پیر، 27 فروری، 2023

پا کستا ن میں گز ر ے زما نو ں کا قلعہ روہتاس

 

پا کستا ن میں گز ر ے زما نو ں کے  قلعےبتا تے ہیں کہ مغل بادشاہوں نے برصغیر پر کس شان و شوکت اور دبدبہ کے ساتھ حکومت کی

 اور فن تعمیر پر اپنے گہرے نقوش  ثبت  کئے-یہ قلعہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے، جبکہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا

 ہے۔ قلعے کی فصیل کو ان چٹانوں کی مدد سے ترتیب و تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جن پر یہ تعمیر کیا گیا۔قلعہ اندرونی طور پر دو

 حصوں میں تقسیم تھا، جس کے لیے ایک 1750 فٹ طویل دیوار تعمیر کی گئی، جو قلعے کے دفاعی حصے کو عام حصے سے جدا کرتی تھی۔

 یہ ان قدیم روایتوں کا تسلسل تھا، جن کے تحت فوجوں کی رہائش شہروں سے علاحدہ رکھی جاتی تھی۔ قلعے کے جنگی حصے کی وسعت کا

 اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہد شیر شاہ میں توپ خانے کے علاوہ 40 ہزار پیدل اور 30 ہزار سوار فوج مع ساز و سامان

 یہاں قیام کرتی تھی۔ قلعے میں 86 بڑے بڑے برج یا ٹاور تعمیر کیے گئے۔ پانی کی فراہمی میں خود کفالت کے لیے تین باؤلیاں

 (سیڑھیوں والے کنویں) بنائی گئیں تھیں، ان میں سے ایک فوجی حصے میں اور باقی دونوں پانی کی پانچ ذخیرہ گاہوں سمیت قلعے کے

 دوسرے حصے میں واقع تھیں۔ قلعہ روہتاس  قلعے کے بارہ دروازے ہیں، جن کی تعمیر جنگی حکمت علمی کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ان دروازوں میں ہزار خوانی دروازہ، خواص خوانی دروازہ، موری دروازہ، شاہ چانن والی دروازہ، طلاقی دروازہ، شیشی دروازہ، لنگرخوانی دروازہ، کابلی (یا بادشاہی) دروازہ، گٹیالی دروازہ، سوہل (یا سہیل) دروازہ، پیپل والا دروازہ اور گڑھے والا دروازہ شامل ہیں۔ قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی اور ہر دروازے 

اپنا مقصد تھا اور اس کی خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے شیر شاہ کے دور میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتی ٹائلوں (چمکتے چوکوں) سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگرخوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔ سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہلکہلایا۔ جبکہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع تھا۔ گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے اور ان کو مختلف کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بارہ دروازوں میں سے ایک یعنی لنگرخوانی دروازہ براہ راست جنگی علاقے میں کھلتا تھا اور یہ دشمن کی فوجوں کےلیے ایک طرح کا جال تھا۔ اس دروازے سے گزر کر اندر آنے والا شخص فصیل کی برجیوں پر مامور محافظوں کے براہ راست نشانےپر آ جاتا تھا۔ اسی طرح خواص خوانی دروازہ دہرا بنایا گیا تھا۔ مغربی سمت ایک چھوٹی سی ’’ریاست‘‘ علاحدہ بنائی گئی تھی، جو چاروں جانب سے دفاعی حصار میں تھی۔ اس کے اندر جانے کا صرف ایک دروازہ تھا۔ اس چھوٹی سی ریاست کے بلند ترین مقام پر راجا مان سنگھ کی حویلی تھی، جو مغل شہنشاہ اکبر اعظم کا سسر اور اس کی فوج کا جرنیل تھا۔

قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید، عالیشان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج، 184 برجیاں، 06881 کنگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں، جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس کے برج صرف فصیل کی خوب صورتی ہی میںاضافہ نہیںکرتے بلکہ یہ قلعے کے مضبوط ترین دفاعی حصار میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فصیل کی چوڑائی سب سے زیادہ ہے۔ فصیل کےچبوترے سیڑھیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ فصیل تین منزلوں میں دو یا سہ قطاری تعمیر کی گئی تھی۔ سب سےبلند ترین حصہ کنگروں کی صورت میں تعمیر کیا گیا۔ چبوتروں کی چوڑائی تین فٹ سے زیادہ ہے اور یہ تیراندازوں اور توپچیوں کےے استعمال کیے جاتے تھے۔ ان کی بلندی مختلف تھی، جو 8 فٹ سے 11 فٹ کے درمیان تھی۔ یہ کنگرے صرف شاہی فوجوں کو دشمن سے تحفظ ہی فراہم نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے دشمنوں پر پگھلا ہوا سیسہ اور کھولتا ہوا پانی بھی انڈیلا جاتا تھا۔ درمیانی چبوترے درحقیقت فوجیوں کے کھڑے ہونے کی جگہ تھے اور ان کی چوڑائی ساڑھے چار فٹ سے 7فٹ کے درمیان تھی، جبکہ چبوتروں کی آخری قطار کی چوڑائی ساڑھے چھ فٹ سے ساڑھے آٹھ فٹ کے درمیان تھی۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میںمحض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہی مسجد کہا جاتا ہے اور چند  

 باؤلیاں بھی بنائی گئی تھیں۔ بعد ازاں جب رنجیت سنگھ پنجاب پر قابض ہوتا تو اس کے جرنیل نے یہاں ایک حویلی تعمیر کی گئی محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آ کر خیموں میں رہا کرتے تھے۔یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا   

خوب صورت  شاہی مسجد کابلی دروازے کے نزدیک واقع ہے اور اسی وجہ سے کابلی دروازے کو بادشاہی دروازہ بھی کہا

 جاتا ہے۔ یہ مسجد صرف ایک کمرے اور صحن پر مشتمل ہے۔ مسجد کا مرکزی ہال 63 فٹ طویل اور 24 فٹ چوڑا ہے۔ اسے تین

 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مرکزی ہال کی اندرونی چھت مسطح ہے، البتہ اوپر گنبد بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باہر کوئی مینار   

 نہیں۔ بیرونی دفاعی دیوار اس کی پشت پر واقع ہے۔ یہ مسجد سوری عہد کی چند انمول اور قابل دید تعمیرات میں سے ایک ہےمسجد

 میں اور قلعہ کی اصل تعمیر میں ایک منفرد طرز تعمیر یہ ہے کہ جہاں جہاں عمارت کے اندرونی جانب گنبد موجود ہیں باہر چھت پر گنبد

 کے کوئی آثار موجود نہیں ،اس کی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ چونکہ یہ قلعہ دفاعی مقاصد کے لئے استعمال ہونا تھا تو چھتوں کو برابرکیا گیا

      تاکہ بوقت ضرورت استعمال کی جا سکے۔-دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد پہنچاتے تھے اور یہ بات شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھی۔ جب قلعے کی تعمیر کچھ حد تک مکمل ہوئی تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ جرنیلی سڑک (جی ٹی روڈ) گزرتی تھی۔شیر شاہ سوری کے بعد اس کے بیٹے سلیم شاہ نے اپنے دورِحکومت میں قلعے کی توسیع کروائی۔ قلعے کی تعمیر میں عام اینٹوں کے بجائے دیوہیکل پتھروں اور چونےکا استعمال کیا گیا۔ یہ بھاری پتھر اونچی دیواروں اور میناروں تک بھی پہنچائے گئے، ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جدید مشینری جس کام کو انجام دینے میں ناکام ہوجاتی ہے، وہ کام صدیوں پہلے انسانی ہاتھوں نے کیسے سرانجام دیے۔ چار سو ایکڑ پر محیط اس قلعے کی تعمیر میں بیک وقت تین لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا۔جنگل اور پہاڑوں میں بنائےگئے قلعہ روہتاس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو تعمیر کرنے میں شیر شاہ سوری سے محبت کرنے والے بزرگان دین نے بھی مزدوروں کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور اپنا خون پسینہ بہایا۔ قلعہ کی تعمیر میں اپنی جان قربان کرنے والےبزرگوں کے مقابر قلعے کے کسی نہ کسی دروازے کے ساتھ موجود ہیں جبکہ اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر ہیں۔

قلعہ اندرونی طور پر دو حصوں میں تقسیم تھا، جس کے لیے ایک 1750 فٹ طویل دیوار تعمیر کی گئی، جو قلعے کے دفاعی حصے کو عام حصے سے جداکرتی تھی۔ جنگی حکمت عملی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قلعے کے کُل بارہ دروازے بنائے گئے،جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ہر دروازےکی تعمیر کا ایک مقصد تھا، جس کی وجہ سے اس کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ اس کے صدر دروازے کا نام ہزار خوانی تھا۔ قلعے کا سب    سے قابلِ دید ، عالیشان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے، جس پر 68برج ، 184برجیاں، 6ہزار881

کنگرے اور 8ہزار556 سیڑھیاں بنائی گئی تھیں فصیل تین منزلوں میں دو یا سہ قطاری تعمیر کی گئی تھی اوراس کے چبوترے جو تیر اندازوں اور توپچیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے، سیڑھیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ کنگروں سے دشمنوں پر پگھلاہوا سیسہ اور کھولتا ہوا پانی بھی انڈیلا جاتا تھا۔جب قلعہ تعمیر ہوا تو یہ اپنی نوعیت کا ایک بڑا قلعہ تھا، تاہم یہ بات حیران کن تھی کہ اتن بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں، جن میں ساٹھ ہزار فوجی قیام کر سکتے تھے۔ یہ قلعہ چونکہ دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا، اسی لیے شیر شاہ سوری کے بعد برسراقتدار آنے والوں نے بھی یہاں اپنے ٹھہرنے کے لیے کسی پرتعیش رہائش گاہ کا انتظام نہیں کیا۔ محلات نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ آکر خیموں میں رہا کرتے تھے۔مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سُسر راجا مان سنگھ (جو اس کی فوج کا جرنیل بھی تھا) نے یہاں رہنے کے لیے ایک حویلی بنوائی تھی۔ قلعے میں تین باؤلیاں بنوائی گئی تھیں، بڑی باؤلی آج بھی موجود ہے جو 270فٹ گہری ہے، جس میں اترنے کے لیے 300سیڑھیاںنائی گئی ہیں

۔ کابلی دروازے کے نزدیک ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی تھی، جس کا نام شاہی مسجد ہے جبکہ جنوبی حصے میں مرکزی چٹان پرعیدگاہ بنائی گئی 

بظاہر قلعہ روہتاس ایک بے ترتیب سا تعمیراتی ڈھانچا معلوم ہوتا ہے مگر شیر شاہ سوری نے اس کی تعمیر میں نقش نگاری اور خوبصورتی کو ملحوظ خاطر رکھا۔ اس کا ثبوت قلعے کے دروازے اور شاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری سے ملتا ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان سوہل گیٹ سے ہوتی ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مر مر کی سلوں پر خط نسخ میں کندہ کیے گئے مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطاطی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں، جن میں سے ایک پر کلمہ اور دوسری پر مختلف قرآنی آ یات کندہ ہیں۔شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کو موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رکھنے کے لیے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دی تھی۔ اس آبادکاری کے نتیجے میں جو بستی وجود میں آئی وہ اب روہتاس گاؤں کہلاتی ہے۔ مقامی لوگوں نے سطح زمین سے اوسطاً 300فٹ بلنداس قلعے کے پتھر اکھاڑ کر مکانات بنا لیے موجودہ دور میں قلعے کے چند دروازوں، راجا مان سنگھ کے محل اور جنو مغربی سمت چار منزلہ عمارت میں واقع بڑے پھانسی گھاٹ کےسوا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ آج بکھری ہوئی اینٹوں کی مانند موجود ہے۔ قلعہروہتاس اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت(یونیسکو) کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست  

  میں شامل ہے۔قلعہ لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، شہر کے شمال مغرب میں واقع ہے۔گو کہ اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیمسے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِنو تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1556ء تا 1605ء) نے کروائی جبکہ اکبر کی آنے والی نسلیںبھی اس کی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہٰذا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر اور روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ قلعہ جس کے لغوی معانی استحکام اور حفاظت کے ہوتے ہیں، فوجی مقاصد یا شاہی رہائش گاہ کے لیے دنیا بھر میں بنائے جاتے  تہے۔پاکستان میں بہی مختلف ادوار میں کئی قلعے تعمیر ہوئے۔

 مثلاً روہتاس، رانی کوٹ، قلعہ اٹک، قلعہ دراوڑ اور شاہی قلعہ لاہور وغیرہ۔ دریائے راوی کے جنوبی کنارے پر ایک محفوظ مقام کواس قلعہ کے لیے منتخب کیا گیا،ہ دراصل ایک اونچا مصنوعی ٹیلہ تھا جولاہور شہر کی سطح سے کافی بلندتھا۔قلعہ لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، شہر کے شمال مغرب میں واقع ہے۔گو کہ اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِنو تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1556ء تا 1605ء) نے کروائی جبکہ اکبر کی آنے والی نسلیں بھی اس کی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہٰذا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر اور روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کےاندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامارباغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔پہلے یہاں ایک کچا قلعہ ہوا کرتاتھا۔ 1566ء میںشہنشاہ اکبر نے اسے گرا کر اس جگہ نئے سرے سے ایک عالیشان پختہبنوایا،جس کی تعمیر میںرہائشی مقاصد کے ساتھ ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ قلعہ کی لمبائی 466 میٹر اور چوڑائی 370میٹر ہے۔ اس کی شکل تقریباً مستطیل ہے۔ دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جن کی چنائی مٹی کے گارے سےکی گئی ہے۔ ان دیواروں پر بندوقچیوں کے لیے سوراخ ہیں،جن سے وہ محاصرہ کرنے والی فوج پر گرم پانی اور گولیاں برساتےتھے۔ اس کے آثار مشرقی دیوار میں اب تک موجود ہیں۔قلعہ کا بیرونی حصہ پچی کاری کے نہایت ہی خوبصورت نمونوں سے مزین ہے ،جس پر جا بجا 

انسانوں، گھوڑوں اور ہاتھیوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔قلعے کے اردگرد ایک اونچی فصیل ہے جس کے تین بڑے دروازے ہیں، ایک مشرق کی سمت، دوسرا جنوب کی سمت، اور تیسراشمال مغرب کی جانب ہے۔ شمال مغربی دروازے سے بادشاہ اور بیگمات ہاتھی پر سوار ہو کر گزرتے تھے، اس دروازے پر شاہ جہاں کا نام بھی کندہ ہے۔ یہ دروازہ انگریزوں کے حکم پر بند کر دیا گیا تھا مگر 20نومبر 1949ءکو سابق گورنر پنجاب نے پورےتین سو سال بعد اسے دوبارہ کھلوادیا۔قلعے کے اندر ایک دیوان ہے جس کی چھت ستونوں کے سہارے کھڑی ہے، اسے دیوان عام کہتے ہیں۔ اس میں ایک جھروکا بنا ہوا ہے جہاں بیٹھ کر شاہ جہان رعایا کو اپنا دیدار کراتا تھا۔دیوان خاص بادشاہ کا شاہی دربار تھا، جہاں وہ اپنے وزیروں مشیروں، شہزادوں اور دوسرے راجائوں مہاراجوں سے ملاقات کیاکرتا تھا اور سلطنت کے بارے میں صلاح مشورہ لیتا تھا۔ قلعے کے اندر ایک شیش محل ہے جو فن تعمیر اور فن نقاشی کا بہترین نمونہ ہے، اس کی دیواریں اور چھتیں رنگ برنگے شیشوں اور پچی کاری کے کام سے مزین ہیں، ان کی چمک دمک 

آنکھوںکوچندھیا دیتی ہے۔ اب بھی شیش محل کے کسی کمرے میں دیا سلائی روشن کی جائے تو تمام کمرہ جھلمل کرنے لگتا ہے، کہتے ہیں کہ اسے شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا۔شیش محل کے قریب ہی موتی مسجد ہے، یہ بھی فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے، اسے جہانگیر نے شاہی بیگمات کے لیے تعمیرکیا تہا اپنےدورِ حکومت میں اس قلعہ پر قبضہ کیا تو اس نےموتی مسجد کا نام بدل کر ”موتی مندر“ رکھ دیا تھا،  سخت نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود اس کی عظمت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔قلعے کے اندر ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں بہت سی نادر اشیاءمحفوظ ہیں، بہت سی الماریوں میں پرانے زمانے کے اوزار،اسلحہ، تصویریں اور لباس وغیرہ بڑے قرینے سے سجائے گئے ہیں۔ اتنی مدت گذر جانے کے باوجود بھی ان چیزوں کی سج دھج اورشان و شوکت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ملکی و غیر ملکی سیّاح ہر سال کثیر تعداد  میں اس قلعہ کو دور دور سے دیکھنے آتے ہیں، خصوصاً طلباءکو ان کی دلچسپی کی کئی چیزیں یہاں مل سکتی ہیں


 


 


 


 


 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر