مراکش میں اللہ
کے ایک ولی کا عظیم کارنامہ،
یہ ان دنوں کی بات ہے جب مراکش کے لوگ کافرانہ زندگی گزار رہے تھے ایسے میں دنیا کے کسی گوشہ میں ر ہنے والے ایک بزرگ کو بشارت ہوئ کہ وہ
مراکش چلے جائیں اور دکھی انسانیت کی مدد کریں -وہ بزرگ خدائ تنبیہ کے بعد مراکش آ گئے -مراکش آ کر وہ مراکش کے گلی کوچوں میں نکلتے اور دیکھتے کہ
کہاں وہ کسی کی کوئ مدد کرسکتے ہیں-لیکن کئ روز گزر گئے ان کو کوئ ایسا معاملہ نظر نہیں آیا کہ وہ کسی کی کوئ مدد کرتے لیکن ایک روز ان کا گزر ایک گلی
سےہوا تو انہوں نے ایک گھر کے اندر سے عورت کےنالہ وشیون کی آواز سُنی -کچھ ثانیہ وہ کھڑے کچھ سوچتے رہے پھر آخر کار دروازے پر دستک دے دی
دستک کے جواب میں روتی ہوئ عورت دروازے پر آئ اور اس نے دروازہ کھولا بزرگ نےعورت سے سوال کیا 'ائے خاتون کیوں رو رہی ہیں آپ؟بزرگ
نے رحمدلانہ لہجے میں عورت سے سوال کیا تو وہ کہنے لگی ہمارے شہر میں ایک بڑا ظالمانہ رواج ہے کہ جو لڑکی اپنی جوانی کو پہنچتی ہےآگ کے دیوتا کے مخبراس
کو اطّلاع دے دیتے ہیں اور پھر اس لڑکی کو دیوتا ایک رات کے لئے اپنی دلہن بناتا ہے اور رات کے ختم ہونے پر اس لڑکی کو دیوتاکے بھینٹ میں دے دیا جاتا ہے
–یہ کیسا ظلم ہے !
محض ایک رات وہ آگ کے دیوتا
کے ساتھ گزارتی ہے اور صبح قتل کر دی جاتی
ہےوہ مظلوم -
خاتون نے کہا میری ایک ہی بیٹی ہے جس کی عمر پندرہ برس ہوئ ہے اور میرا شوہر بھی اس دنیا میں ہے ناہی اور کوئ والی وارث ہے جو ہماری مددکرےاور آج
کی رات آگ کا دیوتا اس کی بھینٹ لینے آئَے گااور صبح سویرے میری بیٹی کو قتل کر کےلاش سمندر برد کر دی جائے گی عورت پھر زاروقطار رونے لگی بزرگ
نے
عورت سے کہا تم فکر مت کرو میں تمھاری بیٹی کو نا آگ کے دیوتا کے سپرد ہونے دوں گااور نا ہی وہ قتل کی جائیگی ،آگ کا دیوتا کہا ں رہتاہے
بزرگ نے دریافت کیا تو عورت نے بتایا کہ وہ سمندر میں رہتا ہےاور جب اسے لڑکی کی بھینٹ لینی ہوتی ہے تو اپنے بحری جہاز سے آتا ہے
سمندر کےکنارےاس کا بہت
بڑا محل ہے وہ اسی محل میں رات گئے آتا ہے اس کا جہاز آگ سے روشن ہوتا ہے وہ آدھی رات کو آتا ہے اور صبح ہونے سے قبل لڑکی کو اپنی نظروں کے
سامنے قتل کروا کر ظالم چلا بھی جاتا ہےٍٍٍٍٍٍٍٍ-
-عورت نے بے چارگی سے کہا
اچھّا تم بلکل پریشان مت ہونا -میں تمھارے گھر سر شام آ جاوں گا تم اپنی بیٹی کا عروسی لباس مجھ کو دے دینا اور میں آگ کےدیوتا کے کارندوں کے آنے تک
تمھارے گھر میں ہی رہوں گا
تم کو اب اپنی بیٹی کی فکر کی ضرورت نہیں ہے یہ کہہ کر بزرگ وہاں سے روانہ ہو گئے
اور شام کو پھر وہ حسب وعدہ اس گھر کی دہلیز پر موجود تھے -دیوتا کے کارندوں کے آنے سے کچھ دیر قبل انہو ں نے لڑکی عروسی جوڑا زیب تن کیا اور دیوتا
کے کارندوں کے انتظا رمیں بیٹھ گئے -اور پھر رات کا اندھیا را ہونے پر جب دیوتا کے کارندے لڑکی کو لینے آئےتو بز رگ دلہن کے لباس میں سر کوجھکائے
ہوئے
ان کے ساتھ چلے گئے –
کارندوں نے دلہن
کو محل میں لے جاکر دیوتا کے حوالے کیا
اور واپس چلے گئے –
اور پھر دیوتا نے جونہی دلہن کا گھونگھٹ الٹا گھونگھٹ کے اندر سے ایک باریش بزرگ نکلے تودیوتا ڈر کے مارے الٹے پیروں کمرے کے باہر دوڑااور ساتھ ہی
بزرگ بھی آئۃ الکرسی بلند آواز کے ساتھ پڑھتے ہوئےاس کے پیچھے دوڑےلیکن کمرے کادروازہ تو خود ہی بند کر چکا تھا اور اب کہیں اس کےلئے جائے امان
نہیں تھی اور خود ساختہ دیوتا بالآخر گر پڑا اور بزرگ کے آگے ہاتھ جوڑ کرمعافیاں مانگنے لگا توبزرگ نے کہا نہیں تجھے معافی ایسے نہیں ملے گی تو پہلے س
چّے دل سے توبہ کرے گا کہ اب کسی لڑکی کو محل میں نہیں بلائے گا تب تجھے معافی ملے گی-
بادشا ہ جا ں بخشی کے عوض بزرگ کی شرط مان گیا -اگلے روز تمام مراکش میں منادی ہوئ کہ بادشاہ اسلام قبول کر رہا ہے اس لئے مراکش کے طول و عرض میں ہر فرد
کا
مذہب ہو گا
پھر اس شقی اور ظالم بادشاہ نے بزرگ کے ہاتھ پراسلام قبول کیا اور بادشاہ کے سا تھ ساتھ تمام مراکشی با شندوں نے بھی اسلا م قبول کیا اور اللہ کی مہربانی سے
تمام مراکشی باشند ے یک بیک ایک بزرگ کی کرامت
کے سبب دین اسلام کی روشنی سے مالا مال ہو
گئے
جبکہ در اصل دیوتا کے روپ میں مراکش کا اصل بادشاہ ہوتا تھااور لڑکی قتل اس لئے کی جاتی
تھی تاکہ وہ بادشاہ کی اصلیت کسی کو بتا
نہیں سکے
عیّاش مرد عورت
کے جنسی استحصال کے لئے کیسے 'کیسے
گھناونے حربے استعمال کرتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں