شب معراج - عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔ روایت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمان کی طرف اور پھر اپنے وطن لوٹ آنے کے جسمانی سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ معراج کی شب کو دین اسلام میں ایک نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے کیونکہ اس رات اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس بلا کر اپنا دیدار کرایا تھا۔رجب المرجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے، اللہ رب العزت نے تمام مہینوں کے مختلف دنوں اور راتوں کی اہمیت و فضیلت اور ان کی خاص برکات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں
۔شبِ معراج جہاں عام انسانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والا واقعہ ہے، وہیں اسے امت مسلمہ کے لئے عظیم فضیلت والی رات بھی قرار دیا گیا ہے۔
اسراء اور معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو زما ن و مکاں کی پابندیوں سے ہٹ کرایک نیا موڑ عطا کیا اور تاریخ پر ایسے دور رس اثرات ڈالے جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی وسعت حاصل ہوئی، اس واقعے کو حضور اکرم کا امتیازی معجزہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔شبِ معراج محبوب خدا نے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کرکے اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔ اس شب حضور نبی کریم ﷺ آسمانوں سے بھجوائی گئی خصوصی سواری البراق پر سوار ہو کر خالق کائنات سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تھے اور رب کی طرف سے امت کے لئے 5 فرض نمازوں، رمضان المبارک کے روزوں کا تحفہ لے کر آئے۔ستائیس رجب المرجب وہ بابرکت رات ہے جب مدینہ میں ہجرت سے پانچ سال قبل حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے رب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور رب کائنات نے سرکار دو عالم کو سات آسمانوں کی سیر کرائی۔
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ شب معراج کو اللہ تعالیٰ سے نماز کا تحفہ حاصل ہوا، جو مسلمان دن میں پانچ مرتبہ ادا کرکے خالق کائنات کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں، شب معراج کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کا بہترین طریقہ اتباع رسول ہے۔علمائے کرام اس رات کی فضیلت و اہمیت واضح کرنے کے لئے خصوصی بیان کرتے ہیں جبکہ دینی محافل اور توصیف رسول ﷺ کی تقریبات کا اہتمام بی کیا جاتا ہے -قرآن پاک میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے ، جو معراج یا اسراء کے نام سے مشہور ہے ، احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیل ملتی ہے، شب معراج انتہائی افضل اور مبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت معراج سے ہے ۔سفرِمعراج کے مراحل سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے،
یہ زمینی سفر ہے۔دوسرے مرحلے سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک ہے، یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پارواقع نورانی دنیا تک کا سفر ہے-شبِ معراج جہاں عام انسانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والا واقعہ ہے، وہیں اسے امت مسلمہ کے لئے عظیم فضیلت والی رات بھی قرار دیا گیا ہے۔اسراء اور معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو زما ن و مکاں کی پابندیوں سے کرایک نیا موڑ عطا کیا اور تاریخ پر ایسے دور رس اثرات ڈالے جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی وسعت حاصل ہوئی، اس واقعے کو حضور اکرم کا امتیازی معجزہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔شبِ معراج محبوب خدا نے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کرکے اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔
اس شب حضور نبی کریم ﷺ آسمانوں سے بھجوائی گئی خصوصی سواری البراق پر سوار ہو کر خالق کائنات سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تھے اور رب کی طرف سے امت کے لئے 5 فرض نمازوں، رمضان المبارک کے روزوں کا تحفہ لے کر آئے۔ستائیس رجب المرجب وہ بابرکت رات ہے جب مدینہ میں ہجرت سے پانچ سال قبل حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے رب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور رب کائنات نے سرکار دو عالم کو سات آسمانوں کی سیر کرائی۔ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ شب معراج کو اللہ تعالیٰ سے نماز کا تحفہ حاصل ہوا، جو مسلمان دن میں پانچ مرتبہ ادا کرکے خالق کائنات کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں، شب معراج کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کا بہترین طریقہ اتباع رسول ہے۔علمائے کرام اس رات کی فضیلت و اہمیت واضح کرنے کے لئے خصوصی بیان کرتے ہیں جبکہ دینی محافل اور توصیف رسول ﷺ کی تقریبات کا اہتمام بی کیا جاتا ہے -قرآن پاک میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے ، جو معراج یا اسراء کے نام سے مشہور ہے ، احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیل ملتی ہے، شب معراج انتہائی افضل اور مبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت معراج سے ہے ۔
سفرِمعراج کے مراحل -سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے، یہ زمینی سفر ہے۔دوسرے مرحلے سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک ہے، یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پارواقع نورانی دنیا تک کا سفر ہے۔تیسرے مرحلے سفرِ معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے،چونکہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہٰذا اس رودادِ محبت کو راز میں رکھا گیا، سورۃ النجم میں فقط اتنا فرمایا کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو راز اور پیار کی باتیں کرنا چاہیں وہ کرلیں۔
علمائے اسلام کے مطابق معراج میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات روحانی نہیں، جسمانی تھی، جسے آج کے جدید دور میں سمجھنا مشکل نہیں، شبِ معراج میں نفلی عبادات انجام دینا احسن اقدام ہے لیکن اس رات کو ملنے والے تحفے نماز کی سارا سال پابندی بھی اللہ تعالیٰ کی پیروی کا ثبوت ہےقرآن مجید میں سورۃ اسریٰ کی پہلی آیت میں اس کی وضاحت کی گئی۔ سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا ط اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ. (بنی اسرائيل، 17: 1) ’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں،
بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مسافت خدا کی نشانیاں دیکھنے کا پیش خیمہ بنی مذکورہ آیت میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس سفر کے دوسرے مرحلے کی عکاسی سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں اس طرح کی گئی۔ وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی. مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی. (النجم، 53: 1،2) ’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔ تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (رسول جنہوں نے تمہیں اپنا نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے‘‘اس کے ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معراج کیوں کروائی گئی؟
اس سلسلے میں معراج کی حکمتیں درج ذیل ہیں۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمتیں ارباب فکر نے سفر معراج کی کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر حقیقت حال اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ان حکمتوں سے دلجوئی محبوب سے لے کر عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک منشائے ایزدی کے کئی پہلو انسانی زندگی پر واہ ہوتے ہیں۔ پہلی حکمت: معراج کی پہلی حکمت یہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ معاشرتی سطح پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کا بائیکاٹ کردیا جس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انتہائی کرب سے گزرنا پڑا۔
بائیکاٹ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خالق حقیقی سے جا ملیں چنانچہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے پاس بلاکر سارے غم، دکھ اور پریشانیاں دور کردی جائیں اور اپنا دیدار کروایا جائے۔ جب محبوب حقیقی کا چہرہ سامنے ہوگا تو سارے غم و تکالیف اور مصیبتیں کافور ہوجائیں گی۔ گویا اللہ رب العزت معراج پر بلاکر اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی دلجوئی کرنا چاہتے تھے کہ اگرچہ دنیا میں یہ کافر تمہیں تنگ کرتے ہیں اور مصائب و آلام اور آزمائشیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آتی ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبرایا نہ کریں کیونکہ ہم
آ پ کی نگہبانی سے غافل نہیں ہیں-
علّامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ
اِک نُکتہ میرے پاس ہے ، شمشِیر کی مانِند !
بُرّندہ وصیقل زدہ ، رَ وشن و برّاق!
کافر کی یہ پہچان کہ ، آفاق میں گُم ہے!
مومن کی یہ پہچان کہ ، گُم اُس میں ہیں آفاق!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں