منگل، 28 فروری، 2023

ا و ر پھرکشتی ڈوب گئ

 

اٹلی کے قریب کشتی حادثے میں کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کا خدشہ ’دو درجن سے زیادہ پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں انتہائی تشویشناک ہیں‘اٹلی کے جنوبی

 علاقے میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں بچوں سمیت 100 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 12 بچوں سمیت 62 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہونے

 والی کشتی میں 200 کے قریب افراد سوار تھے۔ اتوار کے روز یہ کشتی اس وقت تباہ ہو گئی جب اس نے اٹلی کے جنوبی علاقے کروٹون میں لنگر انداز ہونے کی

 کوشش کی۔کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔ سرکاری زرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے کم ازکم چار پاکستانیوں کی

 شناخت کی جا چکی ہے جن کا تعلق پنجاب کے علاقے گجرات اور راولپنڈی سے بتایا جارہا ہے۔یہ کشتی کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہوئی تھی اور اس میں افغانستان،

 پاکستان، صومالیہ اور ایران کے باشندے سوار تھے۔ کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ 80 افراد زندہ پائے گئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب بھی کچھ افراد لاپتہ ہیں۔

 زندہ بچ جانے افراد میں کچھ ایسے بھی جو گشتی ڈوبنے کے بعد خود ساحل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

جبکہ اٹلی میں پاکستان کے سفیر علی جاوید نے کہا ہے کہ کشتی حادثے میں کتنے پاکستانی جاں بحق ہوئے، ابھی تصدیق نہیں کر سکتے۔ جیو نیوز سے گفتگو میں علی جاوید

 کا کہنا تھاکہ کلابریا کے ساحل پرکشتی ڈوبنے کے واقعے میں 16 پاکستانیوں کو ریسکیوکیاگیا اور انہوں نے بتایا کشتی پر 20 پاکستانی سوار تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ ڈوبنے

 والی کشتی پر سوار مزید 4 پاکستانی تاحال لاپتہ ہیں، کشتی حادثے میں کتنے پاکستانی جاں بحق ہوئے، ابھی تصدیق نہیں کر سکتے۔ پاکستانی سفیر نے کہا ہے کہ پاکستان

 کے نائب سفیر فرحان احمد نے متعلقہ جگہ کا دورہ کیا ہے۔ ڈوبنے والی کشتی پر مبینہ طور پر 40 پاکستانی سوار تھے، 12 لاپتہ ہیں: پاکستانی سفارتخانے کا بیان ان کا کہنا

 تھاکہ ڈوبنے والی کشتی پر سوارپاکستانیوں سے متعلق سوشل میڈیا پر غیرمصدقہ معلومات زیرگردش ہیں لہٰذا پاکستانی عوام اطالوی ساحل پرکشتی حادثے میں

 غیرمصدقہ معلومات پرکان نہ دھریں۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز ترکیہ سے اٹلی جانے والے غیرقانونی مہاجرین کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر ڈوب گئی

 جس کے نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 59 افراد ہلاک ہوئے اور کئی لاپتہ ہیں۔

سفارتخانے نے ابتدائی طور پر 28 پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی اور 12

 لاپتہ قرار دیے تھے۔ مزید خبریں :./ فوٹو اے ایف پی اٹلی میں کشتی ڈوبنے کے واقعہ پر روم میں پاکستان کے سفارت خانے نے ورثا کیلئے ہیلپ لائن قائم کر دی۔

 پاکستانی سفارتخانے کے مطابق ورثا معلومات کے لیے واٹس ایپ نمبر 393898716588+ پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ کشتی میں 120 سے زائد افراد سوار تھے

 جن میں سے 81 کو بچا لیا گیا، باقی کی تلاش کا کام جاری ہے: اٹلی حکام پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اٹلی میں کلابریا کے ساحل پر ڈوبنے والی کشتی

 پر مبینہ طور پر 40 پاکستانی سوار تھے جن میں 28 کی لاشیں مل چکیں اور 12 لاپتا ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے کے مطابق اطالوی حکام اور میری ٹائم ایجسنیوں

 سمیت کلابریا میں پاکستانی کمیونٹی اور رضا کاروں سے بھی رابطے میں ہیں۔ مزید خبریں :.فوٹو: ای پی اے روم: اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی کو حادثے میں 28

 پاکستانیوں سمیت 58 تارکین جاں بحق ہوگئے۔

 غیر ملکی میڈیا کے مطابق اٹلی کے صوبے کروٹون میں جنوبی ساحل کے قریب ناہموار سمندر میں 140 سے زائد

 تارکین وطن کو لیجانے والی کشتی چٹانوں سے ٹکراکر تباہ ہوگئی جس کے نتیجے میں بچوں سمیت کم از کم 58 افراد ہلاک ہوگئے۔ لکڑی کی یہ کشتی کئی روز قبل ترکی

 سے روانہ ہوئی تھی جس میں افغانستان اور دیگر کئی ممالک کے لوگ سوار تھے، مقامی حکام کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 58 ہے جبکہ 81 افراد کو زندہ بچالیا

 گیا ہے جن میں سے 20 کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کشتی میں پاکستان، افغانستان اور ایران کے تارکین وطن سوار تھے، مرنے والوں

 میں ایک شیرخوار بچی اور متعدد بچے شامل ہیں۔ پاکستانیوں کا تعلق گجرات ،کھاریاں، منڈی بہائوالدین سے بتایاجارہا ہے۔ پاکستان میں والدین اپنے بیٹوں کی

 لاشوں کے منتظر ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ پاکستان کا کہنا ہے کہ ہم اٹلی کے ساحل پر ڈوبنے والے بحری جہاز میں پاکستانیوں کی ممکنہ موجودگی سے متعلق رپورٹس

 پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، روم میں پاکستان کا سفارتخانہ اطالوی حکام سے حقائق جاننے کے لئے رابطے میں ہے۔ واضح رہے کہ سمندری راستے سے یورپ میں

 داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے اٹلی ایک اہم لینڈنگ پوائنٹ ہے جہاں وسطی بحیرہ روم کے راستے کو دنیا کے خطرناک ترین راستوں

 میں شمار کیا جاتا ہے۔ تارکین وطن کی بین الاقوامی تنظیم مسنگ مائگرینٹ پروجیکٹ کے مطابق 2014 سے ابتک وسطی بحیرہ روم میں کم از کم 20 ہزار 333

 افراد جاں بحق اور لاپتہ ہوچکے ہیں۔

 ترکی سے اٹلی جانے والے غیرقانونی مہاجرین کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر ڈوب گئی جس کے

 نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 58 افراد ہلاک ہوگئے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق غیرقانونی مہاجرین کی کشتی ترک شہر ازمیر سے اٹلی جاتے ہوئے گہرے سمندر

 میں حادثے کا شکار ہوئی۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غیرقانونی مہاجرین کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہوئی اور اس کا ملبہ آج اٹلی کے ساحل پر پہنچا۔

 اٹلی کے حکام کے مطابق کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 58 افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے جبکہ ہلاک غیرقانونی مہاجرین کا تعلق پاکستان،

 افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کئی افراد کی لاشیں تیرتے ہوئے ساحل پر پہنچیں، کشتی میں 120 سے زائد افراد سوار تھے جن میں سے 81 کو

 بچا لیا گیا ہے اور باقی کی تلاش کیلئے سمندر میں آپریشن جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 22 افراد اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر حادثے کا

 شکار ہونے والی کشتی میں سوار مبینہ پاکستانیوں کی تصاویر اور دیگر دستاویزات زیر گردش ہیں تاہم اس کی مصدقہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے

واضح رہے کہ غربت یا دیگر وجوہات کی وجہ سے سالانہ ایک بڑی تعداد میں لوگ افریقہ کی جانب سے اٹلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان کے

 دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم اٹلی کے ساحل پر کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ممکنہ موجودگی کی خبروں سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ

 لے رہے ہیں۔دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ روم میں پاکستانی سفارت خانہ اطالوی حکام سے واقعے کے حقائق جاننے کے عمل میں مصروف ہے۔دوسری جانب

 پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ 

’اٹلی میں کشتی کے حادثے میں دو درجن سے زیادہ پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں

 انتہائی تشویشناک ہیں۔ میں نے دفتر خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ جلد ازجلد حقائق کا پتا لگایا جائے اور قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔‘کشتی کے حادثے میں ڈوبنےوالوں

 کو بچانے کے لیے جب امدادی کارروائیاں جاری ہیں اس وقت اسولا ڈی کاپو ریزوٹو قصبے کے ایک عارضی استقبالیہ مرکز میں کمبلوں میں لپٹے ہوئے افراد رو رہے

 تھے۔خیراتی ادارے میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) سے تعلق رکھنے والے سرجیو ڈی داٹو کا کہنا ہے کہ 'وہ شدید صدمے کا شکار ہیں۔ ''کچھ بچوں نے اپنے

 پورے خاندان کو کھو دیا ہے۔ ہم انہیں ہر ممکن مدد کی پیش کش کر رہے ہیں۔ "افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک 16 سالہ لڑکا ساحل پر اپنی 28 سالہ بہن کی

 لاش کے قریب بیٹھا ہوا ہے اور اس میں اپنے والدین کو بتانے کی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کو بتائے کہ ان کی بیٹی مر چکی ہے۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والا ایک 43 سالہ شخص اپنے 14 سالہ بیٹے کے ساتھ زندہ بچ گیا، لیکن اس کی بیوی اور اس کے تین دیگر بچے، جن کی عمریں 13، 9 اور

 5 سال تھیں، وہ زندہ نہیں رہے۔امدادی کارروائیوں میں مصروف ایک غیر سرکاری تنظیم ایس او ایس میڈیٹیرینی کے ترجمان فرانسسکو کریزو نے کہا''یہ ایک

 اور المیہ ہے جو ہمارے ساحلوں کے قریب ہو رہا ہے۔ وسطی بحیرہ روم کہ یہ ہم سب کو یاد دلاتا ہے کہ بحیرہ روم ایک بہت بڑی اجتماعی قبر ہے، جس میں ہزاروں

 جانیں ہیں، اور یہ مسلسل وسیع ہوتی جا رہی ہے۔

’ایسا سانحہ کبھی نہیں ہوا‘

بتایا گیا ہے کہ یہ کشتی اس وقت ڈوب گئی تھی جب خراب موسم میں یہ سمندر میں موجود پتھروں سے ٹکرائی جس کے بعد بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن شروع

 کیا گیا۔ویڈیو فوٹیج میں کشتی کا ملبہ ساحل پر دیکھا جا سکتا ہے-زندہ بچ جانے والوں کو کمبل لپیٹے دیکھا گیا جن کی مدد ریڈ کراس کے اہلکار کر رہے تھے۔ ان میں سے

 چند کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔قصبے کے میئر انتونیو کیراسو نے رائے نیوز کو بتایا کہ ’اس سے پہلے بھی ساحل ہر لوگ اترتے ہیں لیکن ایسا سانحہ کبھی نہیں

 ہوا۔‘کسٹم پولیس نے کہا ہے کہ اس واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک فرد کو انسانی سمگلنگ کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔اطالوی وزیر

 اعظم جیورجیا میلونی، جو گذشتہ سال تارکین وطن کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے وعدے کے ساتھ منتخب ہوئی تھیں  

ڈوبنے والے 90 افراد میں سے 32 پاکستانی ہیں جن میں سے 12 کی نعشیں مل گئی ہیں جبکہ بقیہ کی شناخت اور لاشیں نکالنے کا عمل جاری ہے

لیبیا کے ساحل کے قریب سپین جانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی کشتی کے حالیہ حادثے میں جو 90 افراد جان سے گئے ان میں سے 32 کا تعلق

 پاکستان سے تھا۔پاکستانی وزارتِ خارجہ کے مطابق ان میں سے 18 کی شناخت ہو چکی ہے جبکہ صرف 12 کی ہی لاشیں مل پائی ہیں اور باقی افراد اب بھی لاپتہ

 ہیں۔وزارت خارجہ کی جاری کردہ فہرست کے مطابق ڈوبنے والے افراد میں سے چار کا تعلق گجرات کے ایک ہی خاندان سے ہے۔


بی بی سی نے ان کے اہل خانہ سے رابطہ کیا تو ان کے کزن بشیر چوہدری نے بتایا کہ کشتی میں دو بھائی، 35 سالہ رحمت خان اور 32 سالہ اسماعیل خان اپنی بیوی اور

 دو بچوں سمیت سوار تھے۔ان پانچ میں سے صرف رحمت خان ہی زندہ بچے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت نے لیبیا کے ساحل کے قریب تارکین

 وطن کی ایک کشتی کے حادثے میں 90 افراد کے ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے تین افراد کا کہنا ہے کہ ڈوبنے والے زیادہ تر افراد پاکستانی تھےملنے والی دس لاشوں میں سے آٹھ پاکستانی شامل ہیں   کئ برسوں

 سے تارکین وطن لیبیا کو سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کے لیے اہم گزرگاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔واں برس جنوری میں وہاں 240 پاکستانی پہنچے

 جس کے بعد پاکستان تیسرے نمبر پر پہنچ گیا اگر موازنہ کیا جائے تو سمندر کے راستے جنوری 2017 میں فقط نو پاکستانی سمندر کے راستے اٹلی پہنچے تھے جبکہ اقوام

 متحدہ کے مطابق ساحل پر پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر حافظ آباد کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان اپنے بہتر مستقبل

 کی خواہش میں یورپ پہنچنے کا غیر قانونی راستہ اپناتے ہیں۔ اسی طرح اکیس سالہ علی ورک نے بھی پاکستان سے ایران، ترکی اور یونان تک غیر قانونی طریقے سے

 سفر کیا تھا۔ملنے والی دس لاشوں میں سے آٹھ پاکستانی شامل ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر