بدھ، 8 اکتوبر، 2025

'کون ہیں حضرت ابو طالب؟

 

سید نا  عبدالمطلب ؑ کی وفات کے بعد آغوشِ ابوطالب ؑ (۵۴۰تا۶۱۹ء)میں،درّ یتیم کی پرورش کا آغاز ہوا۔ذاتِ قدرت نے نورِ رسالت ؐ کو ابو طالب ؑ کے گھرانے میں ضم کر دیا اور سیدنا ابوطالب ؑ نے آپ ؐ کی حفاظت و خدمت گزاری کا حق ادا کر دیا۔اپنے بچوں سے بڑھ کر حضور کوپیار فرمایا۔ایک لمحہ بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔رات ہوئ تو اپنے پہلو میں سلایا۔کھانے کے وقت حضور ؐ سے پہلے کسی کو کھانا نہ کھانے دیا۔قلتِ خوراک ہوئی تو اپنی اولاد کو بھوکا رکھااور حضور کوسیرفرمایا۔ انہی باتوں کا تذکرہ فرما تے حضور ؐ آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ قادرِ مطلق نے اسی آغوشِ ابوطالب ؑ کا قرآنِ مجید میں ذکر فرماتے اپنی آغوشِ رحمت سے تشبیہ دی ہے۔ یہ ایسی موزوں اور مامون پناہ تھی کہ جس کی بدولت دینِ متین کی تبلیغ و اشاعت ہوئی۔ آپ کی ولادت باسعادت سے پہلے سید العرب کو آپ کی بشارت دی گئی ،’’ اَنَّ عَبْدُالْمُطَّلِبْ رَأیٰ فِیْ مَنَامِہٖ کَانَ قَاءِلاً یَقُوْلَ لَہُ: اِبْشِرْ یا شَیْبَۃِالْحَمْد بِعَظِیْمِ الْمَجْدِ بِاَکْرَمِ وُلْدٍ، مِفْتَاحُ الْرُّشْدِ،لَیْسَ لِلْاَرْضِ مِنْہُ مَنْ بِدُّ‘‘،حضرت عبدالمطلب ؑ نے بعالمِ رؤیاملاحظہ فرمایاکہ کہنے والے نے اُن سے کہا، جنابِ شَیْبَۃِالْحَمْد آپ کوعدیم النظیر، سرچشمہء رشد وہدایت مکرم فرزندکے عظیم الشان شرف و مجد کی بشارت ہو ۔



؎حضرت عبدالمُطّلب ؑ کے انتقالِ پرملال کے بعدنورِرسالتؐ کی حفاظت کے لیے سیّدناابو طالب ؑ کمربستہ ہوگئے اور ہر محاذ پر کفّارِ مکہ اور جہلائے عرب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا؛جب میں نے قوم میں چاہت کا فقدان ،بے مروتی دیکھی کہ انہوں نے تمام تعلقات اور رشتہ داریوں کوپس پشت ڈال دیا۔ ہمارے ساتھ کھلی دشمنی اور ایذارسانی کی اور ہم سے الگ ہو جانے والے دشمن کی بات مانی ۔نیز ہمارے خلاف تہمت زدہ لوگوں سے معاہدے کیے جو پسِ پشت غصے سے انگلیاں چباتے ہیں۔تو میں بذاتِ خود ایک لچکدار نیزہ اور شاہانِ سلف سے وراثت میں ملی ہوئی ایک چمک دار تلوار ۱؂لے کر ان کے مقابلے میں ڈٹ گیا اور میں نے اپنے جماعت اور اپنے بھائیوں کو بیت اللہ کے پاس بلوایا اور اس (بیت اللہ )کا سرخ دھاری دار غلاف تھام لیا۔اس کے عظیم الشان دروازے کے مقابل اس مقام پر جہاں برأت ثابت کرنے والا حلف اٹھاتا ہے ۔ سب کے ساتھ کھڑے ہو کر (اس کے غلاف کوتھام لیا۔)   مقاول ،مِقْوَلْ کی جمع ہے جویمن کے حمیری بادشاہوں کا لقب تھا۔


سیف بن ذی یزن حمیری نے دیگربیش قیمت تحائف کے ساتھ سفیدچمک دار تلوار حضرت عبدالمطلب ؑ کی خدمت میں پیش کی جووراثت میں حضرت ابوطالب ؑ کے پاس آئی جس کی جانب آپ نے یہاں اشارہ فرمایاہے ۔ابوطالب،جن کی رفاقت و نصرت اسلام کا محکم حصار بن گئی۔ابو طالب ؑ ،جنہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی۔ابوطالب ؑ ،جن کی قربانیوں سے محسنِ انسانیت کے بازو مضبوط ہوئے۔ابوطالب ؑ ،جن کے آہنی ارادوں اور کارگزاریوں سے جمعیتِ کفار و مشرکین لرزہ براندام رہی۔ابوطالب ؑ ،جن کی حکمتِ عملی سے کفار کی نیندیں حرام تھیں۔ابوطالب ؑ جو گلشنِ رسالت کی حفاظتی دیوار تھے۔ابوطالب ؑ ،جو حضور ؐ کے شفیق تایااور کفیل تھے۔ابوطالب ؑ ،جو مولائے کائنات علی مرتضیٰ ؑ شیر خدا ،جعفر طیّا ر ؑ اور عقیل ؑ کے والد تھے۔ابو طالب ؑ ،جو سید الشہدا امیر حمزہ ؑ ،شیر رسالت کے بھائی تھے۔ابو طالب ؑ ،جو حسنین کریمین ؑ ،سردارانِ جنت کے داداحضور تھے۔


ابوطالب ؑ ، جو سیدہ زینب ؑ و ام کلثوم ؑ کے دادا تھے۔ابوطالب ؑ ، جو شہدائے کربلا، شہدائے بغداد،شہدائے شیراز،اصفہان و ساوِہ اور شہدائے نیشاپورکے مورثِ اعلیٰ تھے۔ابو طالب ؑ ، جن کی اولاد نسبِ رسول ؐ ہے۔ ۔وہ فرزند جو حافظِ قرآن و حدیث،شب بیدار،تہجدگزار،عابد،زاہد،عالم،فقیہ،محدث اور مفسر قرآن و شارح اسلام تھے۔ جن کی آغوش کو ذاتِ قدرت نے اپنی پناہ قرار دیا وہ سوائے سیدنا ابو طالب ؑ کے اور کون ہے؟سیدنا ابو طالب ؑ نے آنحضرت ؐ کے لیے جو جانثاری فرمائی  ۔ فاقے اٹھائے،شہر بدر ہوئے،تین برس تک آب و دانہ بند رہا۔ ’’شِعْبِ اَبیْ طَالِبؑ ‘‘کے حصار کا تمغہ کس کے سینے پر سجے گا؟مقاطعہ قریش میں حصارِ رسالتؐ کے لیے شعبِ ابی طالب ؑ سے کون واقف نہیں     ا  ور اس دوران پیارے مصطفٰی ؐ کے بستر پر علی مرتضٰی ؑ شیرِخُدا اور جعفرطیار کو سلا کردشمنانِ اسلام کی تلواروں کے سامنے اپنے لختِ جگر پیش کرنے والے ابو طالب ؑ کے علاوہ اور کون ہیں۔

1 تبصرہ:

  1. اللہ تعالی نے یہ اعزاز حضرت ابوطالب کو دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو ان کی آغوش میں پرورش کرنے کو دیا

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر