ہفتہ، 29 نومبر، 2025

نتھیاگلی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک تفریحی مقام ہے

 

نتھیاگلی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک  تفریحی مقام ہے - یہ 2501 میٹر کی بلندی پر زیریں ہمالیائی خطے میں واقع ہے، نتھیا گلی اپنے خوب صورت مناظر، ہائکنگ ٹریکس کے لیے مشہور ہے یہ پر فضا سیاحتی مقام ہے جو ضلع ایبٹ آباد میں مری کو ایبٹ آباد سے ملانے والی سڑک پر 8200 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اسلام آباد سے اس کا فاصلہ 80 کلومیٹر ہے۔نتھیاگلی می گرمیوں میں موسم نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ جولائی اور اگست کے مہینوں میں یہاں تقریباً روزانہ بارش ہوتی ہے۔ سردیوں میں یہاں شدید سردی اور دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں شدید برف باری ہوتی ہے۔یہاں گورنر ہاؤس، سیاحوں کے لیے قیام گاہیں اور آرام گاہیں واقع ہیں۔ قصبہ میں کچھھ دوکانیں اور تھوڑی بہت آبادی بھی ہے۔ گرمیوں میں یہاں سیاحوں کا رش ہوتا ہے اور قیام گاہوں اور آرام گاہوں کے کرائے بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔کوہ مکشپوری اور کوہ میرانجانی قریب ہی واقع ہیں۔

1

نتھیا گلی کے لالہ زار پارک میں سندر نامی تیندوا پنجرے میں قید تو ہے لیکن برفانی موسم کا لطف بھی اٹھا رہا ہے۔ تیندوا- بارہ دسمبر کو پاکستان کے شمالی علاقے گلیات کے پہاڑوں پر پڑنے والی معمولی برف باری نے سرد موسم کی شدت میں اضافہ کردیا تھا۔ ایسے میں نتھیاگلی کے لالہ زار پارک میں ایک پنجرے میں بند برفانی تیندوا بھی برفباری کا لطف اٹھا رہا تھا۔تیندوابرفانی تیندوا جس کو سندر کا نام دیا گیا ہے اپنے رکھوالے سردار امانت کے اشارے سمجھتا ہے۔ رکھوالا جب پنجرے کے ساتھ دوڑتا تو وہ بھی اس کے ساتھ ہی دوڑ پڑتا۔تیندواسردار امانت نے بتایا کہ سندر ان کے پاس گزشتہ چھ سال سے ہے۔ جب یہ ان کے پاس لایا گیا تو اس کی عمرچھ ماہ کے لگ بھگ تھی۔گلیات-سردار امانت نے بتایا کہ ہر سال جب گلیات میں برفباری سے راستے بند ہونے کا وقت قریب آتا ہے تو وہ سندر کو ایبٹ آباد کے جنگلی حیات کے دفتر میں منتقل کردیتے ہیں اور پھر مارچ کو اس کو واپس لے آتے ہیں۔

2

 انھوں نے کہا کہ اب برفباری شروع ہوچکی ہے اس لیے اس کو منتقل کرنا ناگزیر ہے کیونکہ بعد میں راستے بند ہونے کی وجہ سے اس کو خوراک اور پانی فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ٹریپ پنجرہ سندر کو منتقل کرنے کے لیے اس کے ٹریپ پنجرے میں خوراک کا انتظام کیا جاتا ہے اور جب وہ بھوکا ہو تو ٹریپ ہو ہی جاتا ہے۔ٹریپ پنجرہ-اس کوشش میں کئی گھنٹے لگ گئے، جب بھی سندر ٹریپ پنجرے کی طرف آنے لگتا کوئی نہ کوئی سیاح آ جاتا اور سندر بِدک جاتا۔سندر بند کمرے میں رہنے کے بجائے کھلی کھلے پنجرے میں برف میمُشکپوری 2800 میٹر / 9100 فٹ بلند پہاڈی جو نتھیاگلی،پاکستان میں واقع ہے۔ درختوں میں گھری یہ چوٹی سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ اسلام آباد سے 90 کلومیٹر اور نتھیاگلی سے 4 کلومیٹر دور یہ پہاڈی ہندووں کے نزدیک مقدس ہے۔مُشکپوری (مکشپوری) سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے نجات کی جگہ۔

3

 مکش(امن/نجات) + پوری(جگہ)۔ھندو روایات کے مطابق رام کی لنکا جنوبی ہندوستان کے روان کے ساتھ جنگ کے دوران اس کا بھائی لکشمن زخمی ہو جاتا ہے۔ اس کا علاج ایسی جڑی بوٹی سے ہی ممکن تھا جو صرف مُشکپوری پر پائی جاتی تھی۔ چنانچہ ہنومان یعنی بندر دیوتا پورے مُشکپوری پہاڑ کو اٹھا کر جنوبی ہند لے جاتا ہے۔ جہاں وید اس بوٹی کو ڈھونڈ کر کر لکشمن کا علاج کر دیتا ہے اور ہنومان پہاڑ کو واپس لے آتا ہے۔ اس لیے یہ پہاڑ ھندوؤں کے نزدیک مقدس ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو پاکستان آئے تھے اور اس پہاڑ کی خاطر نتھیاگلی گئے تھے۔ اکثر بھارتی وفد اس پہاڑ کی خاطر نتھیاگلی ٹہرے ہیں اور انھیں نے وہاں تحفتا بندر بھی چھوڑے ہیں ہ ایک خوبصورت تو ہماتی کہانی تو ہو سکتی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ مُشکپوری خوبصورت اور سرسبز پہاڑ ہے انسان وہاں پہنچ کر سکوں اور راحت محسوس کرتا ہے۔ اس کی چوٹی پر جگہ بھی زیادہ ہے اور وہاں کا منظر انتہائی دلکش ہے اس لیے ہزاروں سال سے انسان اسے پسند کرتا آیا ہے اور پنڈت اور مزہبی لوگ ہمیشہ اونچی جگہوں کو پسند کرتے ہیں۔ پنڈت علاج معالجہ بھی کرتے تھے

4

 ا


ور ایسی جگہوں پر ہمیشہ فائدہ مند جڑی بوٹیوں کو بھی اگاتے تھے جیسا کہ ٹلہ جوگیاں پر بھی رواج تھا۔ بیماروں کو شفا تو مل گئی مگر اس طرح کی مزہبی کہانیاں بھی وجود میں آئيں اور مزہبی کہانیوں کی تفتیش کرنا ہر مذہب میں ویسے بھی بڑا رسک ہے۔15 فروری سے 15 ستمبر مُشکپوری سیر کے لیے بہترین ہے۔ 15 مارچ تک اس پر برف ہوتی ہے۔ یورپی یونین نے اس پہاڑ پر جنگلی پرندوں کے تحفظ اور افزآئش نسل کے لیے ایک مخصوص جگہ پر باڑ اور اس کے اندر پرندوں کے گھر بنائے ہیں۔ نتھیاگلی سے مُشکپوری چوٹی تک قریبا 2 گھنٹے لگتے ہیں۔ راستہ درختوں ميں گرا ہوا ہے اور خوبصورت ہے آہستہ آہستہ اوپر بلند ہوتا ہے۔ چوٹی کی طرف سے ڈونگا گلی کی طرف محض آدھے گھنٹے میں اتر سکتے ہیں لیکن ادھر سے اترائی اور چڑھائی دونوں مشکل ہیں۔ مُشکپوری کی برف اور چشموں کے پانی کو ڈونگا گلی میں ایک بہت بڑے ٹینک میں محفوظ کیا جاتا ہے اور پھر اس پانی کو پائپ کے ذریعے مری پہنچایا جاتا ہے۔اگر سیاح کے پاس خیمہ ہو تو مُشکپوری کے اوپر ایک خوبصورت رات گزاری جا سکتی ہے۔ آلودگی سے پاک ہونے کی وجہ سے مُشکپوری کے اوپر آسمان انتہائی صاف ہوتا ہے۔ ستارے بالکل قریب دکھائی دیتے ہیں۔ مری بہت نیچے محسوس ہوتی ہے اور دور اسلام آباد اپنی لکیر دار پیلی روشنیوں میں کھویا نظر آتا ہے۔ مُشکپوری پہ صبح زندگی کا خوشگوار ترین تجربہ ہے۔مُشکپوری کے اوپر درختوں، بیلوں، پھولوں، جھاڑیوں، پرندوں، جانوروں اورکیڑے مکوڑوں کی کئی قسمیں پائی جاتی ہیں

بیکانیر کی کوئل -ریشماں

 

محض بارہ برس کی معصوم بہن دیکھ رہی تھی کہ اس کے بھائ کا جہاں بھی رشتہ ہوتا ہے کسی ناکسی بہانے سے ختم ہو جاتا ہے پہلے تو وہ دل گرفتہ ہوئ پھر اس نے منت مانی کہ وہ حضرت لال شہباز قلندر کے مزار پر منقبت گائے گی -اب بھلا اللہ میاں اس معصوم بہن کی خواہش کو پورا کیوں ناکرتا چنانچہ بھائکی شادی خیرو خوبی سے انجام پائ اور ریشماں کراچی سے سفر کر کے حضرت لال شہبازقلندر کے مزار پر پہنچی مزار پر اس کی تقدیر کا تالہ کھولنے کے لئے ریڈیو کے ایک پروڈیوسر سلیم گیلانی بھی آئے ہوئے تھے 'گوہر شناس جوہری نے ہیرے کو پہچان لیا جب انہوں نے ننھی ریشماں کو گاتے ہوئے سنا، اور اس طرح بارہ سال کی عمر میں ریشماں کو ریڈیو پاکستان پر آواز کا جادو جگانے کا موقع ملا۔ گلِ صحرائی اور لمبی جدائی، معروف لوک گلوکارہ ریشماں راجستھان میں پیدا ہو ئ برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہوگیا، خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھنے والی ریشماں نے کم عمری میں ہی صوفیانہ کلام گانا شروع کر دیا۔ ریشماں نے کلاسیکی موسیقی کی کوئی تربیت حاصل نہیں کی،1960ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کی بنیاد رکھی گئی تو ریشماں نے ٹی وی کیلئے گانا شروع کر دیا، انہوں نے پاکستانی فلموں کیلئے متعدد گیت گائے اور خوب شہرت سمیٹی، ریشماں کی مقبولیت سرحد پار بھی پہنچی اور بالی ووڈ میں یہ سحر انگیز آواز گونجی۔ معروف فوک گلوکارہ کے مشہور گیتوں میں ’’سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی کُوک‘‘، ’’وے میں چوری چوری‘‘، ’’اکھیاں نوں رین دے اکھیاں دے کول کول‘‘، ’’ہائے ربا نیئوں لگدا دِل میرا‘‘، ’’عاشقاں دی گلی وچ مقام دے گیا‘‘ شامل ہیں۔ریشماں کو ستارہ امتیازاور لیجنڈز آف پاکستان کے اعزاز سے بھی نوازا گیاریشماں نے گائیکی کی کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی عمر بارہ برس تھی جب ریڈیو کے ایک پروڈیوسر سلیم گیلانی نے شہباز قلندر کے مزار پر انہیں گاتے ہوئے سنا اور انہیں ریڈیو پر گانے کا موقع دیا۔ اس وقت انہوں نے ’لال میری‘ گیت گایا جو بہت مشہور ہوا۔ سلیم گیلانی بعد ازاں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل بھی بنے۔دھیرے دھیرے ریشماں پاکستان کی مقبول ترین فوک سنگر بن گیئں۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کی بنیاد رکھی گئی تو ریشماں نے ٹی وی کے لیے بھی گانا شروع کر دیا۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی متعدد گیت گائے۔ ان کی آواز سرحد پار بھی سنی جانے لگی۔ معروف بھارتی ہدایت کار سبھاش گھئی نے ان کی آواز اپنی ایک فلم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں ریشماں نے ان کی فلم ’ہیرو‘ کے لیے ’لمبی جدائی‘ گایا جو آج بھی سرحد کے دونوں جانب انتہائی مقبول ہے۔ 1983ء کی اس فلم کو آج بھی ریشماں کے اس گانے کی وجہ سے ہی جانا جاتا ہے۔ ریشماں کے کچھ دیگر مقبول گیتوں میں’سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی کُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا‘، ’وے میں چوری چوری‘، ’دما دم مست قلندر‘، ’انکھیاں نوں رین دے انکھیاں دے کول کول‘ اور ’ہائے ربا نیئوں لگدا دِل میرا‘ شامل ہیں۔انہیں پاکستان میں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ انہیں ستارہ امیتاز اور ’لیجنڈز آف پاکستان کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ ’ گزشتہ دہائیوں میں ان سے ملاقات اور ان کے گانے سننے کو یاد کر رہی ہوں۔ ان کی آواز پُردرد تھی اور درد ہی گیت بن گیا۔یہ الفاظ ایک بھارتی فنکار کے ہیں ‘‘ ۔ ان کا تعلق راجستھان کے علاقے بیکانیر سے تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہو گیا تھا۔ انہوں نے سوگواروں میں بیٹا عمیر اور بیٹی خدیجہ چھوڑی ہے۔ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں اُنہوں نے اپنے اس بیٹے کا نام ’ساون‘ بتایا تھا ا ور کہا تھا کہ وہ اُسے اس لیے ساون کہتی تھیں کیونکہ وہ ساون کے مہینے میں پیدا ہوا تھامعروف فوک گلوکارہ ریشماں کو مداحوں سے بچھڑے 12 برس بیت گئے،

جمعہ، 28 نومبر، 2025

ریاض الرحمان ساغر ٍ-سُروں کے بادشاہ

 

شاعر ریاض الرحمان ساغر یکم دسمبر، 1941ء کو مولوی محمد عظیم اور صدیقاں بی بی کے ہاں بھٹنڈہ، ریاست پٹیالہ، صوبہ پنجاب   میں پیدا ہوئے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت ان کے خاندان نے پاکستان کی طرف ہجرت کی، راستے میں قافلے پر شرپسندوں کے حملے کے دوران ان کے والد جاں بحق ہو گئے۔ مزید یہ ان کا دو سال کا چھوٹا بھائی بھی دورانِ سفر بھوک اور پیاس کی وجہ سے انتقال کر گیا۔ ریاض الرحمان اور ان کی والدہ لٹے پٹے قافلے کے ہمراہ والٹن کیمپ میں پہنچے، یہاں سے ملتان چلے گئے۔ ریاض الرحمان کی والدہ نے محنت مشقت کر کے اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائی۔ انھوں نے ملت ہائی اسکول ملتان سے میٹرک اور ایمرسن کالج سے بی اے کیا۔ ریاض الرحمان نے نویں کلاس میں ایک انگلش نظم کا بہترین اردو ترجمہ کیا تو ان کے ٹیچر ساغر علی نے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کی بہت تعریف کی اور پوری کلاس کے سامنے بھرپور حوصلہ افزائی کی۔


اپنے استاد کی جانب  یہ حوصلہ افزائ ریاض الرحمان کو اتنی اچھی لگی کہ انہوں نے اپنا تخلص اپنے استاد کے نام سے منسوب کر لیا -اور اسی دور میں استاد شعرأ کے کلام کا مطالعہ بھی شروع کر دیا۔ یوں کالج پہنچنے تک ساغر کو قدیم و جدید شعرأ کے سینکڑوں اشعار زبانی یاد ہو چکے تھے۔ ایمرسن کالج ملتان میں سیکنڈ ائیر میں طالب علموں کو جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری سنانے پر کالج سے نکال دیا گیا جن میں ریاض الرحمان بھی شامل تھے۔ 1956ء میں لاہور آ کر  فیض صاحب سے ملاقات کی اور انھیں اپنا احوال زندگی گوش گزار کیا، چنانچہ فیض صاحب نےشفقت فرماتے ہوئے نوکری پر رکھ لیا، لیکن کچھ عرصہ بعد روزنامہ نوائے وقت میں روزگار کا سلسلہ شروع ہو گیا جو آخری دم تک جاری رہا۔اسی دوران فلمی دنیا سے وابستگی ہوئ-اور اس طرح معروف شاعر اور نغمہ نگار قتیل شفائی کے ساتھ ان کی دوستی ہو گئی جنھوں نے ریاض الرحمان کا بھرپور ساتھ دیا۔ فلم 'شریک حیات' کے لیے لکھا ہوا نغمہ 'میرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے' ریاض الرحمان کے لیے کامیابی کا زینہ ثابت ہوا۔

 اس کے بعد فلم 'سماج' کے نغمے 'چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں دنیا کے رسم و رواج توڑ دیں' نے ریاض الرحمان کے لیے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ریاض الرحمٰن ساغر نے فلم، ریڈیو پاکستان، ٹی وی کے لیے تین ہزار کے قریب نغمے تخلیق کیے جنہیں مہدی حسن، نورجہاں، عدنان سمیع، احمد رشدی، مالا، مسعود رانا، استاد نصرت فتح علی خان، حامد علی خاں، اے نیئر، وارث بیگ، انور رفیع، رونالیلیٰ، حمیرا ارشد، حمیرا چنا، ناہید اختر، تصور خانم، ثریا خانم، نصیبو لال سمیت دیگر نمایاں گلوکاروں نے گایا۔
ان کے تخلیق کردہ مقبول نغموں میں 'ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو'، 'بھیگا ہوا موسم پیارا'، 'تیری اونچی شان ہے مولا'، 'کبھی تو نظر ملاؤ'، 'بھیگی بھیگی راتوں میں'، 'تیرے سنگ رہنے کی کھائی ہے قسم'، 'چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں'، 'کچھ دیر تو رک جاؤ برسات کے بہانے'، 'دلی لگی میں ایسی دل کو لگی کہ دل کھو گیا'، 'دیکھا جو چہرہ تیرا موسم بھی پیارا لگا'، 'کل شب دیکھا میں نے چاند جھروکے میں'،


 'مینوں یاداں تیریاں آؤندیاں نیں'، 'کسی روز ملو ہمیں شام ڈھلے شامل ہیں۔'ہو سکے تو میرا ایک کام کرو'، 'جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم'، 'ساون کی بھیگی راتوں میں              اعزازات-ریاض الرحمان ساغر کو نیشنل فلم ایوارڈ، پی ٹی وی ایوارڈ، کلچرل گریجویٹ ایوارڈ، نگار ایوارڈ، بولان ایوارڈ سمیت مختلف سماجی اور ثقافتی اداروں کی طرف سے ڈیڑھ سو سے زائد انعامات ملے۔اور وہ اپنی ترقی کا سفر طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئےبطور کہانی کار و مکالمہ نویس ریاض الرحمان ساغر نے 100کے قریب فلمیں لکھیں جن میں 'شمع 'نوکر'، 'سسرال'، 'عورت ایک پہیلی'، 'سرگم'، 'نذرانہ'، 'بھروسا'، 'نکاح'، 'محبتاں سچیاں' جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں-بطور کہانی کار و مکالمہ نویس ریاض الرحمان ساغر نے 100کے قریب فلمیں لکھیں جن میں 'شمع'، 'نوکر'، 'سسرال'، 'عورت ایک پہیلی'، 'سرگم'، 'نذرانہ'، 'بھروسا'، 'نکاح'، 'محبتاں سچیاں' جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں۔
تصانیف-وہ کیا دن تھے (سوانح عمری)
کیمرا، فلم اور دنیا ( سات ملکوں کا سفر نامہ)
لاہور تا بمبئی براستہ دہلی ( بھارت کا سفر نامہ)
سرکاری مہمان خانہ ( جیل یاترا کااحوال)
میں نے جو گیت لکھے (گیت)
چلو چین چلیں (منظوم سفر نامہ)
چاند جھروکے میں (شاعری)
پیارے سارے گیت ہمارے (شاعری)
سر ستارے (شاعری)
آنگن آنگن تارے (بچوں کے گیت)
ریاض الرحمان ساغر کی وفات یکم جون، 2013ء کو لاہورمیں ہوئ ۔ وہ کریم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں

جمعرات، 27 نومبر، 2025

بخارسٹ' ثقافت، فنون اور جدید یورپ کا ایک روشن استعارہ ہے

 

 بخارسٹ، رومانیہ کا دارالحکومت، ملک کے جنوب مشرق میں دریائے ڈیمبویا کے کنارے واقع ہے، اور بلغاریہ کی سرحد سے تقریباً 60 کلومیٹر شمال میں ہے۔ ۔ یہ شہر 1862ء میں رومانیہ کا دار الحکومت بنا اور رومانیہ کے میڈیا، ثقافت اور فن کا مرکز ہے۔ یہاں  مشہور چیزوں میں سے ایک اس کا پیلس آف پارلیمنٹ ہے جو دنیا کی دوسری  وسیع و عریض سرکاری بلڈنگ ہے.. اس کے سامنے  روڈ پر لوگوں کی چہل قدمی، فواروں کا پانی اور لائٹس، آتی جاتی گاڑیاں، اور اطراف میں موجود ریسٹورنٹ اور ان کے باہر بیٹھ کر کھانے کے لئے لگے میز اور کرسیاں جن پر کھانا کھاتے لوگ اس سڑک کو مال روڈ سے زیادہ رونق والا بنا دیتے ہیں.  اس ساری رونق کا مزہ دوبالا  کرنے میں فواروں کی سرخ اور سبز لائٹس کا بھی بہت عمل دخل ہے.  -یورپ کے دل میں دریائے دیمبووتا کے کنارے صدیوں کے نشیب و فراز کا گواہ رومانیہ کا دارالحکومت جہاں ہر گلی، ہرعمارت اور ہرپتھر اپنی کہانی خود سناتا ہے۔ طلسماتی حسن ایسا ہے کہ دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔

تاریخ نے اس شہر کو مشکل دن بھی دکھائے جب عثمانی توپوں کی گھن گرج نے اس کے سکون اور اسکے حسن کو متاثر کیا، روسی و آسٹریائی لشکر اس کے دروازوں سے گزرے اور خوبصورتی کو ماند کیا۔ ایک شہرجو بار بار اجڑا، مگر اسکی باہمت قوم نے ہر بار راکھ سے دوبارہ اسے گل و گلزار بنایا۔انیسویں صدی میں جب رومانیہ نے آزادی میں سانس لینا شروع کیا، تو بخارسٹ نے نئے خواب دیکھنے شروع کیے۔ اس کی سڑکوں پر فرانسیسی طرزِ تعمیر نے قدم رکھا، اس کے چوکوں میں روشنیوں اور موسیقی کا راج ہوا۔ اسے’’مشرق کا پیرس‘‘ کہا جانے لگا’’ ایک ایسا لقب جو اس کی نزاکت، دلکشی اور تہذیب کی جھلک بن گیا‘‘۔بخارسٹ کا شمار اب یورپ کے پرامن اور خوبصورت شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ شہر اپنی تاریخی عمارتوں، دلکش پارکوں، وسیع شاہراہوں اور فنِ تعمیر کی شان سے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ شہر کی فضا پُرسکون، لوگوں کا رویہ دوستانہ اور ماحول سیاحوں کے لیے انتہائی خوشگوار ہے۔ یہاں کے میوزیم، قدیم چرچ، محلات اور کیفے کلچر ہر آنے والے کو ایک یادگار تجربہ فراہم کرتے ہیں۔ بخارسٹ اپنی ثقافت، امن اور خوبصورتی کے باعث دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ایک پرکشش منزل بن چکا ہے۔


بخارسٹ میں ابھرنے کی طاقت بے حد خوبیوں کےساتھ موجود ہے، کمیونسٹ دور کی سختیوں میں بھی یہ شہر سانس لیتا رہا، خواب دیکھتا رہا۔ چاؤشیسکو کے تعمیراتی منصوبوں نے شہر کے چہرے پر وہ عظیم الشان پارلیمنٹ محل تراشا جو آج اس کے جلال کی علامت ہے۔آج یہ شہر رومانیہ کا سیاسی مرکز ہی نہیں بلکہ ثقافت، فنون اور جدید یورپ کا ایک روشن استعارہ ہے۔بخارسٹ میں ’’ پیلس آف دی پارلیمنٹ‘‘ منتخب نمائندوں کی دنیا میں سب سے بڑی عمارت ہے، ایک شاندار طرز تعمیر، رومانیہ کی مضبوط تاریخ کی گواہی دیتی نظر آتی ہے۔نیشنل میوزیم آف رومانیہ، کالیہ وکٹورائی، ریولیوشن اسکوائیر،شہر کا سب سے بڑا ہیرسترو پارک، شام کو فوڈ پوائنٹس اور موسیقی سے جگمگاتا علاقہ اولڈ ٹاون اور رومانیہ کی فتوحات کی علامت آرک دی ٹریومف Ack the Triomphe سمیت درجنوں عمارتیں، پارکس، ہوٹلز، آرٹ گیلریاں اور موسیقی کے مرکز بخارسٹ کو دنیا کے بیشتر شہروں سے ممتاز بناتے ہیں۔


بخارسٹ ثقافت، موسیقی، تھیٹر اور آرٹ کا گہوارہ ہے۔ یہاں کا نیشنل تھیٹر اور بے شمار آرٹ گیلریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ شہر فنونِ لطیفہ سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔ہر سال یہاں جارج اینیسکو میوزک فیسٹیول منایا جاتا ہے جو دنیا بھر کے موسیقاروں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔بخارسٹ وہ شہر ہے جہاں ہوا میں نغمے گھلتے ہیں اور روشنیوں میں خواب جگمگاتے ہیں۔ اس کی گلیاں ایسے لگتی ہیں جیسے کسی مصور نے رنگوں سے دعا مانگی ہو۔ یہاں کی عمارتیں ماضی کی داستانیں سناتی ہیں۔ بخارسٹ ایک ایسا شہر ہے جس نے ماضی کی عظمت اور حال کی جدت کو قرینے سے سنبھال رکھا ہے۔رومانیہ کی حکومت کی شاندار پالیسیوں اور دنیا بھر میں شاندار سفارتکاری کے باعث بخارسٹ بڑی تیزی سے دنیا کی توجہ حاصل کررہا ہے۔بخارسٹ سے رومانیہ کے کچھ مشہور مقامات تک اس ماہر گائیڈڈ ٹور کے ذریعہ ایک علم افزا پورے دن کے سفر کا آغاز کریں۔ اپنی مہم کا آغاز بخارسٹ سے شمال کی طرف بڑھتے ہوئے کریں، کارپیتھین پہاڑوں کی گھاس پھوس اور سرسبز جنگلات سے گزرتے ہوئے۔ یہ دلکش سفر قدرتی خوبصورتی کی وادیوں اور چوٹیوں کے ہر لمحہ بدلتے مناظر فراہم کرتا ہے۔
 

کنوارے درخت کو اپنی دلہن چاہئے

 


سننے میں آیا تھا کہ کسی دھرم کے لوگ اپنی  لڑکیوں کی شادی پہلے درختوں سے کرتے ہیں پھر  لڑکوں سے کرتے ہیں لیکن کیو گارڈن کے  اس  درخت  کے بارے میں سن کر یقین آگیا کہ درخت واقعئ شادی کرتے ہیں جیسےبرطانیہ کے مشہورِ زمانہ ''رائل بوٹینیکل گارڈنز'' المعروف ''کیو گارڈنز'' کے ایک گوشے میں بظاہر معمولی دکھائی دینے والا ایک درخت لگا ہوا ہے مگر اس کی داستان کسی دکھی انسان سے بھی زیادہ افسردہ کرنے والی ہے۔پام ٹری کی ایک نوع ''اینسیفالارٹوس ووڈیائی'' (Encephalartos woodii) سے تعلق رکھنے والا یہ درخت، پوری دنیا میں اپنی قسم کا اکیلا اور آخری پودا باقی رہ گیا ہے جو پچھلے سو سال سے کیو گارڈنز میں موجود ہے۔اعلی نسل کے پودوں میں نر اور مادہ پودے الگ الگ ہوتے ہیں اور مذکورہ پام ٹری اپنی قسم کا ''نر درخت'' ہے جسے اپنی نسل درست طور پر آگے بڑھانے کےلیے اپنی ہی نوع کے ایک ''مادہ درخت'' کی ضرورت ہے جس کی تلاش پچھلے 100 سال سے جاری ہے لیکن اب تک ماہرین کو اس میں کوئی کامیابی نہیں ہوسکی ہے۔


اسے 1895 میں برطانوی ماہرِ نباتیات جون میڈلے ووڈ نے جنوبی افریقہ کے علاقے زولولینڈ میں ایک پہاڑی مقام سے دریافت کیا تھا۔ اپنے عجیب و غریب تنے اور چھتری کے محراب نما پھیلاؤ کی وجہ سے یہ درخت سب سے الگ اور منفرد نظر آرہا تھا۔ جون میڈلے نے اس درخت کے تنے کا کچھ حصہ کاٹ کر برطانیہ بھجوا دیا جسے کیو گارڈن میں بطور قلم لگایا گیا جو کچھ عرصے بعد ہی تناور درخت میں تبدیل ہوگئی۔ماہرین پر انکشاف ہوا کہ یہ ''نر درخت'' ہے جسے اپنی نسل بڑھانے کےلیے ''اصل مادہ'' کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ 125 سال کے دوران جنوبی افریقہ میں لگا ہوا درخت بھی موسم کی نذر ہوگیا جس کے بعد اب صرف یہی ایک نمونہ باقی رہ گیا ہے۔خوش قسمتی سے انسانوں کے برعکس، بعض پودوں اور درختوں کی قدرتی عمر سیکڑوں اور ہزاروں سال میں ہوتی ہے۔ یہ پام ٹری بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ اگرچہ اب تک مختلف تکنیکوں سے اس درخت کے ''بچے'' ضرور تیار کیے گئے ہیں لیکن وہ اصل درخت سے بڑی حد تک مختلف ہیں۔ ''حقیقی بچوں'' کےلیے ضروری ہے کہ نر درخت کے قریب، اسی نوع کی مادہ درخت موجود ہو؛ جو ابھی تک نہیں مل سکی۔یعنی جب تک اس درخت کی ''دلہن'' نہیں مل جاتی، یہ دنیا کا سب سے اکیلا پودا ہی رہے گا۔


سرخی مائل لکڑی کا درخت دنیا کے بہت سے نباتاتی باغوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ دنیا کے لمبے ترین      درختوں میں سے ایک ہےدرخت ہے جو اوپر جا کر کئی شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ان شاخوں پر پتے، پھول اور پھل لگتے ہیں۔ کچھ ماہرین ایک درخت کے لیے کم سے کم اونچائی بھی ضروری سمجھتے ہیں جو 3 سے 6 میٹر تک ہے۔ درخت زمین پر زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہیں کیونکہ یہ جانوروں کو خوراک فراہم کرتے ہیں، پرندوں کو رہائش فراہم کرتے ہیں اور انسانوں کو پھل فراہم کرتے ہیں۔ درخت زمین پر آکسیجن کا تناسب بگڑنے نہیں دیتے۔ دن کے وقت درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ رات کو یہ عمل الٹ ہو جاتا ہے۔ دنیا کے ایک تہائی درخت آرکٹک دائرہ میں واقع ہیں۔ جب سردی کا موسم شمالی نصف کرہ میں ختم ہوتا ہے تو ادھر درختوں پر پتے آ جاتے ہیں اور یکایک لاکھوں درخت آکسیجن پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔


 یہی وجہ ہے کہ بہار کے موسم میں زمین پر آکسیجن کا تناسب قدرے بہتر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ درخت سیلاب سے بچاؤ کرتے ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق درخت ہی ہیں جو لاکھوں سالوں کے عمل کے بعد کوئلہ میں تبدیل ہوئے اور اب توانائی کا وسیلہ ہیں۔ بعض درخت کچھ مذاہب میں مقدس بھی ہوتے ہیں۔ اکثر درخت کسی نہ کسی بیماری کے علاج میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ادویات بنانے کے لیے ان کی چھال، پتے، بیج، پھول اور پھل سب استعمال ہوتے ہیں۔ بعض درختوں کی عمریں بہت لمبی ہوتی ہیں۔ کچھ ایسے درخت اس وقت زمین پر موجود ہیں جن کی عمر تقریباً پانچ ہزار سال ہے۔ مثلاً لبنان میں چیڑ کے درخت۔ ایسے بے شمار درخت جو ہزاروں سال کی عمر رکھتے تھے، انھیں یورپی اقوام نے براعظم امریکا پر قبضہ کے دوران کاٹ کر استعمال کر لیا مگر اب بھی ایسے درخت موجود ہیں جن کی عمر ہزاروں سال ہے


منگل، 25 نومبر، 2025

پاکستانی معیشت کی تنزلی کے اسباب زراعت کی تباہی قسط 3

  

انہوں نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈسٹری چل رہی لیکن ہمارے مسائل بڑھ رہے اور اس کی بنیادی وجہ پیداواری لاگت میں اضافہ ہے۔ ہمیں بجلی کا یونٹ 42 روپے کا مل رہا ہے جبکہ ہم آریل این جی استعمال کررہے جس کے نرخ ساڑھے 7 ڈالر سے 14 ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ دوسری طرف بجلی اور گیس کے نرخ 30 سے 40 فیصد تک بڑھنے سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی کے مطابق شرحِ سود ساڑھے 19 فیصد ہے لیکن اسے سنگل ڈیجٹ میں ہونا چاہیے، اس کے علاوہ ایف بی آر کے ساتھ ہمارے ریفنڈ کے مسائل بھی موجود ہیں۔طارق طیب کہتے ہیں کہ اس سے یقینی طور پرجہاں پاکستان کی برآمدات متاثر ہورہی ہیں وہی پر ڈیڑھ سے 2 لاکھ کے قریب مزدور طبقہ بھی بیروزگار ہوا ہے اور حکومت کو اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔


آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین رضوان اشرف کہتے ہیں کہ انرجی اور خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل کے شعبے کو مسائل کا سامنا ہے اور گزشتہ سال جب درآمدت پر بڑے پیمانے پر پابندی لگائی گئی تو اس سے زرِمبادلہ میں کمی آئی جس کے باعث بینکوں کی جانب سے ایل سی نہیں کھولی جارہی تھیں جس کے سبب ہمیں باہر سے خام مال منگوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں استعمال ہونے والے بہت سے کیمیکل باہر سے منگوانے پڑتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ کپاس کی پیدوار میں بھی کچھ کمی واقع ہوئی۔ اس سیکٹر کو بہتر کیا جاسکتا ہے 



لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سیکٹر کو 9 سینٹ کا ٹیرف بحال کیا جائے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے ٹیکسز بھی لگائے ہیں جن کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں اس سیکٹر کو بہت قریب سے دیکھنا ہوگا کیونکہ اس سیکٹر کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جو اب ختم ہوتا جارہا ہے۔پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے میں بحران کی وجوہات2006 کے بعد جب پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو بین الاقوامی برانڈز اور ان کے نمائندوں نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر پاکستان کے دورے ملتوی کرنا شروع کردیے۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف شہریوں کے محفوظ کام کی جگہوں تک رسائی کو متاثر کیا بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوئے۔




گزشتہ برسوں میں آنے والے سیلابوں نے پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں کپاس کے کھیتوں کو تباہ کردیا ہے، جس کے نتیجے میں خام مال کی قلت پیدا ہوئی۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی ملبوسات اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں سپلائی چین میں خلل پیدا ہوا اور کپاس کی کمی کو مناسب طریقے سے پورا نہ کیا جاسکا اور اب ٹیکسٹائل کے لیے بیرون ملک سے کپاس درآمد کی جاتی ہے۔اسی طرح آئے روز کے سیاسی عدم استحکام اور اس سے افراط زر میں ہونے والے اضافے کے سبب پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے اس صنعت کا منافع کم ہوجاتا ہے اور ٹیکسٹائل ملوں کو بند کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال میں ایک مستحکم حکومت کا قیام اور پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کا یہ اہم شعبہ تنزلی کی بجائے ترقی  کرتارہے




اتوار، 23 نومبر، 2025

پاکستانی معیشت کی تنزلی کے اسباب زراعت کی تباہی پارٹ'2'

 

 

پاکستان: کپاس کی پیداوار تین دہائیوں میں سب سے کم سطح پرایک کسان کے بیٹے  نے بتایا کہ  ملتان میں واقع کپاس کی تحقیقات کے بڑے ادارے سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ملازمین نے تنخواہوں اور مراعات کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ڈاکٹر یوسف ظفر نے سوال اٹھایا کہ ملازمین کو تنخواہیں اور مراعات دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو ریسرچ کیسے ہو سکتی ہے، جس کے لیے بڑے فنڈز چاہیے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ حکومت نے سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ پر کپاس کی ریسرچ کے لیے تین ارب روپے کا انڈوومنٹ فنڈ قائم کرنے کی منظوری دے دی تھی، جو ابھی تک سرد خانے میں پڑی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکسٹائل ملز مالکان کپاس کی ریسرچ کی غرض سے عائد 50 روپے فی گانٹھ کی مد میں ادائیگیوں سے گریز کرتے ہیں، جو ریسرچ کے راستے میں دوسری بڑی رکاوٹ ہے۔حل کیا ہے؟  اس وقت  پاکستان کے  بڑے زمینداروں کا خیال ہے کہ  پاکستان میں کپاس کی فصل کو دوبارہ سے نفع آور بنانا ممکن نہیں ہے۔کیونکہ گنا اس وقت کی ڈیمانڈ ہے جس کے مالک پاکستان کے مالک ہیں 


انہوں نے دلیل دی: ’پاکستان کی حکومت چاہتی ہی نہیں کہ زمیندار دوبارہ سے کپاس کی طرف جائے۔‘تاہم ان کے برعکس ڈاکٹر یوسف ظفر کا کہنا ہے کہ ریسرچ پر توجہ دے کر کپاس کی فصل کو پاکستان میں واپس لایا جا سکتا ہے اور سرتاج عزیز رپورٹ پر عمل کر کے حکومت اس مردہ گھوڑے میں جان ڈال سکتی   ہے -سرتاج عزیز رپورٹ پر عمل کر کے حکومت اس مردہ گھوڑے میں جان ڈال سکتی ہے۔دوسری جانب ڈاکٹر جسومل   کا کہنا تھا کہ سینٹرل کاٹن کمیٹی کو فعال بنا کر بھی کپاس کی صورت حال میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کاٹن کمیٹی کے تحت ہی کپاس کی ریسرچ، مارکیٹنگ اور دوسری فیلڈز میں کوششوں کو تیز اور موثر بنایا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام کا کہنا ہے کہ زراعت موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور اس شعبے کے فروغ اور ترقی کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں۔


6انہوں نے کہا کہ کپاس کی ریسرچ کے لیے انڈوومنٹ فنڈ قائم کرنے کے سلسلے میں کام ہو رہا ہے جس کی تکمیل پر اس شعبے میں تحقیقات شروع ہو جائیں گی                                        2020 کے دوران پاکستان کے ٹیکسٹائل کے شعبے کو ایک بار پھر روپے کی قدر میں کمی، پیداواری لاگت میں اضافہ اور عالمی منڈی میں مقابلہ بازی کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس انڈسٹری کی مشکلا ت میں مزید اضافہ ہوا۔کورونا وائرس کی اس وبا نے عالمی سطح پر سپلائی چین کو متاثر کیا جس کی زد میں دیگر شعبوں کے ساتھ یہ انڈسٹری بھی آئی،


7 تاہم اس کے خاتمے کے بعد مالی سال 22-2021 میں اس شعبے نے بہت اچھی پرفارمنس دکھائی۔2022 سے پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام کی فضا نے اس شعبے کے 2022 سے پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام کی فضا نے اس شعبے کے مسائل میں کچھ اضافہ کیا جس حوالے سے پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے ایڈیشنل سیکرٹری طارق طیب کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری مسائل شکار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جولائی میں ہماری برآمدات میں 3 فیصد کمی واقعی ہوئی ہے۔ اس وقت یہ انڈسٹری اپنی گنجائش 40 فیصد کم پر چل رہی ہے تاہم یہاں پر یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہم 40 سے 50 فیصد کم کیپسٹی پر چل رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انڈسٹری میں 40 سے 50 فیصد ملیں بند کردی گئیں بلکہ اس کے کچھ یونٹ اخراجات بڑھنے کی وجہ سے بند کیے گئے ہیں۔

پاکستانی معیشت کی تنزلی کے اسباب زراعت کی تباہی

''جب حضرت بختیار کا کی'' کو حضرت خضرع کا دست شفقت میسر آیا

 

    ۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی پیدائش 1187ء موافق 582ھ قصبہ اوش کرغیستان میں ہوئی، آپ کا لقب قطب الدین، قطب الاقطاب اور کاکی عرفیت ہے، کاکی کے معنیٰ روٹی کے آتے ہیں، آپ کا نسب پدری حضرت امام حسین ابن علی مرتضیٰ سے ملتا ہے، جب آپ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ نے اپنے پڑوسی بزرگ سے کہا کہ میرے بچے کو کسی اچھے معلم کے سپرد کر دیں تاکہ یہ کچھ علم دین حاصل کر لے، وہ بزرگ اس بچے کو لے کر چلے ہی تھے کہ راستے میں ایک صوفی سے ملاقات ہوئی، بزرگ نے ان سے بچے کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھے خاندان کا بچہ ہے مگر اس کے والد سید کمال الدین کا انتقال ہو گیا ہے، بیوہ ماں نے مجھے بلا کر کہا کہ اس کو کسی اچھے مکتب میں داخل کر دو، بزرگ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم یہ کام میرے سپرد کر دو، میں اس کو ایک ایسے معلم کے حوالے کروں گا جس کے علم کے فیض اور برکت سے یہ بڑا صاحبِ کمال بن جائے گا۔


 

 پڑوسی اس بات کو سن کر بہت ہی خوش ہوا اور بچے کو لے کر اس بزرگ کے ساتھ معلم کے گھر جانے پر راضی ہو گیا۔ یہ دونوں قصبہ اوش کے ایک معلم ابوحفص کے پاس گئے اور خواجہ قطب کو ان کے سپرد کر دیا۔ ساتھ ہی اس بزرگ نے ابو حفص کو ہدایت کی کہ یہ لڑکا اولیاء اللہ میں شمار ہو گا اس لئے اس پر خاص شفقت فرمائیں۔ جب یہ   بزرگ بچے کو چھوڑ کر چلے گئے تو معلم ابو حفص نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کون تھے جو تم کو اس مدرسہ میں لائے تھے؟ خواجہ نے کہا کہ میں ان کو بالکل نہیں جانتا۔ میری والدہ نے تو مجھے اپنے پڑوسی کے سپرد کیا تھا۔ یہ بزرگ راستے میں مل گئے اور مجھے آپ کی خدمت میں لے آئے۔ معلم ابو حفص نے جب یہ دیکھا کہ بچہ اس بزرگ کو نہیں جانتا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بزرگ دراصل حضرت خضر تھے۔معلم کے پاس کسب فیض لینے کے بعدآپ  کم سنی ہی میں بغداد آگئے اور خواجہ معین الدین چشتی سے بیعت کی۔ سترہ برس کی عمر میں خواجہ بزرگ سے خرقہ خلافت پایا۔ کچھ عرصے بعد اپنے پیرو مرشد کی معیت میں ہندوستان تشریف لائے اور دہلی میں قیام فرمایا۔


 

 آپ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے مرشد تھے۔ آپ کی طرف دو کتابیں منسوب کی جاتی ہیں۔ ایک دیوان ہے اور دوسری کتاب فوائد السالکین ہے جو تصوف کے موضوع پر قیمتی سرمایہ ہے۔ جواجہ قطب کو سماع سے رغبت تھی۔ دہلی میں محفل سماع کے دوران شیخ احمد جام کا یہ شعر قوال گارہا تھا کہ کُشتگانِ خنجرِ تسلیم را ہر زماں از غیب جانِ دیگر اَست سن کر وجد طاری ہوا۔ کہا جاتا ہےکہ تین روز اسی وجد میں رہے، آخر 27 نومبر 1235ء مطابق 14 ربیع الاول 633ھ کو انتقال فرماگئے۔ نماز جنازہ سلطان التتمش نے پڑھائی۔ آپ کا مزار دہلی کے علاقہ مہرولی میں واقع ہے۔اہل ِعالم نے یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھاکہ 23سال کی قلیل مدت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ کام یابی نصیب ہوئی کہ کئی لاکھ مربع میل کا علاقہ اسلام کے زیر ِنگیں آگیا۔اس کے بعد خلفائے راشدینؓ،تابعین ،تبع تابعین اوراولیائے عظام ؒنے یہ مشن آگے بڑھایااورانسانی اخلاق کی حقیقی تصویر دُنیا کے سامنے پیش کی۔



 دنیا میں  بہت سے خدا کے بندے ایسے بھی  گزرے ہیں جنہوں نے انسانیت کی رہبری کے لئے اپنے دن اور رات وقف کئے تھے جو اپنے  قصرِ فقیرانہ میں رہ کر ہدایت کا سرچشمہ  بن گئے تھے اور جنہوں نے مذہبِ اسلام کی سچائی اور آوازحق پر کان  دھرے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے  بامراد ہو کر بندگان خدا کی دعائیں  اپنے ساتھ لے گئے۔،مخلص اور ہدایت یافتہ پیروانِ اسلام اپنے پیش رَو بزرگوں کے نقش ِقدم پر چلتے رہے اوران کی ہمّت و استقلال میں ذرّہ برابر بھی فرق نہ آیا ۔ان کی عملی قوّتیں مضمحل نہیں ہوئیں،ان کی دینی سرگرمیوں میں ضعف نہیں آیا اورانہوں نے حق و صداقت کو کبھی فراموش نہیں کیا۔یہی وجہ تھی کہ غیروں نے اُن پر کبھی فتح نہیں پائی ۔ 


پاکستانی معیشت کی تنزلی کے اسباب زراعت کی تباہی'پارٹ'1

 



آج اگر پاکستانی معیشت کی تنزلی کے اسباب پر اگر غور کیا جائے  تو جوسب سے پہلی چیز نظر آتی ہے وہ ہے   زراعت کی تباہی'اس تباہی   کے سبب                            مالیاتی بحران کی وجہ سے عالمی سطح پر طلب اور رسد میں  کمی واقع ہوئی جس کا اثر پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پر بھی پڑا۔ 2010میں بجلی کی قلت اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث اس انڈسٹری کو بحران کا سامنا کرنا پڑا۔گذشتہ خریف میں میری زمینوں پر کپاس کاشت کی گئ اور ہمیں 29 ہزار روپے فی ایکڑ نقصان اٹھانا پڑا، اب مارچ-اپریل کے دوران میں کپاس نہیں اگاؤں گا۔’یہ الفاظ کسی اور کے نہیں بلکہ پاکستان کے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہیں، جو انہوں نے دو روز قبل اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہے۔شاہ محمود قریشی، جن کا شمار ملتان کے بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے، نے کہا کہ مارچ -اپریل میں شروع ہونے والے خریف سیزن کے لیے ان کی زمینوں پر دوسری فصلیں کاشت کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔شاہ محمود قریشی پاکستان میں واحد زمیندار نہیں جو کپاس جیسی نقد آور فصل، جسے دنیا میں سفید سونا (وائٹ گولڈ) بھی کہا جاتا ہے، 


  کپاس  ہماری زرعئ معیشت کا ایک بڑا ستون ہے اور ہم کپاس  کی کاشت    کو پس پشت ڈال رہے ہیں ، بلکہ ہزاروں دوسرے زمیندار بھی اسی طرح کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ملتان ہی سے تعلق رکھنے والے درمیانے درجے کے زمیندار  بھی ان کاشت کاروں میں شامل ہیں جو ہمیشہ اپنی زمینوں پر کپاس کاشت کیا کرتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ انہوں  نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میں اپنے فائدے کو دیکھتے ہوئے کپاس چھوڑ کے گندم، مکئی اور چاول کی طرف جا رہا ہوں، کیونکہ کپاس میں سراسر نقصان ہے اور ایسا میں اکیلا نہیں کر رہا بلکہ دوسرے زمینداروں کی بھی یہی سوچ ہے۔‘پاکستان جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں 15 جنوری تک کپاس کی پیداوار 55 لاکھ گانٹھیں رہیں، جو گذش سالوں میں سب سے کم ہےسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کے دوران کپاس 22 لاکھ ہیکٹرز رقبے پر کاشت کی گئی ہے جو 1982 کے بعد سے کم ترین رقبہ ہے۔کپاس کے زوال کی وجوہات کیا ہیں؟ایک زمانہ تھا جب پاکستان کپاس میں خود کفیل تھا اور سالانہ 25 لاکھ گانٹھیں بیرون ملک بھیجا کرتا تھا،


 لیکن اب صورت حال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ اس سال ٹیکسٹائل ملز اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے 70 سے 80 لاکھ گانٹھیں درآمد کریں گی، جس پر تقریباً تین ارب ڈالر خرچ ہونے کا اندازہ ہے۔پاکستان میں کپاس کی فصل کی زبوں حالی کا اندازہ لگانے کے لیے پنجاب کے ضلع وہاڑی کی اکثر مثال دی جاتی ہے، جہاں دس سال قبل تک کپاس کی پیداوار 16 لاکھ گانٹھیں تھیں، لیکن گذشتہ چند سال سے وہاں سفید سونے کی ایک ڈالی بھی نہیں اگائی جا رہی۔بھارت، جس کی 2005 تک کپاس کی پیداوار 14 ملین گانٹھیں سالانہ تھیں، اب ہر سال ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ کپاس پیدا کر رہا ہے، جبکہ پاکستان ایک عشرہ قبل تک ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں کی پیداوار سے 55 لاکھ تک آ گیا ہے۔ماہرین کپاس کے زوال کی سب سے بڑی وجہ حکومتی عدم توجہی اور غلط پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں، جس کے باعث کاشتکار مکئی، گندم اور چاول کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔خواجہ شعیب کا کہنا تھا کہ گذشتہ دس سالوں کے دوران حکومتوں نے کپاس کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا جس کی وجہ سے آج یہ فصل پاکستان سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔بقول شعیب: ’شاید آئندہ دس سال بعد ہم کہیں گے کہ پاکستان میں کبھی کپاس اگائی جاتی تھی۔


ان کے خیال میں موجودہ اور ماضی قریب کے حکمرانوں نے ملک بھر میں گنے کو غیر ضروری طور پر اہمیت اور مراعات دیں، جو کپاس کے لیے مضر ثابت ہوئیں۔اس سوال کے جواب میں کہ گنے کو اہمیت کیوں دی جا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: ’گذشتہ اور موجودہ حکومتوں میں شامل اہم شخصیات شوگر ملوں کی مالک ہیں، تو انہوں نے دراصل اپنے کاروبار کو فروغ دیا ہے۔‘پاکستان جنرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین ڈاکٹر جسومل ٹی لیمانی کا کہنا ہے کہ کپاس کے کسان کو سب سے بڑا مسئلہ معیاری بیج کی فراہمی ہے، جس کی عدم موجودگی میں روایتی بیج ہی استعمال ہو رہا ہے۔روایتی بیج کے استعمال سے فصل کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ کاشتکار کپاس اگانا چھوڑ دیتا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کپاس کے بیج پر کوئی ریسرچ نہیں ہو رہی جبکہ اس کام کے لیے ادارے موجود ہیں۔پاکستان میں زراعت کے تحقیقی ادارے پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے سابق سربراہ ڈاکٹر یوسف ظفر نے تحقیقات نہ ہونے کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہو ئے کہا کہ ریسرچ کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر