پیر، 6 اکتوبر، 2025

اداکارو صداکارمحمد علی کی دھنک رنگ داستان زندگی'part 1

 

 پاکستان کے مایہ ناز  اداکار محمد علی 19 اپریل، 1931ء میں بھارت کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے۔ چار بھائی بہنوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑے بھائی ارشاد علی تھے۔ محمد علی ابھی تین سال کے تھے کہ ان کی والدہ فوت ہو گئیں۔ ان کے والد سید مرشد علی نے ان کی پرورش کی خاطر دوسری شادی نہیں کی حالانکہ اس وقت ان کی عمر 35 برس تھی۔  محمد علی کے والد سید مرشد علی بہت بڑے دینی عالم تھے۔ محمد علی نے 14 سال تک اسکول کی شکل نہ دیکھی وہ صرف مدرسے میں اردو، عربی، فارسی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔1943 ء میں اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے ملتان آ گئے۔  محمد علی کے خاندان کے زیادہ تر لوگ حیدرآباد سندھ میں رہتے تھے اس لیے 1955 ء میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہو گئے۔ اور سٹی کالج حیدرآباد سے انٹر پاس کیا۔محمد علی کو پائلٹ بننے کا شوق تھا اور وہ پائلٹ بن کر ایئر فورس جوائن کرنا چاہتے تھے۔



 مگر معاشی حالات تنگ تھے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ایبٹ آباد جاکر ٹرینینگ حاصل کرسکیں۔انھیں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل نظر آ رہا تھا۔ ذریعہ معاش کے لیے انھوں نے کوئی کام کرنے کا سوچا۔ ان کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں بطور ڈراما آرٹسٹ کام کر رہے تھے ۔محمد علی نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد، سندھ سے کیا۔ ان کی بھرپور آواز نے انھیں ایک بہترین ریڈیو صداکار کی حیثیت سے منوایا اور انھیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیا۔اس وقت ایک ڈرامے کی صدا کاری کے دس روپے ملا کر تے تھے۔ بعد ازاں انھوں نے ریڈیو پاکستان بہاولپور سے بھی پروگرام کیے۔ ان کی آواز سن کر ریڈیو پاکستان کے جرنل ڈرائریکٹر ذوالفقار احمد بخاری المعروف زیڈ۔ اے بخاری صاحب نے انھیں کراچی بلا لیا۔


 سونے کو کندن بنانے میں زیڈ۔ اے بخاری مرحوم کا بہت ہاتھ تھا۔ انھوں نے محمد علی کو آواز کے اتار چڑھاؤ، مکالموں کی ادائیگی، جذبات کے اظہار کا انداز بیاں اور مائکرو فون کے استعمال کے تمام گرسکھا دیے۔ زیڈ۔ اے بخاری نے ان کی آواز کی وہ تراش خراش کی کہ صدا کاری میں کوئی ان کا مدمقابل نہ رہا۔1962ء میں فِلم ’ چراغ جلتا رہا‘ سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ محمد علی کی اداکاری اور مکالمے بولنے کے انداز نے دوسرے فلم سازوں اور ہدایتکاروں کو متوجہ کر لیا۔ اور جلد ہی ان کا شمار ملک کے معروف فلمی اداکاروں میں کیا جانے لگا۔ پہلی فلم کے بعد محمد علی نے ابتدائی پانچ فلموں میں بطور ولن کام کیا۔ محمد علی کو شہرت 1963 ء میں عید الاضحی پر ریلیز ہونے والی فلم "شرارت" سے ملی۔ انھوں نے درجنوں فلموں میں بحیثیت ہیرو کے کام کیا۔ ان کی فلموں کی زیادہ تر ہیروئن ان کی اپنی اہلیہ زیبا تھیں نیز ان فلموں میں زيادہ تر گانے جو ان پر فلمائے گئے ان کے گلوکار مہدی حسن تھے۔انھوں نے 300 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ "علی زیب" کی جوڑی اتنی کامیاب تھی کہ انھوں تقریباً 75 فلموں میں اکٹھے کام کیا۔



 فلم "تم ملے پیار ملا" کی شوٹنگ کے دوران ہی بروز جمعرات 29ستمبر، 1966 ء کی سہ پہر تین بجے اداکار آزاد کے گھر واقع ناظم آباد میں محمد علی نے زیبا سے نکاح کر لیا۔ علی زیب نے ایک انتہائی خوش گوار بھر پور ازدواجی زندگی گزاری، کئی یادگار فلموں میں اپنی یادگاری کے جوہر دکھائے، نہ صرف پاکستان، بلکہ دوسرے ممالک میں بھی علی زیب ایک قابل احترام جوڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں دونوں نے حج بھی کیا اور کئی عمرے بھی ادا کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شماردولت، عزت اور شہرت عطا کی، لیکن اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا۔اس پر بھی محمد علی اﷲ کے شکر گزار تھے اور اس محرومی کو اﷲ کی مصلحت قرار دیتے تھے۔ محمد علی نے زیبا کی بیٹی ثمینہ جو لالا سدھیر سے تھی۔ اسے اپنی سگی بیٹی کی طرح پالا اسے اپنا نام دیا۔ پندرہ سال تک وہ اپنا ایک خیراتی ادارہ چلاتے رہے۔ شادی کے بعد محمد علی اور زیبا نے "علی زیب" کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس قائم کیا اور "علی زیب" کے بینر تلے کافی اچھی اور کامیاب فلمیں بنائیں۔سماجی و سیاسی زندگی-محمد علی نے کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔


یہ تحریر  میں نے انٹرنیٹ سے لی ہے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر