ہفتہ، 29 نومبر، 2025

بیکانیر کی کوئل -ریشماں

 

محض بارہ برس کی معصوم بہن دیکھ رہی تھی کہ اس کے بھائ کا جہاں بھی رشتہ ہوتا ہے کسی ناکسی بہانے سے ختم ہو جاتا ہے پہلے تو وہ دل گرفتہ ہوئ پھر اس نے منت مانی کہ وہ حضرت لال شہباز قلندر کے مزار پر منقبت گائے گی -اب بھلا اللہ میاں اس معصوم بہن کی خواہش کو پورا کیوں ناکرتا چنانچہ بھائکی شادی خیرو خوبی سے انجام پائ اور ریشماں کراچی سے سفر کر کے حضرت لال شہبازقلندر کے مزار پر پہنچی مزار پر اس کی تقدیر کا تالہ کھولنے کے لئے ریڈیو کے ایک پروڈیوسر سلیم گیلانی بھی آئے ہوئے تھے 'گوہر شناس جوہری نے ہیرے کو پہچان لیا جب انہوں نے ننھی ریشماں کو گاتے ہوئے سنا، اور اس طرح بارہ سال کی عمر میں ریشماں کو ریڈیو پاکستان پر آواز کا جادو جگانے کا موقع ملا۔ گلِ صحرائی اور لمبی جدائی، معروف لوک گلوکارہ ریشماں راجستھان میں پیدا ہو ئ برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہوگیا، خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھنے والی ریشماں نے کم عمری میں ہی صوفیانہ کلام گانا شروع کر دیا۔ ریشماں نے کلاسیکی موسیقی کی کوئی تربیت حاصل نہیں کی،1960ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کی بنیاد رکھی گئی تو ریشماں نے ٹی وی کیلئے گانا شروع کر دیا، انہوں نے پاکستانی فلموں کیلئے متعدد گیت گائے اور خوب شہرت سمیٹی، ریشماں کی مقبولیت سرحد پار بھی پہنچی اور بالی ووڈ میں یہ سحر انگیز آواز گونجی۔ معروف فوک گلوکارہ کے مشہور گیتوں میں ’’سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی کُوک‘‘، ’’وے میں چوری چوری‘‘، ’’اکھیاں نوں رین دے اکھیاں دے کول کول‘‘، ’’ہائے ربا نیئوں لگدا دِل میرا‘‘، ’’عاشقاں دی گلی وچ مقام دے گیا‘‘ شامل ہیں۔ریشماں کو ستارہ امتیازاور لیجنڈز آف پاکستان کے اعزاز سے بھی نوازا گیاریشماں نے گائیکی کی کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی عمر بارہ برس تھی جب ریڈیو کے ایک پروڈیوسر سلیم گیلانی نے شہباز قلندر کے مزار پر انہیں گاتے ہوئے سنا اور انہیں ریڈیو پر گانے کا موقع دیا۔ اس وقت انہوں نے ’لال میری‘ گیت گایا جو بہت مشہور ہوا۔ سلیم گیلانی بعد ازاں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل بھی بنے۔دھیرے دھیرے ریشماں پاکستان کی مقبول ترین فوک سنگر بن گیئں۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کی بنیاد رکھی گئی تو ریشماں نے ٹی وی کے لیے بھی گانا شروع کر دیا۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی متعدد گیت گائے۔ ان کی آواز سرحد پار بھی سنی جانے لگی۔ معروف بھارتی ہدایت کار سبھاش گھئی نے ان کی آواز اپنی ایک فلم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں ریشماں نے ان کی فلم ’ہیرو‘ کے لیے ’لمبی جدائی‘ گایا جو آج بھی سرحد کے دونوں جانب انتہائی مقبول ہے۔ 1983ء کی اس فلم کو آج بھی ریشماں کے اس گانے کی وجہ سے ہی جانا جاتا ہے۔ ریشماں کے کچھ دیگر مقبول گیتوں میں’سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی کُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا‘، ’وے میں چوری چوری‘، ’دما دم مست قلندر‘، ’انکھیاں نوں رین دے انکھیاں دے کول کول‘ اور ’ہائے ربا نیئوں لگدا دِل میرا‘ شامل ہیں۔انہیں پاکستان میں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ انہیں ستارہ امیتاز اور ’لیجنڈز آف پاکستان کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ ’ گزشتہ دہائیوں میں ان سے ملاقات اور ان کے گانے سننے کو یاد کر رہی ہوں۔ ان کی آواز پُردرد تھی اور درد ہی گیت بن گیا۔یہ الفاظ ایک بھارتی فنکار کے ہیں ‘‘ ۔ ان کا تعلق راجستھان کے علاقے بیکانیر سے تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہو گیا تھا۔ انہوں نے سوگواروں میں بیٹا عمیر اور بیٹی خدیجہ چھوڑی ہے۔ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں اُنہوں نے اپنے اس بیٹے کا نام ’ساون‘ بتایا تھا ا ور کہا تھا کہ وہ اُسے اس لیے ساون کہتی تھیں کیونکہ وہ ساون کے مہینے میں پیدا ہوا تھامعروف فوک گلوکارہ ریشماں کو مداحوں سے بچھڑے 12 برس بیت گئے،

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر