بدھ، 19 اکتوبر، 2022

کراچی میں بلدیاتی انتخابات پھر ملتوی کر دئے گئے

 پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اپنی  بلدیاتی نما ئندگی نا ہونے کے سبب مسائلستا ن بنا ہوا ہے چھوٹے شہر بیچارے کس گنتی شمار میں ہیں کراچی تو پاکستا ن کا معاشی مرکز ہے ۔جو پورے ملک کو پالنے کے لئے تقریباً نوّے فیصد ریوینیو فراہم کرتا ہے ۔
 ہم پاکستانی عوام کی بدقسمتی  ہے کہ قیام پاکستان کو  سات دہائیاں پوری ہیں اورہماری تقریباً،ہر جمہوری حکومت کے گلے میں سازش کا طوق پہنا ہوا ہے کہ اس نے عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب کرنے کے بجائے اپنی اپنی من پسند شخصیات کو نوازنے کی خاطر ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کروانے سے حتّی الامکان گریز کیا ۔
ہمارے ہی وطن  میں یہ سازش تسلسل سے کیوں جاری و ساری ہے ،،اس کی وجہ بلکل صاف ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں اب تک موروثی سیاست کے مہرے ہی ہر بار الٹ کر اور پلٹ کر اپنی خاندانی سیاست کو جاگیر کی طرح استعمال کر رہے ہیں ان سیاسی باشاہوں کے پاس عوام کی بہبود کا کوئ پروگرام ہوتا ہی نہیں ہے یہ صرف اپنے خزانوں کو مذ ید بڑھاوا دینے کے لِئے آتے ہیں اور پہلے سے بچھائ ہوئ اپنی سیاسی بساط  اپنے موروثی جان نشینوں کے سپرد کر کےچلے جاتے ہیں a
پیپلز پارٹی کی  حکومت اچھّی طرح واقف ہے کہ   بلدیاتی نظام کے شہروں کی سیاسی بساط پر آجانے سے خصوصاً ناظمین کے نظام کی وجہ اس کے صوبائی اختیارات چھن جائیں گے اس لئے بلدیاتی انتخابات مسلسل التواء کا شکاررکھّے گئے ہیں ۔
انگریزوں نے اقتدار کو مرکزیت دینے کے لئے اس شاہانہ طرز سیاست کا نام کمشنری نظام دیا اور اقتدار کو اپنے من پسند افراد کی ہی حد میں  رکھنا اور سماج کو ان کا تابع بنانے کا نظام رائج کیا اس غلامانہ نظام کو ہماری پاکستان کی اشرافیہ نے اسی لئے اب تک جاری ساری رکھنے کا اصرار کیا ہے کہ اس میں اختیارات چند بڑے لوگوں کے پاس ہوتے ہیں اور عوام کی پہنچ میں بھی نہیں ہوتے ہیں۔ 
چونکہ کمشنر عوام کے سامنے نہیں بلکہ صوبائی حکمرانوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، لہٰذا فطری طور پر ان کی وفاداریاں صوبائی   حکمرانوں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ لہٰذہ عوام کے سروں پر مسلّط سیاسی وڈیرے  چند کمشنرزاور ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو خوش رکھ کراور اپنے عوام کو ہر سہولت سے محروم رکھ کر طویل ،طویل عرصے تک خوش اسلوبی سے بر سر اقتدار رہتے ہیں ۔
اور سیاسی بساط پر عام آدمی دسترس رکھ ہی نہیں سکتا ہے ان سیاسی جاگیرداروں کے صرف تین مرتبے ہوتے ہیں کمشنر،ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنر ،اور ان عہدے داروں تک عوام کی رسائ نہیں ہوتی ہے وہ مارے مارے پھرتے رہتے ہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات کسی بھی ملک کے عوام کے درمیان اختیارات کی تقسیم کےعلاوہ سیاسی شراکت کے ساتھ ساتھ   ۔

عوام کے مقامی مسائل حل کرنے کرنے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ،دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے ہی سیاسی نرسری کی پنیریاں تیار کر کے اگلی نسل کے لئے سیاسی نمائندے فراہم کرتے  ہیں ۔ نچلی بلدیاتی سطح سے سیاسی قیادت کے سامنے آنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو نمائندہ جس سطح سے آتا ہے وہ اپنے گرد کے مسائل سے باخبر ہوتا ہے اس لئے اس کی گرفت بھی اچھّی ہوتی ہے ،اور ایک اور اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اختیارات کی مرکزیت ختم ہوجاتی ہے اور بلدیاتی ادارے سیاسی وڈیروں کے اختیارات کی مرکزیت پر تازیانے کا کام کرتے ہیں   اور چونکہ بلدیاتی  نمائندے عوام کے مسائل سے باخبر ہوتے ہیں اس لئےمالی وسائل عوام کی بہبود پر خرچ کرتے ہیں اس طرح مسائل حل کے لئے  مالی وسائل کے استعمال میں آزادی  مقامی اور علاقائی مسائل حل کرنے میں انتہائ مددگار ثابت ہوتی ہے ۔
 یہاں سے عوامی خدمات کی بنیاد بناتے ہوئے جو بلدیاتی نمائندہ جتنا ہر دلعزیز ہوتا ہے وہ آگے چل کر سیاستدان بننے کا استحقاق رکھتا اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے وطن کے قوم پرست اور سیاسی جاگیردار سب اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہوئے کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم کو انگریز کا کمشنری نظام چاہئے ۔
اس لحاظ سے تو ہمارے فوجی حکمرانون نے ہی بلدیاتی انتخاب کرواکے عوام کی بھلائ چاہی ،ویسے تو صدر ایّوب خان نے بھی بلدیاتی انتخابات کروائے تھے جس کے ثمرات عوام تک پہنچے لیکن دوسری مرتبہ صدر پرویز مشرّف نے عوام کو  بہترین نمائندوں  کا سسٹم دیا ،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شہر کے عوام اپنے حقوق کی خاطر میدان عمل میں آ کر مطالبہ کریں کہ ان کو ایک شفّاف بلدیاتی الیکشن کے زریعے بلدیاتی نمائندوں کی ضرورت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر