جمعرات، 30 نومبر، 2023

اھلاً و سھلاً مرحبا 'ولا دت امام زین العابدین علیہ السّلام

 

 

 اھلاً و سھلاً مرحبا 'بے شک منجانب پرور دگار عالم  یہ ہمارے لئےروز سعید ہے- ولا دت با سعادت فرزند نبی امام زین العابدین علیہ السّلام تمام خانوادے بنو ہاشم اور کائنات کی تمام مومن مخلوقات کومبارک ہو

 والدہ ماجدہ: آپ کی والدہ جناب شہربانو بنت یزدجرد ابن شہریار ابن کسری ہیں ،یعنی آپ نوشیرواں عادل کے نواسے ہیں۔ علم: امام زین العابدین علیہ السلام کا علم آل رسول کا علم ہے اور آل رسول کا علم ان کے جد امجد والا ہی علم ہے کہ جو بیٹے کو باپ سے باپ کو جد امجد سےاور جد امجد کو جبرائیل سے اور جبرائیل کو خدا سے ملا ہے۔اہل سنت اور شیعہ علماء نے امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت سے علوم، دعائیں، نصیحت بھری باتیں، تفسیر، حلال و حرام کے شرعی احکام اور مختلف واقعات وغیرہ کو نقل کیا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہونے والی احادیث یا کسی قول کو امام علیہ السلام نے کسی صحابی یا تابعی سے نقل نہیں کیا بلکہ ان سب چیزوں کا مصدر رسول خدا ہیں۔ تمام لوگ علوم میں اہل بیت کے محتاج ہیں اور اہل بیت کسی بھی شخص کے محتاج نہیں ہیں۔امام زین العابدین علیہ السلام فقیہ اور محدث تھے اور اپنے دادا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرح فقہی مسائل کی تمام جوانب اور فروعات پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔جب بھی امام زین العابدین علیہ السلام ایسے نوجوانوں کو دیکھتے کہ جو علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ انھیں قریب کر لیتے اور فرماتے خوش آمدید آپ لوگ علم کے امانت دار ہو، آج آپ لوگ اپنی قوم کے چھوٹے شمار ہوتے ہو لیکن عنقریب آپ قوموں کے بڑے بزرگ بن جاؤ گے۔ جب بھی کوئی طالب علم امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آتا تو امام علیہ السلام اسے خوش آمدید کہتے اور فرماتے کہ تم ہی رسول خدا کی وصیت کے مصداق ہو۔

جب بھی کوئی طالب علم زمین پہ موجود کسی بھی خشک یا تر چیز پہ قدم رکھتا ہے تو زمین کے ساتوں طبقے اس کے لیے تسبیح بجا لاتے ہیں۔کسی بھی شخص کا امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس علوم محمدیہ و علویہ ہونے کے بارے میں اختلاف موجود نہیں ہے اگر ظالم و جابر حکمران امام زین العابدین علیہ السلام کو نظر بندی اور جاسوسی جال کی قید میں نہ رکھتے تو یہ علوم ہر طرف پھیل جاتے اور کتابیں ان سے بھر جاتیں۔عبادت اور اخلاق: جب نماز کا وقت آتا تو امام زین العابدین علیہ السلام کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور رنگ پیلا پڑ جاتا اور جسم کانپنے لگتا۔امام زین العابدین علیہ السلام ایک دن اور رات میں ہزار رکعت نماز ادا کرتےاور بہت زیادہ نمازیں پڑھنے کی وجہ سے امام زین العابدین علیہ السلام کے ساتوں اعضاء سجدہ پہ گہرے نشان پڑ گئے۔امام زین العابدین علیہ السلام نےایک اونٹنی پہ بیس مرتبہ حج کیا لیکن اسے کبھی ایک مرتبہ بھی چھڑی سے نہ مارا۔امام زین العابدین علیہ السلام ہر اس شخص سے بھی نیکی اور بھلائی سے پیش آتے کہ جو انھیں اذیت دیتا۔ ہشام بن اسماعیل مدینہ کا گورنرتھا وہ جان بوجھ کر امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کو اذیت پہنچاتا رہتا تھاجب ولید نے اسے معزول کیا تو ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ وہ راستے میں کھڑا ہو جائے تا کہ ہر شخص اس سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لے ہشام اس حکم کی وجہ سے امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت ڈرا ہوا تھا لیکن امام سجادعلیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور اصحاب کو اس سے سختی سے پیش نہ آنے کی نصیحت کی پھر امام زین العابدین علیہ السلام خود ہشام کے پاس گئے اور اس سے کہا تمہیں ہم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تمہیں جس چیز کی بھی ضرورت ہے ہم اسے پورا کریں گے۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے61 ھ میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھال لیں ۔ 10 محرم کی شام کویزیدی فوج نے اہلیبیت علیہ السلام کےتمام خیموں کو آگ لگا دی تمام بییبیاں ایک خیمہ سے دوسرے خیمہ میں منتقل ہوتی رہیں بالآخرامام وقت کے حکم پر اپنے آپ کو بچانے کی خاطر بیبیاں خیموں سے باہر آگئیں اس کے بعد تو ظلم کی انتہا ہوگئی اور تمام بیبیوں کی چادریں چھین لی گئیں۔ 11 محرم کو آپ کے اہلِ حرم کو بے کجاوہ اؤنٹوں پرسوار کیا گیا اور امام (ع) کے گلے میں لوہے کاطوق اور ہاتھوں میں ھتکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر پہلے کوفہ اور بعد میں دمشق روانہ کیا گیا۔ تمام شہداء بشمول امام حسین علیہ السلام کے سر نیزوں کی نوکوں پر ساتھ روانہ کیے گئے۔ خاندانِ رسالت کا یہ قافلہ 16 ربیع الاول سن 61 ھ کو دمشق پہنچا اور عورتوں اور بچوں کو رسیوں میں بندھا ہوا دربارِ یزید میں پیش کیا گیاایک سال کی قید و صعوبت کی مشکلات سہ کر آپ 8 ربیع الاول سن 62 ھ کو مدینے واپس تشریف لائے اور تمام عمر خاندانِ رسالت کی شہادت اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل کی بازارِ شام اور کوفہ میں کی گئی بے حرمتی پر گریہ کرتے رہے۔ آپ کی زیادہ تر زندگی عبادت اور گریہ میں گزری وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے ، وہ اعمال جو آپ(ع) نے انجام دیئے وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہیں۔ جب امام علیہ السلام سے پوچھا جاتا کہ آپ کو کہاں پر زیادہ مصیبت کا سامنا کرنا پڑا آپ آہ بھرتے اورفرماتے الشام ، الشام ، الشام۔ آپ (ع) کو اس بات کا سب سے زیادہ قلق تھا نبی زادیوں کو سر برہنہ فاسق و فاجر یزید معلون کے دربار میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ:

”اے لوگوجومجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پرپیاسا ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے ۔۔۔۔۔۔“دمشق میں یزید کے دربار میں آپ نے جو مشہور خطبہ دیا اس کا ایک حصہ یوں ہے:۔ ۔ ۔ میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔ ۔ ۔“یہ خطبہ سن کر لوگوں نے رونا اور شور مچانا شروع کیا تویزید گھبرا گیا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے،چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا کہ اذان دے کہ امام خاموش ہو جائیں،اگرچہ کہ اذان کا وقت تھا نہ نماز کا مگر یزید کے حکم پر اذان شروع ہوئی تو حضرت علی ابن الحسین خاموش ہو گئے۔ جب مؤذن نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی گواہی دی تو حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور کہا کہ اے یزید تو بتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیرے نانا تھے یا میرے؟ یزید نے کہا کہ آپ کے تو حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘پھر کیوں تو نے ان کے اہل بیت کو شہید کیا’۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں۔

اسی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی مشہور ہے جو آپ نے مدینہ واپس آنے کے بعد دیا۔ ۔جب حجاج نے کعبہ کو تباہ کیا اور اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی تو حجر اسود کو نصب کرنے کا مسئلہ ہوا کیونکہ جو کوئی بھی اسے نصب کرنا چاہتا تھا تو حجر اسود متزلزل اور مضطرب رہتا اور اپنے مقام پر نہ ٹھہرتا۔ بالآخر حضرت علی ابن الحسین زین العابدین نے اسے بسم اللہ پڑھ کر نصب کیا تو بخوبی نصب ہو گیا۔اگرچہ آپ گوشہ نشین تھے اور خلافت کی خواہش نہ رکھتے تھے مگر حکمرانوں کو ان کے روحانی اقتدار سے بھی خطرہ تھا اور خوف تھا کہ کہیں وہ خروج نہ کریں، چنانچہ 95 ھ میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دے دیا ، امام مظلوم حضرت علی ابنِ حسین ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام 25 محرم سن 95 ھ کو درجۂ شہادت پر فائزہوئے۔ آپ کی تجہیز و تکفین آپ کے فرزند اور پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کی اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں امام حسن ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کے پہلو میں کی گئی ا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر