ہندوستان میں بت پرستی کی ابتداء کیسے
ہوئ?
حضرت ادریس علیہ السّلام اللہ تعالیٰ
کے نبی تھے، جو حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت شیث علیہ السّلام کے بعد نبوّت کے
جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔مؤرخین کے مطابق آپؑ کی ولادت بابل(عراق) یا مِصر
کے شہر ’’منفیس‘‘ یعنی’’منف‘‘ میں ہوئی۔ آپؑ کا اصل نام’’اخنوخ‘‘ تھا، جب کہ
قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہؐ میں آپؑ کو ’’ادریس‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔
روایات کے مطابق، حضرت ادریسؑ نے دنیا میں لوگوں کو سب سے پہلے لکھنے پڑھنے اور
تعلیم حاصل کرنے کا درس دیا، بلکہ اپنی زندگی کا بیش تر حصّہ اسی درس و تبلیغ میں
صَرف کیا۔ چناں چہ لوگ آپؑ کو ادریس، یعنی ’’درس دینے والا‘‘ کہہ کر پکارنے لگے۔
آپؑ کا حضرت شیث ؑکی پانچویں پُشت سے تعلق تھا اور آپؑ کا شجرۂ نسب یوں ہے، ادریسؑ
بن یارد بن مہلائل بن قینن بن انوش بن شیثؑ بن آدم علیہ السّلام۔
حضرت ادریس ؑمنصبِ نبوّت پر
حضرت شیثؑ کا انتقال ہوا، تو کچھ عرصے
بعد اُن کے پیروکار بہت محدود تعداد میں رہ گئے ۔ قابیل کی اولاد نے کفرو شرک،
بدکاری و بے حیائی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔زنا کاری اور شراب نوشی عام تھی، پاکیزہ
رشتوں کی پہچان ناپید ہو چُکی تھی۔ بتوں کی پوجا اور آگ کی پرستش ہو رہی تھی۔ گویا
دنیا پر شیطان اور اُس کے حواریوں کا راج تھا۔ حضرت آدمؑ اور حضرت شیثؑ کی قائم
کردہ شرعی حدود اور احکاماتِ الٰہی کو پامال کیا جا رہا تھا اور یہی وہ وقت تھا کہ
جب اللہ جل شانہ نے اُس بگڑی قوم میں ایک نبی مبعوث کرنے کا فیصلہ کیا اور اس عظیم
منصب کے لیے حضرت شیثؑ ؑکی نسل سے حضرت ادریسؑ کا انتخاب فرمایا۔ حضرت ادریس ؑمیں
وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں، جو اللہ کے نبی میں ہونی چاہئیں۔ آپؑ،
حضرت آدم علیہ السّلام کے دین کے پیروکار، نہایت عبادت گزار، متّقی، پرہیز گار
اور انتہائی سچّے انسان تھے۔
بابل سے مِصر کی جانب ہجرت
نبوّت کے منصب پر فائز ہوتے ہی آپؑ
نے اپنی قوم کے بھٹکے ہوئے لوگوں میں وعظ و تبلیغ کا کام شروع کر دیا، لیکن راہِ
ہدایت کا یہ درس اور نیکی کی باتیں اُن لوگوں کو بہت ناگوار گزرتیں، چناں چہ وہ
آپؑ کے دشمن ہو گئے۔ آپؑ اور آپؑ کے پیرو کاروں کو طرح طرح سے اذیّتیں دینے
لگے۔ یہاں تک کہ آپؑ نے اُن کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر بابل سے ہجرت کا ارادہ
کرلیا اور اپنے پیروکاروں کو اپنے اس فیصلے سے مطلع فرمایا۔ چوں کہ بابل، دریائے
فرات اور دریائے دجلہ کے کنارے ایک سَرسبز و شاداب علاقہ تھا، لہٰذا لوگوں کے لیے
اس علاقے سے ہجرت کرنا خاصا مشکل فیصلہ تھا اور اُنھوں نے اس حوالے سے تحفّظات کا
اظہار بھی کیا، لیکن پھر حضرت ادریس ؑکے سمجھانے پر وہ لوگ آپؑ کے ساتھ ہجرت پر تیار
ہو گئے۔ حضرت ادریس ؑاور اُن کے پیروکاروں نے بابل سے مِصر کا رُخ کیا اور دریائے
نیل کے کنارے آباد ہو گئے، جو بابل سے بھی زیادہ سَر سبز و شاداب علاقہ تھا۔ حضرت
ادریس ؑ نے یہاں کے لوگوں میں درس و تبلیغ کے کام کو جاری رکھا۔ آپؑ اُس وقت
لوگوں میں رائج تمام زبانوں سے واقف تھے اور عوام کو اُن ہی کی زبان میں درس دیتے
تھے۔
قرآنِ پاک میں ذکر
آپؑ کا قرآنِ مجید میں دو مرتبہ ذکر
آیا ہے۔ سورۂ مریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر
بھی کیجیے۔ بے شک، وہ بڑے سچّے نبی تھے اور ہم نے اُن کو بلند رتبے تک پہنچایا‘‘(سورۂ
مریم56-57)۔ نیز، سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ اور اسماعیلؑ اور ادریسؑ
اور ذوالکفل کا تذکرہ کیجیے۔ یہ سب (احکامِ الہٰیہ پر) ثابت قدم رہنے والے لوگوں میں
سے تھے‘‘(سورۃ الانبیا85)۔ قرآنِ کریم کی معروف و مستند تفسیر’’معارف القرآن‘‘
کے مطابق’’ حضرت ادریس علیہ السّلام، حضرت نوح علیہ السّلام سے ایک ہزار سال پہلے
پیدا ہوئے( روح المعانی، بحوالہ مستدرک حاکم)۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو نبوّت کے
مرتبے پر سرفراز فرمایا اور آپؑ پر تیس صحیفے نازل فرمائے۔ حضرت ادریس علیہ
السّلام وہ پہلے انسان ہیں، جنھیں علمِ نجوم اور حساب بہ طورِ معجزہ عطا کیے گئے۔
نیز، سب سے پہلے اُنھوں نے ہی قلم سے لکھنا اور کپڑا سینا ایجاد کیا۔ اُن سے پہلے
لوگ عموماً جانوروں کی کھال، لباس کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ پھر یہ کہ سب
سے پہلے ناپ تول کے طریقے بھی آپؑ ہی نے متعارف کروائے اور اسلحہ بھی آپؑ کی ایجاد
ہے۔ آپؑ نے اسلحہ تیار کر کے بنو قابیل سے جہاد کیا۔‘‘علّامہ ابنِ اسحاق کا کہنا
ہے کہ’’ دنیا کا سب سے پہلا شحص، جس نے قلم سے لکھا، حضرت ادریس ؑ ہیں۔‘‘ معاویہ
بن حکم سلمیؓ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضورﷺ سے رمل کے بارے میں سوال کیا ؟( یہ ایک
ایسا علم ہے، جس میں ریت پر مخصوص لکیریں کھینچ کر کچھ معلوم کیا جاتا ہے)، تو
رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ ایک پیغمبر تھے، جنہوں نے یہ لکھا۔ لہٰذا، جس شخص کا خط
اُن کے موافق ہو جائے، تو اچھا ہے۔‘‘ علمائے تفسیر فرماتے ہیں کہ’’ پہلا شخص جس نے
تبلیغِ دین کے لیے وعظ و خطاب کا سلسلہ شروع کیا، وہ حضرت ادریس ؑ تھے۔‘‘
ہلال بن سیار کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ
عباس ؓنے حضرت کعب ؓسے پوچھا کہ قرآنِ پاک کی اس آیت’’وَ رَفَعنَاہُ مکاناً علیّاً(
اور ہم نے ان کو اونچی جگہ اٹھا لیا)‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ تو حضرت کعبؓ نے فرمایا’’
اللہ عزّوجَل نے حضرت ادریس ؑکی طرف وحی بھیجی کہ میں تمہیں ہر روز تمام بنی آدم
کے اعمال کے برابر درجات دیتا ہوں۔( اس سے مُراد اُس زمانے کے تمام بنی آدم ہیں)،
تو حضرت ادریس ؑنے چاہا کہ پھر تو اعمال میں اور اضافہ ہونا چاہیے۔ لہٰذا جب اُن
کے پاس فرشتے آئے، تو اُنہوں نے وحی کا ذکر کرتے ہوئے کہا’’ مَیں چاہتا ہوں کہ مَلک
الموت سے بات کروں(اور پوچھوں کہ کب تک میری زندگی باقی ہے)۔‘‘ فرشتے نے حضرت ادریس
ؑکو اپنے پَروں پر اٹھایا اور اُنہیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہو گیا۔ جب وہ
چوتھے آسمان پر پہنچے، تو اُن کی مَلک الموت سے ملاقات ہو گئی، جو نیچے اُتر رہےتھے۔
حضرت ادریسؑ کے دوست فرشتے نے ملک الموت سے حضرت ادریسؑ کے بارے میں ذکر کیا، تو
عزرائیلؑ نے پوچھا ’’حضرت ادریسؑ کہاں ہیں ؟‘‘ فرشتے نے جواب دیا کہ’’ وہ میری
پُشت پر ہیں۔‘‘ اس پر ملک الموت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ واہ تعجب ہے!
مجھے پروردگار کی طرف سے کہہ کر بھیجا گیا ہے کہ حضرت ادریسؑ کی رُوح چوتھے آسمان
پر قبض کر لو۔ تو مَیں نے سوچا کہ وہ تو زمین پر ہیں، اُن کی رُوح چوتھے آسمان پر
کیسے قبض کروں؟ ابھی اسی سوچ و بچار میں تھا اور زمین پر اُتر رہا تھا کہ تم اُنھیں
لے کر چوتھے آسمان پر آ گئے۔‘‘ پھر ملک الموت نے اُن کی رُوح قبض کر لی۔( قصص
الانبیاء، ابنِ کثیر)۔ ابنِ ابی حاتم نے بھی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں اس حدیث
کو ذکر کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا ہے کہ’’ حضرت ادریسؑ نے فرشتے سے کہا’’ ملک الموت
سے میرے بارے میں سوال کرو کہ میری عُمر کتنی باقی رہ گئی ہے؟‘‘ جب کہ حضرت ادریس
ؑ فرشتے کے ساتھ ہی تھے۔ فرشتے کے سوال پر ملک الموت نے کہا’’ جب تک مَیں اُنھیں دیکھ
نہ لوں، اُس وقت تک کچھ نہیں بتا سکتا۔‘‘ پھر ملک الموت نے حضرت ادریس ؑکو دیکھ لیا،
تو فرشتے سے کہا کہ’’ آپ مجھ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کر رہے ہیں، جس کی
زندگی پَلک جَھپکنے سے زیادہ نہیں رہی۔‘‘ پھر فرشتے نے پَر کے نیچے حضرت ادریس ؑکو
دیکھا، تو اُن کی وفات ہو چُکی تھی(قصص الانبیاء، ابنِ کثیر
آپ حضرت آدم کے 500 سال بعد اس دنیا میں
تشریف لائے آپ سے پہلے حضرت شیث علیہ السلام نبوت کے منسب پر سرفراز تھے نبوت ملنے
سے پہلے آپ شیث(ع) کے دین کو مانتے تھے آپؑ پر30 صحیفے نازل ہوئے۔ آپ کے دور میں
انسان جہالت اور بے ادبی میں اتنے گر گئے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر آگ کی عبادت کرنے
لگے تھے۔ آپ نے دنیا میں آکر لوگوں کو ہدایت کا رستہ دکھایا اور ادب و علم بھی
سکھایا لیکن آپ کی قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور صرف کچھ لوگ اپ پر ایمان لائے اس
پر آپ نہایت تنگ اکر خود اور جو ایمان لائے انہیں لے کر وہاں سے ہجرت کر گئے پھر
اپ کے ساتھیوں میں سے چند نے آپ سے سوال کیا:- اے اللہ کے نبی ادریس اگر ہم نے بابل
کو چھوڑ دیا تو ہمیں ایسی جگہ کہاں ملے گی؟ ادریس
نے
فرمایا:- 'اگر ہم اللہ سے اُمید رکھیں تو وہ ہمیں سب کچھ عطا کرے گا۔ 'آخرکار آپ
مصر پہنچے (اس دور میں مصر ایک خوبصورت جگہ تھی ) آپ نے وہاں پہنچتے ہی اللہ کا
شکر ادا کرتے ہوئے سبحان اللہ کہا اور آپ وہیں رہنے لگے اور وہاں اپنا علم پھیلایا
آپ وہ پہلے انسان تھے جس نے قلم کے ذریعے لکھا اور لوگوں کو بھی سکھایا۔ پھر آپ نے
ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو ایمان لے آئے تھے بابل میں برائی اور برے لوگوں کے ساتھ
جنگ کی اور فتح یاب ہوئے اور دنیا سے ایک دفعہ برائی کا نام و نشان مٹا دیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں