فارابی ترکی میں 870ء میں دریائے حیبوں کےساحل علاقے۔پر واقع ترکستان کے ضلع فاراب میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے فارابی کہلا ئے۔ ان کا پورا نام محمد بن ترخان اور کنیت ابو نصر تھی۔ ابتدائی تعلیم فاراب میں حاصل کرنے کے بعد اوائل عمر میں حصول تعلیم کے لیے بغداد آیے ۔لیکن اس شہر میں فرقہ وارانہ تشدد کی بناء پروہ دمشق آنے پر مجبور ہوئے۔ دمشق میں انہو ں نے عیسائی اساتذہ ابوبشر متی بن یونس اور یومنا بن حیلان سے علم منطق حاصل کیا۔ سائنس، فلسفہ، طبعیات، منطق، کیمیا، سحر اور ریاضی کے علوم کے علاوہ موسیقی کا علم سیکھا۔ علمی موسیقی پر ایک مستند کتاب تحریر کی اور ایک آلہ ’’رباب‘‘ بھی ایجاد کیا۔ وہ ابوبکر الشبلی اور منصور الحاج کا ہم عصر تھا۔ اس کے فلسفہ میں افلاطون کا رنگ نمایاں ہے۔ فارابی نے ارسطو کی تصنیفات کی ایسی بسیط شرح لکھی کہ کئی صدیوں تک سند کے طور پر پیش کی جاتی رہی۔
وہ علم الطب کے ماہر تھے ریاضی میں بیکن نے اس کی شاگردی کو تسلیم کیا۔ اس نے اپنی تصنیف میں ’’احصاء العلوم‘‘ میں متداوّل سائنسوں پر زبردست تبصرہ کیا۔ اس کتاب کے پانچ حصے ہیں جن میں علم کے مختلف شعبوں زبان، منطق، ریاضیات، طبعی سائنس اور سیاسی و معاشرتی اقتصاد پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
سیاست پر اس کی دو تصانیف سیاست المدینہ اور آراء اہل المدینہ الفاضلہ بڑا نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ آراء اہل المدینہ الفاضلہ جس میں وہ معیاری مملکت کو مدینہ الفاضلہ کا نام دیتا ہے ۔
فارابی کا خیال ہے کہ ایک کامل فلسفی وہ سب کچھ سمجھ سکتا ہے جس کا علم آسمانی شعور کے اندر موجود ہے۔ وہ یہ تو دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ خود اس مقام پر پہنچ چکے ہیں لیکن وہ یہ دلیل ضرور دیتے ہیں کہ اصولی طور پر ایسا ہونا ممکن ہے۔
اس کے علاوہ ان کا انسانی علم میں بھی کردار ہے۔ جیسے ہم روشنی کے بغیر نہیں دیکھ سکتے، اس طرح اس شعور کے بغیر ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔اور بالکل جس طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں سوچنے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
فارابی کی ابتدائی زندگی نہایت ہی غربت اور تنگدستی میں گزری، مگر غربت و تنگدستی اس کے علم و جستجو پر غالب نہ ہو سکی
ابتدائی دور میں یہ ایک دفعہ رات کے وقت مطالعہ میں مصروف تھے کہ تیل ختم ہونے سے چراغ بجھ گیا۔ اس میں اتنی وسع نہں تھی کہ تیل خریدتے ۔ مگر شوق مطالعہ اسے کھینچ کر باہر لے آیا اور گشت کر تے ہوئے پہرے دار کے سامنے لا کھڑا کیا۔ فارابی نے پہریدار سے سارا ماجرا کہہ سنایا اور اُے وہاں تھوڑی دیر رکنے کی گزارش کی تاکہ وہ اپنا سبق یاد کر لے۔ پہریدار اس دن مان گیا، مگر دوسرے دن اس نے رکنے سے صاف انکارکر دیا۔ مگر فارابی نے گزارش کی کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہے گا تاکہ اس کی لالٹین کی روشنی میں مطالعہ کر سکے۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر ایک دن پہریدار نے اس کی علمی لگن اور جستجو سے متاثر ہو کر اسے نئی لالٹین لاکر دے دی۔ فارابی کے حصول علم کا یہ بے مثال واقعہ رہتی دنیا تک ایک مشعل راہ ہے۔ انہوں نے تقریباً 50 سال حصولِ علم میں صرف کیئے؟۔ان کا کہنا تھا کہ
اے کے ذریعے علم سیکھتا ہے اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں میں فرق کی بنیاد انسان کی ترقی اور اس کا اشرف المخلوقات ہونا سب اسی عقل الفعال کے بغیر ناکارہ ہے۔ قوت نزوعیہ کے ذریعے انسان میں محبت، نفرت اور رنج و خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور قوت ناطقہ انسانی طبیعت کو جبلت پر قابو پانے کے طریقے سے روشناس کراتی ہے۔ اس کے خیال میں اجتماع کی دو اقسام ہیں:
(1. اجتماع تام
(2. اجتماع ناقص و نا مکمل فارابی کے نزدیک کرہ ارض پر رہنے والے تمام لوگوں کا اجتماع سب سے بڑا اجتماع ہے
۔ اس کے خیال میں خدا نے دنیا کے نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے ہرشخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق فرائض تفویض کر رکھے ہیں۔ ریاست کا اعلیٰ شہری وہ ہے، جو حکمران کے ماتحت شہری زندگی گزارتا ہے۔
اس کے خیال میں مثالی حکمران کے تحت ریاستیں معیاری ہو سکتی ہیں۔ وہ مقتدر اعلیٰ کے فرائض و اوصاف کے باب میں کہتا ہے کہ انسان بلحاظ عقل ایک جیسے نہیں ہوتے- مقتدر اعلیٰ میں قوت استبداد کے ساتھ ساتھ قوت تبلیغ بھی ہونی چاہیے۔ اس کے ماتحت ہر شعبہ کا الگ قائد ہونا چاہیے
وہ علم الطب کے ماہر تھے ریاضی میں بیکن نے اس کی شاگردی کو تسلیم کیا۔ اس نے اپنی تصنیف میں ’’احصاء العلوم‘‘ میں متداوّل سائنسوں پر زبردست تبصرہ کیا۔ اس کتاب کے پانچ حصے ہیں جن میں علم کے مختلف شعبوں زبان، منطق، ریاضیات، طبعی سائنس اور سیاسی و معاشرتی اقتصاد پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
سیاست پر اس کی دو تصانیف سیاست المدینہ اور آراء اہل المدینہ الفاضلہ بڑا نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ آراء اہل المدینہ الفاضلہ جس میں وہ معیاری مملکت کو مدینہ الفاضلہ کا نام دیتا ہے ۔
فارابی کا خیال ہے کہ ایک کامل فلسفی وہ سب کچھ سمجھ سکتا ہے جس کا علم آسمانی شعور کے اندر موجود ہے۔ وہ یہ تو دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ خود اس مقام پر پہنچ چکے ہیں لیکن وہ یہ دلیل ضرور دیتے ہیں کہ اصولی طور پر ایسا ہونا ممکن ہے۔
اس کے علاوہ ان کا انسانی علم میں بھی کردار ہے۔ جیسے ہم روشنی کے بغیر نہیں دیکھ سکتے، اس طرح اس شعور کے بغیر ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔اور بالکل جس طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں سوچنے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
فارابی کی ابتدائی زندگی نہایت ہی غربت اور تنگدستی میں گزری، مگر غربت و تنگدستی اس کے علم و جستجو پر غالب نہ ہو سکی
ابتدائی دور میں یہ ایک دفعہ رات کے وقت مطالعہ میں مصروف تھے کہ تیل ختم ہونے سے چراغ بجھ گیا۔ اس میں اتنی وسع نہں تھی کہ تیل خریدتے ۔ مگر شوق مطالعہ اسے کھینچ کر باہر لے آیا اور گشت کر تے ہوئے پہرے دار کے سامنے لا کھڑا کیا۔ فارابی نے پہریدار سے سارا ماجرا کہہ سنایا اور اُے وہاں تھوڑی دیر رکنے کی گزارش کی تاکہ وہ اپنا سبق یاد کر لے۔ پہریدار اس دن مان گیا، مگر دوسرے دن اس نے رکنے سے صاف انکارکر دیا۔ مگر فارابی نے گزارش کی کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہے گا تاکہ اس کی لالٹین کی روشنی میں مطالعہ کر سکے۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر ایک دن پہریدار نے اس کی علمی لگن اور جستجو سے متاثر ہو کر اسے نئی لالٹین لاکر دے دی۔ فارابی کے حصول علم کا یہ بے مثال واقعہ رہتی دنیا تک ایک مشعل راہ ہے۔ انہوں نے تقریباً 50 سال حصولِ علم میں صرف کیئے؟۔ان کا کہنا تھا کہ
اے کے ذریعے علم سیکھتا ہے اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں میں فرق کی بنیاد انسان کی ترقی اور اس کا اشرف المخلوقات ہونا سب اسی عقل الفعال کے بغیر ناکارہ ہے۔ قوت نزوعیہ کے ذریعے انسان میں محبت، نفرت اور رنج و خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور قوت ناطقہ انسانی طبیعت کو جبلت پر قابو پانے کے طریقے سے روشناس کراتی ہے۔ اس کے خیال میں اجتماع کی دو اقسام ہیں:
(1. اجتماع تام
(2. اجتماع ناقص و نا مکمل فارابی کے نزدیک کرہ ارض پر رہنے والے تمام لوگوں کا اجتماع سب سے بڑا اجتماع ہے
۔ اس کے خیال میں خدا نے دنیا کے نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے ہرشخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق فرائض تفویض کر رکھے ہیں۔ ریاست کا اعلیٰ شہری وہ ہے، جو حکمران کے ماتحت شہری زندگی گزارتا ہے۔
اس کے خیال میں مثالی حکمران کے تحت ریاستیں معیاری ہو سکتی ہیں۔ وہ مقتدر اعلیٰ کے فرائض و اوصاف کے باب میں کہتا ہے کہ انسان بلحاظ عقل ایک جیسے نہیں ہوتے- مقتدر اعلیٰ میں قوت استبداد کے ساتھ ساتھ قوت تبلیغ بھی ہونی چاہیے۔ اس کے ماتحت ہر شعبہ کا الگ قائد ہونا چاہیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں