن کے مطابق ایک فیکٹری میں ہمارے پاس تقریباً 15 سے 20 لوگ ہوتے ہیں، جن میں مینیجر اور مشین پر کام کرنے والے مزدور شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوڈنگ کرنے والے، وزن کانٹے والے لوگ، ٹرانسپورٹ انڈسٹری والے اور مائںنگ انڈسٹری والے لوگ بھی کارخانوں کی بندش سے متاثر ہوئے ہیں۔



بجلی کے نرخوں اور ٹیکسوں میں اضافے سے پریشان سنگ مرمر کی صنعت سے وابستہ افراد کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ ماربل انڈسٹری کو ایک سپیشل ریلیف پیکج دیا جائے، جس سے یہ شعبہ چل سکے ماربل انڈسٹری بیٹھ جانے سے تقریباً سوا لاکھ مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم دیگر لوگوں کا موازنہ کریں تو خیبرپختوںخوا میں اس روزگار سے تقریباً تین سے چار لاکھ لوگ منسلک ہیں اور اب ان کے گھروں کے چولہے تقریباً بجھنے والے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ماربل انڈسٹری کو ایک سپیشل ریلیف پیکج دیا جائے، جس سے یہ شعبہ چل سکے۔ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک ماربل کارخانے کا مالک عرفان خان نے اس حوالے سے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ایم ڈی آئی میں حالیہ اضافے سے نہ صرف سنگ مرمر کی انڈسٹری بند ہونے جا رہی ہے بلکہ دیگر انڈسٹریاں بھی بند ہوگئی ہیں۔



پشاور کی ماربل انڈسٹری ایسوسی ایشن کے صدر ہمت شاہ نے بتایا کہ صوبائی دارالحکومت میں پچاس فیصد سے زائد کارخانے بند ہوگئے ہیں اور مزید آئے روز بند ہوتے جا رہے ہیں جبکہ زیادہ تر کارخانوں نے بجلی منقطع کر دی ہے۔انہوں نے بتایا کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اور رائلٹی ٹیکس میں اضافے کی وجہ سے انڈسٹری کا پہیہ مکمل طور پر روک دیا گیا ہے۔ضلع بونیر میں واقع ایک ماربل کارخانے کے مالک خورشید خان نے بتایا کہ اس وقت ضلعے میدوسوپندرہ 215 کارخانے حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بجلی کے نرخوں، ایم ڈی آئی میں بے تحاشہ اضافے اور رائلٹی میں اضافے کی وجہ سے مالکان مجبوری میں کارخانے بند کر رہے ہیں، جس سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔  ماربل فیکٹری میں کام کرنے والے باجوڑ کے رہائشی شیر محمد نے بتایا کہ وہ پچھلے 10 سال سے ماربل کے کارخانوں میں لوڈنگ کا کام کر رہے ہیں لیکن اب بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے کارخانے بند ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری دیہاڑی اب نہیں لگتی۔انہوں نے بتایا کہ ’اس طرح کے حالات کبھی نہیں دیکھے


اتوار، 12 اکتوبر، 2025

شامیل کے ساتھ انتہائ عجلت میں حادثاتی شادی

 



 شامیل کے ساتھ انتہائ عجلت میں حادثاتی شادی نےاس کو زہنی اور جسمانی دونوں طرح سے بے حد تھکا دیا تھا ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب شامیل نے رات گئے کمرے میں آکے اس کواس کے ماضی کے زہر بھرے کچوکے دئے تو اس کے زہن نے مزید بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا کیونکہ اسکا د ماغ اب مذید بو جھ اٹھا نے سےقا صر ہو چکا تھا جس کا نتیجہ اب ظاہر ہو ا اس کو پتا ہی نہیں چلا کہ کب وہ بے ہوش ہوگئ البتّہ جب اسے ہوش آیا تو کمرے میں گھپ اندھیرا چھایا ہواتھا اور تمام  ماحول پر رات کی  خاموشی طاری تھی اور اس کے ہاتھوں اور پیروں کی طاقت سلب ہو چکی تھی ,کچھ دیرتو اس کی سمجھ ہی میں نہیں  آیا کہ کہ وہ کہاںپر ہے ؟ اورایک اجنبی گھر میں کیوں ہے ؟ اپنی بڑی آپا کے گھر کیوں نہیں ہے پھر جب کچھ, کچھ اس  کے حواس واپس ہونے لگے تو اس کو یاد آیا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ بڑی آپا کے گھر کے بجائے شامیل کے گھر میں موجود ہے ،پھر اس کے لئےتختہء دار پر گزرتی ہوئ اس شب مرگ و سوگ میں  اس کا دھیان یعسوب کی جانب  چلا گیا جو اس کو حالات کے منجھدھارمیں مر ،مر کے جینے اور جی، جی کے مرنے  کے لئےتنہا  چھوڑکرچلا گیا تھا  


اس نے سوچا کہ یعسوب کے بجائے اگر وہ مرجاتی تو کتنا اچھّا ہوتا بے اختیار اس کی آنکھوں سے اپنی بے بسی پر آنسوؤں کی جھڑی لگی تو اس نے آنسو پونچھنے کے لئے اپنے ہاتھ کو جیسےہی جنبش دی اس کی کلائیوں میں موجود کانچ کی چوڑیاں کھنک اٹھیں اور اس نے اپا ہاتھ وہیں پر رو ک دیا اورسنبھل کر سو چا کہ کہ کہیں اس کے رونے سے کارپٹ پر سوئے ہوئے شامیل کی آنکھ نا کھل جائے اور پھر ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو جائےاس لئے اس نے خاموشی سے اپنے آنسوؤں کویونہی بہتے رہنے دیا اوریہ آنسو بہتے ہوئے اس کا تکیہ بھگوتے رہے اور اسی طرح وہ ناجانے کب نیند کی آغوش میں چلی گئ ,, اور پھر صبح سویرے جب اس کی آ نکھ کھلی تواس نے سب سے پہلے بیڈ پر پھیلی ہوئ اپنی, یعسوب کے ساتھ منگنی کی تمام بے تر تیب ا لٹی اور سیدھی پڑی ہوئ وہ ار مان بھرے جذبوں سے کھینچی ہوئ تصاویرجو اس وقت ان دونو ں کی زندگی کا یادگار ترین موقع تھا , جلدی جلدی سمیٹ کر تکئے کے نیچے چھپا دیں 



اور پھر اللہ کا شکر ادا کیا کہ شامیل کے سو کر اٹھنے سے پہلے ہی وہ خود اٹھ گئ , تصویریں رکھنے کے بعد اس نے آہستگی سے بیڈ سے اتر کر  جہیز کا سوٹ کیس کھول کر اس میں سے گھر کے پہننے کے لئے سادہ جوڑا نکالا, حالانکہ اس کی ہر حرکت آہستہ آہستہ ''سے ہی عبارت تھی لیکن پھر بھی کلائیوں میں پہنی ہوئ کانچ کی چوڑیاں انہیں روکنے کے باوجود کھنک جانے سے شامیل کی آنکھ کھل گئ اور اس نے  کمرے میں پھیلی ہوئ ملگجی روشنی میں کارپٹ پرسوٹ کیس کھولے بیٹھی ہوئ نگین کو نیم وا آنکھوں سے دیکھا لیکن پھروہ جان بوجھ کر سوتا ہی بنا پڑا رہا  , اور پھروہ وہا ں سے اپنے کپڑے لے کر فورا ہی چلی گئ ،اور پھر ڈ ریسنگ روم سے تیّار ہو کر کمرے میں آئ تو شامیل کمرے سے جا چکا تھا ,اس نے شامیل کے کمرے سے یوں چلے جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا اورایک بار پھر بیڈ پر بیٹھ کر کمرے کا جا ئزہ لیا اس وقت حجلہء عروسی میں گزری ہوئ رات کے گلاب کے سارے تازہ مہکتے ہوئے پھولو ں پر مردنی چھائ ہوئ تھی



اورموتئے کی کھلکھلاتی ہوئ تازہ معطّر کلیوں نے سہاگ رات کی سونی سیج کے سرہانےاپنی ہی بانہوں میں اداسی سے سر نیہو ڑا دیا تھا ریشمی حریری پردے اس طرح ساکت تھے جس طرح جنازہ اٹھنے سے پہلے ماحول کو سکوت ہوتا ہے اور پردوں میں کالے کوبراجنکی لال لال زبانیں رات کے اندھیرے میں اس کی طرف لپک رہی تھیں اب پردوں سے لپٹے ہوئے سو رہے تھے اور کمرے میں ہر جگہ شامیل کی نفرت کی چنگاریا  ں چٹختی پھر رہی تھیں اور اس کی سہاگ رات زندگی بھر کا سوگ بن کر گزر گئ تھی اورپھر اس سے پہلے کہ اسکی وحشت اور بھی دو چند ہو جاتی ,,کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئ ،اور وہ اپنی جگہ سےاٹھ کر دروازے کی جانب بڑھی ,دروازہ بند تو تھا نہیں ادھ کھلا تھا ،چناچہ ربیکا دستک دے کراندر آ گئیں  اس نے فوراً ربیکا کو مودّبانہ سلام کیا تو ربیکا نے اسے گلے سے لگایا اور ماتھے پر پیار کر کے مسکراتے ہوئے کہنے لگیں........ ،کہو دلہن بیگم تمھیں ہمارا بھائ کیسا لگا  

میری مطبوعہ ناول میں سہگن بنی 'مگر!سے اقتباس 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر