اتوار، 23 نومبر، 2025

پاکستانی معیشت کی تنزلی کے اسباب زراعت کی تباہی'پارٹ'1

 



آج اگر پاکستانی معیشت کی تنزلی کے اسباب پر اگر غور کیا جائے  تو جوسب سے پہلی چیز نظر آتی ہے وہ ہے   زراعت کی تباہی'اس تباہی   کے سبب                            مالیاتی بحران کی وجہ سے عالمی سطح پر طلب اور رسد میں  کمی واقع ہوئی جس کا اثر پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پر بھی پڑا۔ 2010میں بجلی کی قلت اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث اس انڈسٹری کو بحران کا سامنا کرنا پڑا۔گذشتہ خریف میں میری زمینوں پر کپاس کاشت کی گئ اور ہمیں 29 ہزار روپے فی ایکڑ نقصان اٹھانا پڑا، اب مارچ-اپریل کے دوران میں کپاس نہیں اگاؤں گا۔’یہ الفاظ کسی اور کے نہیں بلکہ پاکستان کے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہیں، جو انہوں نے دو روز قبل اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہے۔شاہ محمود قریشی، جن کا شمار ملتان کے بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے، نے کہا کہ مارچ -اپریل میں شروع ہونے والے خریف سیزن کے لیے ان کی زمینوں پر دوسری فصلیں کاشت کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔شاہ محمود قریشی پاکستان میں واحد زمیندار نہیں جو کپاس جیسی نقد آور فصل، جسے دنیا میں سفید سونا (وائٹ گولڈ) بھی کہا جاتا ہے، 


  کپاس  ہماری زرعئ معیشت کا ایک بڑا ستون ہے اور ہم کپاس  کی کاشت    کو پس پشت ڈال رہے ہیں ، بلکہ ہزاروں دوسرے زمیندار بھی اسی طرح کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ملتان ہی سے تعلق رکھنے والے درمیانے درجے کے زمیندار  بھی ان کاشت کاروں میں شامل ہیں جو ہمیشہ اپنی زمینوں پر کپاس کاشت کیا کرتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ انہوں  نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میں اپنے فائدے کو دیکھتے ہوئے کپاس چھوڑ کے گندم، مکئی اور چاول کی طرف جا رہا ہوں، کیونکہ کپاس میں سراسر نقصان ہے اور ایسا میں اکیلا نہیں کر رہا بلکہ دوسرے زمینداروں کی بھی یہی سوچ ہے۔‘پاکستان جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں 15 جنوری تک کپاس کی پیداوار 55 لاکھ گانٹھیں رہیں، جو گذش سالوں میں سب سے کم ہےسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کے دوران کپاس 22 لاکھ ہیکٹرز رقبے پر کاشت کی گئی ہے جو 1982 کے بعد سے کم ترین رقبہ ہے۔کپاس کے زوال کی وجوہات کیا ہیں؟ایک زمانہ تھا جب پاکستان کپاس میں خود کفیل تھا اور سالانہ 25 لاکھ گانٹھیں بیرون ملک بھیجا کرتا تھا،


 لیکن اب صورت حال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ اس سال ٹیکسٹائل ملز اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے 70 سے 80 لاکھ گانٹھیں درآمد کریں گی، جس پر تقریباً تین ارب ڈالر خرچ ہونے کا اندازہ ہے۔پاکستان میں کپاس کی فصل کی زبوں حالی کا اندازہ لگانے کے لیے پنجاب کے ضلع وہاڑی کی اکثر مثال دی جاتی ہے، جہاں دس سال قبل تک کپاس کی پیداوار 16 لاکھ گانٹھیں تھیں، لیکن گذشتہ چند سال سے وہاں سفید سونے کی ایک ڈالی بھی نہیں اگائی جا رہی۔بھارت، جس کی 2005 تک کپاس کی پیداوار 14 ملین گانٹھیں سالانہ تھیں، اب ہر سال ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ کپاس پیدا کر رہا ہے، جبکہ پاکستان ایک عشرہ قبل تک ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں کی پیداوار سے 55 لاکھ تک آ گیا ہے۔ماہرین کپاس کے زوال کی سب سے بڑی وجہ حکومتی عدم توجہی اور غلط پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں، جس کے باعث کاشتکار مکئی، گندم اور چاول کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔خواجہ شعیب کا کہنا تھا کہ گذشتہ دس سالوں کے دوران حکومتوں نے کپاس کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا جس کی وجہ سے آج یہ فصل پاکستان سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔بقول شعیب: ’شاید آئندہ دس سال بعد ہم کہیں گے کہ پاکستان میں کبھی کپاس اگائی جاتی تھی۔


ان کے خیال میں موجودہ اور ماضی قریب کے حکمرانوں نے ملک بھر میں گنے کو غیر ضروری طور پر اہمیت اور مراعات دیں، جو کپاس کے لیے مضر ثابت ہوئیں۔اس سوال کے جواب میں کہ گنے کو اہمیت کیوں دی جا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: ’گذشتہ اور موجودہ حکومتوں میں شامل اہم شخصیات شوگر ملوں کی مالک ہیں، تو انہوں نے دراصل اپنے کاروبار کو فروغ دیا ہے۔‘پاکستان جنرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین ڈاکٹر جسومل ٹی لیمانی کا کہنا ہے کہ کپاس کے کسان کو سب سے بڑا مسئلہ معیاری بیج کی فراہمی ہے، جس کی عدم موجودگی میں روایتی بیج ہی استعمال ہو رہا ہے۔روایتی بیج کے استعمال سے فصل کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ کاشتکار کپاس اگانا چھوڑ دیتا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کپاس کے بیج پر کوئی ریسرچ نہیں ہو رہی جبکہ اس کام کے لیے ادارے موجود ہیں۔پاکستان میں زراعت کے تحقیقی ادارے پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے سابق سربراہ ڈاکٹر یوسف ظفر نے تحقیقات نہ ہونے کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہو ئے کہا کہ ریسرچ کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔


2 تبصرے:

  1. زراعت کا شعبہ پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. جی ہاں، زراعت پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے کیونکہ یہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جس میں جی ڈی پی کا 22% حصہ شامل ہے اور کثیر زرِ مبادلہ کماتا ہے. یہ شعبہ روزگار فراہم کرتا ہے اور ملکی و عالمی خوراک کی ضروریات پوری کرنے میں مددگار ہے.

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر