پاکستان کی عظیم الشّان بحریہ
فوج--
بحریہ (Pakistan Navy)
پاکستان کی بحری حدود اور سمندری اور ساحلی مفادات کی محافظ ہے۔ یہ پاکستان کی
دفاعی افواج کا حصہ ہے۔ پاک بحریہ (اردو: پاکستان بحریہ۔ Pɑkistan
Bahri'a)
پاکستان کی دفاعی افواج کے بحری جنگ وجدل کی شاخ ہے۔ یہ پاکستان کی 1,046
کلومیٹر (650 میل) لمبی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب اور اہم شہری بندرگاہوں
اور فوجی اڈوں کے دفاع کی ذمہ دار ہے۔ پاک بحریہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے
بعد وجود میں آئی اور ایڈمرل کلیم شوکت موجودہ سربراہ ہيں۔ بحری دن 8 ستمبر 1965ء
کو پاک بھارت جنگ کی یاد میں منایا جاتا ہے--بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح
نے حصول پاکستان کے بعد اپنی مختصر زندگی میں پاکستان کے ہر شعبے اور ادارے کی خبر
گیری کی، ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے افواج پاکستان سے مشترکہ اور الگ الگ
خطاب کیا۔ بانی پاکستان سمندری حدود کی حفاظت اور بحری فوج کی اہمیت کا پورا ادراک
رکھتے تھے اس لیے انہوں نے 23 جنوری 1948 کو نو تشکیل کردہ پاک بحریہ کے افسران سے
خطاب کرتے ہوئے کہا ”آپ کو کسی بیرونی مدد کی توقع کیے بغیر اپنے بل بوتے پر تمام
مشکلات اور خطرات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اگر ہم اپنا دفاع مضبوط بنانے میں ناکام
ہوئے تو یہ دوسرے ممالک کو جارحیت کی دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ امن قائم رکھنے
کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو ہمیں کمزور سمجھتے ہیں اور اس بنا پر جارحیت کا ارادہ
رکھتے ہیں ان کے ذہنوں سے یہ خیال نکال دیا جائ۔ پاک بحریہ پاکستان کی حکومت کی
پالیسیوں کی حمایت ميں ملکی اور غیر ملکی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ پاکستان کے
دفاع کے لیے پاک بحریہ کا موجودہ اور بنیادی کردار ہے۔ اکیسویں صدی میں پاک بحریہ
نے محدود بیرون ملک آپريشنز کیے اور پاکستان انترکٹک پروگرام کے قیام میں ایک اہم
کردار ادا کیا ہے ۔ پاک بحریہ جدت و توسیع کے مراحل سے گزر رہی ہے اور دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔ 2001ء سے پاک بحریہ نے اپنی آپریشنل
گنجائش کو بڑھایا اور عالمی دہشت گردی، منشیات سمگلنگ اور قزاقی کے خطرے کا مقابلہ
کرنے کی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری میں تيزی لائی۔ 2004 میں پاکستان نیٹو
مشترکہ ٹاسک فورس CTF-150
کا رکن بن گیا۔ پاکستان کے آئین کے تحت صدر پاکستان پاکستانی مسلح افواج کا کمانڈر
ان چیف ہوتا ہے۔ چیف آف نيول اسٹاف (CNS)
جوکے چار ستارے والا ایڈمرل ہوتا ہے پاک بحریہ کا سربراہ ہوتا ہے جس کو وزیر اعظم
پاکستان صدر پاکستان سے مشاورت کے بعد مقرر کرتا ہے۔ چیف آف نيول اسٹاف سویلین وزیر
دفاع اور سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہوتا ہے۔
پاک بحریہ نے اپنے قائد کے الفاظ کی
لاج رکھتے ہوئے پاکستان کے ایک ہزار کلومیٹر سے زائد ساحل کی حفاظت میں کوئی کسر
اٹھا نہیں رکھی۔ پاک بحریہ نے جنگ اور امن میں ہر موقع پر شاندار کامیابیوں سے قوم
کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ 1965 ء کی جنگ میں کیا جانے والا ’آپریشن دوارکا‘
پاکستان کی تاریخ کا ایک انمٹ باب اور پاک بحریہ کی پیشہ ورانہ کارکردگی کا ناقابل
فراموش کارنامہ ہے۔ 1965 ء کی جنگ میں جب دشمن کراچی پر حملے کا منصوبہ بنا رہا
تھا تو پاک بحریہ کے چاق و چوبند جوانوں نے دشمن کو کوئی حرکت کرنے کا موقع دیے بغیر
اس کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔پاک بحریہ نے میری ٹائم سیکیورٹی چیلنجز سے
نبرد آزما ہونے کے لئے ’سٹیٹ آف دی آرٹ جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کوآرڈینیشن سینٹر‘
کے قیام کو عملی جامہ پہنایا۔ پاک بحریہ نے میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی، پاکستان
کسٹمز اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ کی جانے والی مشترکہ کارروائیوں میں منشیات
اور دیگر غیر قانونی کاروبار کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اربوں روپے کی
منشیات تحویل میں لی ہیں۔
بلیو اکانومی کسی بھی ملک کی معیشت کے
لئے بہت اہم ہوتی ہے۔ بلیو اکانومی کا مطلب سمندر کے ذریعے تجارت اور سمندری وسائل
سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کی 80 فیصد تجارت سمندری راستے کے ذریعے ہوتی
ہے جس کا سالانہ حجم 1.5 ٹریلین امریکی ڈالر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سمندر جیسی
نعمت سے نوازا ہے جو پاکستان کی معیشت کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اب
بلیو اکانومی پہ بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے، بلیو اکانومی سے جڑے کئی منصوبے شروع کیے
جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں پاک بحریہ ہر حوالے سے حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہی
ہے۔
پاکستان کے دوست ملک چین کی جانب سے
شروع کردہ ”ون بیلٹ ون روڈ“ منصوبے کے سب سے اہم حصے ’سی پیک‘ کے تناظر میں پاک
بحریہ کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ سی پیک پورے خطے کے لئے گیم چینجر کی حیثیت
رکھتا ہے اور پاکستانی معیشت کی خوشحالی اور ترقی سی پیک سے جڑی ہوئی ہے۔ گوادر
پورٹ سی پیک کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ سی پیک اور گوادر پورٹ سے پوری طرح
استفادہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گوادر پورٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سمندری پانیوں
میں تجارت کی غرض سے آنے والے جہازوں کی مکمل حفاظت یقینی بنائی جائے اور ان کو ہر
طرح کے منظم اور غیر منظم خطرات سے محفوظ رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے پاک بحریہ نے
سپیشل ٹاسک فورس 88 قائم کی ہے۔ جو سی پیک کے سمندری راستے کی حفاظت کرے گی۔ پاک
بحریہ کی طرف سے سی پیک کی حفاظت کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر پاکستان میں
تعینات چینی سفیر نونگ رونگ نے بھرپور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
پاکستانی سمندری حدود اور سمندری
راستوں کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری بطریق احسن نبھانے کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ ساحل
سمندر کی حفاظت، ایکو سسٹم کی بحالی، سمندری آلودگی کے خاتمے، انسانی ہمدردی اور ساحلی علاقوں میں صحت و تعلیم
کے فروغ کے لئے بھی قابل تحسین اقدامات کر رہی ہے۔ ساحل سمندر کو کٹاؤ سے بچانے،
سمندری طوفان کی شدت کم کرنے اور سمندری حیات کا تحفظ ممکن بنانے کے لئے پاک بحریہ
نے 2016 ء میں مینگروز کی شجر کاری مہم شروع کی۔مینگروز کے درخت نمکین پانی میں
زندہ رہنے اور نشوونما پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 2016 ء میں شروع کی گئی مینگروز
شجر کاری مہم کو چھٹے سال بھی جاری رکھا گیا اور پاک بحریہ کی جانب سے اس سال 30
لاکھ نئے درخت لگانے کا عزم کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے کل رقبے
کے 6 فیصد حصے پہ جنگلات موجود ہیں جن میں 3 فیصد رقبہ مینگروز کے جنگلات پہ مشتمل
ہے۔ فی الوقت پاکستان میں موجود مینگروز کا جنگل دنیا کے دس بڑے مینگروز کے جنگلات
میں شامل ہے جو سندھ اور بلوچستان میں ساحل کے ساتھ 6 لاکھ ہیکٹر رقبے پہ مشتمل
ہے۔
پاک بحریہ کی جانب سے عالمی یوم ماحولیات
کے موقع پر پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کی روک تھام اور پلاسٹک کا پائیدار
نعم البدل تلاش کرنے کے حوالے سے موثر اقدامات کی ضرورت پہ زور دیا گیا۔ پلاسٹک سے
پیدا ہونے والی آلودگی سمندری حیات کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لئے بھی کئی خطرات
پیدا کر رہی ہے۔ پاک بحریہ میں یوم ماحولیات ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے جس
کا مقصد عوام الناس اور متعلقہ اداروں کے درمیان سمندری ماحول سے متعلق آگاہی کو
فروغ دینا ہے۔
پاکستان کی واحد آبدوز غازی نے دشمن
بحریہ کی کمر توڑ دی اور ثابت کر دیا کہ پاک بحریہ اپنے پاک وطن کی حفاظت کے لئے
پوری طرح تیار ہے۔ روایتی مشکلات اور خطرات کے علاوہ نئے دور میں پیدا ہونے والے
خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پاک بحریہ ہمہ وقت مشقوں میں بھی مصروف رہتی ہے۔ دیگر
ممالک کی بحری افواج کے ساتھ مشترکہ مشقوں کے ذریعے پاک بحریہ کی استعداد کار
بڑھانے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے میں مدد ملتی ہے
"آج پاکستان کے لیے ایک تاریخی دن ہے
خاص کر ان لوگوں کے لیے جو بحریہ میں ہيں۔ مملکتِ پاکستان اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی بحریہ، شاہی پاک بحریہ وجود میں آگئی
ہے۔ مجھے فخر ہے کے مجھے اس کا سربراہ اور آپ کے ساتھ مل کر اس کی خدمت کے لیے
مقرر کیا گیا ہے۔ یہ میرا اور آپ کا فرض ہے کے آنے والے مہینوں میں اس بحریہ کو ہم
ايک مستعد اور خوش باش بحریہ بنائيں" —بانی پاکستان محمد علی جناح کا مارچ
1948ءمیں پاکستان نيول اکیڈمی منوڑہ ميں خطابپاک بحریہ 15 اگست 1947ءکو پاکستان کی
ریاست کے قیام کے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ مسلح افواج کی ریکونسٹوشن کمیٹی نے شاہی
ہندوستانی بحریہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا۔ شاہی پاک بحریہ کو دو
سلوپ، دو فریگٹیس، چار مانیسویپر، دو بحری ٹرالرز، چار بندرگاہ لانچیز اور 358
اہلکار (180 افسران اور 34ريٹنگ) ملے۔ پاکستان کے ساحل پر ڈیلٹا کے علاقے زيادہ
ہونے کی وجہ سے، پاکستان کو بندرگاہ ڈیفنس موٹر لانچیز کی ایک بڑی تعداد بھی ملی۔
1956ء میں پاکستان کو ایک جمہوریہ قرار دیا گیا اور دولت مشترکہ کے حصے کے طور پر
"شاہی" کا لاحقہ ختم کرديا گیا۔ بحریہ کو ایک مشکل تاریخ سے گزرنا
پڑا،بحریہ کو صرف 200 افسران اور 3000 سيلر ملے جن ميں کموڈور ايچ ايم ايس چوہدری
سینئر ترین افسر تھے۔ بحریہ کو ناکافی عملے، آپریشنل اڈوں کی کمی اور ٹیکنالوجی
اور وسائل کی کمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ويسے بھی تکنیکی عملے، ساز و
سامان اور افسران کے لحاظ سے فوج اور فضائیہ کے مقابلے ميں سب سے چھوٹی شاخ تھی۔
ان تمام مشکلات کے باوجود بحریہ نے درپیش چیلنجوں کا سامنا کیا اور نوزائيدہ
پاکستان میں ایک ہائی پروفائل بھرتی پروگرام کا آغاز کیا۔
1951 ميں فريگيٹ شمشير
پاک بحریہ نے 1947 کی پاک بھارت جنگ میں
حصہ نہيں ليا کيونکہ تمام لڑائی زمین تک محدودتھی۔ تاہم ریئر ایڈمرل جيمز وِلفریڈ
جیفورد، چیف آف دی نيول سٹاف نے ایک" ہنگامی منصوبہ"(فریگٹیس اور بحری
دفاع کو کام کرنے کے لیے مرحلہ)" بناليا تھا۔ 1948ء میں بحریہ میں بحری جاسوسی
کے معملات کے یے ڈائریکٹوریٹ جنرل نيول انٹیل جنس (DGNI) کا محکمہ قائم کیا گیا تھا اور کمانڈر سید محمد احسن نے اس کے
پہلے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ 1947 ء کی جنگ کے خاتمے کے بعد
بحریہ نے اپنے اڈوں کی توسیع کا کام شروع کر دیا اور کراچی ميں نيول ہيڈکوارٹرز کا
قيام عمل ميں لايا گيا۔ 1949 میں اپنا پہلا او کلاس تباہ کن ( ڈيسٹرائر) بحری جہاز
شاہی بحریہ سے خریدا ۔ پاک بحریہ کی آپریشنل تاریخ کا آغاز 1949 کو شاہی بحریہ کے
دو عطیہ کردہ تباہ کن ( ڈيسٹرائر) بحری جہازوں پی اين ايس ٹیپو سلطان اور پی اين
ايس طارق کے ساتھ ہوا۔ پی اين ايس طارق کی کمان لیفٹیننٹ کمانڈر افضل رحمان خان کو
دی گئی جبکے پی اين ايس ٹیپو سلطان 30 ستمبر 1949 کو کمانڈر پی ايس ایونز کی کمان
میں پاک بحریہ میں کميشن ہوا۔ ان دو جہازوں سے 25ويں تباہ کن( ڈيسٹرائر) سکواڈرن کی
تشکیل دی گئی۔ 1950ء میں بحریہ ميں قوميتی پروگرام کو فروخ ديا گيا، جس میں مقامی
افسران کی بڑی تعداد ميں ترقی دی گئی۔ ڈاکيارڈ، لاجسٹکس اور انجینرنگ کے اڈوں کی
تشکیل ہوئی، توانا کوششوں سے مشرقی پاکستان میں بحری موجودگی کو فروخ ديا گيا تاکے
مشرقی پاکستان سے لوگوں کی بھرتی کے لیے مواقع پیدا ہوں۔ اس مدت کے دوران شاہی بحریہ
کے افسران کی جگہ مقامی افسران کو خاص اور کلیدی عہدوں پے لگايا گيا۔ ریئر ایڈمرل
جيمز وِلفریڈ جیفورد بحریہ کے پہلے سربراہ کے طور پر جبکہ کمانڈر خالد جمیل نے بحریہ
کے پہلے پاکستانی نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1950 کی دہائی میں،
وزارت خزانہ نے پاک فوج کی کور آف انجینئرز کو کراچی میں بحری ڈاکيارڈ اور نيول
ہيڈکوارٹرز کی تعمیر کی زمہ داری سونپی۔ اس وقت کے دوران شاہی بحریہ کی سرپرستی میں
بحریہ کے بحری جہازوں نے خیر سگالی مشنوں کی ایک بڑی تعداد ميں شرکت کی۔ پاک بحریہ
کے بحری جہازوں نے دنیا بھر کا دورہ کیا۔ 1950 میں کموڈور چوہدری نے پی اين ايس
مہران کی کمان سنبھالی۔ 1953ء میں وہ بحریہ کے پہلے پاکستانی سربراہ بن گئے۔ 25ويں
تباہ کن( ڈيسٹرائر) سکواڈرن کی کمان کيپٹن رومولڈ نالیکز کی ٹیمانسک نے سنبھالی۔
2008 کی رپورٹ کے مطابق پاک بحریہ کے فعال ڈیوٹی
ملازمین کی تعداد تقریبا 25000 ہے۔ اضافی 1200 مرینز اور اڑھائی ہزار سے زیادہ
کوسٹ گارڈ اور 2000 فعال ڈیوٹی نیوی اہلکار ميری ٹائم سیکورٹی ایجنسی میں ہيں۔ اس
کے علاوہ 5000 ريزرو موجود ہيں۔ کل تقريبا 35,700 اہلکارو ہوئے۔2012 میں بحریہ نے
بلوچستان کے بلوچ یونیورسٹی کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد بحریہ انجینئری کالج تربیت
مکمل کرنے کے لیے بھیجا۔ بحریہ نے اہلکاروں کی تربیت کے لیے تین اضافی سہولیات
بلوچستان میں قائم کيں۔ مملکتِ پاکستان اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی بحریہ، شاہی پاک
بحریہ وجود میں آگئی ہے۔ مجھے فخر ہے کے مجھے اس کا سربراہ اور آپ کے ساتھ مل کر
اس کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ میرا اور آپ کا فرض ہے کے آنے والے مہینوں
میں اس بحریہ کو ہم ايک مستعد اور خوش باش بحریہ بنائيں" —بانی پاکستان محمد
علی جناح کا مارچ 1948ءمیں پاکستان نيول اکیڈمی منوڑہ ميں
پاک بحریہ 15 اگست 1947ءکو پاکستان کی
ریاست کے قیام کے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ مسلح افواج کی ریکونسٹوشن کمیٹی نے شاہی
ہندوستانی بحریہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا۔ شاہی پاک بحریہ کو دو
سلوپ، دو فریگٹیس، چار مانیسویپر، دو بحری ٹرالرز، چار بندرگاہ لانچیز اور 358
اہلکار (180 افسران اور 34ريٹنگ) ملے۔ پاکستان کے ساحل پر ڈیلٹا کے علاقے زيادہ
ہونے کی وجہ سے، پاکستان کو بندرگاہ ڈیفنس موٹر لانچیز کی ایک بڑی تعداد بھی ملی۔
1956ء میں پاکستان کو ایک جمہوریہ قرار دیا گیا اور دولت مشترکہ کے حصے کے طور پر
"شاہی" کا لاحقہ ختم کرديا گیا۔ بحریہ کو ایک مشکل تاریخ سے گزرنا
پڑا،بحریہ کو صرف 200 افسران اور 3000 سيلر ملے جن ميں کموڈور ايچ ايم ايس چوہدری
سینئر ترین افسر تھے۔ بحریہ کو ناکافی عملے، آپریشنل اڈوں کی کمی اور ٹیکنالوجی
اور وسائل کی کمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ويسے بھی تکنیکی عملے، ساز و
سامان اور افسران کے لحاظ سے فوج اور فضائیہ کے مقابلے ميں سب سے چھوٹی شاخ تھی۔
ان تمام مشکلات کے باوجود بحریہ نے درپیش چیلنجوں کا سامنا کیا اور نوزائيدہ
پاکستان میں ایک ہائی پروفائل بھرتی پروگرام کا آغاز کیا۔ اور
آج الحمد للہ تمام مشکل منزلیں سر کر کے اس کے سپاہی سمندر کے سینے پر اپنے وطن کی
حفاظت کے لئے سراُٹھائے کھڑے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں