جمعرات، 15 مئی، 2025

ترکی کی سلیمانیہ جامع مسجد




ابتدائے اسلا م  سے ہی  تمام دنیا کے اسلامی ممالک میں مسجدیں بنانے پر مسلمانوں کی خصوصی توجہ رہی ہے  اور خاص طور پر اسلامی  بادشاہان وقت نے کثیر سر مائے  سے   عظیم الشان مسجدیں بنائیں  ایسی ہی ایک  عطیم الشان  مسجد ہمار ے برادر اسلامی ملک  تر کی کے شہر استنبول  میں    ہے۔ یہ مسجد سلطان سلیمان اول (سلیمان قانونی) کے احکام پر مشہور عثمانی ماہر تعمیرات معمار سنان پاشا نے تعمیر کی۔ ۔ایاصوفیہ کو فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد ثانی نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا)اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے سنان پاشا نے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا اور یہ عظیم شاہکار تخلیق کیا۔1660ء میں آتش زدگی کے نتیجے میں مسجد کو شدید نقصان پہنچا جس کے بعد سلطان محمد چہارم نے اس کی بحالی کا کام کرایا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران مسجد میں دوبارہ آگ بھڑک اٹھی جس کے بعد مسجد کی آخری تزئین و آرائش 1956ء میں کی گئی۔آج کل یہ استنبول کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ مسجد سلیمانیہ کی لمبائی 59 میٹر اور چوڑائی 58 میٹر ہے۔ اس کا گنبد 53 میٹر بلند اور 57.25 میٹر قطر کا حامل ہے۔


فن تعمیر-استنبول کی دیگر شاہی مساجد کی طرح، خود بھی مسجد کے داخلی راستے کے سامنے ایک مرکزی چشمہ ہے۔ صحن کی تعمیر سنگ مرمر، گرینائٹ اور پورفری کے کالموں کے ساتھ غیر معمولی شان و شوکت کا مظہر ہےصحن کے چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔دونوں لمبے لمبے میناروں میں تین گیلری ہیں اور ان کی اونچائی 63،8 میٹر (209 فٹ) تک پہنچ جاتی ہے۔ مسجد کے چار مینار ہیں کیونکہ مسجد میں چار مینار تعمیر کرنے کا حق صرف سلطان کا تھا۔ اگر کوئی شہزادی یا شہزادہ مسجد تعمیر کرتا تھا تو وہ دو اور دیگر افراد ایک مینار تعمیر کرسکتے تھے۔ میناروں میں کل 10 گیلریاں ہیں، جو روایت کے مطابق اشارہ کرتی ہیں کہ سلیمان اول دسویں عثمانی سلطان تھے۔مرکزی گنبد کی اونچائی 53 میٹر (174 فٹ) ہے اور اس کا قطر 26.5 میٹر (86.9 فٹ) ہے۔ جس وقت یہ تعمیر کیا گیا تھا، اس وقت گنبد عثمانی سلطنت کا سب سے اونچا گنبد تھاسلیمانیہ مسجد کا اندرونی حصہ سلیمانیہ مسجد کی محراب-مسجد کا اندرونی حصہ ایک مربع ہے، جس کی لمبائی 59 میٹر 194 فٹ) اور چوڑائی 58 میٹر (190 فٹ) ہے، جس سے ایک وسیع و عریض جگہ بنتی ہے۔گنبد کے ساتھ آدھے گنبد جڑے ہوئے ہیں۔ محراب کے اوپر قرآن پاک کی سورہ فاتح کی آیات کندہ ہیں۔


مسجد کی قبلہ دیوار کی طرف سلطان سلیمان اول اور ان کی اہلیہ حورم سلطان کے الگ الگ مقبرے موجود ہیں۔حورم سلطان کا مقبرہ ان کی وفات کے سال 1558 میں تعمیر ہوا۔  جبکہ سلطان سلیمان کے مقبرہ کی تعمیر ان کی وفات کے سال 1566 میں شروع ہوئی تھی اور یہ حورم سلطان کے مقبرے سے بڑا ہے اور اس مقبرے میں ان کی بیٹی مہریمہ سلطان اور بعد میں دو سلطانوں سلطان سلیمان دوم (1687–1791 میں حکومت کی) اور سلطان احمد دوم (1691–1796) کی قبریں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سلطان سلیمان اول کی والدہ دل آشوب صالحہ اور ہمشیرہ عائشہ کی قبریں بھی انہی مقبروں میں موجود ہیں۔ سلطان مصطفٰی ثانی کی صاحبزادی صفیہ بھی یہیں مدفون ہیں۔ مسجد کی دیواروں کے ساتھ ہی شمال کی جانب سنان پاشا کا مقبرہ ہے۔کمپلیکس-استنبول کی دیگر شاہی مساجد کی طرح، سلیمانی مسجد کو رفا ع عامہ کے طور پر بنایا گیا تھا تاکہ مذہبی اور ثقافتی دونوں ضروریات پوری کی جا سکیں۔اصل کمپلیکس میں خود ہی مسجد، ایک اسپتال، پرائمری اسکول، پبلک حمام، ایک کاروان سرائے، چار قرآن اسکول، حدیث کی تعلیم کے لیے ایک خصوصی اسکول اور ایک میڈیکل کالج شامل تھے۔


 ایک عوامی باورچی خانہ بھی تعمیر کیا گیا تھا جس نے غریبوں کو کھانا پیش کیا۔ ان میں سے بہت سے ڈھانچے اب بھی موجود ہیں اور سابقہ ​​عمارت اب ایک مشہور ریسٹورنٹ ہے۔ سابقہ ​​اسپتال اب ایک چھپائی کی فیکٹری ہے جس کی ملکیت ترک فوج کی ہے۔ مسجد کی دیواروں کے بالکل بالکل شمال میں، آرکیٹکٹ  سینان کا مقبرہ ہے۔ اسے 1922 میں مکمل طور پر بحال کیا گیا تھا۔ ترکی میں مساجد صرف نماز ادا کرنے کی جگہ نہیں بلکہ ان کی مرکزی حیثیت ہے. جیسا کہ ستنبول کی نیلی مسجد میں مدرسہ، اسپتال اور دیگر ضرورت کی چیزیں بھی  دیکھی جا سکتی ہیں  جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ترکی میں مسجد کو  صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ عوام الناس کی فلاح کا ادارہ بھی کہا جا سکتا ہے-سلطنتِ عثمانیہ کے مشہور ترین معمار سنان پاشا   کا سب سے بڑا شاہکار تھی سلیمانیہ مسجد جسے بنوایا بھی سب سے عظیم سلطان نے تھا، سلطان سلیمان عالیشان نے۔ 1557ء میں بننے والی اس مسجد کی اونچائی 174 فٹ ہے جبکہ میناروں کی تعداد چار ہے۔ دو بڑے مینار 249 فٹ بلند ہیں اور دو نسبتاً چھوٹے ہیں اور 209 فٹ کے ہیں۔


تقریباً ساڑھے چار سو سالوں تک استنبول شہر کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز اسی سلیمانیہ مسجد کو حاصل رہا-لیکن اگر  کو  ئ پرانا عثمانی طرزِ تعمیر دیکھنا  چاہے  تو اس  کو ترکی کے شہر بورصہ جانا پڑے گا جہاں کی جامع مسجد دیکھنے کے قابل ہے۔ یہ مسجد عثمانیوں کے چوتھے سلطان بایزید اوّل نے تعمیر کروائی تھی،جب بورصہ سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اس کی تعمیر 1399ء میں مکمل ہوئی تھی اور آج بھی اس خوبصورت شہر کے مرکز میں پوری شان اور شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔بایزید اوّل تاریخ میں بایزید یلدرم کے نام سے مشہور ہیں، انہوں نے 1396ء میں معرکہ نکوپولس میں یورپ کی مشترکہ فوج کو ہرایا تھا۔ یہ ایک صلیبی جنگ تھی جس کی اپیل عثمانیوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے پوپ بونیفیس نہم نے کی تھی۔ سلطان بایزید کی یہ کامیابی آج بھی تاریخ کی عظیم جنگی فتوحات میں شمار ہوتی ہے۔بہرحال، اس جامع مسجد کے چھوٹے بڑے کُل 20 گنبد اور 2 مینار ہیں۔ مسجد 3 ہزار مربع میٹرز سے زیادہ کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ مسجد میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے

1 تبصرہ:

  1. بادشاہ تو دنیا سے چلے گئے لیکن ان کے نام مساجد کی بنیاد پر روشن ہیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر