ہفتہ، 22 اکتوبر، 2022

بہشت ارضی پاکستان میں وادی سوات



>




میرے وطن تیری گلیوں کے ہوں میں نثار'پروانہ وار
 پولینڈ کی سیاح ایوا زو بیک نے وادئ سوات کے نگاہوں کو خیرہ کر دینے والےحسن  کو دیکھ کر بے اختیار کہا تھا  کہ سویٹزرلینڈ یورپ کا سوات ہے!
سوات پاکستان ہے تو یقین کر لیجئے کہ کالام جنت الفردوس ہے۔ دریائے اتروڑ اور اوشو کے سنگم پہ واقع یہ وادی مجسم حسن ہے۔آپ جس بھی موسم میں یہاں جائیں -لیکن کسی بھی موسم میں یہاں جاتے وقت گرم کپڑے اور چھتری ساتھ رکھنا مت بھولئے گا یہاں کا موسم بڑا بے ایمان ہوتا ہے۔

کالام دراصل ایک بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے یہاں آپ کو ہر بجٹ کا ہوٹل بآسانی مل جائے گا۔دریا میں چارپائیاں بچھی ہوں گی کسی بھی ہوٹل پہ کھانے کا آرڈر کیجئے اور دریا کے یخ ٹھنڈے پانیوں میں پائوں ڈبو کے چارپائیوں پہ نیم دراز ہو جائیے۔سکون ہی سکون۔پیٹ پوجا کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے اوشو کے جنگلات دیکھنے چل پڑئیے یا پھر یہیں سے جیپ کروائیے اور اوشو فاریسٹ سے گزرتے ہوئے مہوڈنڈ جھیل کی جانب چل پڑئیے۔جھیل کی سیر کیجئے، کشتی رانی سے لطف اٹھائیے، مچھلیاں پکڑئیے۔اس جھیل میں مچھلیوں کی اس قدر بہتات ہے کہ اس کا نام ہی مچھلیوں والی جھیل یعنی مہوڈنڈ ہے
شاہی باغ کالام کا حسین ترین مقام ہے۔اس کا سارا راستہ پستہ کے باغات سے بھرا ہوا ہے۔اور جہاں کچا راستہ اختتام پذیر ہوتا ہے وہاں سارا راستہ ساتھ بہنے والا دریا دو لخت ہوتا ہے۔اور ان دو دریائوں کے بیچ درختوں سے اَٹی انتہائی سر سبز چراگاہ ہے۔چراگاہ میں داخلے کے لئے دریا عبور کرنا واحد راستہ ہے اور اس مقصد کے لئے دیو دار کا ایک بڑا سا تنا کاٹ کر دریا پر پل کی جگہ ڈال دیا گیا ہے۔جس کے نیچے پانی کی گہرائی اندازًا پندرہ سولہ فٹ ہے۔لیکن خوبصورت منزلیں ہمیشہ دشوار راستوں کو طے کرنے سے ہی ملتی ہیں۔کوشش کیجئے کہ ایک رات اس سبز مخملیں چراگاہ میں کیمپنگ کریں اور دریا کے شور کے سنگ تاروں بھرا آسمان دیکھیں۔مچھلیاں پکڑیںاور فطرت کے جلوے دیکھیں۔
اگر آپ شاہی باغ نہیں جانا چاہتے یا وہاں رات نہیں رکتے تو پھر آپ اوشو سے واپس آتے ہوئے اتروڑ کی جانب چلے جائیے۔قریبا ایک گھنٹے کی مسافت پہ اناکر گاں میں بلیو واٹرز کیمپ سائیٹ آئے گی۔اسے اناکر میڈوز بھی کہتے ہیں
۔یہاں سےکچھ آ گے جاکر جانشئی میڈوز اور اندراب جھیل کے راستے نکلتے ہیں۔بلا کی حسین جگہ ہے۔یہاں اتروڑ دریا سے نکلتا بن خور نالہ بہتا ہے۔انتہائی شفاف نیلا پانی۔سردیوں میں یہ سارا علاقہ برف سے ڈھکا ہوتا ہے لیکن گرمیوں میں یہاں سر سبز چراگاہ ہوتی ہے۔لیکن جس بھی موسم میں یہاں جائیں کھانے پینے اور کیمپنگ کا سامان بمع گرم کپڑے اور چھتری یا رین کوٹ ساتھ لے جانا مت بھولیں۔ 
۔جانشئی میڈوز صد رنگ پھولوں سے بھری سبز مخملیں چراگاہ ہے جودل سے دھڑکنیں تک چھین لیتی ہے اور یہاں پہنچ کر سب سے مشکل کام دل کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ یہ سنگ میل ہے منزل نہیں۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں،۔۔بلیو واٹرزمیڈوز سے لکڑی کا پل کراس کر کے قریبا چار سے پانچ گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد اوپربلند پہاڑوں کے دامن میں اک خوابیدہ جھیل آپ کی منتظر ہو گی۔برف پوش پہاڑوں کے حصار میں نیلگوں شفاف پانیوں کے بدلتے رنگوں کی جھیل۔اندراب جھیل۔sاسے اناکر جھیل اور کوہ جھیل بھی کہتے ہیں۔اس کے تین اطراف بلند پہاڑ ہیں اور چوتھی جانب پھولوں سے بھرا سبزا۔اور یہ ایک منظر عمر بھر کی تھکان بھلا دیتا ہے!اور دل سے بس ایک دعا نکلتی ہے ''میرے پیارے وطن سلامت رہیں تیرے یہ مرغزار 'تیری گلیوں کے ہوں میں نثا
ر
تلخیص و تحریر 
سیّدہ زائرہ 
بریمپٹن کینیڈا
 

جمعہ، 21 اکتوبر، 2022

فارابی کے خیال میں مثالی حکمران کے تحت ریاستیں معیاری ہو سکتی ہیں

 

فارابی ترکی میں 870ء میں دریائے حیبوں کےساحل علاقے۔پر واقع ترکستان کے ضلع فاراب میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے فارابی کہلا ئے۔ ان کا پورا نام محمد بن ترخان اور کنیت ابو نصر تھی۔ ابتدائی تعلیم فاراب میں حاصل کرنے کے بعد اوائل عمر میں حصول تعلیم کے لیے بغداد آیے ۔لیکن اس شہر میں فرقہ وارانہ تشدد کی بناء پروہ دمشق آنے پر مجبور ہوئے۔  دمشق میں انہو ں نے عیسائی اساتذہ ابوبشر متی بن یونس اور یومنا بن حیلان سے علم منطق حاصل کیا۔ سائنس، فلسفہ، طبعیات، منطق، کیمیا، سحر اور ریاضی کے علوم کے علاوہ موسیقی کا علم سیکھا۔ علمی موسیقی پر ایک مستند کتاب تحریر کی اور ایک آلہ ’’رباب‘‘ بھی ایجاد کیا۔ وہ ابوبکر الشبلی اور منصور الحاج کا ہم عصر تھا۔ اس کے فلسفہ میں افلاطون کا رنگ نمایاں ہے۔ فارابی نے ارسطو کی تصنیفات کی ایسی بسیط شرح لکھی کہ کئی صدیوں تک سند کے طور پر پیش کی جاتی رہی۔
وہ علم الطب کے ماہر تھے ریاضی میں بیکن نے اس کی شاگردی کو تسلیم کیا۔ اس نے اپنی تصنیف میں ’’احصاء العلوم‘‘ میں متداوّل سائنسوں پر زبردست تبصرہ کیا۔ اس کتاب کے پانچ حصے ہیں جن میں علم کے مختلف شعبوں زبان، منطق، ریاضیات، طبعی سائنس اور سیاسی و معاشرتی اقتصاد پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ 
سیاست پر اس کی دو تصانیف سیاست المدینہ اور آراء اہل المدینہ الفاضلہ بڑا نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ آراء اہل المدینہ الفاضلہ جس میں وہ معیاری مملکت کو مدینہ الفاضلہ کا نام دیتا ہے ۔

فارابی کا خیال ہے کہ ایک کامل فلسفی وہ سب کچھ سمجھ سکتا ہے جس کا علم آسمانی شعور کے اندر موجود ہے۔ وہ یہ تو دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ خود اس مقام پر پہنچ چکے ہیں لیکن وہ یہ دلیل ضرور دیتے ہیں کہ اصولی طور پر ایسا ہونا ممکن ہے۔
 اس کے علاوہ ان کا انسانی علم میں بھی کردار ہے۔ جیسے ہم روشنی کے بغیر نہیں دیکھ سکتے، اس طرح اس شعور کے بغیر ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔اور بالکل جس طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں سوچنے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔

فارابی کی ابتدائی زندگی نہایت ہی غربت اور تنگدستی میں گزری، مگر غربت و تنگدستی اس کے علم و جستجو پر غالب نہ ہو سکی
ابتدائی دور میں یہ ایک دفعہ رات کے وقت مطالعہ میں مصروف تھے  کہ تیل ختم ہونے سے چراغ بجھ گیا۔ اس میں اتنی  وسع نہں تھی کہ تیل خریدتے ۔ مگر شوق مطالعہ اسے کھینچ کر باہر لے آیا اور گشت کر تے ہوئے پہرے دار کے سامنے لا کھڑا کیا۔ فارابی نے پہریدار سے سارا ماجرا کہہ سنایا اور اُے وہاں تھوڑی دیر رکنے کی گزارش کی تاکہ وہ اپنا سبق یاد کر لے۔ پہریدار اس دن مان گیا، مگر دوسرے دن اس نے رکنے سے صاف انکارکر دیا۔ مگر فارابی نے گزارش کی کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہے گا تاکہ اس کی لالٹین کی روشنی میں مطالعہ کر سکے۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر ایک دن پہریدار نے اس کی علمی لگن اور جستجو سے متاثر ہو کر اسے نئی لالٹین لاکر دے دی۔ فارابی کے حصول علم کا یہ بے مثال واقعہ رہتی دنیا تک ایک مشعل راہ ہے۔ انہوں نے تقریباً 50 سال حصولِ علم میں صرف کیئے؟۔ان کا کہنا تھا کہ
اے کے ذریعے علم سیکھتا ہے اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں میں فرق کی بنیاد انسان کی ترقی اور اس کا اشرف المخلوقات ہونا سب اسی عقل الفعال کے بغیر ناکارہ ہے۔ قوت نزوعیہ کے ذریعے انسان میں محبت، نفرت اور رنج و خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور قوت ناطقہ انسانی طبیعت کو جبلت پر قابو پانے کے طریقے سے روشناس کراتی ہے۔ اس کے خیال میں اجتماع کی دو اقسام ہیں: 
(1. اجتماع تام 
(2. اجتماع ناقص و نا مکمل فارابی کے نزدیک کرہ ارض پر رہنے والے تمام لوگوں کا اجتماع سب سے بڑا اجتماع ہے
 ۔ اس کے خیال میں خدا نے دنیا کے نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے ہرشخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق فرائض تفویض کر رکھے ہیں۔ ریاست کا اعلیٰ شہری وہ ہے، جو حکمران کے ماتحت شہری زندگی گزارتا ہے۔  
اس کے خیال میں مثالی حکمران کے تحت ریاستیں معیاری ہو سکتی ہیں۔ وہ مقتدر اعلیٰ کے فرائض و اوصاف کے باب میں کہتا ہے کہ انسان بلحاظ عقل ایک جیسے نہیں ہوتے- مقتدر اعلیٰ میں قوت استبداد کے ساتھ ساتھ قوت تبلیغ بھی ہونی چاہیے۔ اس کے ماتحت ہر شعبہ کا الگ قائد ہونا چاہیے 

بدھ، 19 اکتوبر، 2022

کراچی میں بلدیاتی انتخابات پھر ملتوی کر دئے گئے

 پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اپنی  بلدیاتی نما ئندگی نا ہونے کے سبب مسائلستا ن بنا ہوا ہے چھوٹے شہر بیچارے کس گنتی شمار میں ہیں کراچی تو پاکستا ن کا معاشی مرکز ہے ۔جو پورے ملک کو پالنے کے لئے تقریباً نوّے فیصد ریوینیو فراہم کرتا ہے ۔
 ہم پاکستانی عوام کی بدقسمتی  ہے کہ قیام پاکستان کو  سات دہائیاں پوری ہیں اورہماری تقریباً،ہر جمہوری حکومت کے گلے میں سازش کا طوق پہنا ہوا ہے کہ اس نے عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب کرنے کے بجائے اپنی اپنی من پسند شخصیات کو نوازنے کی خاطر ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کروانے سے حتّی الامکان گریز کیا ۔
ہمارے ہی وطن  میں یہ سازش تسلسل سے کیوں جاری و ساری ہے ،،اس کی وجہ بلکل صاف ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں اب تک موروثی سیاست کے مہرے ہی ہر بار الٹ کر اور پلٹ کر اپنی خاندانی سیاست کو جاگیر کی طرح استعمال کر رہے ہیں ان سیاسی باشاہوں کے پاس عوام کی بہبود کا کوئ پروگرام ہوتا ہی نہیں ہے یہ صرف اپنے خزانوں کو مذ ید بڑھاوا دینے کے لِئے آتے ہیں اور پہلے سے بچھائ ہوئ اپنی سیاسی بساط  اپنے موروثی جان نشینوں کے سپرد کر کےچلے جاتے ہیں a
پیپلز پارٹی کی  حکومت اچھّی طرح واقف ہے کہ   بلدیاتی نظام کے شہروں کی سیاسی بساط پر آجانے سے خصوصاً ناظمین کے نظام کی وجہ اس کے صوبائی اختیارات چھن جائیں گے اس لئے بلدیاتی انتخابات مسلسل التواء کا شکاررکھّے گئے ہیں ۔
انگریزوں نے اقتدار کو مرکزیت دینے کے لئے اس شاہانہ طرز سیاست کا نام کمشنری نظام دیا اور اقتدار کو اپنے من پسند افراد کی ہی حد میں  رکھنا اور سماج کو ان کا تابع بنانے کا نظام رائج کیا اس غلامانہ نظام کو ہماری پاکستان کی اشرافیہ نے اسی لئے اب تک جاری ساری رکھنے کا اصرار کیا ہے کہ اس میں اختیارات چند بڑے لوگوں کے پاس ہوتے ہیں اور عوام کی پہنچ میں بھی نہیں ہوتے ہیں۔ 
چونکہ کمشنر عوام کے سامنے نہیں بلکہ صوبائی حکمرانوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، لہٰذا فطری طور پر ان کی وفاداریاں صوبائی   حکمرانوں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ لہٰذہ عوام کے سروں پر مسلّط سیاسی وڈیرے  چند کمشنرزاور ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو خوش رکھ کراور اپنے عوام کو ہر سہولت سے محروم رکھ کر طویل ،طویل عرصے تک خوش اسلوبی سے بر سر اقتدار رہتے ہیں ۔
اور سیاسی بساط پر عام آدمی دسترس رکھ ہی نہیں سکتا ہے ان سیاسی جاگیرداروں کے صرف تین مرتبے ہوتے ہیں کمشنر،ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنر ،اور ان عہدے داروں تک عوام کی رسائ نہیں ہوتی ہے وہ مارے مارے پھرتے رہتے ہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات کسی بھی ملک کے عوام کے درمیان اختیارات کی تقسیم کےعلاوہ سیاسی شراکت کے ساتھ ساتھ   ۔

عوام کے مقامی مسائل حل کرنے کرنے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ،دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے ہی سیاسی نرسری کی پنیریاں تیار کر کے اگلی نسل کے لئے سیاسی نمائندے فراہم کرتے  ہیں ۔ نچلی بلدیاتی سطح سے سیاسی قیادت کے سامنے آنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو نمائندہ جس سطح سے آتا ہے وہ اپنے گرد کے مسائل سے باخبر ہوتا ہے اس لئے اس کی گرفت بھی اچھّی ہوتی ہے ،اور ایک اور اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اختیارات کی مرکزیت ختم ہوجاتی ہے اور بلدیاتی ادارے سیاسی وڈیروں کے اختیارات کی مرکزیت پر تازیانے کا کام کرتے ہیں   اور چونکہ بلدیاتی  نمائندے عوام کے مسائل سے باخبر ہوتے ہیں اس لئےمالی وسائل عوام کی بہبود پر خرچ کرتے ہیں اس طرح مسائل حل کے لئے  مالی وسائل کے استعمال میں آزادی  مقامی اور علاقائی مسائل حل کرنے میں انتہائ مددگار ثابت ہوتی ہے ۔
 یہاں سے عوامی خدمات کی بنیاد بناتے ہوئے جو بلدیاتی نمائندہ جتنا ہر دلعزیز ہوتا ہے وہ آگے چل کر سیاستدان بننے کا استحقاق رکھتا اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے وطن کے قوم پرست اور سیاسی جاگیردار سب اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہوئے کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم کو انگریز کا کمشنری نظام چاہئے ۔
اس لحاظ سے تو ہمارے فوجی حکمرانون نے ہی بلدیاتی انتخاب کرواکے عوام کی بھلائ چاہی ،ویسے تو صدر ایّوب خان نے بھی بلدیاتی انتخابات کروائے تھے جس کے ثمرات عوام تک پہنچے لیکن دوسری مرتبہ صدر پرویز مشرّف نے عوام کو  بہترین نمائندوں  کا سسٹم دیا ،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شہر کے عوام اپنے حقوق کی خاطر میدان عمل میں آ کر مطالبہ کریں کہ ان کو ایک شفّاف بلدیاتی الیکشن کے زریعے بلدیاتی نمائندوں کی ضرورت ہے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر