>
میرے وطن تیری گلیوں کے ہوں میں نثار'پروانہ وار
پولینڈ کی سیاح ایوا زو بیک نے وادئ سوات کے نگاہوں کو خیرہ کر دینے والےحسن کو دیکھ کر بے اختیار کہا تھا کہ سویٹزرلینڈ یورپ کا سوات ہے!
سوات پاکستان ہے تو یقین کر لیجئے کہ کالام جنت الفردوس ہے۔ دریائے اتروڑ اور اوشو کے سنگم پہ واقع یہ وادی مجسم حسن ہے۔آپ جس بھی موسم میں یہاں جائیں -لیکن کسی بھی موسم میں یہاں جاتے وقت گرم کپڑے اور چھتری ساتھ رکھنا مت بھولئے گا یہاں کا موسم بڑا بے ایمان ہوتا ہے۔
کالام دراصل ایک بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے یہاں آپ کو ہر بجٹ کا ہوٹل بآسانی مل جائے گا۔دریا میں چارپائیاں بچھی ہوں گی کسی بھی ہوٹل پہ کھانے کا آرڈر کیجئے اور دریا کے یخ ٹھنڈے پانیوں میں پائوں ڈبو کے چارپائیوں پہ نیم دراز ہو جائیے۔سکون ہی سکون۔پیٹ پوجا کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے اوشو کے جنگلات دیکھنے چل پڑئیے یا پھر یہیں سے جیپ کروائیے اور اوشو فاریسٹ سے گزرتے ہوئے مہوڈنڈ جھیل کی جانب چل پڑئیے۔جھیل کی سیر کیجئے، کشتی رانی سے لطف اٹھائیے، مچھلیاں پکڑئیے۔اس جھیل میں مچھلیوں کی اس قدر بہتات ہے کہ اس کا نام ہی مچھلیوں والی جھیل یعنی مہوڈنڈ ہے
شاہی باغ کالام کا حسین ترین مقام ہے۔اس کا سارا راستہ پستہ کے باغات سے بھرا ہوا ہے۔اور جہاں کچا راستہ اختتام پذیر ہوتا ہے وہاں سارا راستہ ساتھ بہنے والا دریا دو لخت ہوتا ہے۔اور ان دو دریائوں کے بیچ درختوں سے اَٹی انتہائی سر سبز چراگاہ ہے۔چراگاہ میں داخلے کے لئے دریا عبور کرنا واحد راستہ ہے اور اس مقصد کے لئے دیو دار کا ایک بڑا سا تنا کاٹ کر دریا پر پل کی جگہ ڈال دیا گیا ہے۔جس کے نیچے پانی کی گہرائی اندازًا پندرہ سولہ فٹ ہے۔لیکن خوبصورت منزلیں ہمیشہ دشوار راستوں کو طے کرنے سے ہی ملتی ہیں۔کوشش کیجئے کہ ایک رات اس سبز مخملیں چراگاہ میں کیمپنگ کریں اور دریا کے شور کے سنگ تاروں بھرا آسمان دیکھیں۔مچھلیاں پکڑیںاور فطرت کے جلوے دیکھیں۔
اگر آپ شاہی باغ نہیں جانا چاہتے یا وہاں رات نہیں رکتے تو پھر آپ اوشو سے واپس آتے ہوئے اتروڑ کی جانب چلے جائیے۔قریبا ایک گھنٹے کی مسافت پہ اناکر گاں میں بلیو واٹرز کیمپ سائیٹ آئے گی۔اسے اناکر میڈوز بھی کہتے ہیں
۔یہاں سےکچھ آ گے جاکر جانشئی میڈوز اور اندراب جھیل کے راستے نکلتے ہیں۔بلا کی حسین جگہ ہے۔یہاں اتروڑ دریا سے نکلتا بن خور نالہ بہتا ہے۔انتہائی شفاف نیلا پانی۔سردیوں میں یہ سارا علاقہ برف سے ڈھکا ہوتا ہے لیکن گرمیوں میں یہاں سر سبز چراگاہ ہوتی ہے۔لیکن جس بھی موسم میں یہاں جائیں کھانے پینے اور کیمپنگ کا سامان بمع گرم کپڑے اور چھتری یا رین کوٹ ساتھ لے جانا مت بھولیں۔
۔جانشئی میڈوز صد رنگ پھولوں سے بھری سبز مخملیں چراگاہ ہے جودل سے دھڑکنیں تک چھین لیتی ہے اور یہاں پہنچ کر سب سے مشکل کام دل کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ یہ سنگ میل ہے منزل نہیں۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں،۔۔بلیو واٹرزمیڈوز سے لکڑی کا پل کراس کر کے قریبا چار سے پانچ گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد اوپربلند پہاڑوں کے دامن میں اک خوابیدہ جھیل آپ کی منتظر ہو گی۔برف پوش پہاڑوں کے حصار میں نیلگوں شفاف پانیوں کے بدلتے رنگوں کی جھیل۔اندراب جھیل۔sاسے اناکر جھیل اور کوہ جھیل بھی کہتے ہیں۔اس کے تین اطراف بلند پہاڑ ہیں اور چوتھی جانب پھولوں سے بھرا سبزا۔اور یہ ایک منظر عمر بھر کی تھکان بھلا دیتا ہے!اور دل سے بس ایک دعا نکلتی ہے ''میرے پیارے وطن سلامت رہیں تیرے یہ مرغزار 'تیری گلیوں کے ہوں میں نثار
پولینڈ کی سیاح ایوا زو بیک نے وادئ سوات کے نگاہوں کو خیرہ کر دینے والےحسن کو دیکھ کر بے اختیار کہا تھا کہ سویٹزرلینڈ یورپ کا سوات ہے!
سوات پاکستان ہے تو یقین کر لیجئے کہ کالام جنت الفردوس ہے۔ دریائے اتروڑ اور اوشو کے سنگم پہ واقع یہ وادی مجسم حسن ہے۔آپ جس بھی موسم میں یہاں جائیں -لیکن کسی بھی موسم میں یہاں جاتے وقت گرم کپڑے اور چھتری ساتھ رکھنا مت بھولئے گا یہاں کا موسم بڑا بے ایمان ہوتا ہے۔
کالام دراصل ایک بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے یہاں آپ کو ہر بجٹ کا ہوٹل بآسانی مل جائے گا۔دریا میں چارپائیاں بچھی ہوں گی کسی بھی ہوٹل پہ کھانے کا آرڈر کیجئے اور دریا کے یخ ٹھنڈے پانیوں میں پائوں ڈبو کے چارپائیوں پہ نیم دراز ہو جائیے۔سکون ہی سکون۔پیٹ پوجا کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے اوشو کے جنگلات دیکھنے چل پڑئیے یا پھر یہیں سے جیپ کروائیے اور اوشو فاریسٹ سے گزرتے ہوئے مہوڈنڈ جھیل کی جانب چل پڑئیے۔جھیل کی سیر کیجئے، کشتی رانی سے لطف اٹھائیے، مچھلیاں پکڑئیے۔اس جھیل میں مچھلیوں کی اس قدر بہتات ہے کہ اس کا نام ہی مچھلیوں والی جھیل یعنی مہوڈنڈ ہے
شاہی باغ کالام کا حسین ترین مقام ہے۔اس کا سارا راستہ پستہ کے باغات سے بھرا ہوا ہے۔اور جہاں کچا راستہ اختتام پذیر ہوتا ہے وہاں سارا راستہ ساتھ بہنے والا دریا دو لخت ہوتا ہے۔اور ان دو دریائوں کے بیچ درختوں سے اَٹی انتہائی سر سبز چراگاہ ہے۔چراگاہ میں داخلے کے لئے دریا عبور کرنا واحد راستہ ہے اور اس مقصد کے لئے دیو دار کا ایک بڑا سا تنا کاٹ کر دریا پر پل کی جگہ ڈال دیا گیا ہے۔جس کے نیچے پانی کی گہرائی اندازًا پندرہ سولہ فٹ ہے۔لیکن خوبصورت منزلیں ہمیشہ دشوار راستوں کو طے کرنے سے ہی ملتی ہیں۔کوشش کیجئے کہ ایک رات اس سبز مخملیں چراگاہ میں کیمپنگ کریں اور دریا کے شور کے سنگ تاروں بھرا آسمان دیکھیں۔مچھلیاں پکڑیںاور فطرت کے جلوے دیکھیں۔
اگر آپ شاہی باغ نہیں جانا چاہتے یا وہاں رات نہیں رکتے تو پھر آپ اوشو سے واپس آتے ہوئے اتروڑ کی جانب چلے جائیے۔قریبا ایک گھنٹے کی مسافت پہ اناکر گاں میں بلیو واٹرز کیمپ سائیٹ آئے گی۔اسے اناکر میڈوز بھی کہتے ہیں
۔یہاں سےکچھ آ گے جاکر جانشئی میڈوز اور اندراب جھیل کے راستے نکلتے ہیں۔بلا کی حسین جگہ ہے۔یہاں اتروڑ دریا سے نکلتا بن خور نالہ بہتا ہے۔انتہائی شفاف نیلا پانی۔سردیوں میں یہ سارا علاقہ برف سے ڈھکا ہوتا ہے لیکن گرمیوں میں یہاں سر سبز چراگاہ ہوتی ہے۔لیکن جس بھی موسم میں یہاں جائیں کھانے پینے اور کیمپنگ کا سامان بمع گرم کپڑے اور چھتری یا رین کوٹ ساتھ لے جانا مت بھولیں۔
۔جانشئی میڈوز صد رنگ پھولوں سے بھری سبز مخملیں چراگاہ ہے جودل سے دھڑکنیں تک چھین لیتی ہے اور یہاں پہنچ کر سب سے مشکل کام دل کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ یہ سنگ میل ہے منزل نہیں۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں،۔۔بلیو واٹرزمیڈوز سے لکڑی کا پل کراس کر کے قریبا چار سے پانچ گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد اوپربلند پہاڑوں کے دامن میں اک خوابیدہ جھیل آپ کی منتظر ہو گی۔برف پوش پہاڑوں کے حصار میں نیلگوں شفاف پانیوں کے بدلتے رنگوں کی جھیل۔اندراب جھیل۔sاسے اناکر جھیل اور کوہ جھیل بھی کہتے ہیں۔اس کے تین اطراف بلند پہاڑ ہیں اور چوتھی جانب پھولوں سے بھرا سبزا۔اور یہ ایک منظر عمر بھر کی تھکان بھلا دیتا ہے!اور دل سے بس ایک دعا نکلتی ہے ''میرے پیارے وطن سلامت رہیں تیرے یہ مرغزار 'تیری گلیوں کے ہوں میں نثار
تلخیص و تحریر
سیّدہ زائرہ
بریمپٹن کینیڈا
بریمپٹن کینیڈا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں