میری نظروں کے سامنے ایک چونکا دینے والا منظر تھااسلام آباد پولیس فورس کے تحریری امتحان میں شرکت کرنے والے سال 2022ء کے آخری روز،اسلام آباد پولیس فورس میں کانسٹیبل (بی ایس-07) کی اسامیوں کے لیے تحریری امتحان منعقد ہوا جس میں پاکستان بھر سے 30 ہزار سے زائد مرد اور خواتین امیدواروں نے شرکت کی۔جس اسٹیڈیم میں یہ امتحان ہوا وہ اس طرح بھرا ہوا تھا گویا وہاں فٹ بال کا میچ شروع ہونے والا ہو۔ یہ 30 ہزار سے زائد افراد صرف ایک ہزار 667 اسامیوں کے لیے امتحان دے رہے تھے۔ اسٹیڈ یم میں جگہ بھر جا نے کے بعد سیکڑو ں امیدوا ر ذمین پر بیٹھے دکھا ئ د ے رہے ہیں -اس ملازمت کے لیے نشستیں اوپن میرٹ پر مختص کی جاتی ہیں جبکہ علاقائی کوٹے میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مزید تقسیم کی جاتی ہے۔
امتحان میں شرکت کرنے کے لیےامیدواروں کا میٹرک پاس ہونا شرط ہے۔ اگر وہ جسمانی امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب ہی انہیں شارٹ لسٹ کر کے تحریری امتحان کے لیے بلایا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر اسامی کے لیے جسمانی امتحان کی شرط نہیں ہوتی تو امتحان میں بیٹھے امیدواروں کی تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی۔ یہ واقعہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ پاکستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پاس مواقع کتنے محدود ہیں اور انہیں کیا مسائل درپیش ہیں۔خواتین اور مخنث افراد کو ملازمت کے حصول میں خاص رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ثقافتی اور قانونی دفعات ان لوگوں کے لیے جائیداد کی ملکیت اور کاروبار شروع کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تاہم حکومت نے ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے چند ٹیکس اقدامات بھی متعارف کروائے ہیں۔مثال کے طور پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کےدوسرے شیڈول کی شق 19 فنانس ایکٹ 2021ء کے ذریعے یہ سہولت دیتی ہے کہ خواتین کی ملکیت میں چلنے والے کاروبار کے منافع پر ٹیکس ادائیگی کو 25 فیصد تک کم کیا جائے۔ تاہم ٹیکس میں کمی کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ کاروبار ایک اسٹارٹ اپ ہو جو یکم جولائی 2021ء کے بعد شروع کیا گیا ہو۔ مزیدبرآں اس شق سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کاروبار کو کسی دوسرے کے نام پر منتقل کرنے یا پہلے سے موجود کاروبار کی تنظیمِ نو ممنوع ہے۔۔
پاکستان کو اس وقت جن بڑے معاشی مسائل کا سامنا ہے اس کے بارے میں تجربہ کار ماہرینِ اقتصادیات، سابق وزرائے خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنرز میڈیا میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ تاہم روزگار پیدا کرنے اور اس کی فراہمی جیسے مسائل کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ شاید ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم اس وقت قرضوں کی ادائیگی، معاشی اتار چڑھاؤ اور دیوالیہ ہونے کے خطرے جیسے بڑے اقتصادی مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔
پاکستان میں نجی شعبہ ہی روزگار کے حوالے سے پائیدار حل پیش کرسکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی حلقے نجی شعبے کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں جس میں نجی شعبہ ترقی کرسکے۔لیکن کچھ انفرااسٹرکچر اور ریگولیٹری رکاوٹیں نجی شعبے کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار سے محروم ہے۔پاکستانی نوجوانوں کے لیے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع توانائی کے بحران، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں کم سرمایہ کاری اور غیر مستحکم سیاسی صورتحال جیسے عناصر کی وجہ سے محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کو درپیش ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ ملک کی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ انتہائی کم آمدنی میں خطرناک اور ناقص حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔پاکستان میں شاید نوجوانوں کی بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ 18 سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں میں مہارت کی عدم مطابقت ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد معیاری تعلیم اور ہنر تک رسائی سے محروم ہے جو انہیں مسابقتی مارکیٹ میں روزگار فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ رسمی تعلیم اور دوران ملازمت تربیت نوجوان گریجویٹس کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کی مدد سے ایک منظم نصاب تیار کرے جو زیادہ سے زیادہ افراد کو روزگار کے حصول کے قابل بناسکے--آسان ٹیکس شرائط کے علاوہ کاروباری خواتین کو تربیت اور مشاورت کے ذریعے کاروبار شروع کرنے کے حوالے سے آگہی بھی دینی چاہیے۔ نئے کاروباروں کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی کرکے ملک میں روزگار کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ طلبہ اور گریجویٹس کی کاروباری سرگرمیوں میں منظم طریقےسے ان کے ساتھ تعاون کرنے سے نہ صرف انہیں اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ملازمتیں پیدا کرنے کا موقع ملے گا۔پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30سال سے کم عمر ہے۔ نوجوانوں کا ایک ہجوم ہے جنہیں روزگار نہیں دیا گیا تو اس کے ریاست، معاشرے اور معیشت پر سنگین اثرات ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پہلےسے مایوسی کا شکار ہمارے معاشرے میں مزید ناامیدی کے بادل چھائیں گے۔
سال 2021ء میں پاکستان کے ادارہِ شماریات کی جانب سے شائع کردہ لیبر فورس سروے میں بےروزگاری مں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ نوجوانوں کو ملازمت کی تلاش میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔ اس کے پیچھے ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنرمند نوجوان اپنی تعلیم اور ہنر کے مطابق نوکری نہ ملنے کے باعث کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلام آباد پولیس میں بھرتی کے لیے امیدواروں کے ہجوم نے بھی اسی رجحان کی عکاسی کی ہے۔حکومت کے پاس موجود اعدادوشمار کے ذریعے مسائل کی شناخت کرکے ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے انسانی سرمایہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آڈیولپمنٹ اکانومکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اور ڈائریکٹر درِنایاب کی تحقیق ’پاکستانز اپورچنیٹی ٹو ایکسیل: ناؤ اینڈ دی فیوچر‘ میں لیبر فورس سروے کا بغورجائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے میں بتایا گیا کہ پاکستان میں یونیورسٹی سے گریجویٹ طلبہ میں بےروزگاری کی شرح 31 اعشاریہ 2 فیصد ہے۔اعلیٰ تعلیم کی طلب میں اضافے اور نوکریوں میں کمی کے باعث ملک میں بےروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ تعلیمی اداروں اور لیبر مارکیٹ کے درمیان رابطے کی کم جانب اشارہ ہے۔
ملک کی گرتی ہوئی معیشت، کمر توڑ مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور دوبارہ سر اٹھاتے دہشتگردی کے عفریت کے پس منظر میں ملک میں سیاست کی جارہی ہے ۔اقتدار کے حصول کی کوشش سیاست کا ایک لازمی جز ہے کیونکہ سیاستدان اور ان کی جماعتیں ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد ہی اپنے وعدوں کو پورا کرسکتی ہیں اور اپنے منشور پر عمل درآمد شروع کرسکتی ہیں لیکن یہ کوشش جمہوری اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے اور اسے زمینی حقائق سے الگ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ماہرِ تعلیم فیصل باری نے جمعے کے روز ڈان میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا کہ لوگوں کو کس طرح کی معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور یہاں تک کہ ماضی میں جو طبقات معاشی بدحالی سے محفوظ تصور کیے جاتے تھے وہ بھی ان مشکل معاشی حالات کے اثرات برداشت کررہے ہیں۔اب تو ماہانہ لاکھ روپے کے آس پاس کمانے والے لوگ بھی مشکلات کا شکار ہیں تو سوچیے کہ 30 فیصد مہنگائی میں کم آمدن والے یا بے روزگار افراد کا کیا حال ہوگا۔میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس دور میں 4 لوگوں کا خاندان کم از کم ماہانہ آمدن سے دوگنے یعنی 50 ہزار روپے میں بھی کس طرح گزز بسر کرسکتا ہے (میں اور آپ دونوں ہی یہ بات جانتے ہیں کہ کئی لوگ اس کم از کم تنخواہ سے بھی کم کماتے ہیں)۔ ان لوگوں کو گھروں کے کرائے، پانی، بجلی، گیس کے بل اور بچوں کے اسکول کی فیسیں دینی ہیں اور پھر انہیں گھر والوں کا پیٹ بھی بھرنا ہے۔ یقیناً ان لوگوں کو سخت جدوجہد کرنی پڑتی ہے -موجودہ حکومت نے عوام کو خون کے آنسو رلائے ہیں
لوگ بتا رہے ہیں کہ انہیں کم کرائے کے گھروں میں منتقل ہونا پڑا اور اپنے بچوں کو نسبتاً سستے اسکولوں میں داخل کروانا پڑا لیکن پھر بھی ان کا گزارا مشکل سے ہی ہورہا ہے۔۔افراطِ زر کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا درست ہے کہ معاشی اعتبار سے نچلے طبقے کے افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسی اسکیموں کے تحت دی جانے والی براہِ راست نقد سبسڈی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر مجھے بتائیں کہ یہ معمولی نقد رقم کتنے دنوں تک ایک غربت زدہ خاندان کے لیے صرف کھانے کا انتظام بھی کرسکے گی۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سیاسی رہنما چاہے ان میں وہ لوگ ہوں جنہیں بدعنوان کہا جاتا ہے یا پھر وہ جن کے پاس ’صادق‘ اور ’امین‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے، ایک دوسرے کے خلاف اپنی متعصبانہ روش کے ساتھ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایسا اس دوران بھی ہوتا ہے جب وہ اپنے گوچی جوتوں، ییزی ٹرینرز اور برکن ہیڈ بیگ جیسی مہنگی اشیا اور 40 ایکڑ پر بھیلی جائیداد کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ان میں سب سے زیادہ کفایت شعار سیاستدان بھی ایس یو ویز میں سفر کرتا ہے ۔ تو یہ بات درست ہے کہ یہ لوگ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کے طرزِ عمل کو کسی اور طرح بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ غریبوں کو نعرے لگانے والوں کے علاوہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ اس نظام کو ملک کی سول ملٹری اشرافیہ نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے تیار کیا ہے اور اسے برقرار رکھا ہے۔ جبکہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو ایک پریشانی سے نکلتے ہیں تو دوسری پریشانی ان کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور وہ ایک سے دوسرے دن تک پہنچنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔معلوم نہیں ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے آرام دہ مقامات سے دیکھ سکتے ہیں یا نہیں لیکن صورتحال تیزی سے ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے یا پھر ہوگئی ہے۔ سراسر نرگسیت سے لے کر مادی لالچ اور شان و شوکت تک جو کچھ بھی ہمارے لیڈروں کو متحرک کرسکتا ہے، اب انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بنیادی تنظیمِ نو ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور یہ کہ کرائے کی معیشت سے فائدہ اٹھانے والی اشرافیہ کے دن ختم ہوچکے ہیں۔
اب اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تمام سیاسی رہنماؤں کو، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا نہ ہوں، ساتھ بیٹھنے اور معیشت کے بحالی کے اقدامات پر اتفاق کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ایک ایسے منصوبے پر اتفاق کرنا ہوگا جس سے ترقی میں اضافہ، روزگار کے مواقع بڑھیں، برآمدات میں اضافہ ہو اور ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی ہو جو ہماری اکثر مشکلات کی وجہ ہے۔کسی بھی معاشی پالیسی کا اوّلین مقصد غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں لیکن اس نظام سے باہر بیٹھے شخص کے لیے یہ دونوں ہی قصور وار ہیں کیونکہ جب دُور رس فیصلے کرنے کی گنجائش موجود تھی تو ان کے پاس اس حوالے سے کوئی منصوبہ ہی نہیں تھا
-
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں