ون ویلنگ کیا ہے ؟ میرے خیال میں وہ جرم جس میں پورا سماج شامل ہے- مستند خبر ہے کہ اسلام آباد کی ایک ون ویلر لڑکی ون ویلنگ ریس کے دوران حادثے کا شکار ہو کر دونوں ٹانگیں تڑوا بیٹھی ہے - ون ویلنگ موٹر سائیکل ریس محض جان لیوا کھیل ہی نہیں بلکہ بعض مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد نے اسے ناجائز کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ ایسے افراد نہ صرف ون یلنگ پر ریس لگواتے ہیں بلکہ اس ریس پر جوا بھی کھیلتے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے کے لئے وہ ون ویلنگ کے جنون میں مبتلا نوجوان لڑکوں کا استعمال کرتے ہیں، ان موٹر سائیکلوں کی چین گراریاں بدل کر موٹر سائیکل کووزن میں ہلکا اور مزید خطرناک بنایا جاتا ہے۔موٹر سائیکل میکنک اچھی خاصی رقم کے عوض موٹر سائیکل کی ازسر نو مرمت کرتے ہیں اور اس میں خطرناک پرزے نصب کر کے اس کی رفتار کو بڑھا دیتے ہیں۔آلٹرموٹر سائیکل میکینکس کا کہنا ہے کہ انکے پاس موٹر سائیکل کا کام کروانے کیلئے بچے، بڑے اور نوجوان سب ہی آتے ہیں، جو ریسیں لگائی جاتی ہیں یا ون ویلنگ کی جاتی ہے ان ریسوں میں اصل کردار میکینک کا ہوتا ہے، میکینک کی طرف سے ریس کی موٹر سائیکل تیار کی جاتی ہے
اور پھر اسے چلانے کے لیے جسے مقرر کیا جاتا ہے اسے رائیڈر کہتے ہیں وہ رائیڈر اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر اپنے گروپ اوراپنے میکینک کا نام روشن کرنے کے لیے ریس لگاتا ہے جوبعض اوقات جان لیوابھی ثابت ہوجاتاہے اگر موٹر سائیکل قابو سے باہر ہوجائے یا سلپ ہوجائے تو سر کی چوٹ جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو بہادر دکھانے کے لیے ون ویلنگ کرتے ہیں، جب کہ بعض نوجوان شرطیں بھی لگاتے ہیں۔ اس شرط کے چکر میں زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں.، موٹر سائیکل کی ریس کے لیے مختلف شاہراہوں کا انتخاب کیا جاتا ہے. موٹر سائیکل کی ریس پر گروپس کے درمیان شرطیں بھی لگائی جاتی ہیں،ون ویلنگ اور ریس کے بعد جب فیصلے کا وقت آتا ہے تو بعض اوقات ان گروپوں کے درمیان تصادم بھی ہوجاتا ہے اور فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے. ایسے مستریوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چایئے جو موٹر سائیکل کو ون ویلنگ کے لیے تیار کرکے دیتے ہیں
۔والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ون ویلنگ جیسے خونی کھیل کا حصہ بننے سے روکیں۔جو والدین اپنے بچوں کو موٹر سائیکل خرید کر دیدیتے ہیں، مگر ان کی سرگرمیوں پرنظر نہیں رکھتے وہ بھی قابل گرفت ہیں۔ والدین کئی جتن کرکے اپنے بچوں کو موٹر سائیکل دلاتے ہیں کہ ان کے بچے کو تعلیمی ادارے تک جانے میں پریشانی کا سامنا نہیں ہو، مگر بچے اپنے والدین کی طرف سے دی جانے والی اس سہولت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ موٹر سائیکل کے ساتھ ہیلمیٹ بھی دلائیں کیوں کہ ہیلمیٹ سے سر محفوظ رہتا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں ہیڈ انجری نہیں ہوتی اور بچنے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں۔ عموماً نوجوان ہیلمیٹ کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔ ہر والدین کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھے مقام پر فائز ہو اور والدین کا نام روشن کریں، لیکن ون ویلنگ کے دوران زخمی ہونے یا معذور ہوجانے کے سبب وہ، والدین پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
جوان اولاد کی معذوری والدین کی موت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول میں مثبت سوچ کو فروغ دیں کیونکہ اگر منفی سوچ کا شکار ہو کر بچے نے آزاد سانس لینے کاسوچ لیا تو وہ ون ویلنگ سمیت کسی بھی جرم میں ملوث ہو سکتا ہے۔گھر کے بعد کسی کی بھی انسان کی دوسری تربیت گاہ اس کی درس گاہ ہوتی ہے جہاں آپ کے پاس بہت سے آپشن ہوتے ہیں اگر مثبت سوچ کے حامل اساتذہ کی شاگردگی میسر ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ خود ہر برائی سے بچ سکتے ہیں۔ وقت ہم سے یہ تقاضا چاہتا ہے کہ ون ویلنگ کے مضمر اثرات کے بارے میں نئی نسل کو آگاہ کیا جائے ان کو بتایا جائے کہ یہ کھیل ہر گز نہیں یہ جرم کا راستہ ہے
ون ویلنگ کرنے والے اپنے انجام سے بے خبر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے شوق میں اکثر اپنے ہنستے بستے خاندان کو غمناک المیے سے دو چار کر دیتے ہیں۔ یہی نوجوان شعور کی کمی کا شکار ہوتے ہیں اور لا شعوری میں زندگی کے ہاتھوں کھیل کر موت یا معذوری کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریں