لخت دل رباب ششماہے علی اصغر
کربلا کے سب نے ننھے شہید علی اصغر نے بہ حیثیت غنچہء نوروزگلستان نبوّت کے باغیچہ ء امامت میں د س رجب المرجب سنہ
ساٹھ ہجری کو آنکھ کھولی ۔ آپ کی والدہ گرامی حضرت اُمّ رباب سلام اللہ علیہا تھیں جن کے والد کا نام امرا لقیس تھا۔ سفر کربلا
کے آغاز کے وقت آپ کی عمر محض سولہ دن تھی- جو کربلا پہنچتے'پہنچتے چھ مہینہ ہو گئ تھی
آپ کو علی اصغر، طفل صغیر، شیر خوار، شش ماہہ، باب الحوائج، طفل رضیع کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔۔حضرت علی اصغر
علیہ السلام کربلا کے ایک درخشاں چہرے، مظلومیت کی سب سے مظلوم سند اور شہادت کا معتبر ترین زاویہ ہیں۔ تاریخ نے آپ
سے زیادہ مظلوم شہادت کسی کی بھی نہیں دیکھی۔
زیارت ناحیہ میں آپ کے لیے آیا ہے۔السلام علي عبدالله بنالحسين، الطفل الرضيع، المرمي الصريع، المشحط دما، المصعد دمه في السماء،
المذبوح بالسهم في حجر ابيه، لعن الله راميه حرملة بن کاهل الاسدي۔ حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے علی اکبرؓ بھی جب شہید
ہو گئے تو حضرت امامؓ نے اہل بیت کو تسلی و تشفی دے کر خود میدان میں آنے کا ارادہ کیا، ایک بار خیمہ سے رونے کی آواز سنی
، آپ خیمہ کی طرف پھرے اور حال دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ طفل شیر خوار حضرت علی اصغر پیاس سے بے چین ہیں۔ چھ
مہینے کی عمر میں یہ مصیبت کہ تین دن سے بھوک اور پیاسے ہیں،
زبان منہ کے باہر نکل پڑی ہے،
مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں، حضرت امام نے فرمایا: علی اصغر کو میرے پاس لاؤ۔ حضرت زینبؓ لے کر آئیں، آپؓ نے علی اصغر
کو گود میں لیا اور میدان میں ظالموں کے سامنے لا کر فرمایا۔ ’’اے قوم! تمہارے نزدیک اگر مجرم ہوں تو میں ہوں، مگر یہ میرا
ننھا بچہ تو بے گناہ ہے، خدارا ترس کھاؤ اور اس میرے ننھے مسافر سید بیکس مظلوم کو تو چلو بھر پانی پلا دو۔ اے قوم! آج جو میرے
اس ننھے مسافر کو پانی پلائے گا میرا وعدہ ہے کہ میں اسے حوض کوثر پیر سیراب کروں گا۔‘‘ حضرت امام حسینؓ کی یہ درد ناک
تقریر سن کر بھی ان ظالموں کا دل نہ پسیجا اور ایک ظالم حرملا ابن کاہل نے ایک ایسا تیر مارا جو حضرت امام کی بغل سے نکل گیا آہ
ایک فوارہ خون کا اس ننھے شہید کے حلق سے چلنے لگا اور ننھے شہید کی آنکھیں اپنے والد کے چہرے کی طرف تکتی کی تکتی رہ گئیں
اور امام نے بے قرار ہو کر اپنی زبان انور ننھے کے منہ میں ڈال دی اور ننھے سید نے وہیں اپنے ابا کی گود میں شہادت پا لی اور آپ اس
کی ننھی سی لاش مبارک لے کر خیمہ میں آئے اور ماں کی گود میں دے کر فرمایا: لو علی اصغر بھی حوض کوثر سے سیراب ہو گئے اس
ننھی نعش کو دیکھ کر اہل بیت بے قرار ہو گئے اور حضرت امام حسینؓ کی مبارک
آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے
۔ آپ کو عاشور کے دن آپ کے والد گرامی کی آغوش میں حرملہ نے اس وقت تیر مارا جب وہ آپ کی تشنگی بجھانے کے لیے پانی
کا تقاضا کر رہے تھے۔ امام عالی مقام نے آپ کے معصوم سے جسد کو خیمہ گاہ کے نزدیک قبر کھود کر سپرد خاک کر دیا۔جنگ ختم
ہوئی تو لشکر کے امیر نے شہیدوں کے سر گنے۔ وہ اکہتر تھے۔ اس نے پوچھا، ایک سر کم کیوں ہے۔ایک سیاہ بخت نے جواب دیا
اسے دفن کر دیا گیا سپاہ یزیدکے امیر نے ھکم دیا قبر ہر حال میں ڈھونڈو ,,,یذیدی سپا ہ نے زمین میں نیزے کی انی جگہ جگہ مار کر
دیکھا کہیں زمین نرم ملے تو وہ حسینی سپاہ کے نننّھے شہید کو نکال کر سر کاٹ سکیں بالآخر جلے ہوئے خیال اہلبیت کی پشت پر ایک
جگہ زمین نر م ملی تووہیں خدا کی لعنت کردہ سپاہ یذید نےنیزہ مار کر ننھے شہید کا سر کاٹ کر نیزہ پر چڑھایا گیا اور سر بریدہ جسم مبارک
کو تپتی ریت پر پھینک دیا -
میرے مظلوم مولا امام حسین فرماتے ہیں
کربلا کے تمام مجاہد ایک بار شہید کیے گئے، لیکن میرے معصوم لخت جگرعلی اصغر کو دو
بار شہید کیا گیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں