شاعر ریاض الرحمان ساغر یکم دسمبر، 1941ء کو مولوی محمد عظیم اور صدیقاں بی بی کے ہاں بھٹنڈہ، ریاست پٹیالہ، صوبہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت ان کے خاندان نے پاکستان کی طرف ہجرت کی، راستے میں قافلے پر شرپسندوں کے حملے کے دوران ان کے والد جاں بحق ہو گئے۔ مزید یہ ان کا دو سال کا چھوٹا بھائی بھی دورانِ سفر بھوک اور پیاس کی وجہ سے انتقال کر گیا۔ ریاض الرحمان اور ان کی والدہ لٹے پٹے قافلے کے ہمراہ والٹن کیمپ میں پہنچے، یہاں سے ملتان چلے گئے۔ ریاض الرحمان کی والدہ نے محنت مشقت کر کے اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائی۔ انھوں نے ملت ہائی اسکول ملتان سے میٹرک اور ایمرسن کالج سے بی اے کیا۔ ریاض الرحمان نے نویں کلاس میں ایک انگلش نظم کا بہترین اردو ترجمہ کیا تو ان کے ٹیچر ساغر علی نے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کی بہت تعریف کی اور پوری کلاس کے سامنے بھرپور حوصلہ افزائی کی۔
اپنے استاد کی جانب یہ حوصلہ افزائ ریاض الرحمان کو اتنی اچھی لگی کہ انہوں نے اپنا تخلص اپنے استاد کے نام سے منسوب کر لیا -اور اسی دور میں استاد شعرأ کے کلام کا مطالعہ بھی شروع کر دیا۔ یوں کالج پہنچنے تک ساغر کو قدیم و جدید شعرأ کے سینکڑوں اشعار زبانی یاد ہو چکے تھے۔ ایمرسن کالج ملتان میں سیکنڈ ائیر میں طالب علموں کو جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری سنانے پر کالج سے نکال دیا گیا جن میں ریاض الرحمان بھی شامل تھے۔ 1956ء میں لاہور آ کر فیض صاحب سے ملاقات کی اور انھیں اپنا احوال زندگی گوش گزار کیا، چنانچہ فیض صاحب نےشفقت فرماتے ہوئے نوکری پر رکھ لیا، لیکن کچھ عرصہ بعد روزنامہ نوائے وقت میں روزگار کا سلسلہ شروع ہو گیا جو آخری دم تک جاری رہا۔اسی دوران فلمی دنیا سے وابستگی ہوئ-اور اس طرح معروف شاعر اور نغمہ نگار قتیل شفائی کے ساتھ ان کی دوستی ہو گئی جنھوں نے ریاض الرحمان کا بھرپور ساتھ دیا۔ فلم 'شریک حیات' کے لیے لکھا ہوا نغمہ 'میرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے' ریاض الرحمان کے لیے کامیابی کا زینہ ثابت ہوا۔
اس کے بعد فلم 'سماج' کے نغمے 'چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں دنیا کے رسم و رواج توڑ دیں' نے ریاض الرحمان کے لیے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ریاض الرحمٰن ساغر نے فلم، ریڈیو پاکستان، ٹی وی کے لیے تین ہزار کے قریب نغمے تخلیق کیے جنہیں مہدی حسن، نورجہاں، عدنان سمیع، احمد رشدی، مالا، مسعود رانا، استاد نصرت فتح علی خان، حامد علی خاں، اے نیئر، وارث بیگ، انور رفیع، رونالیلیٰ، حمیرا ارشد، حمیرا چنا، ناہید اختر، تصور خانم، ثریا خانم، نصیبو لال سمیت دیگر نمایاں گلوکاروں نے گایا۔
ان کے تخلیق کردہ مقبول نغموں میں 'ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو'، 'بھیگا ہوا موسم پیارا'، 'تیری اونچی شان ہے مولا'، 'کبھی تو نظر ملاؤ'، 'بھیگی بھیگی راتوں میں'، 'تیرے سنگ رہنے کی کھائی ہے قسم'، 'چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں'، 'کچھ دیر تو رک جاؤ برسات کے بہانے'، 'دلی لگی میں ایسی دل کو لگی کہ دل کھو گیا'، 'دیکھا جو چہرہ تیرا موسم بھی پیارا لگا'، 'کل شب دیکھا میں نے چاند جھروکے میں'،
'مینوں یاداں تیریاں آؤندیاں نیں'، 'کسی روز ملو ہمیں شام ڈھلے شامل ہیں۔'ہو سکے تو میرا ایک کام کرو'، 'جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم'، 'ساون کی بھیگی راتوں میں اعزازات-ریاض الرحمان ساغر کو نیشنل فلم ایوارڈ، پی ٹی وی ایوارڈ، کلچرل گریجویٹ ایوارڈ، نگار ایوارڈ، بولان ایوارڈ سمیت مختلف سماجی اور ثقافتی اداروں کی طرف سے ڈیڑھ سو سے زائد انعامات ملے۔اور وہ اپنی ترقی کا سفر طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئےبطور کہانی کار و مکالمہ نویس ریاض الرحمان ساغر نے 100کے قریب فلمیں لکھیں جن میں 'شمع 'نوکر'، 'سسرال'، 'عورت ایک پہیلی'، 'سرگم'، 'نذرانہ'، 'بھروسا'، 'نکاح'، 'محبتاں سچیاں' جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں-بطور کہانی کار و مکالمہ نویس ریاض الرحمان ساغر نے 100کے قریب فلمیں لکھیں جن میں 'شمع'، 'نوکر'، 'سسرال'، 'عورت ایک پہیلی'، 'سرگم'، 'نذرانہ'، 'بھروسا'، 'نکاح'، 'محبتاں سچیاں' جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں۔
تصانیف-وہ کیا دن تھے (سوانح عمری)
کیمرا، فلم اور دنیا ( سات ملکوں کا سفر نامہ)
لاہور تا بمبئی براستہ دہلی ( بھارت کا سفر نامہ)
سرکاری مہمان خانہ ( جیل یاترا کااحوال)
میں نے جو گیت لکھے (گیت)
چلو چین چلیں (منظوم سفر نامہ)
چاند جھروکے میں (شاعری)
پیارے سارے گیت ہمارے (شاعری)
سر ستارے (شاعری)
آنگن آنگن تارے (بچوں کے گیت)
ریاض الرحمان ساغر کی وفات یکم جون، 2013ء کو لاہورمیں ہوئ ۔ وہ کریم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں
میری دعاء ہے اللہ پاک ان کی روح کو ابدی آرام میں رکھے آمین
جواب دیںحذف کریں