مولائے کائنات کی عظمت و جلالت غیر مسلم مشاہیر عالم کی نظر میں ان ہستیوں نے مولا علی کے جو اوصاف لکھے ہیں ان میں سے ہر ایک کتاب حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک حصے کو بیان کرتی ہے اور ان کی زندگی کا ہر پہلو تمام نوع انسانی بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب و مکتب ، قوم و ملت ، شرق و غرب زندگی کے تمام مراحل ، شعبے اور ادوار کے لئے مشعل راہ ہے۔ آج علماء و دانشور اپنی علمی پیاس بجھانے اور ناخواندہ اپنے ہادی سے درس ہدایت کی تلاش میں ہیں زاہد ، متقی ، عابد امام المتقین کی تلاش میں ہیں ۔ حقوق انسانی سے لے کر حقوق غیر بشری تک یا گھریلو حقوق سے لےکر عالمی طبقاتی و غیر طبقاتی حقوق تک سب فطری طور پر ایک ایسے ہی فطری رہنماء کی تلاش میں ہیں سیاستدان اپنی سیاست ، دیندار اپنے دینی مسائل ، تاجر اپنی تجارت کے معاملات میں ، محقق اپنی تحقیق کے مراحل میں ، فطرت سلیم جیسے کامل ترین رہنماء کی تلاش میں ہیں مختلف مکاتب ومسالک ، مذاہب و ادیان کے علماء و دانشوروں نے نبی کریمﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو ان تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا ہے۔
ا ایک (ہندو پنڈت اچاریہ پرمود کرشنا)
کی منقبت جو ایک ہندو ہوکرحضرت علیؓ کیلئے بھرپور خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔
میرے سینے کی دھڑکن ہیں میری آنکھوں کے تارے ہیں۔
سہارا بے سہاروں کا نبیﷺ کے وہ دُلارے ہیں۔
سمجھ کر تم فقط اپنا انہیں تقسیم نہ کرنا،
علی جتنے تمہارے ہیں علی اتنے ہمارے ہیں۔
نبیﷺ نورِ خدا ہے تو علی نورِ نبیﷺ سمجھو
نہ اس سے کم گوارا تھا نہ اس سے کم گوارا ہے۔
سمندر درد کا اندر مگر میں پی نہیں سکتا
لگے ہوں لاکھ پہرے پر لبوں کو سی نہیں سکتا
علی والو علی کے عشق کی یہ داستان سن لو
اگر علی کا ذکر نہ ہو تو یہ بندہ جی نہیں سکتا۔
جس کسی نے بہی اس عظيم شخصیت کے کردار،گفتار اور اذکار ميں غور کيا، وہ دريائے حيرت ميں ڈوب گيا اور شانِ علیؓ لکھنے پر مجبور ہوگیا۔ايک غیر مسلم محقق لکھتا ہے کہ حضرت علی عليہ السلام وہ پہلی شخصيت ہيں جن کا پورے جہان سے روحانی تعلق ہے وہ سب کے دوست ہيں اور اُن کی موت پيغمبروں کی موت جیسی ہے-
معروف سکھ دانشور، شاعر و ادیب کنور مہندر سنگھ بیدی سحر لکھتا ہے۔
تُو تو ہر دین کے، ہر دور کے انسان کا ہے
کم کبھی بھی تیری توقیر نہ ہونے دیں گے
ہم سلامت ہیں زمانے میں تو ان شاء اللہ
تجھ کو اک قوم کی جاگیر نہ ہونے دیں گے۔
تھامس کار لائیل لکھتا ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) ایک عظیم ذہن رکھتے تھے اور بہادری ان کے قدم چومتی تھی، ہم علی(علیہ السلام )کو اس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم ان کو دوست رکھتے ہیں اور ان کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں، وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے، ان کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے، ان کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے، وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن ان کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش بھی تھی پھر اچانک کوفہ میں کسی بہانے سے انہیں قتل کردیاگیا، ان کے قتل کی وجہ حقیقت میں ان کا درجہء کمال تک پہنچا ہوا عدل تھا، جب علی(علیہ السلام) سے اُن کے قاتل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں زندہ رہا تو میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہئے، اگر میں زندہ نہ بچ سکا تو یہ کام آپ کے ذمہ ہے، اگر آپ نے قصاص لینا چاہا تو آپ صرف ایک ہی ضرب لگا کر سزا دیں گے اور اگر اس کو معاف کردیں تو یہ تقویٰ کے نزدیک تر ہے۔
تھامس کار لائل مزید لکھتا ہے کہ ہمارا اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) سے محبت اور عشق کریں، کیونکہ وہ ایک جوانمرد اور عالی نفس انسان تھے۔
برطانوی تاریخ دان ایڈورڈ گبن۔
(1737-1794) لکھتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کی فصاحت تمام زمانوں میں زندہ رہے گی، بلاشبہ خطابت اور تیغ زنی میں وہ یکتا تھے۔
شامی نژاد امریکی پروفیسر فلپ کے (1886-1978) لکھتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں کیلئے فراخ دل تھے۔
اسکاٹش سیاستدان سر ویلیم مور (1918-1905) کا ماننا ہے کہ سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی اور انہوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسولِ خداﷺ کے نام کر دیا تھا۔جیرالڈ ڈی گورے (1897-1984) لکھتا ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی کی مثال رہیں گے۔
برطانوی ماہر تعلیم ولفرڈ میڈلنگ
(1930-2013) لکھتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخ دلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔معروف مورخ چارلس ملز لکھتا ہے کہ خوش نصیب ہے وہ قوم کہ جس میں علیؑ جیسا عادل انسان پیدا ہوا، نبی اللہ سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسٰیؑ سے حضرت ہارونؑ کو تھی۔
برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) کہتا ہے کہ خانہ خدا میں حضرت علی کی ولادت ایک ایسا خاصا ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں۔(9) بھارتی صحافی ڈی-ایف-کیرے، 1911-1974، لکھتا کہ علی (علیہ السلام) کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔
حضرت مولا علی (علیہ السلام)کی ان تمام صفات کو ایک شاعر استاد شہریار ایک شعر میں یوں بیان کرتا ہے
نہ خدا تو انمش گفت نہ بشرتو انمش خواند
متحیرم چہ نامم شہ ملکِ لافتیٰ را
میں علی (علیہ السلام) کو نہ تو خدا کہہ سکتا ہوں اور نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ اس شہ ملکِ لافتیٰ کو کیا کہوں.
(ایک عیسائی محقق ڈاکٹر شبلی شُمَیّل
کتاب ادبیات و تعہد در اسلام، مصنف: محمد رضا حکیمی، صفحہ250)حضرت علی پاک (علیہ السلام ) تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہیں اور ایسی شخصیت ہیں کہ دنیا نے مشرق و مغرب میں، زمانہٴ گزشتہ اور حال میں آپ کی نظیر نہیں دیکھی۔
تھامس کارلائل لکھتا ہے: ”ہم علی کواس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم اُن کو دوست رکھتے ہیں اور اُن کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ کسقدرجوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں