ہفتہ، 2 دسمبر، 2023

امام علی نقی علیہ السلام


  امام علی نقی علیہ السلام ایک دن کسی اهم کام کی وجہ سے سامره سے ایک دیہات کی طرف جارهے تھے ۔ اسی دوران ایک عرب نے امام علیہ السلام کے بارے میں معلوم کیا تو اس کو بتایا گیا کہ امام  فلان دیہات کی طرف روانہ هوئے هیں، وه عرب اس قریہ کی طرف چلنے لگا۔ جب وه حضرت کے محضر مبارک میں  پہونچا تو اس نے کہا: میں کوفہ کا رهنے والا هوں اور آپ کے جد بزرگوار امیرالمؤمنین کی ولایت کے متمسّکین میں سے هوں، لیکن بڑے بھاری قرض نے میری کمر توڑ دی هے، وه اس قدر بھاری هے کہ میں اسے تحمّل کرنے کی تاب نهیں رکھتا هوں۔ اور آپ کے علاوه میں کسی کو نهیں پہچانتا کہ وه میری ضرورت کو پورا کرسکے۔ امام علیہ السلام   نے پوچھا: تمهارا قرض کتنا هے ؟ اس نے عرض کیا: تقریباً دس هزار درهم ۔

امام علیہ السلام  نے اسے تسلّی دی اور فرمایا: تم ناراض نہ هو تمهاری مشکلیں حل هوجائیں گی۔ میں جو حکم تمهیں دوں اس پر عمل کرو اور اس کے انجام دینے میں تکلّف نہ کرنا۔ یہ میرا نوشتہ اپنے پاس رکھو۔ جب تم سامره میں آؤ تو اس ورقہ میں لکھے هوئے مبلغ کا مجھ سے مطالبہ کرو، هرچند لوگوں کے مجمع میں هو اور اس کام میں ذرّه برابر کوتاهی سے کام نهیں لینا۔

امام کے سامره واپس هونے پر وه مرد عرب، حضرت کے محضر مبارک میں آیا جبکہ خلیفہ کے جاسوس، ایجنٹ اور کچھ لوگ وهاں بیٹھے هوئے تھے، اس آدمی نے امام کا لکھا هوا خط انهیں دکھا کر اپنے قرض کا مطالبہ اور اصرار کرنے لگا ۔امام علیہ السلام  نے بڑی نرمی و مهربانی سے اس کی تاخیر کی معذرت خواهی کی اور اس سے مهلت کی درخواست کی تاکہ مناسب وقت پر اسے ادا کریں،

 اس نے کہا مجھے ابھی چاهئے ۔ یہ ماجرا متوکل تک پہونچا ۔ اس نے دستور دیا کہ تیس هزار دینار امام کو دیئے جائیں۔ امام نے ان تمام دیناروں کو لے کر اس مرد عرب کے حوالہ کردیا، اس نے دیناروں کو لے کر کہا: خداوند عالم بہتر جانتا هے کہ اپنی رسالت کو کس خاندان میں قررا دے۔ائمہ معصومین  علیہم  السلام خداوند عالم کی قدرت و عظمت کے مظاهر، ذات مقدس پروردگار کے کلمات و حکمت کے معادن اور اس کی تجلّیات کے منبع و مرکز اور خاص انوار هیں، اسی بنیاد پر یہ حضرات ایک غیر معمولی معنوی قدرت کے حامل تھے اور لوگوں میں خاص مقام و مرتبہ اور رعب و دبدبہ رکھتے هیں:

"طَأْطَأَ كُلُّ شَرِيفٍ لِشَرَفِكُمْ وَ بَخَعَ كُل‏ مُتَكَبِّرٍ لِطَاعَتِكُمْ وَ خَضَعَ كُلُّ جَبَّارٍ لِفَضْلِكُمْ وَ ذَلَّ كُلُّ شَيْ‏ءٍ لَكُمْ” هر شریف و بزرگ نے آپ کی شرافت و عظمت کے سامنے سرخم کردیا هے اور هر متکبّر و مغرور نے آپ کی اطاعت کی هے اور هر جابر و ظالم نے آپ کے فضل و کرم کے مقابلے میں سر جھکادیا هے 

اور ساری چیزیں آپ کے سامنے ذلیل و خوار هوگئی هیں ۔

زید بن موسی۔ نے کئی بار (عمربن فرخ) کا کان بھرا اور اس سے درخواست کیا کہ اسے اس کے بھتیجے (امام علی نقی علیہ السلام) پر ترجیح دے، اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا تھا، وه جوان هیں اور میں ان کے والد کا چچا هوں۔ عمر نے اس کی بات امام علی نقی علیہ السلام  سے بیان کردی، امام  نے فرمایا:

تم ایک بار یہ کام کرو، کل مجھے ان سے پہلے بزم میں بٹھا دو، اس کے بعد دیکھو کیا هوتا هے ۔دوسرے دن عمر بن فرخ نے امام علی نقی علیہ السلام  کو بلایا اور حضرت کو بزم میں صدر مقام پر بٹھایا، اس کے بعد زید کو آنے کی اجازت دی۔ زید، امام کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا ۔جب پنجشنبہ کا دن آیا تو پہلے زید کو داخل هونے کی اجازت دی اور صدر مجلس میں بٹھایا، اس کے بعد امام سے اندر آنے کی درخواست کی، امام  علیہ السلام  اندر داخل هوئے جس وقت زید کی نظر امام علیہ السلام  پر پڑی اور امام کی هیبت و جلالت کو ان کے رخسار پر دیکھا تو اپنی جگہ سے کھڑا هوگیا، امام کو اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود امام کے سامنے بیٹھا ۔ائمہ معصومین علیہم السلام پروردگار عالم کی معرفت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے اور ان کی یہی گہری معرفت و بصیرت باعث بنی کہ یہ حضرات همیشہ پروردگار عالم سے انس و لگاؤ رکھیں اور خدائے متعال سے انس و مجبت کے یہی رابطے تھے کہ جو پروردگار کی بارگاه میں حاضری کے لئے بے چین کئے رهتے تھے اور سکون و اطمینان کو ان سے چھین لیتے تھے۔

امام علی نقی علیہ السلام  رات کے وقت بارگاه پروردگار میں حاضر هوکر پوری رات عبادت، حالت خشوع و خضوع اور سجدے و رکوع میں گزارتے تھے اور آپ کی نورانی پیشانی زمین پر هوتی، جس کے درمیان سوائے سنگریزوں اور خاک کے کوئی چیز حائل نهیں هوا کرتی تھی اور مسلسل اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ۔ ” الٰهي مُسيٌء قد وَرَدَ، و فقيرٌ قد قَصَدَ، لا تُخيِّبْ مسعاه و ارحَمهُ و اغفر لَه خَطۡاَهُ؛ اے میرے پروردگار تیرا گنہگار بنده تیرے پاس آیا هے اور ایک تہی دست تیری بارگاه میں حاضر هوا هے اس کی سعی و کوشش کو ناکام نہ کرنا اور اسے اپنی رحمت و عنایت کے سایہ میں قرار دے اور اس کی لغزشوں کو معاف کردے  

 ائمہ معصومین علیہم السلام پروردگار عالم کی معرفت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے اور ان کی یہی گہری معرفت و بصیرت باعث بنی کہ یہ حضرات همیشہ پروردگار عالم سے انس و لگاؤ رکھیں اور خدائے متعال سے انس و مجبت کے یہی رابطے تھے کہ جو پروردگار کی بارگاه میں حاضری کے لئے بے چین کئے رهتے تھے اور سکون و اطمینان کو ان سے چھین لیتے تھے۔امام علی نقی  علیہ السلام  کے اخلاق و فضائل کسی پر پوشیده نهیں هیں، علماء اور مؤرخین اس بات سے اچھی طرح واقف هیں، یہاں تک کہ اهل بیت علیہم السلام کے دشمنوں نے بھی آپ کی مدح و ثنا کی هے ۔  "خدا کی قسم وه روئے زمین پر الله کی بہترین مخلوق اور لوگوں میں سب سے افضل هیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر