آج اپنی داستان حیات شروع کرتے ہوئے میں سوچ رہی ہوں کہ ہر انسان اپنی زندگی مختلف ادوار میں بسر کرتا ہے بچپن جوانی بڑھاپا'میں نےجب ا پنے بچپن کا دور گزار کر دوسرے دور میں جینے کے لئے قدم رکھّا تب مجھے احساس ہوا کہ جیسے میں بچپن کے بعد اپنے دوسرے دور کےبجائے اچانک ہی تیسرے دور میں داخل ہو گئ تھی بلکل اس بچّے کی طرح جوسیڑھیاں پھلانگتے ہوئے خود بہ خود بیچ کی دوسری سیڑھی چھوڑ کر دوسری کےبجائے تیسری سیڑھی پر آ جائےاور میری اس داستان حیات کا محور میری یہی زندگی ہے جس میں ،میرے شعور نےآنکھ کھولی اور مجھے زندگی کے بہت سے ایسے فلسفوں سے آشنا کیا جن سے شائدمیری عمر کی اور لڑکیاں واقف نہیں ہوتی ہوںاللہ میاں کے دستوربھی کتنے نرالے ہیں 'ہمارےگھر میں صرف پہلوٹھی کے بھیّا کو دینے کے بعد ہم چار بہنوں فرحین آپی جن کو میں اور ہم سب بہنیں بڑی آپا کہتے ہیں،پھر منجھلی آپا ندرت ،ان کے بعد فریال جو ہمارے لئے فریال بجّو ہیں اور ان کے بعد نرگس آپی ہیں ،ان چاروں کو او پر تلےامّاں کے آنگن میں بھیج دیا ،پھر چار برس تک ان کے آنگن سوکھے دھانوں کوئ پانی ناپڑا تھا کہ میں ان کے آنگن میں اتر آئ
،مجھے نہیں معلوم کہ امّاں لڑ کیوں سے بیزاری کے سبب اتنی تلخ زبان رکھتی تھیں یا ان کا مزاج ہی ایسا تھا ،لیکن ابّا ہم بیٹیوں کے لئے بہت مشفق و مہربان تھے ،امّاں عام بات بھی کرتی تھیں تو ہم بہنوں کو ان کا حکم ہی لگتا تھا،ابّا کبھی کبھی کہتے ارے نیک بخت ان کے ساتھ اتنی سختی نا برتو ,,یہ توہما رے آنگن کی چڑیاں ہیں ،دیکھ لیناایک دن ہو گا کہ اپنے اپنے آشیانےبنانے اڑ جائیں گی اور ہمارا یہی آنگن ان کے بنا سائیں سائیں کرتا ہو گا'اور امّاں ابّا سے کہتی تھیں تم بلاوجہ ان کے دماغ مت خراب کیا کرو ،آخران کو دوسرا گھر اپنا پتّہ مار کر سنبھانا ہے ابھی سے عادت نہیں ڈالی جائے تو لڑکی نخرے دار اٹھتی ہےمیری سمجھ میں امّاں کی باتیں ہرگز نہیں آتی تھیں ناجانے ابّا سمجھتےتھے کہ نہیں پھر وہ امّاں سے کچھ بولتے نہیں تھے اور امّا ں کے دل شکن نعروں کی گونج میں جب میں با شعور ہوئ تو گھر سے بڑی آپا کی رخصت کی گھڑی آ گئ تھی بڑی آپا ہما رے منجھلے تایا ابّا کے گھر بچپن کی مانگ تھیں مجھے یاد ہے وداعی و الے دن بڑی آپا جب بیوٹی پالر جانے کے لئے گھر سے نکلنے لگیں تو اچانک ہی گھر کے دروازے سے لپٹ کر دھا ڑیں مار کر رونے لگیں ،
ایسے میں امّا ں گھر کے کسی کونے سے برآمد ہو ئیں اور اپنے مخصوص تھانیدار لہجے میں بڑی آپا سےکہنے لگیں بند کرو یہ بین ا اور جاکر گاڑی میں بیٹھو اور ہم بہنیں حیران ہو کر امّاں کو دیکھنے لگے-میں نے سو چا کم از کم آ ج کے دن تو امّاں کو بڑی آپا کو اس طرح نہیں ڈانٹنا چاہئے ،،مگر امّا ں تو امّاں تھین جو اپنے ماں ہونے کےفلسفے کےبنیادی اصول اچھّی طرح جانتی تھیں اور بھیّا جو بڑی آپاکے گھر سے نکلنے کے انتظار میں دروازے پر ہی موجودتھے ایک دم جھپاک سے خود ہی گھر سے باہر چلے گئے,,مجھے لگا جیسے بڑی آپا کے ساتھ بھیّا کا دل بھی بھر آیا تھا اورمنجھلی آپا جو خود بھی رو رہی تھیں انہو ں نے بڑی آہا کو دروازے سے الگ کرنا چاہا تو بڑی آپا منجھلی آپا کے گلے لگ کراور زیادہ چیخ چیخ کر رونےلگیں اور امّاں پھر وہاں رکیں نہیں خود بھی وہاں سے ہٹ گئیں -منجھلی آپا نے نرگس آ پی سے کہا پانی لے آؤ تو نرگس آپی کے بجائے میں بھاگ کر پانی لے آئ مجھلی آپا نے بڑی آپا کو پیار کے ساتھ سمجھاتے ہوئےان کو پانی پلایا اور پھر انکو خود اپنے سہارے سے لے جا کر بھیّا کی گاڑی میں بٹھا کر خود بھی بڑی آپا کے ساتھ بیوٹی پارلر چلی گئیں بڑی آپا گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے نا طے بہت زمّہ دار تھیں لیکن مزاج کی بے حد شرمیلی اور کم گو بھی تھیں وداعی والے دن دلہن بننے کے بعد وہ میک اپ کے خراب ہونے کی پرواہ کئے بغیر چپکے چپکے گھونگھٹ کی اوٹ میں روئے جا رہی تھیں اور رخصتی کے وقت ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے اور د ھاڑیں مار کر روئیں تو ہم سب بہنیں بھی بے حد رو ئے تھے ،
لیکن حیرت کی بات تھی کہ جب آ پا اگلے دن اپنی سسرال سے ہمارے گھر طلال بھائ کے ساتھ آئیں تو بہت خوش نظر آرہی تھیں میں بڑی آپا کو حیران ہو کردیکھ رہی تھی اور پوچھنا بھی چاہ رہی تھی کہ اب وہ رو کیوں نہیں رہی ہیں کہ اچانک میری نظر ا نکی مہندی لگے ہاتھوں کی کلایوّں پر گئ جہاں امّاں کی پہنائ ہوئ سہاگ کی ہری اور لال کانچ کی کھنکتی ہوئ چوڑیوں کے ہمراہ سو نے کےخوبصورت جڑاؤ کنگن نظر آرہے تھے میں بڑی آپا سےاو ر سب پوچھنا بھول گئ،میں نے ان کے مہندی رچے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا ،بڑی آپا یہ سونے کے کنگن کل تو آپ کے ہاتھ میں نہیں تھے میری بات پر بڑی آپا کا چہرہ شرم سے گلابی ہو گیا اور انہوں نے حیا بار نظریں جھکا لیں اور میری بات کا جواب نہیں -مجھے بعد میں فریال بجو نے چپکے سے بتایا تھا کنگن طلال بھائ نے منہ دکھائ میں پہنائے ہیں اور میں ہونقوں کی طرح سوچ رہی تھی منہ دکھائ کیا ہوتی ہے فریال بجو اپنی بات کہ کر جا چکی تھیں مجھےیاد ہے کہ ہماری تائ امّی کی پوری فیمیلی بہت نیک تھی
(میری مطبوعہ ناول میں سہاگن بنی !مگر 'سے اقتباس)
میری کوشش ہے کہ میں اپنی اس ناول کو سماج کی لڑکیوں کے لئے نفیس پیرائے میں اصلاح کا پہلو اجاگر کروں
جواب دیںحذف کریں