اتوار، 26 فروری، 2023

شیر نیستان حیدر.عباس علمدار

 


حضرت عباس علمدار علیہ السلام  -امام علی علیہ السلام کے فرزند تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین سلام اللہ علیہ تھا جن کا  تعلّق عرب کے انتہائ شجاع اور بہادر قبیلے سے تھا -مولا علی علیہ السّال نے اپنے کزن کے سامنے عقد ثانی کے لئے یہ شرط رکھّی تھِی کہ ان کے لئے شجاع اور بہادر قبیلے کی زوج دیکھی جائے-چنانچہ بی بی فاطمہ بنت کلابیہ کا انتخاب عمل میں آیا -جن کا سلسلہ نسب عرب کے ایک بہادر قبیلے سے تھا۔ حضرت عباس ؑ اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے  مشہو ہوئے۔ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ وہ شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہیں۔ اطاعت امام وقت اور وفا اگر کوئی سیکھنا چاہے تو اسے باب الحوائج حضرت عباس علمدار ؑ سے ہی سیکھنا چاہیئے- حضرت عباس علیہ السلام چار شعبان المعظم 26ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔ روایت ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد ہی امام حسین علیہ السلام کی مدد اور نصرت تھا اور اھلِ بیت علیہم السلام کو شروع سے واقعہ کربلا اور اس میں حضرت عباس علیہ السلام کے کردار کا علم تھاحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلامنے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماہر تھے ایک متقی اور بہادر قبیلے کی خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے دعا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کرے جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں امام حسین علیہ السّلامکی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے امام علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیااور شہید ہوئے لیکن عباس علیہ السّلام ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی ۔

جب بھی زبانوں اور کانوں میں لفظ وفا آتا ہے، ایک ہی لمحے میں ذہن ایک پیکر وفا کی طرف جاتا ہے، جس نے صحیح معنوں میں وفا کے مفہوم کو دنیا والوں کو سمجھا دیا۔ وہ پیکر وفا جس نے وفا کا اصلی روپ دکھایا، وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا بہادر اور شیر دل فرزند حضرت عباس علیہ السلام ہے۔ حضرت عباس علیہ السلام کی قدر و منزلت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ:(وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّهِ تَبارَكَ وَتَعالی مَنْزِلَةٌ يَغبِطَهُ بِها جَمیعَ الشُّهدَاءِ يَوْمَ القِیامَةِ)1 “روز قیامت تمام شہداء حضرت عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر رشک کریں گے۔” حضرت عباس اگرچہ امامت کے درجے پر فائز نہیں تھے لیکن مقام و منزلت میں اتنے کم بھی نہیں تھے، عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر فرشتے قیامت کے دن رشک کرینگے۔ عباس بن علی بن ابی طالب، کنیت ابو الفضل امام حسن اور حسین علیہما السلام کے بھائی چار شعبان سن 26 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 61 ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک 34 سال تھی۔ چودہ سال اپنے پدر بزرگوار امیر المومنین علیہ السلام کے زیر سایہ، نو سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور گیارہ سال امام حسین علیہ السلام  کے زیر تربیت گزارے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت حزام نسل بنی کلاب سے ہیں، جن کی کنیت ام البنین ہے۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کو دس برس ہوچکے تھے، ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا (کہ جو نسب شناسی میں ماہر تھے) اور کہا: میرے لئے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کرو، جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو، تاکہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔ جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین علیہ السلام کو پہچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھا، جس کے آباؤ اجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھیں۔ اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا اور بعد میں انہوں نے ام البنین کے نام سے شہرت پائی۔ جناب عقیل رشتہ کے لئے ان کے باپ کے پاس گئے، اس نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعد آپ امیر المومنین علیہ السلام کے گھر تشریف لائیں اور بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی خدمت شروع کی۔ جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو، کہیں تمہارے لئے تمہاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہو جائے۔ میں تمہاری خادمہ ہوں۔ اللہ نے آپ کو چار بیٹوں سے نوازا۔ عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان، یہ چاروں بھائی کربلا میں شہید ہوگئے۔ ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دیتیں، جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام  پر قربان ہونے کی خاص تاکید کی اور ہمیشہ جو لوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرہے تھے، ان سے سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں سوال کرتی تھیں۔

ابتدائی زندگی-حضرت علی علیہ السلام نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ حضرت علی علیہ السلام سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقہ حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدر کہلانے لگے۔ حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔

جنگ صفین-جنگ صفین امیر المومنین خلیفتہ المسلمین حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شام کے گورنر نے مئی۔جولائی 657 ء مسلط کروائی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کا لباس پہنا اور بالکل اپنے والد علی علیہ السلام کے طرح زبردست جنگ کی حتیٰ کہ لوگوں نے ان کو علی ہی سمجھا۔ جب علی علیہ السلام بھی میدان میں داخل ہوئے تو لوگ ششدر رہ گئے ۔ اس موقع پر علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے عباس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ عباس ھیں اور یہ بنو ھاشم کے چاند ھیں۔ اسی وجہ سے حضرت عباس علیہ السلام کو قمرِ بنی ھاشم کہا جاتا ھے۔واقعہ کربلا اور حضرت عباس علیہ السلام-واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 33 سال کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزارسے ذیادہ تھی مگر حضرت عباس علیہ السلام کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس علیہ السلام جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔

امام حسینؑ کے پاسدار ، وفاؤں کے درخشان مینار، اسلام کے علمبردار، ثانیِ حیدرِ کرّار، صولتِ علوی کے پیکر ، خاندانِ رسول ص کے درخشان اختر ، اسلام کے سپاہ سالارِ لشکر ، قلزمِ علی کے نایاب گوہر، فاطمہ زہرا کے پسر، ثانیِ زہرا کے چہیتے برادر ،علمدار کربلا حضرتِ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام ۔کسی کے قلم میں اتنی طاقت کہاں کہ طیّارِ عرشِ معرفت ، اطلسِ شجاعانِ عرب کے بارے میں خامہ فرسایی کر سکے یا انکی فضیلت میں اپنے لبوں کو وا کر سکے ۔ اسلیے کہ انکی فضیلت اور عظمت وہ بیان کر رہے ہیں جو ممدوح خدا ہیں ۔ شخصیت والا صفات کے بارے میں چند روایاتِ معصومین اور چند حقایق تاریخ، قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں ۔امام زین العابدین حضرت سید سجّاد ؑ فرزند سید شہدا علیہ السلام فرماتے ہیں

ان العباس عنداللہ تبارک وتعالیٰ منزلۃ یغبتہ علیہا جمیع الشہداء یو م القیامۃ خدا وند عالم کے نزدیک عبّاس کی وہ منزلت ہے کہ تمام شہدا قیامت کے دن رشک کرینگے جنگ صفّین-اور غازی عبّاس-جنگ صفین حضرت علیؑ اور معاویہ کے درمیان لڑی گئی جنگوں میں سے ایک ہے جو 37ھ کو صفر کے مہینے میں صفین کے مقام پر لڑی گئی۔اس جنگ میں جب معاویہ نے جنگ کو ہارتے دیکھا تو قرآن کو نیز وں پر اٹھا کر میدان جنگ میں آ گئے اور اس مقام پر مولا علی نے اپنے لوگوں کی مخالفت کے باوجود قران  پاک کے احترام میں جنگ روک دی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر