ہفتہ، 11 اکتوبر، 2025

نوبل انعام کی کہانی

 

نوبل انعام کا بانی الفریڈ نوبل  سویڈن میں پیدا ہوا لیکن اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ روس میں گزارا۔ ڈائنامائٹ الفریڈ نوبل ہی نے ایجاد کیا۔بتایا جاتا  ہے ا س نے تین سو پچاس ایجادات  دنیا کو دی ہیں اس نے شادی بھی اسی لئے نہیں کی کیونکہ وہ اپنی زندگی  میں  دنیا ک کو نت نئ ایجادات دینا چاہتا تھا -لیکن وہ اپنی موت سے بھی غافل نہیں تھا اس نے دیکھا کہ اس کی ایجادات  سے ملنے والاپیسہ  اور ڈائنامائٹ سے کمائی گئی دولت کو دنیا کے فائدے کے لئے کیسے استعمال کر سکتا ہے -اس کی وفات کے  وقت اس کے اکاؤنٹ میں 90 لاکھ ڈالر کی رقم تھی۔اس کی تمام دولت کی رقم 31 ملین سویڈیش کراؤن تھی جو امریکی ڈالر 220ملین کے برابر تھی۔ اسے ابتدائی پانچ انعامات کے لیے مختص کر دیا گیا۔ نوبل پرائز کی بنیاد جب پہلی بار 1901ء میں پڑی تو یہ انعام 4ء1ملین کے ایک چیک‘ ایک طلائی میڈل اور ایک ڈپلوما کے عطایا پر مشتمل تھا۔موت سے قبل الفرڈ نے اپنی وصیت میں لکھ دیا تھا کہ اس کی یہ دولت ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو انعام کے طور پر دی جائے 



جنہوں نے گزشتہ سال کے دوران میں طبیعیات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے میدانوں میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔اس وصیت کے تحت فوراً ایک فنڈ قائم کر دیا گیا جس سے حاصل ہونے والا منافع نوبل انعام کے حق داروں میں تقسیم کیا جانے لگا۔ 1968ء سے نوبل انعام کے شعبوں میں معاشیات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نوبل فنڈ کے بورڈ کے 6 ڈائریکٹر ہیں جو دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں اور ان کا تعلق سویڈن یا ناروے کے علاوہ کسی اور ملک سے نہیں ہو سکتا۔نوبل فنڈ میں ہر سال منافع میں اضافے کے ساتھ ساتھ انعام کی رقم بھی بڑھ رہی ہے۔ 1948ء میں انعام یافتگان کو فی کس 32 ہزار ڈالر ملے تھے، جب کہ 1997ء میں یہی رقم بڑھ کر 10 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔نوبل انعام کی پہلی تقریب الفریڈ کی پانچویں برسی کے دن یعنی 10 دسمبر 1901ء کو منعقد ہوئی تھی۔ تب سے یہ تقریب ہر سال اسی تاریخ کو ہوتی ہے۔سویڈش گورنمنٹ بھی نہیں چاہتی تھی کہ اس کی دولت ملک سے باہر جاۓ لیکن کیا کیا جا سکتا تھا۔ اس نے فزکس ، کیمسٹری ، فزیالوجی یا میڈیسن ، ادب اور امن پر عظیم کام کرنے پر  'نوبل پرائز' دینے کی وصیت کی تھی ایسا عظیم کام جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہو۔



پہلی بار یہ انعام 1901ء میں دیا گیا تھا۔1968 ء میں اکنامکس سائنس  کا نوبل انعام بھی شامل کیا گیا جس کا انتظام سویڈش سنٹرل بینک کرتا ہے۔انعام یافتگان کو صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔  تمام دنیا کے ہزاروں نامزد افراد کو مدعو کیا جاتا ہے یہ افراد یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور  ماضی کے نوبل انعام یافتگان ہوتے ہیں۔یہی  'لا ریٹس ' کو نامزد کرتے ہیں۔یعنی مستقبل کا نوبل انعام حاصل کرنے والوں کو نامزد کرتے ہیں ۔پھر ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے جو تحقیق کر کے اس لمبی چوڑی لسٹ کو شارٹ لسٹ کرتی ہے۔ماہرین سے رائے لی جاتی ہے ،مہینوں اسے کھوجا جاتا ہے،اس کی سچائی کو تولا جاتا ہے۔کام کی افادیت کو جانچا جاتا ہے۔یہ کام نہایت رازداری سے کیا جاتا ہے۔اگلے پچاس سال تک بھی دنیا نومینیز  کے نام نہیں جان سکتی۔سویڈن میں انعامات کی تقریب کے بعد ایک شاندار ضیافت اسٹاک ہوم سٹی ہال کے بلو ہال میں منعقد ہوتی ہے، جس میں سویڈن کا شاہی خاندان اور تقریباً 1,300 مہمان شرکت کرتے ہیں۔نوبل امن انعام کی ضیافت ناروے میں اوسلو کے گرینڈ ہوٹل میں انعامی تقریب کے بعد منعقد کی جاتی ہے۔


 اس ضیافت میں انعام یافتہ شخصیت کے علاوہ دیگر مہمانوں میں نارویجن پارلیمان (اسٹورٹنگ) کے صدر، بعض اوقات سویڈن کے وزیرِ اعظم اور 2006 سے شاہِ ناروے اور ملکہ ناروے بھی شریک ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر تقریباً 250 افراد اس ضیافت میں شریک ہوتے ہیں۔نوبل لیکچرنوبل فاؤنڈیشن کے قواعد کے مطابق، ہر انعام یافتہ شخصیت پر لازم ہے کہ وہ اپنے انعام سے متعلقہ کسی موضوع پر عوامی لیکچر دےنوبل لیکچر، بطورِ ایک بیانیہ صنف، کئی دہائیوں کے دوران اپنی موجودہ شکل تک پہنچا۔یہ لیکچرز عموماً "نوبل ویک" کے دوران منعقد ہوتے ہیں (یعنی وہ ہفتہ جس میں انعامات کی تقریب اور ضیافت ہوتی ہے، جو انعام یافتگان کے اسٹاک ہوم پہنچنے سے شروع ہو کر ضیافت پر اختتام پزیر ہوتا ہے)، تاہم یہ لازمی نہیں ہوتا۔انعام یافتہ کو صرف چھ ماہ کے اندر یہ لیکچر دینا ضروری ہے، مگر بعض اوقات یہ اس مدت کے بعد بھی دیے گئے ہیں۔ مثلاً، امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے 1906 میں امن کا نوبل انعام حاصل کیا، لیکن انھوں نے اپنا لیکچر 1910 میں اپنی صدارت کے بعد دیا۔


  یہ لیکچرز اسی ادارے کے زیرِ انتظام منعقد ہوتے ہیں جس نے انعام یافتہ کا انتخاب کیا اتنی سخت محنت  کے بعد کمیٹی نوبل انعام حاصل کرنے والوں کا اعلان کرتی ہے جو ہر سال اکتوبر کے پہلے ہفتے ہوتا ہے۔لا ریٹس  کو نوبل انعام میں کیا کیا ملتا ہے۔1۔ ایک سونے کا نوبل میڈل جس پر نوبل کی پروفائل پکچر اور مہر چسپاں ہوتی ہے2۔ ایک  نہایت قیمتی اور دلپزیر ڈیزائن کیا ہوا ڈپلومہ جو ہر سال سویڈش اور نارویجن آرٹسٹ تیار کرتے ہیں۔3۔ ایک کیش ایوارڈ ۔آج کل  ہر کیٹاگری پر ایک میلین ڈالر پر مشتمل ہوتا ہے۔ایک سے زیادہ لاریٹس ہوں تو یکساں تقسیم کر دیا جاتا ہےلیکن اصل انعام تو نوبل لاریٹس بننا ہے۔دنیا کا بہترین انسان جو خدمت خلق میں سب سے آگے ہے۔البرٹ آئن سٹائن کو 1921 ء میں فزکس کا نوبل پرائز ملا-میری کیوری ،پہلی خاتون جس نے فزکس اور کیمسٹری کا نوبل انعام پایا۔صرف اس نے دو بار یہ انعام حاصل کیا ابھی تک کسی بھی سائنسدان کو یہ انعام دو بار نہیں ملا۔1964ء میں مارٹن لوتھر کو امن کا نوبل انعام ملا

تحریر و تلخیص انٹرنیٹ کی مدد کے ساتھ

نیروبی میں کیا چیز کشش کا باعث ہے

 



   دریائے نیروبی کے کنارے واقع یہ شہر مشرقی افریقہ کا سب سے بڑا شہر ہے،  یہ  شہر 1907ء میں ممباسا کی جگہ ملک کا دارالحکومت بنااس کی آبادی قریباً 55لاکھ ہے۔ نیروبی اقتصادی و سیاسی لحاظ سے افریقہ کے اہم شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نیروبی شہر کا نام پانی کے تالاب پر رکھا گیا جسے ماسائی زبان میں ایواسو نیروبی یعنی’’سرد پانی‘‘کہا جاتا ہے۔ برطانوی دور میں نیروبی نے بہت ترقی کی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برطانوی  اقوام جہاں بھی گئیں وہاں کی قسمت سنوار کر نکلیں- نیروبی ایک کثیر القومی اور کثیر الثقافتی و مذہبی شہر ہے، جسکی وجہ سلطنت برطانیہ کی نو آبادیات، ہندوستان، صومالیہ اور سوڈان وغیرہ سے یہاں آنے والے افراد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہاں گرجے، مساجد، مندر اور گوردوارے سب ملتے ہیں۔ نیروبی میں اس بات سے کسی کو کوئی غرض نہیں کہ کس کا کیا مذہب ہے؟ کون کس ملک سے آیا ہے؟ کس نے کیا پہن رکھا ہے۔ تمام قومیتوں کے لوگاپنے اپنے دائروں میں رہتے ہیں   اور ہر ایک  دوسرے کا احترام کرتا ہے -شائد یہی بات نیروبی کی ہمہ جہت ترقی کی بنیاد ہے



نیروبی، کمپالا اور ممباسا کے درمیان وادی شق کے مشرقی کناروں پر واقع ہے، اس شہر سے کینیا کے بڑے پہاڑ نظر آتے ہیں جبکہ دریائے نیروبی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ شہر کے مرکز میں کینیا کی مجلس کی عمارات، ہولی فیملی گرجا، نیروبی سٹی ہال، جعفری مسلم سینٹر، جومو کینیاٹا کا مزار اور شہر کے اہم بازار واقع ہیں۔ یہاں کینیا قومی ناٹک گھر، کینیا قومی دستاویزات خانہ، ایم زیزی فنی مرکز اور کینیاٹا بین الاقوامی اجتماعی مرکز بھی واقع ہیں۔ شہر کے دیگر اہم مقامات میں راموما رحمت اللہ عجائب گھر برائے جدید مصوری، آل سینٹس گرجا اور متعدد بازار ہیں۔نیروبی نیشنل پارک میں متنوع جنگلی حیات ہیں اور یہ شیروں، غزالوں، بھینسوں، چیتاوں، گوریلوں، زرافوں اور گینڈے کا گھر ہے۔ یہ پارک پرندوں کے ایک بڑے ذخیرے اور پرندوں کی 400 سے زائد اقسام جیسے شتر مرغ، کرین کریکٹ، عشق فشرز، جیکسن کی بیوہ، عقاب، ہاکس، سفید پیٹ والی کرکٹ، سفید سر والے کرکٹ اور پرندوں کی بہت سی دوسری اقسام کا بھی میزبان ہے۔


  نیروبی کے گرد و نواح میں چائے اور کافی کی فصلیں نظر آتی ہیں۔ یہاں ایواکاڈو اور کیلے کے باغات ہیں۔ نیروبی میں پھل اور سبزیاں آرگینک ملتی ہیں، یہاں کیمیائی کھاد کا تصور ہی نہیں۔ نیروبی کے گرد چراگاہوں میں بھیڑ بکریاں بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں، یہاں چھوٹا گوشت بہت شاندار ملتا ہے، دودھ بھی خالص ملتا ہے۔ نیروبی کا موسم بہت شاندار ہے، نہ وہاں پنکھے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہیٹر کی۔ سارا سال موسم 10 سے 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے، یہاں بارش تقریباً روزانہ ہوتی ہے۔ نیروبی میں سال کے چار پانچ موسم تو نہیں ہوتے البتہ یہاں دو موسموں کا تذکرہ ملتا ہے، لانگ رین اور شارٹ رین یعنی لمبی بارشیں یا پھر مختصر بارشیں۔ انہی بارشوں کے طفیل نیروبی سال بھر سر سبز رہتا ہے۔ اگر یہاں کے انفراسٹرکچر کا جائزہ لیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نیروبی میں انفراسٹرکچر اسلام آباد سے بیس درجے بہتر ہے۔ یہاں خواندگی کی شرح 85 فیصد ہے، یہاں کے لوگ اگرچہ آپس میں سواحلی زبان بولتے ہیں مگر ان کی انگریزی بہت شاندار ہے۔



 نیروبی کا ریلوے اسٹیشن پاکستان کے کئی ہوائی اڈوں سے کہیں بہتر ہے۔ ہمارے ہاں اسلام آباد اور کراچی کے درمیان پانچ چھ فلائٹس چلتی ہیں جبکہ نیروبی اور ممباسا کے درمیان صرف کینین ائر لائن کی روزانہ 28 فلائٹس چلتی ہیں، باقی ائر لائنز کی فلائٹس الگ ہیں۔ نیروبی شہر میں آپ کو دو طرح کے پاکستانی ملیں گے، ایک وہ جو 1894ء میں کینیا ریلوے لائن بچھانے آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے، اب ان کی یہاں پانچویں نسل ہے۔ دوسرے وہ پاکستانی ہیں جو 1970ء کے بعد کینیا آئے۔ نیروبی میں پاکستانیوں کے اڑھائی تین سو بڑی گاڑیوں کے شوروم ہیں۔ اسی طرح گوشت کی پوری مارکیٹ مسلمانوں کے پاس ہے۔ یہاں کے بڑے ہوٹلز اور بڑی عمارتوں کے مالکان کا تعلق زیادہ تر صومالیہ سے ہے۔نیروبی میں سب سے زیادہ پرکشش مقامات میں سے ایک آئیوری برننگ پیلس ہے،  پارک ملی نیروبی بہت سی سفاری سرگرمیاں پیش کرتا ہے جیسے کہ نیچر واک، جنگلی حیات کا نظارہ اور نیچر پکنک۔  سفر کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے، ملی کنیا کے سرفہرست پارکوں میں سے ایک کے طور پر این پارک ملی کا دورہ کریں۔نیروبی کا شمار افریقہ کی بڑی منڈیوں میں ہوتا ہے

جمعہ، 10 اکتوبر، 2025

میں سہاگن بنی مگر- امّا ں غسل خانے سے کپڑے کوٹنے والا ڈنڈا اٹھا لائیں تھیں

 


مجھے یاد ہے منجھلی آ پا ایک بار اپنی سسرال سے آ کر بہت روئیں تھیں اورانہو ں نے کہا تھا امّا ں یہی حالات رہے تو میں فیصلہ لے لو ں گی''امّا ں نے غضب ناک لہجے میں گرج کر کہا'' کیا فیصلہ لے, لے گی تو ؟ تو منجھلی آپا نے کہا تھا میں رفاقت سے خلع لے لوں گی اور امّا ں غسل خانے سے کپڑے کوٹنے والا ڈنڈا اٹھا لائیں تھیں اور انہو ں نے وہ ڈ نڈامنجھلی آپا کے سر پر جو اٹھایا ہم بہنیں چیخنے لگے اور ابّا نے اپنے کمرےسے دوڑتے ہوئے آ کر امّا ں کو پیچھےدھکیلتے ہوئے ان کے ہاتھ سے ڈنڈاچھینا اور کہنے لگے کیا کرتی ہو نیک بخت ،امّاں گرج کر بولیں اس کو میری نظروں سے دور کردو ورنہ آج یہ میرے ہاتھ سے مرجائے گی ،امّا ں جو کبھی  گالیاں نہیں دیتی تھیں ان کے منہ سے منجھلی آپا کے لئے گالیوں کافوّارہ نکلا اور انہو ں نے ابّا سے چیخ کر کہا یہ اپنی بہنوں کی قبر کھودنے چلی ہے میں اسی کو ختم کر کے چھٹّی کروں اورپھر ابّا منجھلی آ پا کو ان کی سسرال چھوڑ آئے تھے پھر منجھلی آ پا ہمارے گھر کئ ہفتے تک نہیں آئیں تھیں


 اور اس کے بعد ہم کو پتا چلا کہ وہ موت کے منہ میں پہچ گئ ہیں مگر امّا ں کا دل نا پسیجا ،میں اس رات کو دیر تک نا جانے کیوں جاگ رہی تھی شائد گھرکے اندر کچھ کچھ نامانوس مسموم ہوا کے چلنے احسا س ہو رہا تھا کہ اتنےمیں مجھے امّاں اور ابّا کی باتیں کو آوازیں سنائ دینے لگیں پہلے ابّا کی کمزور لہجے میں آواز آئ ابّا کہ رہے تھے لگتا ہے منجھلی مر جائے گی تب بھی تمھارے کان پر جوں نہیں رینگے گی تو امّاں نے ابّا کو اپنی رعب دارآواز میں جوابدیا اسلا م الدّین موت زندگی اللہ کے ہاتھ ہے وہ جتنی لائ       ہے اس سے کوئ نہیں چھین سکتا ہےپھر ابّا نے امّاں سے کہا میں منجھلی کے گھر ہوتا آیا ہوں ،اس کی طبیعت بے حد خراب نظر آرہی تھی، بلکل زرد چہرہ ہو رہا ہے اور سوکھ کر کانٹا ہو گئ ہے ابّا کا لہجہ منجھلی آپا کا زکر کرتے ہوئے اور بھی آزردہ ہو گیا ابّا پھر کہنے لگے نیک بخت تم ہمیشہ منجھلی کو ڈانٹ کر چپ کر دیتی ہو کبھی تو اس کی بھی سن لو ، شائد وہ سچ ہی کہتی ہو ،لیکن امّاں خاموش رہیں لیکن جب ابّا نے کہا مجھے لگتا ہے منجھلی سسرال کے دکھ ا ٹھا کر مر جائے گی - تب امّاں کی خاموشی کی مہر ٹوٹی


 ابّا کی بات پر امّاں نے ان کو بھڑک کر جواب دیا ،اسلام الدّین پرائے لوگوں میں جگہ بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے ،وہ اگرمشکل میں بھی ہے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ میں بیٹی کو بلا کر سینے پرمونگ دلنے کو بٹھا لوں ،رہا مرنے اور جینے کا حساب تو جس کی امانت ہے وہ     جانے ،لیکن اللہ ہی نے تو نباہ نا ہونے کی صورت میں علیحد گی کی گنجائش رکھّی   ہے،ابّا نے دھیمے لہجے میں کہا اور میں نے اپنی جاگتی آنکھو ں سے منجھلی آپا کے جنازے کو قبرستان جاتے دیکھا حقیقت یہ تھی کہ میں اپنی منجھلی آپا کی شادی سے خو ف ذدہ ہو گئ  تھی پھر رات کے سکوت میں امّا ں کی آواز مجھ کو سنائ د یا  یاد ہے تمھاری امّاں نے تمھاری چھوٹی بہن نادر ہ کو اس کی سسرال کی مصیبتوں کا رونا سن سن کر کیسے طمطراق سے یہ کہ کر خلع دلوایا تھا کہ ہماری بیٹی کی دو روٹی ہم پر بھاری نہیں یہ خلع نادرہ نے امّاں کے گلے منڈھ کر کہا تھا،،،آ پ میری ماں تھیں ،طلاق لینے میں میری حوصلہ افزائ کرنے کے بجائے مجھے سمجھا بجھا کر سسرال بھیجنا تھا ،یو ن طلاقن بیٹیا ں ماؤں کے کلیجے پر مونگ دلتی ہیں طلاق کے بعد سارے میکے کا جینا حرام کر کے رکھ دیتی ہیں ،یاد تو ہو گا تمھیں،



 ابّا خاموشی سے سنتے رہے اور امّاں نے کہا ،اسلا م الدّین میں تم کو طعنےنہیں دے رہی ہوں بلکہ حقیقت بتا رہی ہو ں ،میرے آگے ابھی تین پہاڑ رکھّےہیں ان کو کھسکاؤں یا بیاہی کو بھی طلاقن بنا دوں انصا ف سے سوچو کہ میں کیا کہ رہی ہوں اور تمھیں یہ بھی یاد ہو گا کہ اس دکھیا کو دوجی سسرال بھی کیسی ملی  پھر اس نے مرتے دم تک طعنے سنے کہ تو طلاقن ہے اس لئے اپنی اوقات میں رہ   کر بات کر وہ تو اللہ نے اس کا پردہ رکھ کر اسے اپنے پاس بلا لیا ورنہ   ساری عمر ہی روتی رہتی بہن تمھاری اسی لئے سیانوں کی کہاوت ہے "دوجے میاں سے پہلامیاں ہی بھلا "تم مرد زات ہو ایسی نزاکتوں کو سمجھ نہیں سکتے ہو جس گھر میں ایک طلاق ہوجاتی ہے اس گھر میں دنیا والے رشتے ناطے کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی یہ لوگ ایسا ہی کریں گے ابھی دل پر صبر کا بھاری پتھّر رکھ کر صبر کر لو اسی میں ہم سب کی بہتری ہے ،،امّاں کی بات کے جواب میں ابّا کی ایک ٹھنڈی سسکاری سی مجھ کو سنائ دی- تم کتنی صحیح با ت کر رہی نیک بخت کہ ہم کو اب باقی کی فکر کرنی چاہئے چہ جائکہ ہم بیاہی بیٹیوں کی الجھنوں میں گرفتاررہیں  


ورامّاں کی باتوں کےجواب میں ابّا نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا فریال کے رشتے کا کیا ہوا تو امّا ں نے ان کو جوابدیا ،ابھی تو بس سلام آیا ہے ،پیام آئے تو ارادے پتا چلیں گے،لیکن تمھارے ماموں کی بیٹی اپنے دیورکے لئے نرگس کا ہاتھ مانگ رہی ہے ،،میں نے تو کانوں کو ہاتھ لگائے ہیں وہ  کون سے اچھّے ہیں ، ظالموں کے نرغے میں ایک منجھلی کو ہی دے کر پچھتا رہی ہوں ، ابّا نے کہا  ہا ں نیک بخت بڑی کو اٹھائے بغیر چھوٹی کو کیسے اٹھا دیں ،نہیں اسلام الدّین بڑی چھوٹی کی کوئ بات نہیں ہے جس کا رشتہ پہلے آئے اسی کو اٹھا ناہے دیکھ نہیں رہے ہو نرگس کیسے ڈھور ڈنگروں کی طرح منہ کو آرہی ہے رشتہ اچھّا ہوتا تو اس کوفریال سے پہلے ہی ر خصت کر دیتی امّاں نے کہا اور میں اندر سے لرز کر رہ گئ اور پھر ماحول میں رات کا سکوت چھا گیا پھر کچھ ثانئے کے بعد امّاں کی آواز آئ ،اسلام الدّ ین تم  بیٹی کی طرف سے اپنا دل میلا نہیں کرنا میں نے اسکو جنم دیا ہے اس کی تکلیف پر میری کوکھ پھڑکتی ہے میں راتوں کو سکون سے سوتی نہیں ہوں مگرمیں کیا کروں ،مجبور ہوں ،تم بے فکر رہو کل میں اس کی سسرال جا کرکچھ اس کے ہاتھ پر چپکےسے دے آؤ  ں  گی  

غیر متوقع بارشیں اور تباہ کن صورتحال

 

   بارش، جو کبھی خوشحالی اور زرخیزی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب تباہی، سیلاب اور انسانی المیوں کی شکل میں نمودار ہو رہی ہے ۔ دنیا کے مختلف خطوں میں معمول سے ہٹ کر ہونے والی شدید بارشیں ایک نئے اور غیر متوقع مظہر کی صورت اختیار کر چکی ہیں، جسے سائنسدان موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بارشوں کے اس بگڑتے ہوئے انداز کا تعلق عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے ہے ؟ اگر ہاں، تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں ؟ماہرین کے مطابق ، زمین کا ماحولیاتی نظام نہایت متوازن اور حساس ہے ۔ جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھتی ہے، تو نہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فضائی نمی میں بھی غیر معمولی تبدیلی آتی ہے ۔نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) کے مطابق، ہر ایک ڈگری سیلسیس درجہ حرارت کے اضافے کے ساتھ فضا میں 7 فیصد زیادہ نمی جذب ہو سکتی ہے، جو مستقبل میں شدید بارشوں اور طوفانی موسم کی شدت کو بڑھا سکتی ہے ۔

 


بین ا لحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ (2023) میں خبردار کیا گیا کہ کہ ہر گزرتے عشرے کے ساتھ دنیا میں بارش کے پیٹرن میں شدت، طوالت اور بے ترتیبی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا، وسطی افریقہ اور لاطینی امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔عالمی موسمیاتی تنظیم کی 2024کی رپورٹ میں بتایاگیا کہ عالمی درجہ حرارت 1.5 ڈگری کے قریب پہنچ چکا ہے، اس وجہ سے بارش کے سائیکل میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے ، کہیں طوفانی بارشیں ہیں تو کہیں مکمل خشک سالی ۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی 2025 رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام اور آئی ایم ایف کی 2024میں کی جانے والی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ غیر متوقع بارشیں ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ہر سال اوسطاً 235 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہیں۔

 


 ان میں زراعت، انفراسٹرکچر اور انسانی جان و مال شامل ہے۔موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئےرواں سال 2025 اور گذشتہ سال 2024 کے چند بڑے واقعات کا ذکر کیا جائے تو رواں برس میں برازیل کے جنوبی علاقہ (ریو گراندے دو سل) مئی میں مسلسل دو ہفتے کی طوفانی بارشوں سے 170 افراد ہلاک اور 6000 سے زائد مکانات تباہ ہوئے جب کہ تقریباً 3.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔چین کے صوبہ ہنان میں جولائی کے آغاز میں آنے والی صرف 5 دن کی بارش نے 12 اضلاع کو ڈبوبا دیا نقصا ن کا اندازہ 2 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا جبکہ 200,000 افراد بے گھر ہوئے ۔سن 2024 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں شدید بارشیں ہوئیں ۔ مارچ تا جون میں ہونے والی غیر متوقع بارشوں اور ژالہ باری سے فصلیں تباہ ہوئیں اورمعاشی نقصان کا تخمینہ تقریباً 180 ارب روپے (تقریباً 630 ملین ڈالر) لگایا گیا ۔جرمنی اور بیلجیم میں دریائے رائن کے کنارے شدید بارشوں سے صنعتی علاقے متاثر ہوئے ۔ نقصان کا اندازہ 1.2 ارب یورو ہے۔

 

سن2025 کے جاری مون سون سیزن کے دوران پاکستان شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، این ڈی ایم اے اور مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق ، اب تک 279 افراد جاں بحق اور 676 زخمی ہو چکے ہیں ۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 151 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جبکہ خیبر پختونخوا میں 64، بلوچستان میں 20، سندھ میں 25، گلگت بلتستان میں 9، اسلام آباد میں 8 اور آزاد کشمیر میں 2 اموات رپورٹ ہوئی ہیں ۔شدید بارشوں نے نہ صرف انسانی جانیں لیں بلکہ 1,500 سے زائد مکانات کو تباہ یا نقصان پہنچایا، 370 کے قریب مویشی ہلاک ہوئے اور کئی اہم انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پل منہدم ہو گئے ۔جولائی کے وسط تک پاکستان میں ہونے والی بارشیں گزشتہ برس 2024 کے مقابلے میں 82 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئیں -اور یہ ساری تباہی اس لئے ہے  کہ ہم درختوں سے اپنے سماج سے محروم کر رہے ہیں۔

 

بدھ، 8 اکتوبر، 2025

جب جابر بن حیان نے سونا بنانا چاہا پارٹـ -1

 


 ·

جابر بن حیان (پیدائش: 721ء— وفات: 25 دسمبر 815ء) مسلم کثیر الجامع شخصیت، جغرافیہ نگار، ماہر طبیعیات، ماہر فلکیات اور منجم تھے تاریخ کے سب  سے پہلے کیمیادان اور عظیم مسلمان سائنس دان جابر بن حیان جنہوں نے سائنسی نظریات کو دینی عقائد کی طرح اپنایا-بابائے کیمیا: جابر بن حیان  جن کو زمانہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگر رشید کے نام سے جانتی ہے -جابر بن حیان  نے امام علیہ السلام کے زیر سایہ   بے شمار کتاہیں تصنیف کیں ، جن سے انسانیت آج بھی فیض یاب ہو رہی ہے۔ جابر بن حیّان 721ء میں ایران کے علاقے، طوس میں پیدا ہوئے۔ اُن کا آبائی پیشہ عطر فروشی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے مختلف تجربات کی مدد سے کئی نئے عطر بھی ایجاد کیے۔



بعدازاں، وہ مدینے سے کوفہ چلے گئے اور وہاں اُنہوں نے کیمیا گری کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لیے اُنہوں نے ایک باقاعدہ تجربہ گاہ بھی قائم کی، جس میں وہ ہمہ وقت مختلف کیمیائی دھاتوں پر تجربات میں مصروف رہتے۔جابر بن حیّان کے دَور میں کیمیا گری ”مہوسی“ (پارے، تانبے یا چاندی جیسی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنےکا علم) تک محدود تھی۔ گرچہ ابتدا میں انہوں نے بھی ان ہی تجربات پر توجّہ مرکوز رکھی، لیکن پھر کیمیا گری کو ایک باقاعدہ علم کے طور پر متعارف کروایا۔ جب جابر بن حیّان کی شُہرت بغداد پہنچی، تو اُنہیں وہاں طلب کر لیا گیا۔ وہاں انہیں سرکاری پزیرائی ملی، تو انہوں نے اس میدان میں ترقّی و استحکام حاصل کیا۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ ’’کیمیا میں سب سے ضروری شے تجربہ ہے۔‘



‘جابر بن حیّان نے اپنے تجربات سے ثابت کیا کہ تمام دھاتیں گندھک اور پارے سے مل کر بنی ہیں۔ نیز، وہ اپنے ہم عصر کیمیا دانوں کی طرح اس نظریے کے بھی حامی تھے کہ عام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ چُناں چہ اُنہوں نے جو تجربات کیے، اُنہیں قلم بند کرتے رہے اور تجربات میں حد درجہ دِل چسپی کی وجہ سے سونے کی طلب کی جگہ علم کیمیا کا حصول اُن کی زندگی کا مطمحِ نظر بن گیا۔ جابر بن حیّان کا سب سے بڑا کارنامہ تیزاب کی ایجاد ہے اور ان میں گندھک، شورے اور نوشادر کے تیزاب شامل ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے ’’شورے کا تیزاب‘‘ ایجاد کیا۔ بعد ازاں، مختلف دھاتوں کے ساتھ نوشادر کو ملا کر تجربہ کیا، تو ایک ایسا تیزاب وجود میں آیا کہ جس نے سونے کو بھی پگھلا دیا۔


 

 جابر بن حیّان نے اس تیزاب کو ”ماء الملوک“ (بادشاہوں کا پانی) کا نام دیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سونا زیادہ تر بادشاہ ہی استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے لوہے پر بھی کئی تجربات کیے اور بتایا کہ لوہے کو کس طرح فولاد بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے لوہے کو زنگ سے بچانے کا طریقہ بھی متعارف کروایا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ’’موم جامہ‘‘ ایجاد کیا۔ یاد رہے، موم جامہ ایک ایسا کپڑا ہوتا ہے، جس پر پانی اثر نہیں کرتا۔ جابر بن حیّان نے چمڑے کو رنگنے کا طریقہ بھی دریافت کیا، پھرخضاب ایجاد کیا اور شیشے کو رنگین بنانے کے طریقے بھی متعارف کروائے۔جابر بن حیّان نے بہت سی کُتب لکھیں، لیکن اُن کی سب سے مشہور کتاب، ”کتاب الکیمیا“ ہے،


 

گلیشیرز کا غیر فطری انداز میں پگھلنا بڑے خطرے کی علامت ہے؟

 

  انسانی سرگرمیاں، تیزی سے کاربن کے آکسائیڈز کی ماحول میں شمولیت اور گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہماری زمین کے دردرجہ حرارت کو بڑھا رہا ہے۔ اس وجہ سے  ہمار ے پہاڑوں پر موجود  گلیشیرز کا پگھلاؤ غیر فطری انداز میں ہو رہا ہے۔جس کے سبب  ہماراماحولیاتی نظام اور اس کا توازن دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔یہ گلیشیئرز دنیا کے ہر شخص کے کے لیے اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ سب اس ماحولیاتی نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پودوں اور جانوروں کی تمام کمیونیٹیز بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں ہیں۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ نے سطح سمندروں میں بلندی اور مٹی کے بردگی (ایروژن) کے عمل پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اس وجہ سے ساحل سمندروں کے نزدیک جنگلی حیات بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔گلیشیئرز کی تباہی نے اور بھی کئی طرح کے مسائل کو جنم دیا ہے۔ انسانی آبادی کے لیے پانی کی کمی ہو رہی ہے۔ ہائیڈرو الیکٹرک (بجلی) پاور کی پیداوار میں فرق پڑ رہا ہے۔ شعبہ زراعت کا دارومدار بروقت پانی کی فراہمی پر ہے۔یہ شعبہ بھی گلیشیئرز کی کم ہوتی تعداد سے پیداواری صلاحیت کھو رہا ہے۔

  

  طرف بے موسمی بارشیں بارشیں اور بے وقت پانی کی دستیابی بھی ایکو سسٹم کو متاثر کر رہا ہے کیوں کہ ان کے پگھلنے سے تازہ پانی کی بڑی مقدار، رسوب (سیڈیمینٹس)، نمکیات وغیرہ آبی ماحولیاتی نظام و آبی حیات کے مساکن کے توازن اور ساخت سے چھیڑ چھاڑکر رہے ہیں اور رہی سہی کسر انسانی سرگرمیوں سے پوری ہو رہی ہے اور ہمارے تمام ماحولیاتی نظام کی بقا کے سامنے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔اس طرح پانی کا بہاؤ متعدد مچھلیوں اور آبی حیات کو مکمل تحفظ نہیں دے پا رہا جو ان کی بقا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیوں کہ پانی کی پی ایچ (پی ایچ) برقرار رکھنے میں مشکل ہےپ کو اپنے پینے کے پانی کے پی ایچ کے بارے میں کیا معلوم ہونا چاہیے۔پانی پی ایچ کیا ہے؟پی ایچ کا مطلب ممکنہ ہائیڈروجن ہے اور اس کا استعمال مائع میں ہائیڈروجن کی مقدار کا تعین کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ ہر شے کی تیزابیت یا الکلائنٹی کا تعین کرتا ہے۔ پی ایچ پیمانہ 0 سے 14 تک ہے، صفر انتہائی تیزابی اور 14 انتہائی الکلین ہونے کے ساتھ۔

 

 پینے کے قابل قبول پانی کے لیے پی ایچ کی حد 6.5 سے 8.5 ہے۔ یہ رینج غیر جانبدار ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پانی نہ تو ضرورت سے زیادہ تیزابی ہے اور نہ ہی بہت زیادہ الکلین۔ اس حد سے نیچے یا اس سے زیادہ کچھ بھی ہضم کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔کم پی ایچ کے اثرا6.5 سے کم پی ایچ والا پانی تیزابی ہے۔ جب پانی فراہم کرنے والے جراثیم اور دیگر نجاستوں کو ختم کرنے کے لیے کلورین کا استعمال کرتے ہیں، تو تیزابیت والا پانی اچھی طرح سے جواب نہیں دیتا۔ اس کے بجائے، آپ کے گھر کو تیزابی پینے کا پانی فراہم کیا جائے گا جس میں ممکنہ طور پر خطرناک آلودگی موجود ہو۔ اس کے علاوہ، کم پی ایچ پانی پوری پراپرٹی میں پائپوں کو زنگ آلود کر سکتا ہے۔ پانی کی تیزابیت دھاتی پائپوں کے انحطاط کو تیز کرتی ہے، پانی کی فراہمی کو مزید آلودہ کرتی ہے۔ چونکہ تیزابی پانی تیزی سے دھاتوں سے جڑ جاتا ہے، اس لیے اسے استعمال کرنا خطرناک ہے۔ہائی پی ایچ کے اثراالکلائن پانی سے مراد اعلی پی ایچ لیول کے ساتھ پینے کا پانی ہے۔ پی ایچ کی حد 8 اور 10 کے درمیان ہے۔


 زیادہ پی ایچ والے پانی میں سخت ذائقہ یا ناگوار بو ہو سکتی ہے۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ الکلائن پانی بہت سے صحت کے فوائد فراہم کرتا ہے، تاہم ان دعوؤں کی پشت پناہی کرنے کے بہت کم ثبوت موجود ہیں۔ الکلائن پانی پینے کے نتیجے میں آپ کو متلی اور الٹی کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ زیادہ پی ایچ پانی آپ کے گھر کی پلمبنگ پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ پانی کی فراہمی میں کیلشیم اور میگنیشیم زیادہ ہوتا ہے، جو جمع ہو سکتا ہے، پائپوں کو روک سکتا ہے اور سنکنرن کا سبب بن سکتا ہے۔آپ پانی کی پی ایچ لیول کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں؟مقصد 6.5 اور 8.5 کے درمیان پی ایچ کو برقرار رکھنا ہے۔ خوش قسمتی سے، آپ اپنے گھر میں پینے کے پانی کی سطح کو کنٹرول کر سکتے ہیں تاکہ وہ آپ کے گھر اور آپ کی صحت دونوں کے لیے محفوظ ہوں۔ نصب کرنے کے لیے سب سے مؤثر واٹر فلٹرنگ سسٹم ریورس اوسموس واٹر سسٹم ہیں۔ واٹر فلٹر کارٹریجز کو سال میں صرف ایک بار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ تمام زہریلے مادوں کو دور کرنے اور پورے سال کے لیے اپنے پینے کے پانی کے پی ایچ کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ریورس اوسموسس سسٹم پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کے گھر اور پیاروں کو سال بھر محفوظ رکھنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے

'کون ہیں حضرت ابو طالب؟

 

سید نا  عبدالمطلب ؑ کی وفات کے بعد آغوشِ ابوطالب ؑ (۵۴۰تا۶۱۹ء)میں،درّ یتیم کی پرورش کا آغاز ہوا۔ذاتِ قدرت نے نورِ رسالت ؐ کو ابو طالب ؑ کے گھرانے میں ضم کر دیا اور سیدنا ابوطالب ؑ نے آپ ؐ کی حفاظت و خدمت گزاری کا حق ادا کر دیا۔اپنے بچوں سے بڑھ کر حضور کوپیار فرمایا۔ایک لمحہ بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔رات ہوئ تو اپنے پہلو میں سلایا۔کھانے کے وقت حضور ؐ سے پہلے کسی کو کھانا نہ کھانے دیا۔قلتِ خوراک ہوئی تو اپنی اولاد کو بھوکا رکھااور حضور کوسیرفرمایا۔ انہی باتوں کا تذکرہ فرما تے حضور ؐ آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ قادرِ مطلق نے اسی آغوشِ ابوطالب ؑ کا قرآنِ مجید میں ذکر فرماتے اپنی آغوشِ رحمت سے تشبیہ دی ہے۔ یہ ایسی موزوں اور مامون پناہ تھی کہ جس کی بدولت دینِ متین کی تبلیغ و اشاعت ہوئی۔ آپ کی ولادت باسعادت سے پہلے سید العرب کو آپ کی بشارت دی گئی ،’’ اَنَّ عَبْدُالْمُطَّلِبْ رَأیٰ فِیْ مَنَامِہٖ کَانَ قَاءِلاً یَقُوْلَ لَہُ: اِبْشِرْ یا شَیْبَۃِالْحَمْد بِعَظِیْمِ الْمَجْدِ بِاَکْرَمِ وُلْدٍ، مِفْتَاحُ الْرُّشْدِ،لَیْسَ لِلْاَرْضِ مِنْہُ مَنْ بِدُّ‘‘،حضرت عبدالمطلب ؑ نے بعالمِ رؤیاملاحظہ فرمایاکہ کہنے والے نے اُن سے کہا، جنابِ شَیْبَۃِالْحَمْد آپ کوعدیم النظیر، سرچشمہء رشد وہدایت مکرم فرزندکے عظیم الشان شرف و مجد کی بشارت ہو ۔



؎حضرت عبدالمُطّلب ؑ کے انتقالِ پرملال کے بعدنورِرسالتؐ کی حفاظت کے لیے سیّدناابو طالب ؑ کمربستہ ہوگئے اور ہر محاذ پر کفّارِ مکہ اور جہلائے عرب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا؛جب میں نے قوم میں چاہت کا فقدان ،بے مروتی دیکھی کہ انہوں نے تمام تعلقات اور رشتہ داریوں کوپس پشت ڈال دیا۔ ہمارے ساتھ کھلی دشمنی اور ایذارسانی کی اور ہم سے الگ ہو جانے والے دشمن کی بات مانی ۔نیز ہمارے خلاف تہمت زدہ لوگوں سے معاہدے کیے جو پسِ پشت غصے سے انگلیاں چباتے ہیں۔تو میں بذاتِ خود ایک لچکدار نیزہ اور شاہانِ سلف سے وراثت میں ملی ہوئی ایک چمک دار تلوار ۱؂لے کر ان کے مقابلے میں ڈٹ گیا اور میں نے اپنے جماعت اور اپنے بھائیوں کو بیت اللہ کے پاس بلوایا اور اس (بیت اللہ )کا سرخ دھاری دار غلاف تھام لیا۔اس کے عظیم الشان دروازے کے مقابل اس مقام پر جہاں برأت ثابت کرنے والا حلف اٹھاتا ہے ۔ سب کے ساتھ کھڑے ہو کر (اس کے غلاف کوتھام لیا۔)   مقاول ،مِقْوَلْ کی جمع ہے جویمن کے حمیری بادشاہوں کا لقب تھا۔


سیف بن ذی یزن حمیری نے دیگربیش قیمت تحائف کے ساتھ سفیدچمک دار تلوار حضرت عبدالمطلب ؑ کی خدمت میں پیش کی جووراثت میں حضرت ابوطالب ؑ کے پاس آئی جس کی جانب آپ نے یہاں اشارہ فرمایاہے ۔ابوطالب،جن کی رفاقت و نصرت اسلام کا محکم حصار بن گئی۔ابو طالب ؑ ،جنہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی۔ابوطالب ؑ ،جن کی قربانیوں سے محسنِ انسانیت کے بازو مضبوط ہوئے۔ابوطالب ؑ ،جن کے آہنی ارادوں اور کارگزاریوں سے جمعیتِ کفار و مشرکین لرزہ براندام رہی۔ابوطالب ؑ ،جن کی حکمتِ عملی سے کفار کی نیندیں حرام تھیں۔ابوطالب ؑ جو گلشنِ رسالت کی حفاظتی دیوار تھے۔ابوطالب ؑ ،جو حضور ؐ کے شفیق تایااور کفیل تھے۔ابوطالب ؑ ،جو مولائے کائنات علی مرتضیٰ ؑ شیر خدا ،جعفر طیّا ر ؑ اور عقیل ؑ کے والد تھے۔ابو طالب ؑ ،جو سید الشہدا امیر حمزہ ؑ ،شیر رسالت کے بھائی تھے۔ابو طالب ؑ ،جو حسنین کریمین ؑ ،سردارانِ جنت کے داداحضور تھے۔


ابوطالب ؑ ، جو سیدہ زینب ؑ و ام کلثوم ؑ کے دادا تھے۔ابوطالب ؑ ، جو شہدائے کربلا، شہدائے بغداد،شہدائے شیراز،اصفہان و ساوِہ اور شہدائے نیشاپورکے مورثِ اعلیٰ تھے۔ابو طالب ؑ ، جن کی اولاد نسبِ رسول ؐ ہے۔ ۔وہ فرزند جو حافظِ قرآن و حدیث،شب بیدار،تہجدگزار،عابد،زاہد،عالم،فقیہ،محدث اور مفسر قرآن و شارح اسلام تھے۔ جن کی آغوش کو ذاتِ قدرت نے اپنی پناہ قرار دیا وہ سوائے سیدنا ابو طالب ؑ کے اور کون ہے؟سیدنا ابو طالب ؑ نے آنحضرت ؐ کے لیے جو جانثاری فرمائی  ۔ فاقے اٹھائے،شہر بدر ہوئے،تین برس تک آب و دانہ بند رہا۔ ’’شِعْبِ اَبیْ طَالِبؑ ‘‘کے حصار کا تمغہ کس کے سینے پر سجے گا؟مقاطعہ قریش میں حصارِ رسالتؐ کے لیے شعبِ ابی طالب ؑ سے کون واقف نہیں     ا  ور اس دوران پیارے مصطفٰی ؐ کے بستر پر علی مرتضٰی ؑ شیرِخُدا اور جعفرطیار کو سلا کردشمنانِ اسلام کی تلواروں کے سامنے اپنے لختِ جگر پیش کرنے والے ابو طالب ؑ کے علاوہ اور کون ہیں۔

منگل، 7 اکتوبر، 2025

شاندار 'دلکش مناظر اور چٹانی غاروں کا ملک 'جار جیا

 

جارجیا ویسے تو ایک چھوٹا لیکن ناقابل یقین حد تک   دلکش ملک ہے جو شاندار پہاڑی مناظر سلفر حماموں ' چٹانی  غاروں کی   قدیم تاریخ اور دنیا کی مشہور مہمان نوازی   کے لئے مشہور  ہے۔ قفقاز کے علاقے میں واقع، جارجیا یورپی اور ایشیائی اثرات    کے زیر اثر ہے، جو ثقافتی گہرائی، مہم جوئی اور ناقابل فراموش تجربات کے خواہاں مسافروں کے لیے ایک پوشیدہ جوہر بنا دیتا ہے۔دیکھنے کے لیے بہترین شہرتبلیسی، جارجیا کا دل ہے، تاریخ اور جدید تخلیقی صلاحیتوں کو اپنے رنگین پرانے شہر، متنوع فن تعمیر اور جاندار ماحول کے ساتھ ملا دیتا ہے۔ Narikala قلعہ شاندار شہر کے نظارے پیش کرتا ہے، جبکہ Abanotubani سلفر حمام روایتی، آرام دہ تجربہ فراہم کرتے ہیں۔ رستاویلی ایونیو ثقافتی مرکز ہے، جس میں تھیٹر، کیفے اور تاریخی مقامات ہیں۔ ایک جدید موڑ کے لیے، فیبریکا، ایک نئے سرے سے تیار کردہ سوویت کارخانے، ایک تخلیقی ہاٹ اسپاٹ کے طور پر کام کرتی ہے جو سلاخوں، آرٹ کی جگہوں، اور ساتھ کام کرنے والے علاقوں سے بھری ہوئی ہے۔


 

    خاص طور پر شہر تبلیسی اپنے منفرد دلکش  مناظر سے دل موہ لیتا ہے۔بچاہے تاریخی سڑکوں کو تلاش کرنا ہو یا اس کے متحرک فنون لطیفہ کا تجربہ کرنا ہو' جارجیا کی سب سے بڑی سمندری منزل، جدید فن تعمیر کو آرام دہ ساحلی ماحول کے ساتھ ملاتی ہے۔ بٹومی بلیوارڈ واٹر فرنٹ کے ساتھ پھیلا ہوا ہے، جو پارکوں اور مجسموں کے ذریعے خوبصورت سیر پیش کرتا ہے۔ الفابیٹ ٹاور، ایک حیرت انگیز فلک بوس عمارت، جارجیائی رسم الخط کی علامت ہے، جبکہ ترکی کی سرحد کے قریب واقع تاریخی گونیو قلعہ، باتومی کے قدیم ماضی کو ظاہر کرتا ہے۔ فطرت سے محبت کرنے والے بٹومی بوٹینیکل گارڈن کو دیکھ سکتے ہیں، جو دنیا کے متنوع پودوں کے مجموعوں میں سے ایک ہے۔ چاہے ساحل کے کنارے آرام ہو یا ثقافتی تلاش کے لیے، باتومی تفریح اور تاریخ کا ایک انوکھا امتزاج پیش کرتا ہےKutaisi-جارجیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک، Kutaisi تاریخ اور یونیسکو کے درج کردہ نشانات سے مالا مال ہے۔ گیلٹی خانقاہ، جو قرون وسطیٰ کا سیکھنے کا مرکز ہے،

 

 شاندار فریسکوز کی نمائش کرتی ہے، جبکہ باگراتی کیتھیڈرل جارجیا کے اتحاد کی علامت کے طور پر کھڑا ہے۔ فطرت سے محبت کرنے والے پرومیتھیس غار کو تلاش کر سکتے ہیں، جو سٹالیکٹائٹس اور جھیلوں کا ایک زیر زمین عجوبہ ہے، یا مارٹویلی وادی سے گزر سکتے ہیں، جہاں مرکت سبز پانی دلکش چٹان کی شکلوں سے تراشتے ہیں۔ Kutaisi تاریخ، ثقافت اور قدرتی خوبصورتی کا بہترین امتزاج ہے-جارجیا کے سابق دارالحکومت اور مذہبی مرکز کے طور پر، Mtskheta ملک کے کچھ مقدس ترین مقامات کا گھر ہے۔ جواری خانقاہ، جو ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے، مٹکوری اور آرگوی ندیوں کے سنگم کے دلکش نظارے پیش کرتی ہے۔ Svetitskhoveli-Cathedral، جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے، جارجیا کا سب سے اہم مذہبی نشان کے طور پر جانا جاتا ہے۔ قریب ہی، سامتاورو خانقاہ گہری تاریخی اہمیت کے ساتھ پرامن اعتکاف فراہم کرتی ہے۔ Mtskheta کا بھرپور روحانی ورثہ جارجیا کی ثقافتی جڑوں کو تلاشکرنے والوں کے لیے اسے ایک لازمی دورہ بناتا ہے


مارٹویلی وادی-مارٹویلی وادی  قدرتی عجوبہ ہے، جہاں فیروزی پانی سرسبز، کائی سے ڈھکی چٹانوں سے گزرتا ہے۔ زائرین پُرسکون دریا کے ساتھ کشتی کے سفر کر سکتے ہیں، ماضی کی ڈرامائی چٹانوں کی شکلوں اور چھپے ہوئے گرٹووں کو گلائڈ کر سکتے ہیں۔ حیرت انگیز آبشاریں زمرد کے تالابوں میں جھڑتی ہیں، جو فطرت سے محبت کرنے والوں اور فوٹوگرافروں کے لیے بہترین جادوئی ماحول بناتی ہیں۔ یہ پرفتن وادی جارجیا کی اچھوتی خوبصورتی میں پرامن اعتکاف پیش کرتی ہے۔وردزیا  غار خانقاہ-جنوبی جارجیاکی چٹانوں میں کھدی ہوئی، وردزیا ایک شاندار چٹان سے بنائی گئی خانقاہ ہے جس میں کبھی راہب پناہ گزین رہتے تھے۔ اس قدیم کمپلیکس میں سیکڑوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے غاروں کی خصوصیات ہیں، جن میں رہائشی کوارٹر، چیپل اور سرنگیں شامل ہیں۔ خاص بات چرچ آف دی ڈورمیشن ہے، جو دلکش فریسکوز سے مزین ہے جو اس کی گہری تاریخی اور مذہبی اہمیت کی عکاسی کرتی ہے۔ وردزیا کا دورہ جارجیا کے قرون وسطی کے ماضی اور آس پاس کے مناظر کے حیرت انگیز پینورامک نظاروں کا سفر پیش کرتا ہے



 

پیر، 6 اکتوبر، 2025

اداکارو صداکارمحمد علی کی دھنک رنگ داستان زندگی'part 1

 

 پاکستان کے مایہ ناز  اداکار محمد علی 19 اپریل، 1931ء میں بھارت کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے۔ چار بھائی بہنوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑے بھائی ارشاد علی تھے۔ محمد علی ابھی تین سال کے تھے کہ ان کی والدہ فوت ہو گئیں۔ ان کے والد سید مرشد علی نے ان کی پرورش کی خاطر دوسری شادی نہیں کی حالانکہ اس وقت ان کی عمر 35 برس تھی۔  محمد علی کے والد سید مرشد علی بہت بڑے دینی عالم تھے۔ محمد علی نے 14 سال تک اسکول کی شکل نہ دیکھی وہ صرف مدرسے میں اردو، عربی، فارسی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔1943 ء میں اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے ملتان آ گئے۔  محمد علی کے خاندان کے زیادہ تر لوگ حیدرآباد سندھ میں رہتے تھے اس لیے 1955 ء میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہو گئے۔ اور سٹی کالج حیدرآباد سے انٹر پاس کیا۔محمد علی کو پائلٹ بننے کا شوق تھا اور وہ پائلٹ بن کر ایئر فورس جوائن کرنا چاہتے تھے۔



 مگر معاشی حالات تنگ تھے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ایبٹ آباد جاکر ٹرینینگ حاصل کرسکیں۔انھیں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل نظر آ رہا تھا۔ ذریعہ معاش کے لیے انھوں نے کوئی کام کرنے کا سوچا۔ ان کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں بطور ڈراما آرٹسٹ کام کر رہے تھے ۔محمد علی نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد، سندھ سے کیا۔ ان کی بھرپور آواز نے انھیں ایک بہترین ریڈیو صداکار کی حیثیت سے منوایا اور انھیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیا۔اس وقت ایک ڈرامے کی صدا کاری کے دس روپے ملا کر تے تھے۔ بعد ازاں انھوں نے ریڈیو پاکستان بہاولپور سے بھی پروگرام کیے۔ ان کی آواز سن کر ریڈیو پاکستان کے جرنل ڈرائریکٹر ذوالفقار احمد بخاری المعروف زیڈ۔ اے بخاری صاحب نے انھیں کراچی بلا لیا۔


 سونے کو کندن بنانے میں زیڈ۔ اے بخاری مرحوم کا بہت ہاتھ تھا۔ انھوں نے محمد علی کو آواز کے اتار چڑھاؤ، مکالموں کی ادائیگی، جذبات کے اظہار کا انداز بیاں اور مائکرو فون کے استعمال کے تمام گرسکھا دیے۔ زیڈ۔ اے بخاری نے ان کی آواز کی وہ تراش خراش کی کہ صدا کاری میں کوئی ان کا مدمقابل نہ رہا۔1962ء میں فِلم ’ چراغ جلتا رہا‘ سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ محمد علی کی اداکاری اور مکالمے بولنے کے انداز نے دوسرے فلم سازوں اور ہدایتکاروں کو متوجہ کر لیا۔ اور جلد ہی ان کا شمار ملک کے معروف فلمی اداکاروں میں کیا جانے لگا۔ پہلی فلم کے بعد محمد علی نے ابتدائی پانچ فلموں میں بطور ولن کام کیا۔ محمد علی کو شہرت 1963 ء میں عید الاضحی پر ریلیز ہونے والی فلم "شرارت" سے ملی۔ انھوں نے درجنوں فلموں میں بحیثیت ہیرو کے کام کیا۔ ان کی فلموں کی زیادہ تر ہیروئن ان کی اپنی اہلیہ زیبا تھیں نیز ان فلموں میں زيادہ تر گانے جو ان پر فلمائے گئے ان کے گلوکار مہدی حسن تھے۔انھوں نے 300 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ "علی زیب" کی جوڑی اتنی کامیاب تھی کہ انھوں تقریباً 75 فلموں میں اکٹھے کام کیا۔



 فلم "تم ملے پیار ملا" کی شوٹنگ کے دوران ہی بروز جمعرات 29ستمبر، 1966 ء کی سہ پہر تین بجے اداکار آزاد کے گھر واقع ناظم آباد میں محمد علی نے زیبا سے نکاح کر لیا۔ علی زیب نے ایک انتہائی خوش گوار بھر پور ازدواجی زندگی گزاری، کئی یادگار فلموں میں اپنی یادگاری کے جوہر دکھائے، نہ صرف پاکستان، بلکہ دوسرے ممالک میں بھی علی زیب ایک قابل احترام جوڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں دونوں نے حج بھی کیا اور کئی عمرے بھی ادا کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شماردولت، عزت اور شہرت عطا کی، لیکن اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا۔اس پر بھی محمد علی اﷲ کے شکر گزار تھے اور اس محرومی کو اﷲ کی مصلحت قرار دیتے تھے۔ محمد علی نے زیبا کی بیٹی ثمینہ جو لالا سدھیر سے تھی۔ اسے اپنی سگی بیٹی کی طرح پالا اسے اپنا نام دیا۔ پندرہ سال تک وہ اپنا ایک خیراتی ادارہ چلاتے رہے۔ شادی کے بعد محمد علی اور زیبا نے "علی زیب" کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس قائم کیا اور "علی زیب" کے بینر تلے کافی اچھی اور کامیاب فلمیں بنائیں۔سماجی و سیاسی زندگی-محمد علی نے کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔


یہ تحریر  میں نے انٹرنیٹ سے لی ہے 

اداکارو صداکارمحمد علی کی دھنک رنگ داستان زندگی پارٹ' 2

 

 کوٹھی کے خوبصورت لان میں سردی کی ایک دوپہر میں اورمحمد  علی اپنے ایک شناسا کے ساتھ بیٹھے    گفتگو کر رہے تھے۔اتنے میں ان کے  چپڑاسی نے   آ کر کہا کہ  صاحب باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے۔ یہ اس کا چوتھا چکر ہے۔ محمدعلی بھائی نے اسے بلوا لیا۔ کاروباری سا آدمی  نظر آرہا  تھا۔لباس  تو صاف ستھرا  تھا مگر چہرے پر پریشانی   جھلک رہی تھی۔ شیو بڑھی ہوئی‘ سرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید لیکن پریشان۔ وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گیا تو علی بھائی نے کہا۔ جی فرمایئے’فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی! کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔‘‘اس آدمی نے بڑی گھمبیر آواز میں کہا اور میری طرف دیکھا جیسے وہ علی بھائی سے کچھ تنہائی میں کہنا چاہتا تھا۔ علی بھائی نے اس سے کہا:’آپ ان کی فکر نہ کیجئے جو کہنا ہے کہئے‘‘اس آدمی نے کہا ’’چوبرجی میں میری برف فیکٹری ہے علی صاحب!‘‘


’’جی‘‘’لیکن کاروباری حماقتوں کے سبب وہ اب میرے ہاتھ سے جا رہی ہے‘‘’’کیوں‘ کیسے جا رہی ہے؟‘‘ علی بھائی نے تفصیل جاننے کے لئے پوچھا’ایک آدمی سے میں نے 70ہزار روپے قرض لئے تھے لیکن میں لوٹا نہیں سکا۔‘‘ وہ آدمی بولا ’’میں نے کچھ پیسے سنبھال کر رکھے تھے لیکن چور لے گئے۔ اب وہ آدمی اس فیکٹری کی قرقی لے کر آ رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آدمی رونے لگا اور علی بھائی اسے غور سے دیکھتے رہے اور اس سے کہنے لگے۔آپ کا برف خانہ میانی صاحب والی سڑک سے ملحقہ تو نہیں؟’’جی جی وہی‘‘ وہ آدمی بولا ۔۔۔۔۔۔ ’’علی بھائی میں صاحب اولاد ہوں اگر یہ فیکٹری چلی گئی تو میرا گھر برباد ہو جائے گا‘ میں مجبور ہو کر آپ کے پاس آیا ہوں۔‘‘’’فرمایئے میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘’’میرے پاس بیس ہزار ہیں‘ پچاس ہزار آپ مجھے ادھار دے دیں میں آپ کو قسطوں میں لوٹا دوں گا۔‘‘

:

’محمد علی اٹھ کر اندر چلے گئے۔ واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں نوٹوں کا ایک بنڈل تھا۔ کرسی پر بیٹھ گئے اور اس آدمی سے کہنے لگے:’پہلے تو آپ کی داڑھی ہوتی تھی۔‘‘وہ آدمی حیران رہ گیا اور چونک کر کہنے لگا ’’جی! یہ بہت پرانی بات ہے‘‘جی میں پرانی بات ہی کر رہا ہوں‘‘ علی بھائی اچانک کہیں کھو گئے۔ سگریٹ کا دھواں چھوڑ کر کچھ تلاش کرتے رہے۔ پھر اس آدمی سے کہنے لگے:’آپ کے پاس تین روپے ٹوٹے ہوئے ہیں؟‘‘جی جی ،ہیں‘‘ اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے اور ان میں سے تین روپے نکال کر علی بھائی کی طرف بڑھا دیئے۔ علی بھائی نے وہ پکڑ لئے اور نوٹوں کا بنڈل اٹھا کر اس آدمی کی طرف بڑھایا۔یہ پچاس ہزار روپے ہیں‘ لے جایئے‘‘اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور نوٹ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔


 اس آدمی نے جذبات کی گرفت سے نکل کر پوچھا:’’علی بھائی مگر یہ تین روپے آپ نے کس لئے  ۔؟‘‘علی بھائی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ’’یہ میں نے آپ سے اپنے تین دن کی مزدوری لی ہے۔‘‘’مزدوری …مجھ سے! میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔‘‘ اس آدمی نے یہ بات پوچھی تو ایک حیرت اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔1952ء میں جب میں لاہور آیا تھا تو میں نے آپ کے برف خانے میں برف کی سلیں اٹھا کر قبرستان لے جانے کی مزدوری کی تھی۔‘‘علی بھائی نے مسکرا کر جواب دیا۔ یہ جواب میرے اور اس آدمی کے لئے دنیا کا سب سے بڑا انکشاف تھا۔ علی بھائی نے مزید بات آگے بڑھائی۔’’مگر آپ نے جب مجھے کام سے نکالا تو میرے تین دن کی مزدوری رکھ لی تھی۔ وہ آج میں نے وصول کر لی ہے۔‘‘ علی بھائی نے مسکرا کر وہ تین روپے جیب میں ڈال لئے۔آپ یہ پچاس ہزار لے جائیں‘ جب آپ سہولت محسوس کریں دے دیجئے گا۔‘‘علی بھائی نے یہ بات کہہ کر مزے سے سگریٹ پینے لگے۔   اور سائل شرمندہ قدموں سے  چلا گیا 

 یہ تحریر  میں نے انٹرنیٹ سے لی ہے

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا ۔بچپن کے دن جو بھلائے نا گئے

  بلا شبہ  ہجرت کے مصائب بچوں  کو وقت سے بہت پہلے   ہی شعور کی منزل پر لا کر کھڑا کر دیتے ہیں  اسی لئے میرا   بچپن  بھی  عام بچّوں کے بچپن جیسا  نہیں تھا یہ وہ زمانہ تھا جب مہاجروں کے گھروں میں پانی کے لئے علاقے میں پانی کے ٹینکر آیا کرتے تھے اور میں بہت چھوٹی سی عمر میں ٹینکرکی  آواز محلّے میں آتے ہی اپنا کنستر لےکر پانی لینے والوں کی لائن میں کھڑی ہو جاتی تھی ،اور ہمارے محلّے کا کوئ خداترس انسان میرا کنستر بھر کر ہمارے دروازے تک یا گھر کے اندر تک رکھ جایا کرتا تھا اس کے علاوہ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ماشکی بھی صبح شام ایک ایک مشک پانی  معمو لی قیمت پر ڈال جاتا تھا پھر یوں ہوا کہ کچھ عرصے بعد پانی کے ٹینکر کا آنا موقو ف ہو گیا اورہماری گلی کے ختم پر  ایک عدد حوضی بنا کر اس میں سرکاری نل سے پانی کی ترسیل کا انتظام کیا گیا،میرے والد صاحب ،،اپنے والد صاحبکے تذکرے کے تصّور سے ہی   بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ہین کیونکہ مجھے اپنے والدکا بنک جانے سے پہلے نمازر کے وقت حوضی سے پانی بھرنا یاد آرہا ہے



 میں ابھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ ان کاموں میں والد کا ہاتھ بٹا سکتی لیکن زرا سا وقت گزرنے پر  گھر میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے میں نے یہ ڈیوٹی اپنے زمّے لے لی تھی ،اسوقت ایک خدا ترس انسان نے اپنے گھر کے سامنے ایک کنواں بنوا کر وقف عام کر دیا تھا چنانچہ میں نے زرا سا ہوش سنبھانے پر یہ اہم ڈیوٹی اپنے زمّہ لے لی تھی کہ والد صاحب کے لائے ہوئے پانی کے علاوہ جو بھی کمی ہوتی اسے خود سے چھوٹے چھوٹے ڈول لے جا کر پانی بھر کر لے آیا کرتی تھی اور گھر میں پانی کی کمی   پوریکر دیا کرتی تھی اس وقت ہمارے محلّے میں کوئ حوضی نہیں بنی تھی لیکن اپنے گھر سے بیس منٹ کے فاصلے سے  کنوئین سے پانی بھر کر لانے لگی اس کنوئیں میں چمڑے کی بالٹی ایک مو ٹے رسّے کے زریعے کنوئیں کی تہ تک اتار کر بھر لی جاتی اور پھر الٹی چرخی چلا کر پانی کھینچ لیا جاتا تھا ،یہ ایک بہت محنت طلب کام ہوتا تھا لیکن میں اس کام کو بھی سر انجام دے لیا کرتی تھی  


اس کے علاوہ جھٹ پٹا ہوتے ہی گھر کی لالٹینیں اور لیمپ روشن کرنا بھی میرے زمّے تھا میں سب لالٹینوں کی چمنیاں نکال کر ان کو چولھے کی باریک سفید ریت سے   صاف کرتی پھر صابن سے دھو کر خشک کرتی تھی تو لالٹین کی روشنی بہت روشن محسوس ہوتی تھی،کوئلو ں کی سفید راکھ بنانے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ دہکتے ہوئے کوئلوں کو یونہی چھوڑ دیا جاءے تووہ خود بخود بجھتے جاتے ہیں اور ان کے اوپر سفید راکھ کی موٹی تہ جمتی جاتی ہے یہ راکھ دیگچیوں کے پیندوں کو اجلا کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی تھی میں اس راکھ کو ایک ڈبّے میں محفوظ کر لیتی تھی اس کے ساتھ ساتھ میری ایک اہم ڈیوٹی گھر میں جلانے کے لئے ٹال سے لکڑیاں لانے کی بھی تھی ،اور یہ کام کوئ مجھ سے جبریہ نہیں کرواتا تھا بلکہ میں اپنی والدہ کے لئے کام کی سہولت چاہتی تھی 


میرے بچپن  کے اس دور میں ہمارے گھر میں کھانا پکانے کے لئے لکڑی استعمال ہوتی   تھی۔ جب تک کہ  ہمار ے  علاقے میں  لکڑی کی ٹال نہیں کھلی تھی میں تب تک  میں خود اپنے بازوؤں پر لکڑیاں  ا ٹھا کر لاتی رہی پھر ہماری  گلی کی  کونے  پر ایک ٹال  کھل گئ تھی  جسے ابا جان  ہر مہینے  پابندی سے  پیسے دے آتے تھے اورٹال والا ہمارے صحن کے ایک کونے میں  دو من لکڑی ڈال جاتاتھا۔ لکڑی  کا بہت  خیال رکھاجاتا تھا کہ کہیں وہ بارش میں  بھیگ نا جائے -آسمان پر بادل دیکھتے ہی اس پر ترپال ڈال دی جاتی تھی۔ گیلی لکڑی کی سزا پورے گھرکوبھگتنی پڑتی تھی۔ دھواں باورچی خانے سے نکل کر برآمدے سے ہوتا ہوا سارے کمروں میں پھیل جاتا تھا اور اس کی جلن اور چبھن سے آنکھوں سے پانی بہنے لگتا تھا۔-لکڑی پر کھانا پکانے سے ہانڈیوں کے اوپر سیاہ دھوئیں کی کافی ناگوار سیاہی جم جاتی ہے لیکن اگر ملتانی مٹی کا لیپ کر دیا جائے تو ہانڈیاں بری نہیں لگتی ہیں -میں نے ملتانی مٹی  کو کٹورے میں  بھگو کر رکھنا شروع کیا اور ہانڈیوں کے پیندے صاف دکھائ دینے لگے 


اتوار، 5 اکتوبر، 2025

'کینیڈا میں سونے چاندی ہیروں کا شہر'یلو نائف

 پیج سٹی آرکٹک سرکل سے 400 کلومیٹر دور عظیم جھیل کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔ اس کے مغرب میں ییلو نائف بے اور ییلو نائف دریا واقع ہے۔ 920 کی دہائی کے آخر میں کینیڈا کے آرکٹک علاقے کی چھان بین ہوائی جہاز کی مدد سے شروع ہوئی۔ 1930 کی دہائی میں گریٹ بیئر جھیل کے آس پاس یورینیم اور چاندی کے ذخائر دریافت ہوئے اور لوگ ادھر ادھر پھیل کر مزید دھاتوں کی تلاش کرنے لگ گئے۔ 1933 میں دو مہم جو ییلو نائف دریا کے بہاؤ کے ساتھ کشتی پر گئے اور انھوں نے کوئٹہ جھیل سے سونے کے ذرات تلاش کر لیے۔ یہ جھیل ییلو نائف دریا سے تیس کلومیٹر دور ہے۔ ہومر جھیل سے بھی چند مزید ذخائر ملے۔اگلے سال جونی بیکر مزید ماہرین کے ہمراہ دوبارہ سونے کے مزید ذخائر کی تلاش اور ان کو نکالنے کے لیے آیا۔ ییلو نائف کی مشرقی طرف سونا دریافت ہوا اور مختصر وقت کے لیے برواش کی کان بھی چلائی گئی۔ ییلو نائف کی خلیج کے مغرب میں جب حکومت کے ماہرین ارضیات نے نسبتاً آسان جگہ پر مزید سونا دریافت کیا تو کچھ وقت کے لیے پھر سے سونے کی دوڑ شروع ہو گئی۔



 کون کی کان یہاں پہلی باقاعدہ کان تھی اور اس کی وجہ سے 1936 اور 1937 کے درمیان ییلو نائف کا شہر بسایا گیا۔ 5 ستمبر 1938 میں کان سے پیداوار شروع ہوئی۔1940 میں ییلو نائف کی آبادی تیزی سے بڑھی اور 1000 کی تعدادعبور کر گئی۔ 1942 میں یہاں سونے کی پانچ کانیں کام کر رہی تھیں۔ جنگ کے لیے افرادی قوت کی ضرورت پڑی تو سونے کی پیداوار رک گئی۔ 1944 میں شہر کے شمالی سرے پر جائنٹ مائن سے بھی سونے کے ذخائر ملے۔ اس وجہ سے یہاں جنگ کے بعد پھر لوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔ اس کے علاوہ کون کی کان سے بھی مزید دریافتیں ہوئیں اور کان کی عمر بڑھا دی گئی۔  کینیڈا کی نارتھ ویسٹ  ۔ اس کی کل آبادی 2006 میں 18700 تھی۔ یہ شہر گریٹ سلیو لیک کے شمالی کنارے پر آرکٹک سرکل سے 400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے مغرب میں ییلو نائف کی خلیج اور ییلو نائف دریا کے دہانے کے پاس موجود ہے۔ ہاں کی گیارہ سرکاری زبانوں میں سے پانچ زبانیں بڑی تعداد میں لوگ بولتے ہیں۔یلونائف کو پہلی بار 1935 میں آباد کیا گیا تھا۔ جلد ہی یہ شہر نارتھ ویسٹ ریاست کی آبادی کا مرکز بن گیا۔


اسے 1967 میں ریاست کا صدر مقام بنایا گیا۔ ، شہر کو کان کنی کے شہر سے بدل کر حکومتی اداروں کا مرکز 1980 کی دہائی میں بنا دیا گیا۔ تاہم حال ہی میں شہر کے شمال میں ہیروں کی دریافت سے دوبارہ یہاں کان کنی کی صنعت زور پکڑنے لگی ہے۔شہر میں دریافت ہونے والے سونے کی وجہ سے  شہر  کی آبادی کو اس جگہ سے کچھ دور ہٹا دیا گیا۔ ڈسکوری مائن کے لیے اس کے ساتھ ہی ایک الگ شہر بسایا گیا جو ییلو نائف سے 81 کلومیٹر دور شمال مشرق میں تھا۔ یہ کان 1950 سے 1969 تک چالو رہی۔  یہاں سے 400 کلومیٹر دور 1991 میں ہیروں کی دریافت سے شہر کو ایک بار پھر چوتھی بار عروج ملا۔ ۔ آج یہ شہر ایک حکومتی شہر اور ہیرے کی کانوں کا سروس سینٹر ہے۔  یہ کان کنی، صنعتوں، نقل و حمل، مواصلات، تعلیم، صحت، سیاحت، تجارت اور حکومتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔  ۔1990 کی دہائی میں سونے کی کانوں کی بندش اور 1999 میں حکومتی ملازمین کی چھانٹی کے بعد ہیروں کی دریافت کی وجہ سے یہاں کی معیشت دوبارہ پروان چڑھ رہی ہے۔ 


یہ ہیرے ایکاٹی ڈائمنڈ مائن سے نکلتے ہیں اور بی ایچ پی بلیٹن کی ملکیت ہے۔ اسے 1998 میں کھولا گیا۔ دوسری کان ڈیاوک ڈائمنڈ مائن ہے جو 2003 میں پیداور دینے لگی ہے۔ 2004 میں ان دونوں کانوں کی پیداوار 12618000 قیراط یعنی 2524 کلو تھی۔ اس کی کل قیمت 2.1 ارب کینیڈین ڈالر ہے۔   تیسری کان ڈی بیئرز سنیپ لیک ڈائمنڈ مائن کو 2005 میں منظوری اور امداد ملی جس کے بعد 2007 میں اس نے کام شروع کر دیا۔ ایک اور کان کی منظوری کی درخواست بھی ڈی بیئرز نے دی ہوئی ہے۔یئیلونائف کے بڑے آجروں میں سے ریاستی حکومت، وفاقی حکومت، ڈیاوک ڈائمنڈ مائن انکارپوریٹڈ/ہیری ونسٹسن ڈائمنڈ کارپوریشن، بی ایچ پی بلیٹن، فرسٹ ائیر، نارتھ ویسٹل، آر ٹی ایل روبنسن ٹرکنگ اور ییلو نائف کا شہر اہم ہیں۔ حکومتی ملازمین 7644 ہیں جن کی اکثریت یلو نائف سے ہے۔ سیاحوں کی اکثریت جاپانیوں کی ہوتی ہے - شمالی موسم اور یہاں کے روایتی طرز زندگی اور شمالی روشنیوں کا بھی مطالعہ کرنے آتے ہیں۔ 

ہجرت کے ابتدائ دور میں کراچی کے سینما ہاؤسز

 



 اگست 1947ء کو پاکستان کے وجود میں آنے کے فوراً بعد ستمبر کے مہینے میں جمیلہ اسٹریٹ پر جوبلی سینما  کا افتتاح اداکارہ سورن لتا اور اداکار نذیر کی کاسٹیوم فلم وامق عذرا سے ہوا، اس سینما کو پاکستان کے اولین سینما کا اعزاز حاصل ہوا، بھارتی اور پاکستانی فلموں کا یہ اپنے وقت کا کامیاب سینما تھارومن طرزِ تعمیر کا یہ حسین شاہکار سینما 1997ء میں مسمار کر دیا گیا، یہاں پیش کی جانے والی آخری فلم کھلونا تھی جس کی ہدایتکارہ سنگیتا بیگم ہیں۔جوبلی کے سامنے والی سڑک مارشل اسٹریٹ پر ایک خوبصورت سینما گھر کا افتتاح 23 مارچ 1966ء کو ہوا، اس کا موتیوں کی لڑیوں سے آراستہ پردہ آج بھی اپنی یاد دلاتا ہےاس کا شو روم اور لابی اپنی خوب صورتی میں کسی 5 ستارہ ہوٹل سے کم نہ تھی، خاص طور پر گول زینہ اور اس کے ساتھ فوارہ اور زینے پر ایسے آئینے تراشے گئے تھے، جس میں بیک وقت ایک ساتھ کئی عکس دیکھے جا سکتے تھے۔اس سینما میں کئی دفاتر بھی قائم تھے ،ایک فلمی مشہور فلمی اخبار کا دفتر بھی یہیں تھا



  1960ء میں ریوالی سینما کا افتتاح انگریزی فلم ’نور دی مون بائی نائٹ‘ سے ہوا، یہ کسی زمانے میں ایلائٹ تھیٹر کے نام سے موجود تھا، جہاں صرف اسٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے۔1991ء میں یہاں ریلیز ہونے والی آخری فلم ’کھڑاک‘ (پنجابی) تھی، اس سینما کی جگہ رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر کر دیے گئے ہیں۔ریوالی کے برابر میں ایک وسیع رقبے پر واقع ایروز سینما ہوا کرتا تھا، جو اب ایروز کمپلیکس میں تبدیل ہو چکا ہے، اس سینما کی تعمیر کا آغاز پاکستان بننے کے بعد ہوا جبکہ پاکستان کے پہلے نئے سینما حویلی کی تعمیر کا آغاز 14 اگست 1947ء سے پہلے ہو چکا تھا ایروز سینما کو یہ اولیت حاصل ہے کہ یہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد تعمیر ہونے والا پہلا سینما ہائوس تھا، اس تاریخی یادگار سینما کا افتتاح 21ستمبر 1950ء کو ہوا تھا، دلیپ کمار اور نرگس کی بھارتی فلم ’بابل‘ اس سینما کی پہلی فلم تھی۔کراچی میں تعمیر کے شعبے میں مہارت رکھنے والی قدیم برادری سلائوٹ جماعت کے انجینئر حاجی ادریس گذدر عرف بابو نے اس سینما کو تعمیر کیا تھا۔


یہ پہلا سینما تھا جس کے اسکرین کے اوپر قائد اعظم کی تصویر آویزاں تھی، شو روم اور ہال میں گائوں کے پنگھٹ پر پانی بھرنے والی دیہاتی عورتوں کی خوب صورت پینٹنگ بھی خوب تھی۔اس سینما پر پہلی پاکستانی فلم ’دوپٹہ‘ 11جولائی 1952ء کو ریلیز ہوئی تھی، یہ وہ سینما تھا، جہاں 50ء کی دہائی میں بننے والی کئی پاکستانی فلموں کا بزنس غیر معمولی رہا، ایوریڈی کے توسط سے ریلیز ہونے والی فلم ’سسی‘ نے اس سینما پر 34 ہفتوں کا بزنس کر کے پہلی سلور جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔1994ء میں یہ سینما بند ہو گیا، اس وقت یہاں پنجابی فلم ’موسیٰ خان‘ چل رہی تھی، یہ سینما اب ماضی کی ایک داستان بن چکا ہے۔ایروز کے بالکل عین سامنے قیصر کے نام سے ایک سینما ہوا کرتا تھا جس کا افتتاح بروز اتوار 31جولائی 1955ء کو اردو فلم ’داتا‘ سے ہوا تھا، صبیحہ اور سدھیر نے اس فلم میں مرکزی کردار کیے تھے۔اس کا شو روم اوپر کی منزل پر واقع تھا، یہ ایک بلڈنگ نما سینما تھا، 1965ء میں اس سینما کو ایئرکنڈیشنز کا درجہ حاصل ہوا۔



دسمبر 1987ء میں ریلیز ہونے والی اداکارہ انجمن کی پنجابی فلم ’قیمت‘ اس سینما کی آخری فلم ثابت ہوئی، یہ سینما توڑ کر نعمان سینٹر کی عمارت میں تبدیل ہو گیا۔جہاں آج کل غازیانی شاپنگ سینٹر ہے، یہاں ماضی میں گوڈین کے نام سے ایک سینما تھا، 1957ء میں بیگم ناہید اسکندر مرزا نے اس سینما کا افتتاح کیا تھا، یہ اپنے وقت کا انگریزی فلموں کا اہم سینما تھا۔انکل سریا اسپتال گارڈن روڈ پر واقع اس سینما کا افتتاح 1963ء میں بھارتی فلم ’داغ‘ سے ہوا تھالیرک کے سلاتھ بمبینو کے نام سے ایک سینما 1963ء میں قائم ہوا، یہاں پر پیش کی جانے والی پہلی فلم ’سائوتھ پیسیفیک‘ تھی۔اس سینما کا افتتاح پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا، جو اس وقت کے وزیر خارجہ تھے -یہ  معیاری، خو ب صورت، کام یاب سینما کیپری آج بھی اپنی تمام رعنائیوں اور دل کشی کے ساتھ فلم بینوں کے لیے اپنی کشش برقرار رکھے ہوئے ہے۔

میں سہاگن بنی !مگر ' سوکھے دھانوں پانی جو پڑا

 

 آج  اپنی  داستان حیات شروع کرتے ہوئے میں سوچ رہی       ہوں کہ ہر انسان اپنی زندگی مختلف ادوار میں بسر کرتا ہے بچپن جوانی بڑھاپا'میں نےجب ا پنے بچپن کا دور گزار کر دوسرے دور میں جینے کے لئے قدم رکھّا تب مجھے احساس ہوا کہ جیسے میں بچپن کے بعد اپنے دوسرے دور کےبجائے اچانک ہی تیسرے دور میں داخل ہو گئ تھی بلکل اس بچّے کی طرح جوسیڑھیاں پھلانگتے ہوئے خود بہ خود بیچ کی دوسری سیڑھی چھوڑ کر دوسری کےبجائے تیسری سیڑھی پر آ جائےاور میری اس داستان حیات کا محور میری یہی زندگی ہے جس میں ،میرے شعور نےآنکھ کھولی اور مجھے زندگی کے بہت سے ایسے فلسفوں سے آشنا کیا جن سے شائدمیری عمر کی اور لڑکیاں واقف نہیں ہوتی ہوںاللہ میاں کے دستوربھی کتنے نرالے ہیں 'ہمارےگھر میں صرف پہلوٹھی کے بھیّا کو دینے کے بعد ہم چار بہنوں  فرحین آپی جن کو میں اور ہم سب بہنیں بڑی آپا کہتے ہیں،پھر منجھلی آپا ندرت  ،ان کے بعد فریال  جو ہمارے لئے فریال بجّو ہیں اور ان کے بعد نرگس   آپی ہیں ،ان چاروں کو او پر تلےامّاں کے آنگن میں بھیج دیا ،پھر چار برس تک ان کے آنگن سوکھے دھانوں کوئ پانی ناپڑا تھا کہ میں  ان کے آنگن میں اتر آئ


،مجھے نہیں معلوم کہ امّاں لڑ کیوں سے بیزاری کے سبب اتنی تلخ زبان رکھتی تھیں یا ان کا مزاج ہی ایسا تھا ،لیکن ابّا ہم بیٹیوں کے لئے بہت مشفق و مہربان تھے ،امّاں عام بات بھی کرتی تھیں تو ہم بہنوں کو ان کا حکم ہی لگتا تھا،ابّا کبھی کبھی کہتے ارے نیک بخت ان کے ساتھ اتنی سختی نا برتو ,,یہ توہما رے آنگن کی چڑیاں ہیں ،دیکھ لیناایک دن ہو گا کہ اپنے اپنے آشیانےبنانے اڑ جائیں گی اور ہمارا یہی آنگن ان کے بنا سائیں سائیں کرتا ہو گا'اور امّاں ابّا سے کہتی تھیں تم بلاوجہ ان کے دماغ مت خراب کیا کرو ،آخران کو دوسرا گھر اپنا پتّہ مار کر سنبھانا ہے ابھی سے عادت نہیں ڈالی     جائے تو لڑکی نخرے دار اٹھتی ہےمیری سمجھ میں امّاں کی باتیں ہرگز نہیں آتی تھیں ناجانے ابّا سمجھتےتھے کہ نہیں پھر وہ امّاں سے کچھ بولتے نہیں تھے اور امّا ں کے دل شکن  نعروں کی گونج میں جب میں  با شعور ہوئ تو گھر سے بڑی آپا کی رخصت کی گھڑی آ گئ تھی    بڑی آپا ہما رے  منجھلے تایا ابّا کے گھر بچپن کی مانگ تھیں مجھے یاد ہے  وداعی  و الے دن بڑی آپا جب بیوٹی پالر جانے کے لئے گھر سے نکلنے لگیں تو اچانک ہی گھر کے دروازے سے لپٹ کر دھا ڑیں مار کر رونے لگیں ،


ایسے میں امّا ں  گھر کے کسی کونے سے برآمد ہو ئیں   اور اپنے مخصوص تھانیدار لہجے میں بڑی آپا سےکہنے لگیں بند کرو یہ بین     ا اور جاکر گاڑی میں بیٹھو اور ہم بہنیں حیران ہو کر امّاں کو دیکھنے لگے-میں نے سو چا کم از کم آ ج کے دن تو امّاں کو بڑی آپا کو اس طرح نہیں ڈانٹنا چاہئے ،،مگر امّا ں تو امّاں تھین جو اپنے ماں ہونے کےفلسفے کےبنیادی اصول اچھّی طرح جانتی تھیں اور بھیّا جو بڑی آپاکے گھر سے نکلنے کے انتظار میں دروازے پر ہی موجودتھے ایک دم جھپاک سے خود ہی گھر سے باہر چلے گئے,,مجھے لگا جیسے بڑی آپا کے ساتھ بھیّا کا دل بھی بھر آیا تھا اورمنجھلی آپا جو خود بھی رو رہی تھیں انہو ں نے بڑی آہا کو دروازے سے الگ  کرنا چاہا تو بڑی آپا منجھلی آپا کے گلے لگ کراور زیادہ چیخ چیخ کر رونےلگیں اور امّاں پھر وہاں رکیں نہیں خود بھی وہاں سے ہٹ گئیں -منجھلی آپا نے نرگس آ پی سے کہا پانی لے آؤ تو نرگس آپی کے بجائے میں بھاگ کر پانی لے آئ مجھلی آپا نے بڑی آپا کو پیار کے ساتھ سمجھاتے ہوئےان کو پانی پلایا اور پھر انکو خود اپنے سہارے سے لے جا کر بھیّا کی گاڑی  میں بٹھا کر خود بھی بڑی آپا کے ساتھ بیوٹی پارلر چلی گئیں     بڑی آپا گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے نا طے بہت زمّہ دار تھیں لیکن مزاج کی بے حد شرمیلی اور کم گو بھی تھیں وداعی والے دن دلہن بننے کے بعد وہ میک اپ کے خراب ہونے کی پرواہ کئے بغیر چپکے چپکے گھونگھٹ کی اوٹ میں  روئے جا رہی تھیں اور رخصتی کے وقت ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے اور د ھاڑیں مار کر روئیں تو ہم سب بہنیں بھی بے حد رو ئے تھے ،


لیکن حیرت کی بات تھی کہ جب آ پا اگلے دن اپنی سسرال سے ہمارے گھر طلال بھائ کے ساتھ آئیں تو بہت خوش نظر آرہی تھیں میں بڑی آپا کو حیران ہو کردیکھ رہی تھی اور پوچھنا بھی چاہ رہی تھی کہ اب وہ رو کیوں نہیں رہی ہیں  کہ اچانک میری نظر ا نکی مہندی لگے ہاتھوں کی کلایوّں پر گئ جہاں امّاں کی پہنائ ہوئ سہاگ کی ہری اور لال کانچ کی کھنکتی ہوئ چوڑیوں کے ہمراہ سو نے کےخوبصورت جڑاؤ کنگن نظر آرہے تھے میں بڑی آپا سےاو ر سب پوچھنا بھول گئ،میں نے ان کے مہندی رچے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا ،بڑی آپا یہ سونے کے کنگن کل تو آپ کے ہاتھ میں نہیں تھے میری بات پر بڑی آپا کا چہرہ شرم سے گلابی ہو گیا اور انہوں نے حیا بار نظریں جھکا لیں اور میری بات کا جواب نہیں -مجھے بعد میں فریال بجو نے چپکے سے بتایا تھا کنگن  طلال بھائ نے منہ دکھائ میں پہنائے ہیں اور میں ہونقوں کی طرح سوچ رہی تھی منہ دکھائ کیا ہوتی ہے فریال بجو اپنی بات کہ کر جا چکی تھیں مجھےیاد ہے کہ ہماری تائ امّی کی پوری فیمیلی بہت نیک تھی 


(میری مطبوعہ ناول میں سہاگن بنی !مگر 'سے اقتباس) 

تھر پار کر میں علم کی شمع روشن کرنے والی انیلا علی

 

   کوئی راز کی بات نہیں کہ ہندوستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا، پاکستان سے تعلیمی سرگرمیوں میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کے حصول میں کرپشن، مہنگائی اور والدین کی اجازت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے-لیکن یہ سبھی مسائل بڑے شہروں میں ہیں۔ چھوٹے شہر اور قصبوں میں سرے سے تعلیمی ادارے ہی موجود نہیں۔ جہاں تعلیمی ادارے ہیں وہاں اساتذہ نہیں، عمارتیں نہیں، عمارتیں ہیں، تو فرنیچر نہیں۔ انیلا علی پاکستانی نژاد امریکی ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں تعلیمی میدان میں بہتری لانے کا عزم کیا، اور اس مقصد کی خاطر CalPak Education Services کا آغاز کیا۔ یہ ادارہ کیلیفورنیا سدرن یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور پاکستان کے پسماندہ علاقوں، چھوٹے شہروں اور قصبوں میں تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ سندھ کے 12 ہزار سے زائد سکولوں میں اساتذہ ہی نہیں انیلا اور ان کی ٹیم تعلیمی اداروں میں موجود مسائل کی نشان دہی کرتی ہے


کیلیفورنیا سدرن یونیورسٹی کی ڈاکٹر گیوین فائن سٹون اس مسائل کے حل کے لیے جتنی رقم درکار ہو فراہم کرتی ہیں۔انیلا نے تھر پارکر کا رخ کیا اور وہاں تعلیمی اداروں، اسکولوں کی قلت کو شدت سے محسوس کیا۔ ڈاکٹر گیوین فائن سٹون کو ان حالات سے آگاہ کیا اور تھرپارکر میں اسکول کھولنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر گیوین نے خیر مقدم کیا۔اس طرح اس کام کا آغاز ہوا۔ حال ہی میں     نے تیسرے سکول کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ ڈاکٹر گیوین اس موقعے پر پاکستان میں موجود تھیں۔ وہ پاکستان میں تعلیم کی کمی پر افسردہ ہیں اور تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم بھی۔ ڈاکٹر گیوین نہ صرف سکول بنانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے کیلیفورنیا یونیورسٹی کے اساتذہ کی مدد سے پاکستان کے اساتذہ کو کچھ خاص کورس کروانے کا ارارے بھی رکھتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میں پاکستان کے تعلیمی معیار یر یہاں کے اساتذہ کے پڑھانے کے طریقے کو بہتر کرنا چاہتی ہوں۔ ’


ہم نے اساتذہ کی باقاعدہ تربیت کا ارادہ کیا ہے۔ پہلے ہم صرف ان اسکولوں کے اساتذہ کی تربیت کریں گے، جو Calpak  نے بنائی ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی اور تعلیمی ادارہ ہم سے اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے رابطے کرے گا تو ہم یقیناً مدد کریں گے۔‘ڈاکٹر گیوین کا کہنا تھا کہ جب وہ تھرپارکر گئیں تو انہیں ایک حیرت انگیز مسرت نے گھیر لیا۔ وہاں لوگ بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، لیکن والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلانا چاہتے ہیں۔ بچے علم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہنر سیکھنا چاہتے ہیں۔ زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین اور دیگر گھر والوں نے دعائیں دیں۔ تحفے تحائف دیے۔ مجھ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔‘ڈاکٹر گیوین کا کہنا ہے کہ ’جب تھرپارکر میں سکول قائم ہوا تو انیلا نے مجھے بتایا کہ ہم نے لڑکیوں کے لیے سکول قائم کیا ہے،


لیکن اب والدین کہتے ہیں کہ لڑکوں کے لیے بھی سکول قائم کیا جائے۔ یہ بات میرے لیے حیران کن تھی۔ میں سوچ سکتی ہوں کہ لڑکے، لڑکیوں کو دو الگ کمروں میں بیٹھا کر تعلیم دی جائے، لیکن ایک مکمل الگ سکول کا قیام، یہ بات بہت حیران کن اور عجیب لگی، لیکن میں ان بچوں کو تعلیم دلانے کے حق میں ہوں تو میں نے انیلا علی کی بات مان لی۔‘اچھی بات یہ ہے کہ Cal Pak کا کوئی مخصوص مشن نہیں، کوئی خاص ہدف نہیں۔ ڈاکٹر گیوین فائن سٹون بتاتی ہیں کہ ہم نے یہ نہیں سوچ رکھا کہ ایک ہی علاقے میں سو سکول قائم کر دیں اور سب کو بتاتے پھریں، بلکہ ہم ضرورت کے مطابق کام کریں گے۔ جہاں جتنی ضرورت ہو گی اتنے سکول قائم کریں گے اور وہاں اساتذہ کی تربیت کریں گے۔ڈاکٹر گیوین فائن سٹون، انیلا علی اور ان کی ٹیم ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے دن رات ایک کر کے پاکستان کے ایک پس ماندہ علاقے میں تعلیم کا ایک چھوٹا سا دیا روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔تھرپارکر میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد تشویشناک ہے.تھرسندھ 2021 کے سروے کے مطابق، 5 سے 16 سال کی عمر کے 2,13,613 بچے اسکول نہیں جاتے۔ یہ صورتحال بچوں کے مستقبل اور تعلیم کے حق کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔تعلیمی اصلاحات اور بچوں کو اسکول میں واپس لانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے ایک روشن مستقبل کے طرف قدم بڑھا سکیں۔

 

 

معصوم چہرے اور سادہ دل والے محمد شیرازسے ملئے

 


 یوٹیوب پر روزمرہ زندگی اور علاقے کی خوبصورت ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کر کے شہرت حاصل کرنے والے اس ننھے ستارے نے اپنی آمدنی کو وہ رخ دیا جس نے پورے گاؤں کی تقدیر بدل دی۔یہ شائد پچھلے برس کی بات ہے میں معمول کے مطابق کمپیوٹر پر کام کر رہی تھی  کہ اچانک  یوٹیوب اوپن کیا تو ایک چھوٹا خوبصورت بچہ ماشااللہ  اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ کھڑا تھا    اس  نٹ کھٹ بچے نے اپنی بہن سے پوچھا 'تمھاری  عمر کیا ہے بہن نے جواب دیا دوسو پچاس 'اور بہن کے جواب میں بچہ کی کھلکھلاتی ہوئ ہنسی کے ساتھ کچھ دیر بہن کے جواب میں ہنستا  چلا گیا اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ اس بچے کا نام محمد شیراز ہے ااور اس کی چھوی بہن کا نام  مسکان ہے گلگت  بلتستان کے ضلع اسکردو کے خوبصورت علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد شیراز نے یوٹیوب پر اپنی روزمرہ زندگی اور علاقے کی خوبصورت ثقافت دنیا کے سامنے پیش کر کے بہت کم عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی گلگت بلتستان کے حسین وادی اسکردو سے تعلق رکھنے والے معصوم چہرے اور سادہ دل والے محمد شیراز نے یہ ثابت کر دیا کہ کامیابی صرف اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے بھی ہونی چاہیے۔


 یوٹیوب پر روزمرہ زندگی اور علاقے کی خوبصورت ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کر کے شہرت حاصل کرنے والے اس ننھے ستارے نے اپنی آمدنی کو وہ رخ دیا جس نے پورے گاؤں کی تقدیر بدل دی۔محمد شیراز کے ولاگز ہر عمر کے ناظرین کو مسحور کر دیتے ہیں۔ ان کی معصومانہ باتیں اور قدرتی انداز دیکھنے والوں کے دلوں کو چھو لیتے ہیں۔مگر حال ہی میں شیراز نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس نے سب کو حیران بھی کیا اور متاثر بھی۔انسٹاگرام پر شیراز نے ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں سب سے پہلے انہوں نے گاؤں کے ایک پرانے اسکول کی افسوسناک حالت دکھائی۔ بچے زمین پر بیٹھنے پر مجبور تھے، کلاس رومز ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے اور سہولیات کا شدید فقدان تھا۔ پھر ویڈیو کا منظر بدلتا ہے اور وہی اسکول ایک شاندار عمارت میں تبدیل دکھائی دیتا ہے۔ جدید کلاس رومز، کھیل کے میدان اور جھولے اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ خواب اگر نیک نیت سے دیکھے جائیں تو حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔   شیراز نے ویڈیو کے کیپشن میں لکھا:"لوگ پوچھتے ہیں کہ سوشل میڈیا سے مجھے کیا ملا؟ تو میرا جواب ہے: ہم نے اپنے گاؤں کا خستہ حال اسکول ایک جدید تعلیمی ادارے میں بدل دیا۔”


شیراز نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں میڈیا پر کام کرنے والا ہر شخص یہ سوچ لے کہ اگر سچے دل سے محنت کی جائے تو کسی ایک گاؤں یا شہر کی تقدیر بدل سکتی ہے، اور کامیابی کا اصل لطف تب ہے جب وہ دوسروں کے کام آئے۔گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو کے خوبصورت علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد شیراز نے یوٹیوب پر اپنی روزمرہ زندگی اور علاقے کی خوبصورت ثقافت دنیا کے سامنے پیش کر کے بہت کم عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔شیراز کے ولاگز ہر عمر کے افراد شوق سے دیکھتے ہیں اور ان کی معصومانہ گفتگو سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اب ننھے ولاگر نے ایک اور ویڈیو شیئر کی ہے جس میں شیراز نے بتایا کہ انہوں نے گاؤں کے لوگوں کے لیے مفت ایمبولنس سروس کا آغاز کیا ہے تاکہ مجبور اور مستحق افراد کی بروقت مدد کی جاسکے، کیونکہ ان کے مطابق ہر انسانی جان بہت قیمتی ہے۔ویڈیو میں شیراز نے کہا کہ گاؤں میں علاج و معالجے کے لیے کوئی اچھا ہسپتال موجود نہیں، اسی لیے لوگوں کو علاج کے لیے ایک سے دو گھنٹے کا سفر کرکے شہر جانا پڑتا ہے، جو نہ صرف مشکل ہے بلکہ اخراجات کے باعث اکثر لوگوں کی پہنچ سے بھی باہر ہوتا ہے۔


انہوں نے بتایا کہ گاؤں کی خواتین کو  بیماری  کے دوران شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے، جب کہ برف باری اور سخت سردی کی وجہ سے یہاں بزرگ، خواتین اور بچے سب بہت کٹھن زندگی گزارتے ہیں، ایسے حالات میں اگر کوئی بیمار ہوجائے تو ایمرجنسی میں شہر لے جانے کے لیے گاڑی بھی میسر نہیں آتی۔شیراز نے کہا کہ انہی مشکلات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنے گاؤں کے لوگوں کے لیے ایک ایمبولنس خریدی ہے تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں بزرگوں، خواتین اور بچوں سمیت سب کو بروقت علاج کے لیے ہسپتال پہنچایا جاسکے۔گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو کے خوبصورت علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد شیراز نے یوٹیوب پر اپنی روزمرہ زندگی اور علاقے کی خوبصورت ثقافت دنیا کے سامنے پیش کر کے بہت کم عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی لگت بلتستان کے حسین وادی اسکردو سے لےتعلق رکھنے والےمعصوم چہرے اور سادہ دل والے محمد شیراز نے یہ ثابت کر دیا کہ کامیابی صرف اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے بھی ہونی چاہیے۔

 

اسکولز وکالجز آؤٹ سورس کرنے کی منظوری

  وزیر اعظم  شہباز شریف   کی حکومت کے حالیہ  فیصلے ' آؤٹ آف سورس کے عمل سے طلبہ اور اساتذہ  کیوں بے چین ہیں -اسکولز وکالجز آؤٹ سورس کرنے کی منظوری، خیبر پختونخوا میں طلبہ کا احتجاج -خیبر  پختونخوا کابینہ کا اسکول اور کالجز کو آؤٹ سورس کرنے کے خلاف طلباء اور اساتذہ سراپا احتجاج، حکومتی فیصلے کے خلاف صوبہ بھر میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے جبکہ ان کے ہمراہ اساتذہ اور خواتین لیکچررز بھی تھیں۔ جنہوں نے حکومتی فیصلہ مسترد کردیا۔وزیرِ اعلیٰ کے مشیر اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے بتایا کہ کابینہ نے سرکاری کالجز میں اساتذہ کی کمی پوری کرنے کیلیے عارضی بنیادوں پر بھرتی کی منظوری دی ہے، اس فیصلے کی روشنی میں تین ہزار سے زائد اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے، ان عارضی اساتذہ کی بھرتی پر سالانہ تین ارب روپے لاگت آئے گی


 اسکول وکالج آؤٹ سورس کرنے کی منظوری دینے کے ساتھ صوبائی کابینہ نے ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کو بی اے کی ڈگری کے مساوی ملازمت کیلیے موزوں قرار دینے کی منظوری دی، صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری تعلیمی اداروں کو آؤٹ سورس کرنے کے مجوزہ فیصلے کیخلاف صوبہ کے مختلف اضلاع میں کالجز کے طلبہ اور اساتذہ سراپا احتجاج بن گئے۔ضلع مردان میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کے طلبا نے مین کالج چوک کو ہر قسم کی ٹریفک کیلیے بند کرتے ہوئے شدید نعرے بازی کی، اسی طرح مردان میں بھی کپلا کی کال پر حکومت کی طرف سے سرکاری کالجز کی آؤٹ سورسنگ اور سروس رولز میں مجوزہ تبدیلیوں کے خلاف احتجاج اور کلاسز کا بائیکاٹ کیا گیا۔


سوات کے علاقہ مٹہ میں مختلف سرکاری کالجز کے طلبہ نے کالجوں کی نجکاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے مٹہ چوک میں جمع ہو کر سڑک کو ٹریفک کے لیے بند رکھا اور صوبائی حکومت کے خلاف نعرے لگائے، اسی طرح تیمرگرہ میں آؤٹ سورسنگ پالیسی کے خلاف گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج تیمرگرہ کے ٹیچنگ اسٹاف نے کلاسز سے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا، کپلا لوکل یونٹ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میں آج سے کلاسز کا مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا۔اس طرح ہری پور میں تعلیمی اداروں کو آؤٹ آف سورس کرنے کے خلاف گورنمنٹ گرلز پوسٹ گریجویٹ کالج میں اساتذہ اور طالبات نے احتجاج کیا،



تعلیمی اداروں کی نجکاری کے خلاف جمعرات کو گورنمنٹ کالج کوٹھا اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا نے بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا، مظاہرین نے اس دوران روڈ کو بطور احتجاج بند رکھا اور سرکاری تعلیمی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیاضلع مردان میں بھی سرکاری کالجز کو آؤٹ سورس کرنے کے خلاف احتجاج دوسرے روز بھی جاری رہا، پروفیسرز، لیکچررز اور لائبریرینز نے کلاسز سے بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا، اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکومت فیصلہ واپس لے ورنہ احتجاج جاری رہے گا، کالج میں مظاہرین کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر