قتل گاہ کربلا میں پیہم سلگتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پرگرم ریت کے اوپر شب غم بسر کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والی بیبیوں اور معصوم بچوں کے لئے میدان کربلا میں ایک اور صبح غم طلوع ہوئ یہ وہ عترت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے خانوادے کا وہ گھرانہ تھا جس کے لئے آپ نے فرمایا تھا ان سے محبت میری رسالت کا اجر ہے ۔ ۱۱ محرم آتشیں آگ برساتے ہوئےسورج کے طلوع ہونے کے ساتھ فوج اشقیاء کے سپاہیوں نے ہاتھوں میں تازیانے اور رسیّاں لئے ہوئے لٹے ہوئے قافلے کے قریب آ کر حکم دیا کہ قیدی اپنے اپنے ہاتھ پس گردن بندھوالیں اور اسی لمحے بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو اب حضرت عبّاس کی جگہ جان نشین,,اور سالار قافلہ تھیں للکار کر فوج اشقیاء سے مخاطب ہوئیں ہم آل رسول( صلّی اللہ علیہ وسلّم )ہیں کوئ غیر ہمیں ہاتھ لگانے کی جراءت نہیں کرے
اور پھر بی بی زینب سلام اللہ علیہانے رسّیان اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بی بی کے ہاتھ پس گردن بندھوائے اور سب سے آخر میں بی بی زینب کے ہاتھ حضرت سید سجاد نے خود باندھے زیارت ناحیہ میں اما م زمانہ علیہالسّلام فرمارہے ہیں ،، سلام ہو میری دادی زینب پر جن کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے )اور بے کجاوا اونٹوں پر ایک دوسرے کو سوار کروایا ،،اور اب اونٹوں کے قافلے کی مہا ر بحیثیت سارباں,,امام سیّد سجّاد کے ہاتھ میں دے کر حکم دیا گیا کہ قیدی اپنے قافلے کی مہا ر پکڑ کر ساربانی کرے گا -کے سخت و دشوار ترین لحظات میں سے بلکہ تاریخ کربلا کا سنگین ترین وقت وہ ہے جب اسیروں کا یہ قافلہ اپنے عزیزوں کے ٹکڑوں میں بٹے ہوۓ اجساد کو وداع کرنے کا وقت آتا ہے۔ دشمن کی فوج نے عمدا اس قافلے کو اس جگہ سے گزارا جہاں پر ان کے عزیز ترین افراد بے گور و کفن سر بریدہ آسمان کے نیچےبے کسی کے عالم میں تھے-بیبیوں کو مقتل گاہ میں جب اپنے پیاروں کو دیکھا تو بے اختیار ان کےنالہ و شیون کی صدائیں بلند ہوئیں۔ یزید کے سپاہیوں نے حکم دیا کہ نالہ ء شیون کی اجازت نہیں ہے
بیبیوں نے دیکھا عزیزوں کے لاشے جو گھوڑوں کے سموں تلے کچل دیے گئے تھے کہ جن کی شناسائی بھی ممکن نہ تھی یقینا بہت ہی مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن علیؑ کی بہادر بیٹی نے صبر و استقامت سے یہ منظر دیکھا ۔لیکن مقتل میں سیّد سجّاد کی نظر جو اپنے بابا کے سر بریدہ بے گورو کفن لاشے پر پڑی آ پ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوگیااور بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو وارث امامت اپنے بھتیجے سے پل بھر کو بھی غافل نہیں تھیں ان کی نظر جو اما م وقت پر گئ اسی لمحے بی بی زینب سلا م اللہ علیہا نے اپنے آپ کو کھڑے ہوئے اونٹ کی پشت سے نیچے زمین پر گرا دیا ،امام زین العابدین سکتے کے عالم میں اپنے بابا حسین کے سر بریدہ خون میں ڈوبے ہوئے اور لاتعداد پیوستہ تیروں سے آراستہ لاشے کو دیکھ رہے تھے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے زمین پر گرتے ہی بی بی زینب کی جانب جلدی سے آگئےاور اپنے نحیف ہاتھوں سے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کو سہارا دیتے ہوئے سوال کیا پھو پھی ا مّاں کیا ہوا ?
بی بی زینب نے جناب امام سجّاد کو جواب دیا ،بیٹا سجّاد تم امام وقت ہو ،خدائے عزّو جل تمھین اپنی امان میں رکھّے تمھارا عہد اما مت بہت ہی کڑی منزلون سے شروع ہوا ہے ،،اپنے آپ کو سنبھالو اور اپنے بابا حسین کے حسینی مشن کی تکمیل کے لئے تیّار ہو جاؤ-تمھیں یاد ہوگا کہ بھائ حسین نے کہا تھا کربلا کے دو حصّے ہون گے ایک حصّے کی تکمیل کے لئے ان کی شہادت کی ضرورت ہو گی اور دوسرے حصّے کی تکمیل ہمیں کرنی ہوگی بھائ حسین شہادت کی اولٰی و اعلٰی منزل پر پہنچ کر اپنا فریضہ ادا کر کے جاچکے ہیں اب کربلا کی تکمیل کا دوسرا حصّہ شروع ہوا ہےجس کے مکمّل کرنے کےلئے ہماری باری ہے ,,اپنی چاہنے والی پھوپھی کی زبان سے یہ باتین سن کر جناب سیّد سجّاد نے اپنی لہو روتی آنکھیں صاف کیں اور اپنے بابا کو سلام آخر کیا ،اسّلام علیک یا ابا عبداللہ ،پھر انتہائ پیارے چچا کو مخاطب کیا پیارے چچا الوداعی سلام لیجئے،،
پھر بھائیوں سے مخاطب ہوئے اے میرے کڑیل جوا ن بھائ علی اکبر ننھا علی اصغر بھی تمھارے ساتھ ہے,, پیارے چچامسلم کے بیٹوں,،میری چاہنے والی پھوپھی کے بیٹون ,,،میرا سلام لو ،ائے ہمارے بابا کے انصاران باوفا خدا حافظ,مقتل میں اپنے تمام شہید پیاروں کو الوداعی سلام کرکے جناب سیّد سجّاد نےپھر ایک بار قافلہ سالاری کے لئے اونٹوں کی مہار تھام لی, اور اسی طرح اپنے پیاروں کی لاشوں پر بین کرتی بیبیوں کا قافلہ جانب کوفہ اس طرح سے اونٹوں کو ہنکا یا گیا کہ کربلا سے کوفے تک ستّاون میل کا فاصلہ جو عام کیفیت میں اونٹ ڈھائ سے تین دن میں طے کرتے تھے انہوں نے تیز تیز ہنکائے جانے کے باعث صرف ایک دن میں طے کیا
تصور کی نظر سے دیکھئے کہ روانگی کے وقت کیا منا ظر ہوں گے آل اطہار کے لٹے ہوئے قافلے کے
جواب دیںحذف کریں