حضرت عبد المطّلب اور اُن کی منّت کی کہانی کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ طوفان نوح علیہ السّلام میں آب زم زم کے معدوم ہو جانے والے کنوئیں کی بنیاد
یں اپنے اکلوتے بارہ برس کے بیٹے جناب حارث کے ہمراہ محض قیاس کی بنیاد پرتمام'تمام دن زمین کھود کھود کر تلاش کرتے تھے اس وقت ان کا ایک پڑوسی
ان پر طعنہ زنی کرتا ہوا گزرتا تھا اور کہتا تھا عبد المطّلب چھوڑو 'رہنے دو بھلا اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ یہ مشکل کام کیسے کر سکتے ہو'دراصل اس شخص کے بہت
سے بیٹے تھے ایک دن حضرت عبدا لمطّلب اس کی طعنہ
زنی سے اتنے بیزار ہوئے کہ انہوں نے منّت مانی کہ اللہ مجھے کثرت سے بیٹے دے تو اپنا ایک بیٹا قربان کروں گا
اللہ بڑی شان والا ہے دکھی دل کی فریاد ضرور سن لیتا ہے اور اس نے کثرت سے بیٹے دے دئے لیکن بشری فطرت کے عین مطابق حضرت عبالمطّلب اپنی مانی
ہوئ منّت بھول گئے یہاں تک کہ سب بیٹے جوان ہو گئے،تب ایک رات جناب عبد المطّلب کو بشارت ہوئ کہ انہوں نے منّت مانی تھی لیکن منّت یاد نہیں
آئ کہ کیا مانی تھی پھر انہوں نے اپنا قاصد کاہنہ کے پاس بھیجا کہ منّت یاد نہیں آ رہی ہے کہ کیا مانی تھی'کاہنہ نے کہلوایا کہ سوتے وقت ایک اونٹ صدقہ کر
کے سوئیں تب معلوم ہو گا کہ منّت کیا تھی
حضرت عبد المطّلب نے اونٹ صدقہ کیا لیکن منّت پھر بھی یاد نہیں آئ پھر کاہنہ سے کہلوایا کہ اونٹ صدقہ کر نے کے بعد بھی منّت یاد نہیں آئ ہے تو کاہنہ
نے جواب میں کہلوایا کہ دوسری رات بھی اونٹ صدقہ کیا جائے اور اگر دوسری رات بھی بشارت نا ہو توتیسری رات بھی اونٹ کا صدقہ کیا جائے حضرت عبد المطّلب کوتیسری رات کی قربانی کے بعد بشارت ہوئ کہ بیٹا قربان کرنے کی منّت مانی تھی
ا ب کون سا بیٹا
قربان کیا جائے حضرت عبد المطّلب سوچ بچار میں پڑ گئے اورپھر کاہنہ کے پاس قاصد بھیجا
کہ کیا کروں؟
کاہنہ نے کہلوایا کہ بیٹوں کے نام کے قرعہ ڈالے جائیں گے جس بیٹے کا نام آئے گا اس کی قربانی ہوگی قرعے ڈالے گئے تو جناب عبد اللہ کا نام نکلا جب بستی کے
لوگوں کو پتا چلا کہ جناب عبد اللہ کی قربانی ہونی ہے تو وہ
سراپا احتجاج بن گئےاور احتجاج اتنا بڑھا کہ پھر کاہنہ سے مدد لی گئ
در اصل جناب عبد اللہ حضرت عبد المطّلب کے سب بیٹوں میں سب سے چھوٹے اور تمام بیٹوں میں سب سے خوبصورت اور بہت نفیس مزاج اور بلند اخلاق
کے مالک تھے –اور انہی اعلیٰ اوصاف کی بنا پر وہ حضرت عبد المطلب کی بستی کے لوگوں میں بھی بہت پسند کئے جاتے تھے اب حضرت عبد المطّلب کسی اور بیٹے
کی قربانی چاہتے تھے -لیکن کاہنہ نے کہلوا دیا کہ قربانی صرف اسی بیٹے کی ہو گی جس کے نام قرعہ نکلا ہے ورنہ بیٹے کے بدلے اونٹ قربان کیے جائیں گے
سوال یہ تھا کہ اونٹوں کی کتنی تعداد صدقہ کی جائے
کاہنہ نے اس کی ترکیب یہ بتائی گئی کہ کاغذ کے ایک کاغذ پر دس اونٹ لکھے جائیں, دوسرے پر عبداللہ کا نام لکھا جائے, اگر دس اونٹ والی پرچی نکلے تو دس
اونٹ قربان کردئے جائیں , اگر عبداللہ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ کا اضافہ کردیا جائے - پھر بیِس اونٹ والی پرچی اور عبداللہ والی پرچی ڈالی جائے - اب اگر
بیِس اونٹ والی پرچی نکلے تو بیِس اونٹ قربان کردئے جائیں, ورنہ دس اونٹ اور بڑھادئیے جائیں, اس طرح دس دس کرکے اونٹ بڑھاتے جائیں -
حضرت عبدالمطلب نے ویسا ہی کیا ہے جیسا کہ کاہنہ نے بتایا "اور ہر بار جناب عبد اللہ کا نام موقوف ہوتا گیا اور اونٹوں کی تعداد دس دس اونٹ بڑھاتے چلے گئے
" ہر بارجناب عبداللہ کے نام کی پرچی نکلتی گئ, یہاں تک اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی - تب کہیں جاکرجناب عبد اللہ کا نام موقوف ہوا - اس طرح ان کی جان
کے بدلے سو اونٹ قربان کئیے گئے – حضرت عبدالمطلب کو اب پورا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالٰی نے عبداللہ کے بدلہ سو اونٹوں کی قربانی منظور کرلی ہے --اور اس طرح حضرت عبد اللہ کی جان بچ گئ
در اصل جناب عبد اللہ حضرت عبد المطّلب کے سب بیٹوں میں سب سے چھوٹے تھے - سب سے خوبصورت تھے -اور بہت نفیس مزاج کے بھی تھےاور حضرت عبدالمطلِّب کو ان سے محبّت بھی زیادہ تھی اور بستی کے لوگوں میں بھی وہ بہت پسند کئے جاتے تھے اب حضرت عبد المطّلب کسی اور بیٹے کی قربانی چاہتے تھے -لیکن کاہنہ نے کہلوا دیا کہ قربانی صرف اسی بیٹے کی ہو گی جس کے نام قرعہ نکلا ہے ورنہ بیٹے کے بدلے اونٹ قربان کیے جائیں گے
جواب دیںحذف کریں