جمعرات، 20 نومبر، 2025

ابو الفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشا پوری، المعروف، عمر خیام

 

 




 میں  خود  حیران تھی کہ وہ شاعر جس کی کتابوں کے تراجم انگریز  وں نے کئے اور ان کی شاعری سے فیض بھی اٹھایا تو ہماری نظروں سے وہ کیوں اوجھل رہے   شائداس کی وجہ یہ ہو کہ فارسی زبان معاشرے سے ناپید کر دی گئ                              ابو الفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشاپوری، المعروف، عمر خیام   جن کے عِلم وفضل کا اعتراف اہل ِایران سے بڑھ کر اہل ِیورپ نے کیا۔لاتعداد ہستیاں شہرت و عظمت کی بلندیاں چھونے، اورکچھ عرصہ ستاروں کی مانند چمکنے کے بعد معدوم ہوکر خاک نشیں ہو گئیں، ماضی کی گرد میں ایسی گُم ہوئیں کہ نشاں تک نہ رہا، لیکن اِن ہی میں کئی ایسے نام وَر بھی ہوئے، جن کی شہرت زندگی میں بھی چاردانگِ عالم تھی، تو بعد ازمرگ بھی نام و مقام بلند رہا۔ یہاں تک کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی انھیں دوام حاصل ہے۔  عمرخیّام ایران کے شہر نیشا پورمیں1048ء میں پیدا ہوئے اور4دسمبر 1131ء میں اُن کا انتقال ہوا۔ وہ اپنے دَور کے نام وَر فلسفی، ریاضی دان، ماہرِ علمِ نجوم، عالم، طبیب اور کئی دیگر علوم میں یگانۂ روزگارتھے۔ ان علوم کے علاوہ شعر و سخن میں بھی بہت بلند مقام رکھتے تھے


اور بلاشبہ اُن کا شمار دنیا کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ فارسی زبان میں اُن کی رباعیات آج بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ بے پناہ خوبیوں کے حامل، خیّام، عہدِ سلجوقی میں سلجوقی سلطنت سے وابستہ تھے اور ان کی ہمہ گیر شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے 1970ء میں چاند کے ایک گڑھےاور1980ء میں ایک سیارچے کا نام، اُن کے نام پر رکھا گیا۔ یوجین اونیل، اگاتھا کرسٹی اور اسٹیون کنگ جیسے مشہور ادیبوں نے اپنی کتابوں کے نام عمرخیّام کے اقتباسات پر رکھے۔عمرخیّام کو اگرچہ زیادہ شہرت شاعری کی بدولت ملی۔ تاہم، وہ اسے انتہائی غیرسنجیدہ اور فراغت کا مشغلہ سمجھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے زندگی بھر اپنا کلام مرتّب نہیں کیا، لیکن، مشرق و مغرب میں انھیں اصل شہرت اُن کی شاعری ہی کی وجہ سے ملی۔ اُن کی رباعیات نے جنہیں وہ ’’وقتے خوش گزرے‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے،


 کہتے ہیں عمر خیّام جب پیچیدہ علوم کے مسائل سے فارغ ہوتے، تو تفریحِ طبع اور دل جوئی کے لیے شعر کہتے۔اُن کی شاعری کا حاصل اُن کی فارسی رباعیات ہیں، مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ’’خیّام کی رباعیاں اگرچہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں، لیکن سب میں قدرِ مشترک صرف چند مضامین، مثلاً، دُنیا کی بے ثباتی، خوش دلی کی ترغیب، شراب کی تعریف، مسئلہ جبر اور توبہ استغفارہیں۔ وہ ہر ایک مضمون کو سو سو بار اس طرح بدل کر ادا کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا کہ وہ کوئی نئی چیز ہے۔مثلاً ’’توبہ استغفار‘‘ ایک قدیم موضوع ہے، لیکن جس طرح خیّام اسے ادا کرتے ہیں، سننے والے کی آنکھ سے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ مغفرت کی دُعا، اس جدّتِ اسلوب سے مانگتے ہیں کہ دُعا کا اثر بڑھ جاتا ہے۔‘‘ جب کہ معروف ایرانی اسکالر، مجتبیٰ مینوی کا کہنا ہے کہ،’’بلاشبہ، شعرائے ایران میں ایسا کوئی نظر نہیں آتا، جسے خیّام کی مانند عالمی شہرت ملی ہو۔


‘عمر خیّام کے عہد کے فلسفی، علماء و فضلا اُن سے ملاقات کے خواہش مند رہتے اورگاہے بہ گاہے اُن کی خدمت میں حاضری دیتے۔ وہ عمر خیّام سے اختلاف کے باوجود اُن کا احترام کرتے تھے۔ ان کے علم و فضل ہی کی بدولت اُنھیں ’’حجۃ الحق‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تاحیات حق و صداقت کے متلاشی رہے۔ حکیم بو علی سینا کے مشہور شاگرد، ابو نصر محمد ابراہیم نے اُن کی مدح میں عربی میں جو قطعہ لکھا ہے، اس سے اُن کی قدر و منزلت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ترجمہ:’’اے بادِ صبا! علّامہ خیّام کو ہمارا سلام پہنچادے۔ وہ عالی جناب، جن کے آستانے پر خود زمین یوں سجدہ ریز ہے، جیسے حکمت کی بھیک مانگنے والا۔ وہ ایسے بزرگ ہیں، جن کے سحابِ حکمت سے حکمت کی بوسیدہ ہڈیوں میں حیاتِ جاوداں پیدا ہوئی ہے۔ ’’کون و تکلیف‘‘ کے مسائل پر اُنھوں نے وہ افادات فرمائے، جس کے بعد کسی دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔‘‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر