پاکستان میں طاقت اور جبروت کی علامت
سرداری نظام
’یہ بڑا دن ہے، اس کو سلام کرو۔ اب جناب، یہاں سردار نہیں رہے۔۔۔ تو جناب، اب سرداری چاہتے ہو تو جاؤ ہندوستان، سردار جی کے پاس۔۔۔۔ اور اگر سرداری چاہتے ہو تو جاؤ افغانستان، سردار داؤد کے پاس۔ یہاں تو سرداری ختم ہو گئی۔ کل پورے پاکستان میں چھٹی ہو گی۔‘یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان جو کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم میں عوام کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔یہ الفاظ ابھی انھوں نے ادا کیے ہی ہوں گے کہ ایک دھماکہ ہوا۔ عوامی انداز رکھنے والے رہنما نے دھماکے کی آواز سنی۔ اس سے پہلے کہ ہجوم خوفزدہ ہو کر بکھرنے لگتا، لوگوں نے بھٹو کی جانی پہچانی پر جوش آواز سنی: ’یہ پٹاخہ خیر بخش مری کا ہے۔۔۔ اب دوسرے پٹاخے کا انتظار کرو۔‘
یہ الفاظ ابھی ان کی زبان پر ہی تھے
کہ ایک اور دھماکہ ہو گیا۔ دوسرے دھماکے کی آواز سنتے ہی انھوں نے کہا: ’یہ خیر
بخش مری کا پٹاخہ ہے، اب تیسرے کا انتظار کرو۔‘زرا سی دیر میں تیسرا دھماکہ بھی ہو
گیا جسے انھوں نے میر غوث بخش بزنجو سے منسوب کیا۔ممتاز بلوچ دانشور اور مؤرخ
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اس واقعے کے بارے میں مجھے بتایا ’نہیں معلوم یہ دھماکے کس
نے کرائے، ہو سکتا ہے کہ اسی نے کرائے ہوں جس نے ان کی ذمہ داری دوسروں پر عائد کی
لیکن دھماکوں کا یہ واقعہ اور اس کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کے یہ جملے اس
زمانے میں زبان زد عام ہو گئے۔‘
یہ آٹھ اپریل 1976 کی بات ہے جب پاکستان میں سرداری نظام ختم کیا
گیا۔
سیاسی مؤرخ احمد سلیم نے اپنی کتاب
’بلوچستان: آزادی سے صوبائی بے اختیاری تک‘ میں وزیر اعظم بھٹو کی اس تقریر کا
مکمل متن شائع کیا ہے۔ انھوں نے اس تقریر میں بہت کھل کر بتایا کہ وہ کیوں اس نظام
کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اس تقریر میں انھوں نے اپنے اس فیصلے کی تین وجوہات بیان کی
تھیں۔
1- ششک۔ یہ لفظ بلوچی زبان میں چھٹے
حصے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اصطلاح تھی جو بلوچ معاشرے میں صدیوں سے
چلی آتی تھی جس کے تحت ہر کاشت کار کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنی زرعی پیدا وار کا
چھٹا حصہ سردار کو پیش کرے۔ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ 1970 میں اپنے انتخابی
منشور میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے
کے بعد ششک جو ایک ظالمانہ روایت ہے، اس کا خاتمہ کر دے گی لیکن اس نے یہ نہیں کیا۔
2- ذوالفقار علی بھٹو کے مطابق دوسری وجہ زرعی اصلاحات بنی۔ اس سلسلے میں بلوچستان کے سرداروں نے بھٹو حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ پورے ملک کے زمین داروں نے اس سلسلے میں قوانین کی پاس داری کی اور زرعی اصلاحات کے سلسلے میں تمام شرائط پوری کر دیں لیکن بلوچستان کے سرداروں نے مزاحمت کی۔بھٹو نے اس تقریر میں بتایا کہ مزاحمت کرنے والے سرداروں کی تعداد 22 تھی۔
3- سابق وزیر اعظم نے اس کی تیسری وجہ
یہ بتائی کہ بلوچستان کے یہ سردار پٹ فیڈر کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔
انھوں اس مقصد کے لیے جعلی دستاویزات پیش کی تھیں۔سابق وزیر اعظم کے خیال میں یہ تین
وجوہات تھیں جس کے باعث انھوں نے اس نظام کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کتنا
مؤثر ثابت ہوا اور بلوچستان کی معاشرت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ یہ کوئی ایسا
پیچیدہ سوال نہیں۔ بلوچستان کے امور کو سمجھنے والی شخصیات اور خود بلوچ دانشوروں
کی آرا میں اس سلسلے میں زیادہ فرق نہیں لیکن اس معاملے کی تفہیم ممکن نہیں جب تک
سرداری نظام کی بنیاد کو نہ سمجھا جائے۔
ڈاکٹر عطا محمد مری نے اپنی کتاب
’بلوچ قوم: قدیم عہد سے عصر حاضر تک‘ میں سرداری نظام کے سیاسی، اقتصادی، سماجی
اور نفسیاتی پہلوؤں پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ اس نظام کے خد و خال اگر چند
الفاظ میں بیان کیے جائیں تو ڈاکٹر عطا محمد مری کے الفاظ میں اس کی صورت یہ ہو گی:
’سردار لا شریک ہوتا ہے‘ڈاکٹر مری کے
اس جملے سے بلوچستان کے سردار کی طاقت اور جبروت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن اصل سوال یہ
ہے کہ اسے یہ قوت کیسے میسر آتی ہے۔ ڈاکٹر مری کے مطابق خطہ بلوچستان کی ایک فطری
اور تاریخی کمزوری نے اس یہ طاقت فراہم کی۔
وہ لکھتے ہیں کہ بلوچستان روائتی طور
پر ایک کمزور ’ملک‘ رہا ہے جہاں کوئی مرکزی اتھارٹی کبھی نہیں رہی۔ یہی سبب تھا کہ
اس خطے میں چھوٹے چھوٹے معاشرے مل کر ایک کنفیڈریشن کی شکل اختیار کر گئے۔ سرداری
نظام کو اس کنفیڈریشن کو وجود میں لانے والی اکائیوں کو تشکیل دینے والے عناصر ترکیبی
سے سمجھنا ممکن ہو سکتا ہے۔ ہر انسانی معاشرے کی طرح فطری طور پر بلوچستان میں بھی
سماج کی بنیادی اکائی فرد سے ہی تشکیل پاتی ہے جو فطری طور پر کسی خاندان کی
نمائندگی کرتا ہے۔
ناگزیر ہے کہ اس خاندان کی قیادت کوئی
بزرگ یعنی سفید باریش شخص کرے۔ بلوچ معاشرے میں اسے ’پیرہ مرد‘ کے نام سے پکارا
جاتا ہے۔ مختلف خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے پیرہ مردوں کے اجتماع سے ایک اور
ادارہ وجود میں آتا ہے جو 'پیریں مرد' کی قیادت میں کام کرتا ہے۔ اس قبائلی معاشرے
میں اس پیریں مرد کا مقام سب سے بلند ہے اور یہی سردار ہے۔
اس نظام میں سردار کی حیثیت کیا ہے؟
ڈاکٹر مری لکھتے ہیں ’اس ساری درجہ بندی کی چوٹی پر سردار بیٹھا ہے۔ اس کا ہمسر
اور اس کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ لاشریک ہوتا ہے اور قبیلے پر اپنا
اثر اپنے ماتحتوں یعنی وڈیروں کے ذریعے برقرار رکھتا ہے۔‘
یہ شخص ایک عام بلوچی کے مقابلے میں
کتنی اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ اس کی جان کی قیمت سے ہوتا ہے۔ انگریزوں کے
زمانے میں اگر ایک عام بلوچ کا خون بہا دو ہزار روپے تھا تو اس کے مقابلے میں
سردار کا خون بہا آٹھ ہزار روپے تھا۔سردار کو قبیلے میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے
اور ہر قسم کے انتظامی معاملات کی انجام دہی کے لیے لا محدود اختیارات حاصل تھے۔
سردار کی اپنی ذاتی جیل ہوا کرتی جس میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا
جاتا۔ یہاں تک کہ انھیں خوراک بھی نہ دی جاتی۔ لوگ خیرات میں انھیں خوراک دیتے یا
بھاری بھرکم لکڑیاں پھاڑنے کے معاوضے کے طور پر انھیں کھانے پینے کو کچھ ملتا۔
سردار کی پولیس سوار کہلاتی جو آریہ
عہد کے حکمرانوں کا تسلسل تھی۔ سوار کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی جس پر سردار کی مہر
ہوتی۔ یہ چھڑی سوار کو نہ صرف ناقابل گرفت بنا دیتی بلکہ اسے احکامات جاری کرنے کا
اختیار بھی مل جاتا۔ لیویز اسی سوار کی جدید شکل تھی۔ڈاکٹر مری نے اس سردار کے ذہنی
جذباتی اور سیاسی رجحانات پر دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 'سردار
ہی وہ سرچشمہ ہے جہاں سے سیاسی، ثقافتی، اور معاشی اختیارات کے دریا پھوٹتے ہیں،
وہ اپنی اتھارٹی کو برقرار رکھنا بھی جانتا ہے اور ایسا کرنے کی قوت بھی رکھتا ہے۔
اسے معلوم ہے کہ کہنے کو تو اس کے قبائل بہت روشن فکر، جمہوری اور ترقی پسند ہوتے
ہیں۔
مگر دراصل یہ روایت اور قبائلیت میں
بنیاد پرست اور سماجی برتاؤ میں بہت ہی قدامت پسند ہوتے ہیں۔ وہ غیرت کی دھن پر
جان لیوا رقص کرتے ہیں اور وطن کے خطرے میں وجد میں آتے ہیں اور اگر برطانوی، امریکی
اور پنجابی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی صدا دو تو پوری غیور قوم آپے سے باہر
ہو کر مکمل مجنوں بن جاتی ہے۔
اس نظام میں قبیلے کی سیاست، معیشت
اور معاشرت تو ہوتی ہی سردار کے تابع ہے لیکن علم و ہنر اور زندگی کے بدلتے ہوئے
تقاضے بھی سردار کی چشم ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ڈاکٹر
مری کے الفاظ میں:’غربت قسمت کا لکھا بن جاتی ہے، علم بے غیرتی ہو جاتا ہے اور
انصاف سردار کی خشم آلود نگاہوں کی باندی بن جاتا ہے۔‘اے لٹریری ہسٹری‘ میں محمد
سردار خان بلوچ نے لکھا ہے کہ اس معاشرے میں علم و ہنر اور لڑیچر کچھ موسمی اور طبی
ٹوٹکوں سے بڑھ کر نہیں ہوتا اور تلوار، ڈھال، تیر کمان کے مقابلے میں فلسفہ، سائنس
اور سیاسی نظریات کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔
ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں یہ
سوچنے پر مجبور ہوں کہ آج کے روشن زمانے میں کیا کوئ بلوچستان کو پسماندگی دور
کرنے کے لئے کوئ قدم اٹھا سکتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں