بدھ، 19 نومبر، 2025

شہرت کی بلندیوں پر مسند نشین ''عابدہ پروین''

 

عابدہ پروین (ولادت: 20 فروری 1954ء)  پاکستانی صوفی مسلم گلوکارہ، کمپوزر اور موسیقار ہیں۔گائیکی کے ذریعے صوفیانہ کلام کوپھیلانے کی بات کی جائے تو شاید اس وقت پورے برصغیر میں عابدہ پروین سے بڑا کوئی نام نہیں۔ انھوں نے صرف پاکستان اور بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں صوفی شعراکے پیغام کو پھیلایا۔ عابدہ پروین کاایک موسیقار گھرانے سے ہے۔ انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔2012ء میں عابدہ پروین کی فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلالِ امتیازسے نوازا گیا، اسی برس انھیں بھارت کی بیگم اختر اکیڈمی آف غزل کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈبھی دیا گیا۔ عابدہ پروین کو اس سے پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔2015ءمیں بھی پاکستان اور بیرونِ ممالک میں عابدہ پروین نے کئی شوز کیے اور موسیقی کی دنیا میں منفرد شناخت کی حامل رہیں۔

 عابدہ پروین کو پاکستان اور بھارت کے مقابلہ موسیقی پروگرامسر چھترا میں بطور جج بھی رکھا گیا تھا   استاد غلام حیدر کا اپنا میوزیکل اسکول تھا،  ۔جہاں سے عابدہ پروین نے موسیقی کی تربیت حاصل کی-عابدہ پروین کو آرٹس میں بھی دلچسپی ہے۔عابدہ پروین کی گائیکی اور موسیقی کی وجہ سے ان کو 'صوفی موسیقی کی ملکہ' بھی کہا جاتا ہے۔ 2012 کو ان کو پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا سویلین اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔  اور 23 مارچ 2021 کو انھیں صدر پاکستان کی طرف سے پاکستان کا سب سے بڑا سویلین اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا گیاعابدہ پروین کی پیدائش پاکستان کے سندھ کے علاقے لاڑکانہ کے محلہ علی گوہرآباد میں ہوئی تھی۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت ابتدا میں اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کی، جنھیں عابدہ بابا سائیں اور گاوایا کے نام سے پکارتی ہیں۔پروین نے 1970ء کی دہائی کے اوائل میں درگاہوں اور عرس میں نغمے پیش کرنا شروع کیا تھا۔

 1971ء میں، جب نصیر ترابی نے مشرقی پاکستان کے خاتمے پر گہرے دکھ کا اظہار کرنے کے لیے وہ ہم سفر تھا لکھا تو پروین نے اس غزل کو خوبصورت انداز میں پیش کیا۔اگرچہ عابدہ پروین ایک انتہائی ساکھ والی گلوکارہ ہیں، لیکن انھوں نے کبھی فلموں میں اپنی آواز نہیں دی۔ عابدہ پروین کے شائقین اور فاروق مینگل کے اصرار پر ان کے پہلے سے ریکارڈ شدہ گانوں کو فلموں میں استعمال کیا گیا ہے۔ پروین اپنی شرمیلی شخصیت کی وجہ سے انٹرویوز اور ٹیلی ویژن مارننگ شوز میں کم سے کم دکھائی دیتی ہیں۔ پروین نے اعتراف کیا کہ انھیں بالی ووڈ کے فلم سازوں یعنی سبھاش گھئی اور یش چوپڑا کی طرف سے پیش کش ملتی رہتی ہیں لیکن وہ ان سے انکار کردیتی ہیں کیونکہ انھوں نے خود کو تصوف میں ڈھا لیا ہے ہے۔  یہاں تک کہ انھیں را.ون کے لیے شاہ رخ خان کی طرف سے پیش کش بھی آئیں اور میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمان نے بھی انھیں کچھ گانوں کی پیش کش کی ہے

عابدہ پروین کے والد خود بھی ایک صوفی  سنگر ہیں اور انہوں نے عابدہ پروین کی خود تربیت کی پھر ان کو اساتذہ کی تربیت کے سپرد کیا   انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔2012   استاد غلام حیدر کا اپنا میوزیکل اسکول تھا،  ۔جہاں سے عابدہ پروین نے موسیقی کی تربیت حاصل کی-عابدہ پروین کو آرٹس میں بھی دلچسپی ہےء میں عابدہ پروین کی فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلالِ امتیازسے نوازا گیا، اسی برس انھیں بھارت کی بیگم اختر اکیڈمی آف غزل کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈبھی دیا گیا۔ عابدہ پروین کو اس سے پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔2015ءمیں بھی پاکستان اور بیرونِ ممالک میں عابدہ پروین نے کئی شوز کیے اور موسیقی کی دنیا میں منفرد شناخت کی حامل رہیں۔ عابدہ پروین کو پاکستان اور بھارت کے مقابلہ موسیقی پروگرامسر چھترا میں بطور جج بھی رکھا گیا تھا۔ 

1 تبصرہ:



  1. ’ہولعل میری پٹ رکھیو بھلا جھولے لعل ۔۔سندھڑی دا، سہون دا سخی شہباز قلندر ۔۔۔‘ اب تک آپ نے یہ کلام ہزاروں مرتبہ سنا ہوگا لیکن ہر بار نیامحسوس ہوتا ہے۔۔ اسی لئے اسٹیج کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بیٹھے تمام لوگ اس کلام پر جھوم اٹھتے ہیں خواہ ملک کوئی بھی ہو۔۔۔ سرزمین کوئی بھی ہو۔
    کہتے ہیں یہ کلام جب بھی عابدہ پروین اپنی آواز میں گاتی ہیں لوگوں پر ایک طرح کی رقت طاری ہوجاتی ہے۔۔۔ لوگ ایک ایسی دنیا میں کھوجاتے ہیں جہاں کچھ لمحے کے لئے ہی سہی لوگ اپنا دکھ درد بھول جاتے ہیں۔

    Abida parveen

    کلام ایسا ہو اور اس پر آواز عابدہ پروین کی ہو تو معاملہ دو آتشہ ہوجاتا ہے۔ عابدہ پروین، پاکستان کی صوفیانہ گائیگی کا سب سے بڑا نام ہے۔ ان کا انداز منفرد اور انداز سب سے جدا ہے۔
    گائیگی کے علاوہ بھی ان کا ہر اسٹائل انوکھا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ منفرد اسٹائل کا شلوار قمیض زیب تن کیے اور گلے میں ڈوپٹے کی جگہ ’اجرک‘ ڈالے وہ ہر محفل میں سب سے نمایاں نظر آتی ہیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر